Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
اَمْ حَسِبْتَ : کیا تم نے گمان کیا اَنَّ : کہ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ : اصحاب کہف (غار والے) وَالرَّقِيْمِ : اور رقیم كَانُوْا : وہ تھے مِنْ : سے اٰيٰتِنَا عَجَبًا : ہماری نشانیاں عجب
کیا تو خیال کرتا ہے کہ غار اور کھوہ کے رہنے والے ہماری قدرتوں میں عجب اچنبھا تھے
تشریح اللغات
کہف، پہاڑی غار جو وسیع ہو اس کو کہف کہتے ہیں، جو وسیع نہ ہو اس کو غار کہا جاتا ہے، رقیم، لفظی اعتبار سے بمعنے المرقوم ہے، یعنی لکھی ہوئی چیز اس مقام پر اس سے کیا مراد ہے، اس میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں، ضحاک اور سدی اور ابن جبیر ؓ بروایت ابن عباس ؓ اس کے معنی ایک لکھی ہوئی تختی کے قرار دیتے ہیں، جس پر بادشاہ وقت نے اصحاب کہف کے نام کندہ کر کے غار کے دروازہ پر لگا دیا تھا، اسی وجہ سے اصحاب کہف کو اصحاب الرقیم بھی کہا جاتا ہے، قتادہ، عطیہ، عوفی، مجاہد کا قول یہ ہے کہ رقیم اس پہاڑ کے نیچے کی وادی کا نام ہے جس میں اصحاب کہف کا غار تھا، بعض نے خود اس پہاڑ کو رقیم کہا ہے، حضرت عکرمہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ رقیم کسی لکھی ہوئی تختی کا نام ہے یا کسی بستی کا، کعب احبار، وہب بن منبہ حضرت ابن عباس ؓ سے یہ روایت کرتے ہیں کہ رقیم، ایلہ یعنی عقبہ کے قریب ایک شہر کا نام ہے جو بلاد روم میں واقع ہے۔
فتیۃ، فتی کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں نوجوان۔
(آیت) فَضَرَبْنَا عَلٰٓي اٰذَانِهِمْ کے لفظی معنی کانوں کو بند کردینے کے ہیں، غفلت کی نیند کو ان الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے، کیونکہ نیند کے وقت سب سے پہلے آنکھ بند ہوتی ہے، مگر کان اپنا کام کرتے رہتے ہیں، آواز سنائی دیتی ہے، جب نیند مکمل اور غالب ہوجاتی ہے تو کان بھی اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں، اور پھر بیداری میں سب سے پہلے کان اپنا کام شروع کرتے ہیں کہ آواز سے سونے والا چونکتا ہے پھر بیدار ہوتا ہے۔

خلاصہ تفسیر
کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ غار والے اور پہاڑ والے (یہ دونوں ایک ہی جماعت کے لقب ہیں) ہماری عجائبات (قدرت) میں سے کپھ تعجب کی چیز تھے (جیسا کہ یہود نے کہا تھا کہ ان کا واقعہ عجیب ہے، یا خود ہی سوال کرنے والے کفار قریش نے اس کو عجیب سمجھ کو سوال کیا تھا، اس میں رسول اللہ ﷺ کو مخاطب بنا کر دوسروں کو سنانا مقصود ہے کی یہ واقعہ بھی اگرچہ عجیب ضرور ہے مگر اللہ تعالیٰ کی دوسری عجائبات قدرت کے مقابلہ میں ایسا قابل تعجب نہیں جیسا ان لوگوں نے سمجھا ہے، کیونکہ زمین و آسمان اور چاند و سورج اور تمام کائنات زمین و آسمان کو عدم سے وجود میں لانا اصل عجائب نہیں، اس تمہید کے بعد اصحاب کہف کا قصہ اس طرح بیان فرمایا اور) وہ وقت قابل ذکر ہے جبکہ ان نوجوانوں کے (ایک بےدین بادشاہ کی گرفت سے بھاگ کر) اس غار میں (جس کا قصہ آگے آتا ہے) جا کر پناہ لی پھر (اللہ تعالیٰ سے اس طرح دعا مانگی) کہا کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو اپنے پاس سے رحمت کا سامان عطا فرمائیے اور ہمارے (اس) کام میں درستی کا سامان مہیا کر دیجئے (غالبا رحمت سے مراد حصول مقصود ہے اور درستی کے سامان سے مراد وہ اسباب و مقدمات ہیں جو حصول مقصد کے لئے عادۃ ضروری ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرمایا، اور ان کی حفاظت اور تمام پریشانیوں سے نجات دینے کی صورت اس طرح بیان فرمائی کہ) سو ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر سالہا سال تک نیند کا پردہ ڈال دیا پھر ہم نے ان کو (نیند سے) اٹھایا تاکہ ہم (ظاہری طور پر بھی) معلوم کرلیں کہ (غار میں رہنے کی مدت میں بحث و اختلاف کرنے والوں میں سے) کونسا گروہ ان کے رہنے کی مدت سے زیادہ واقف تھا (نیند سے بیدار ہونے کے بعد ان میں ایک گروہ کا قول تو یہ تھا کہ ہم پورا دن یا کچھ حصہ ایک دن کا سوئے ہیں، دوسرے گروہ نے کہا کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ تم کتنے دن سوتے رہے، آیت میں اشارہ اسی طرف ہے کہ یہ دوسرا گروہ ہی زیادہ حقیقت شناس تھا، جس نے مدت کی تعیین کو اللہ کے حوالہ کیا، کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہ تھی)

معارف و مسائل
قصہ اصحاب کہف و رقیم
اس قصہ میں چند مباحث ہیں، اول یہ کہ اصحاب کہف و اصحاب رقیم ایک ہی جماعت کے دو نام ہیں، یا یہ الگ الگ دو جماعتیں ہیں، اگرچہ کسی صحیح حدیث میں اس کی کوئی تصریح نہیں، مگر امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح میں اصحاب الکہف اور اصحاب الرقیم دو عنوان الگ الگ دئیے، پھر اصحاب الرقیم کے تحت وہ مشہور قصہ تین شخصوں کے غار میں بند ہوجانے پھر دعاؤں کے ذریعہ راستہ کھل جانے کا ذکر کیا ہے، جو تمام کتب حدیث میں مفصل موجود ہے، امام بخاری کی اس صنیع سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے نزدیک اصحاب کہف ایک جماعت ہے، اور اصحاب رقیم ان تین شخصوں کو کہا گیا ہے جو کسی زمانے میں چھپے تھے، پھر پہاڑ سے ایک بڑا پتھر اس غار کے دہانے پر آ گرا جس سے غار بالکل بند ہوگیا، ان کے نکلنے کا راستہ نہیں رہا، ان تینوں سے اپنے اپنے خاص نیک اعمال کا واسطہ کر کے اللہ سے دعا کی کہ یہ کام اگر ہم نے خالص آپ کی رضا کے لئے کیا تھا تو اپنے فضل سے ہمارا راستہ کھول دے، پہلے شخص کی دعا سے پتھر کچھ سرک گیا، روشنی آنے لگی، دوسرے کی دعا سے اور زیادہ سرکا، پھر تیسرے کی دعا سے راستہ بالکل کھل گیا۔
