Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 115
وَ لِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ۗ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
وَلِلّٰہِ : اور اللہ کے لیے الْمَشْرِقُ : مشرق وَالْمَغْرِبُ : اور مغرب فَاَيْنَمَا : سو جس طرف تُوَلُّوْا : تم منہ کرو فَثَمَّ : تو اس طرف وَجْهُ اللہِ : اللہ کا سامنا اِنَّ اللہ : بیشک اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِیْمٌ : جاننے والا
اور اللہ ہی کا ہے مشرق اور مغرب سو جس طرف تم منہ کرو ہاں ہی متوجہ ہے اللہ بیشک بےانتہا بخشش کرنیوالا سب کچھ ناننے والا ہے۔
تحویل قبلہ کی بحث
دوسری آیت میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو تسلی دی گئی ہے کہ مشرکین مکہ نے اگرچہ آپ کو مکہ اور بیت اللہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا اور مدینہ پہنچ کر ابتدائی زمانہ میں سولہ سترہ مہینہ تک آپ کو بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا لیکن اس میں آپ کا کوئی نقصان نہیں نہ آپ کے لئے غمگین ہونے کی کوئی وجہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کسی خاص سمت میں نہیں وہ ہر جگہ ہے اس کے لئے مشرق ومغرب یکساں ہیں کعبہ کو قبلہ نماز بنائیں یا بیت المقدس کو دونوں میں کوئی ذاتی خصوصیت نہیں بلکہ امر الہی کی تعمیل ہی دونوں جگہ سبب فضیلت ہے،
داد حق را قابلیت شرط نیست
بلکہ شرط قابلیت داد ہست
اس لئے جب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم تھا اس میں فضیلت تھی اور جب بیت المقدس کا استقبال کرنے کا حکم ہوگیا تو اس میں فضیلت ہے آپ دل گیر نہ ہوں اللہ تعالیٰ کی توجہ دونوں حالتوں میں یکساں ہے جبکہ بندہ اس کے حکم کی تعمیل کررہا ہو،
چند مہینوں کے لئے بیت المقدس کو قبلہ قرار دینے کا حکم دے کر عملاً اور آپ نے قولاً اس بات کو واضح کردیا کہ کسی خاص مکان یا سمت کو قبلہ قرار دینا اس وجہ سے نہیں کہ معاذ اللہ خدا تعالیٰ اس مکان یا اس سمت میں ہے دوسری جگہ میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہر سمت میں یکساں توجہ کے ساتھ موجود ہے کسی خاص سمت کو قبلہ عالم قرار دینا دوسری حکمتوں اور مصلحتوں پر مبنی ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کی توجہ کسی خاص سمت یا جگہ کے ساتھ مقید نہیں تو اب عمل کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ایک یہ کہ ہر شخص کو اختیار دے دیا جائے کہ جس طرف چاہے رخ کرکے نماز پڑھے دوسرے یہ کہ سب کے لئے کوئی خاص سمت وجہت معین کردی جائے ظاہر ہے کہ پہلی صورت میں ایک تشتت وافتراق کا منظر سامنے آئے گا کہ دس آدمی نماز پڑھ رہے ہیں اور ہر ایک کا رخ الگ الگ اور ہر ایک کا قبلہ جدا جدا ہے اور دوسری صورت میں تنظیم و اتحاد کا عملی سبق ملتا ہے ان حکمتوں کی بناء پر سارے عالم کا قبلہ ایک ہی چیز کو بنانا زیادہ مناسب ہے اب وہ بیت المقدس ہو یا کعبہ دونوں مقدس اور متبرک مقامات ہیں ہر قوم اور ہر زمانہ کے مناسب اللہ تعالیٰ کی طرف سے احکام آتے ہیں ایک زمانے تک بیت المقدس کو قبلہ بنایا گیا پھر آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کی دلی خواہش کے مطابق اس حکم کو منسوخ کرکے کعبہ کو قبلہ عالم بنادیا گیا ارشاد ہوا
قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىھَ آفَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭوَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَهٗ (144: 2)
ترجمہ(یعنی کعبہ کو قبلہ بنادینے کی دلی رغبت کی وجہ سے) بار بار آسمان کی طرف منہ اٹھا کر دیکھتے ہیں کہ (شاید فرشتہ حکم لے آئے) ہم یہ سب دیکھ رہے ہیں اس لئے اب ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف متوجہ کردیں گے جس کو آپ چاہتے ہیں اس لئے اب سے آپ اپنا چہرہ نماز میں مسجد حرام کی طرف کیا کریں اور (یہ حکم کچھ آپ ہی کے لئے مخصوس نہیں بلکہ تمام امت کے لئے یہی حکم دے دیا گیا کہ) تم جہاں کہیں بھی موجود ہو یہاں تک کہ خود بیت المقدس کے اندر بھی ہو تو نماز میں اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کیا کرو،
الغرض آیت مذکورہ وَلِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ نے استقبال قبلہ کی پوری حقیقت کو واضح کردیا کہ اس کا منشاء بیت اللہ یا بیت المقدس کی معاذ اللہ پرستش نہیں اور نہ ان دونوں مکانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک مخصوص ہے بلکہ اس کی ذات سارے عالم پر محیط اور ہر سمت میں اس کی توجہ یکساں ہے پھر کسی خاص مکان یا سمت کو مخصوص کیا جاتا ہے اس میں دوسری حکمتیں ہیں،
آیت مذکورہ کے اس مضمون کو واضح اور دل نشین کرنے ہی کے لئے شاید آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کو ہجرت کے اوائل میں سولہ سترہ مہینہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرنے کا حکم دے کر عملی طور پر بتلا دیا گیا کہ ہماری توجہ ہر طرف ہے اور نوافل میں اس حکم کو ہمیشہ کے لئے جاری رکھا کہ سفر میں کوئی شخص کسی سواری مثلاً اونٹ، گھوڑے وغیرہ پر سوار ہو تو اس کو اجازت ہے کہ سواری پر بیٹھے ہوئے اشارہ سے نفلی نماز پڑھ لے اور اس کے لئے قبلہ کی طرف رخ کرنا بھی ضروری نہیں جس طرف اس کی سواری چل رہی ہے اسی طرف رخ کرلینا کافی ہے،
بعض مفسرین نے آیت فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ کو اسی نفلی نماز کا حکم قرار دیا ہے مگر یاد رہے کہ یہ حکم صرف ان سواریوں کا ہے جن پر سوار ہو کر چلتے ہوئے قبلہ کی طرف رخ کرنا دشوار ہے اور جن سواریوں میں سوار کو قبلہ کی طرف رخ کرلینا دشوار نہیں جیسے ریل، پانی کا جہاز، ہوائی جہاز، ان کا وہی حکم ہے جو حالت حضر میں رخ قبلہ کا ہے کہ اگر نفل نماز بھی ان میں پڑھی جائے تو قبلہ رخ ہو کر پڑھی جائے (البتہ نماز کی حالت میں ریل کا یا جہاز کا رخ مڑجائے اور نمازی کے لئے گنجائش نہ ہو کہ وہ بھی قبلہ رخ پھرجائے تو اسی حالت میں نماز پوری کرلے)
اسی طرح جہاں نمازی کو سمت قبلہ معلوم نہ ہو اور رات کی اندھیری وغیرہ کی وجہ سے سمتیں متعین کرنا بھی دشوار ہو اور کوئی بتلانے والا بھی نہ ہو تو وہاں بھی یہی حکم ہے کہ وہ اپنا اندازہ اور تخمینہ لگا کر جس طرف کو بھی متعین کرلے گا وہی سمت اس کا قبلہ قراردی جائے گی نماز ادا کرنے کے بعد اگر یہ بھی ثابت ہوجائے کہ اس نے غلط سمت میں نماز ادا کی ہے تب بھی نماز صحیح ہے اعادہ کی ضرورت نہیں
آیت کے اس بیان اور آنحضرت ﷺ کے تعامل اور جزئیات مذکورہ سے استقبال قبلہ کے حکم شرعی کی پوری حقیقت واضح ہوگئی،
Top