لیکن حافظ ابن حجر نے شرح بخاری میں یہ واضح کیا کہ ازروئے روایت حدیث اس کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے کہ اصحاب رقیم مذکورہ تین شخصوں کا نام ہے، بات صرف اتنی ہے کہ واقعہ غار کے ایک راوی حضرت نعمان بن بشیر ؓ کی روایت میں بعض راویوں نے یہ اضافہ نقل کیا ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر ؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو رقیم کا ذکر کرتے ہوئے سنا آپ غار میں بند رہ جانے والے تین آدمیوں کا واقعہ سنا رہے تھے، یہ اضافہ فتح الباری میں بزار اور طبرانی کی روایت سے نقل کیا ہے، مگر اول تو اس حدیث کے عام راویوں کی روایات جو صحاح ستہ اور حدیث کی دوسری کتابوں میں مفصل موجود ہیں، ان میں کسی نے حضرت نعمان بن بشیر ؓ کا یہ جملہ نقل نہیں کیا، خود بخاری کی روایت بھی اس جملے سے خالی ہے، پھر اس جملے میں بھی اس کی تصریح نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے غار میں بند ہونے والے ان تین شخصوں کو اصحاب الرقیم فرمایا تھا، بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ آپ رقیم کا ذکر فرما رہے تھے، اس ضمن میں ان تین شخصوں کا ذکر فرمایا، لفظ رقیم کی مراد کے متعلق صحابہ وتابعین اور عام مفسرین میں جو اختلاف اقوال اوپر نقل کیا گیا ہے وہ خود اس کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے رقیم کی کوئی مراد متعین کرنے کے بارے میں کوئی روایت حدیث نہیں تھی، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ آنحضرت ﷺ ایک لفظ کی مراد خود متعین فرما دیں، پھر صحابہ وتابعین اور دوسرے مفسرین اس کے خلاف کوئی قول اختیار کریں، اسی لئے حافظ ابن حجر شارح بخاری نے اصحاب کہف و رقیم کے دو الگ الگ جماعتیں ہونے سے انکار فرمایا، اور صحیح یہ قرار دیا کہ یہ دونوں ایک ہی جماعت کے نام ہیں، غار میں بند ہوجانے والے تین شخصوں کا ذکر رقیم کے ذکر کے ساتھ آ گیا ہو تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہی تین شخص اصحاب الرقیم تھے۔
حافظ ابن حجر نے اس جگہ یہ بھی واضح کردیا کہ قرآن نے جو قصہ اصحاب کہف کا بیان کیا ہے اس کا سیاق خود یہ بتلا رہا ہے کہ اصحاب کہف و رقیم ایک ہی جماعت ہے، یہی وجہ ہے کہ جمہور مفسرین اور محدثین ان دونوں کے ایک ہی ہونے پر متفق ہیں۔
دوسرا مسئلہ اس جگہ خود اس قصے کی تفصیلات کا ہے جس کے دو حصے ہیں ایک وہ جو اس قصہ کی روح اور اصل مقصود ہے، جس سے یہود کے سوال کا جواب بھی ملتا ہے اور مسلمانوں کے لئے ہدایات و نصائح بھی، دوسرا حصہ وہ ہے جس کا تعلق اس قصہ کی صرف تاریخی اور جغرافیائی حیثیت سے ہے، بیان مقصود میں اس کا کوئی خاص دخل نہیں، مثلا یہ قصہ کس زمانے میں اور کس شہر اور بستی میں پیش آیا، جس کافر بادشاہ سے بھاگ کر ان لوگوں نے غار میں پناہ لی تھی وہ کون تھا، اس کے کیا عقائد و خیالات تھے، اور اس نے ان لوگون کے ساتھ کیا معاملہ کیا جس سے یہ بھاگنے اور غار میں چھپنے پر مجبور ہوگئے، پھر یہ کہ ان لوگوں کی تعداد کیا تھی، اور زمانہ دراز تک سونے رہنے کا کل زمانہ کتنا تھا، اور پھر یہ لوگ اب تک زندہ ہیں یا مر گئے۔
قرآن حکیم نے اپنے حکیمانہ اصول اور اسلوب خاص کے تحت سارے قرآن میں ایک قصہ یوسف ؑ کے سوا کسی قصے کو پوری تفصیل اور ترتیب سے بیان نہیں کیا، جو عام تاریخی کتابوں کا طریقہ ہے، بلکہ ہر قصے کے صرف وہ اجزا موقع بموقع بیان فرمائے ہیں جن سے انسانی ہدایات اور تعلیمات کا تعلق تھا۔ (قصہ یوسف ؑ کو اس اسلوب سے مستثنی کرنے کی وجہ سورة یوسف کی تفسیر میں گزر چکی ہے)۔
قصہ اصحاب کہف میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ قرآن میں اس کے صرف وہ اجزاء بیان کئے گئے جو مقصود اصلی سے متعلق تھے، باقی اجزا جو خالص تاریخی یا جغرافیائی تھے ان کا کوئی ذکر نہیں فرمایا، اصحاب کہف کی تعداد اور سونے کے زمانے کی مدت کے سوالات کا ذکر تو فرمایا اور جواب کی طرف اشارہ بھی فرمایا مگر ساتھ ہی یہ بھی ہدایت کردی کہ ایسے مسائل میں زیادہ غور و فکر اور بحث و تکرار مناسب نہیں ان کو حوالہ بخدا تعالیٰ کرنا چاہئے۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جن کا فرض منصبی معانی قرآن کو بیان کرنا ہے آپ نے بھی کسی حدیث میں ان اجزاء قصہ کو بیان نہیں فرمایا، اور اکابر صحابہ وتابعین نے اسی قرآنی اسلوب کی بنا پر ایسے معاملات میں ضابطہ کار یہ قرار دیا کہ
اَبْھِمُوْا مَآ اَبْھَمَہ اللّٰہ (اتقان، سیوطی) " یعنی جس غیر ضروری چیز کو اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا تم بھی اسے مبہم رہنے دو (کہ اس میں بحث و تحقیق کچھ مفید نہیں ")
اکابر صحابہ وتابعین کے اس طرز عمل کا مقتضی یہ تھا کہ اس تفسیر میں بھی ان اجزاء قصہ کو نظر انداز کردیا جائے جن کو قرآن اور حدیث نے نظر انداز کیا ہے، لیکن یہ زمانہ وہ ہے جس میں تاریخی اور جغرافیائی انکشافات ہی کو سب سے بڑا کمال سمجھ لیا گیا ہے، اور متاخرین علمائے تفسیر نے اسی لیے کم و بیش ان اجزا کو بھی بیان فرما دیا ہے، اس لئے زیر نظر تفسیر میں قصے کے وہ اجزا جو خود قرآن میں مذکور ہیں ان کا بیان تو آیات قرآن کی تفسیر کے تحت آجائے گا، باقی تاریخی اور جغرافیائی اجزائے قصہ کو یہاں بقدر ضرورت بیان کیا جاتا ہے، اور بیان کرنے کے بعد بھی آخری نتیجہ وہی رہے گا کہ ان معاملات میں کوئی قطعی فیصلہ ناممکن ہے، کیونکہ اسلامی اور پھر مسیحی تاریخوں میں اس کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے وہ خود اس قدر مختلف اور متضاد ہے کہ ایک مصنف اپنی تحقیق و رائے کے پیش نظر مقدمات و قرائن کی مدد سے کسی ایک چیز کو متعین کرتا ہے تو دوسرا اسی طرح دوسری صورت کو ترجیح دیتا ہے۔
دین کی حفاظت کے لئے غاروں میں پناہ لینے والوں کے واقعات مختلف شہروں اور خطوں میں متعدد ہوئے ہیں
مورخین کے اختلافات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دین مسیح ؑ میں چونکہ رہبانیت کو دین کا سب سے بڑا کام سمجھ لیا گیا تھا تو ہر خطے اور ہر ملک میں ایسے واقعات متعدد پیش آئے ہیں کہ کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے غاروں میں پناہ گزین ہوگئے وہیں عمریں گذار دیں، اب جہاں جہاں ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہے اس پر مورخ کو اصحاب کہف کا گمان ہوجانا کچھ بعید نہیں تھا۔
Top