بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 1
سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَ فَرَضْنٰهَا وَ اَنْزَلْنَا فِیْهَاۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
سُوْرَةٌ : ایک سورة اَنْزَلْنٰهَا : جو ہم نے نازل کی وَفَرَضْنٰهَا : اور لازم کیا اس کو وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے نازل کیں فِيْهَآ : اس میں اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ : واضح آیتیں لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم یاد رکھو
یہ ایک سورت ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے اور اس کے (احکام کو) ہم نے فرض قرار دیا ہے۔ اور اس میں ہم نے صاف اور واضح آیات نازل کی ہیں تاکہ تم دھیان دے سکو۔
لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 3 : انزلنا (ہم نے اتارا۔ نازل کیا) ‘ فرضنا (ہم نے لازمی کیا۔ ہم نے فرض کیا) ‘ اجلدوا ( مارو) ‘ مائۃ (ایک سو) ‘ جلدۃ (کوڑے) ‘ لاتأ خذ (نہ پکڑے) ‘ رأفۃ ( ترس اور رحم) ‘ یشھد (دیکھے۔ موجود رہے) ‘ طائفۃ (ایک جماعت) حرم (حرام کردیا گیا) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 3 : قرآن کریم ہر آیت اور سورت کی اپنی اہمیت ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے سورة نور کو جس شان و شوکت ‘ اہتمام اور انوکھے انداز سے شروع کیا ہے وہ اس میں بیان کئے گئے احکامات کی اہمیت کو بہت واضح کردیتی ہے تاکہ معاشرہ کا ہر فرد اس سورت میں بیان کئے گئے احکامات کی پوری طرح پابندی کرسکے۔ سنگین گناہوں اور معاشرہ کی بد ترین برائیوں کو مٹانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرکے پاکیزہ اور پر سکون زندگی کی برکتوں کو حاصل کرسکے۔ جس معاشرہ یا سوسائٹی میں شرم و حیا ‘ باہمی اعتماد اور ایک دوسرے کی عزت و وقار کے جذبات موجزن ہوتے ہیں وہی معاشرہ انسانی معاشرہ کہلاتا ہے لیکن اگر معاشرہ میں کسی کی عزت و آبرو اور جان و مال محفوظ نہ ہو۔ باہمی اعتماد اور بھروسے کا فقدان ہو ‘ بےشرمی ‘ بےغیرتی اور شراب نوشی عام ہو تو ہزاروں خوش حالیوں کے باوجود وہ معاشرہ انسانی معاشرہ کہلانے کا مستحق نہیں ہوتا۔ شریعت کی نظر میں ہر شخص بد کار اور بےغیرت نہیں ہوتا بلکہ کچھ بد کردار اور بےشرم لوگ ذہنی مریض ہوتے ہیں جو پورے ماحول کو گندہ کردیتے ہیں۔ اگر ان ذہنی مریضوں کو قابل عبرت سزادیدی جائے اور سڑے ہوئے گندے عضو کی طرح کاٹ کر پھینک دیا جائے تو معاشرہ کا ہر فرد پر سکون زندگی گذار سکتا ہے اور اپنی جان و مال اور آبرو کو محفوظ سمجھ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور خاص طور پر سوئہ نور میں ان سنگین گناہوں اور معاشرہ کی بدترین خرابیوں کے لئے ایسے فطری اور قابل عمل اصول ارشاد فرمائے ہیں جن کے نفاذ سے انسانی معاشرہ جنت کا نمونہ بن سکتا ہے۔ یہ وہ اصول ہیں جن کو جس زمانہ میں بھی اپنا یا گیا اپنا یا جائے گا اس کے نتائج یکساں نکلیں گے حالات کے بدلنے سے ان اصولوں کے دائمی فوائد سے کوئی محروم نہیں رہ سکتا۔ انسانی معاشرہ کے سب سے سنگین ‘ بدترین اور ناقابل معافی جرم چار ہیں۔ (1) ناجائز جنسی تعلقات (زنا) ۔ (2) چور (3) شراب نوشی (4) اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔ اللہ تعالیٰ نے ان چاروں جرائم کی سزا کو خود متعین فرمایا ہے جس میں کسی حکومت ‘ عدالت یا اسخاص (جماعت ) کو کسی زمانہ میں کسی طرح کی تبدیلی کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ جب گواہوں کے بعد پورے طور پر یہ بات ثابت ہوجائے کہ ملزم یا ملزمہ نے یہ جرم کیا ہے تو پھر ان اسلامی سزاؤں کو نافذ کرنے میں کسی رعایت اور نرمی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ان چاروں جرائم کو ” حدود “ کہا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ جتنے جرائم ہیں ان کے اصولوں کو تو بیان کردیا گیا ہے لیکن جرم کی نوعیت کے مطابق ان کا فیصلہ کرنے میں اسلامی عدالتیں خاصی آزاد ہیں۔ ایسی سزاؤں کو ” تعزیرات “ کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے ان بنیادی اصولوں میں سب سے پہلے ناجائز جنسی تعلق (یعنی زناض کی سنگینی اور اس کی عبرت ناک سزا کا ذکر فرمایا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ناجائز جنسی تعلقات (زناض ایسا بدترین ‘ گھناونا ‘ شرمناک ‘ قابل نفرت اور انسانی معاشرہ کو تباہ و برباد کرنے والا فعل ہے جس کیچڑ کو بنیاد سے کھود کر پھینک دینا ضروری ہے۔ یہ وہ کینسر ہے کہ اگر اس کا ابتداء ہی میں علاج نہ کیا جائے تو وہ بڑی تیزی سے پھیل کر پورے انسانی معاشرہ کو اپنی لپیٹ میں لے کر تہس نہس کرکے رکھ دیتا ہے۔ دنیا کے مذاہب کو دیکھا جائے تو انہوں نے بھی زنا کو بدترین فعل قرار دیا ہے مگر اس کی سزاؤں کو متعین کرنے میں بعض ایسی رعایتوں کو رکھا گیا ہے جس سے یہ فعل دنیا سے مٹنے کے بجائے کینسر کی طرح پھیلتا ہی چلا جارہا ہے۔ اس مرض کا علاج صرف قرآن کریم کے اصولوں کو اپنانے ہی سے ممکن ہے۔ کیونکہ شریعت اسلامیہ نے انتہائی سخت سزاؤں کو اس مرض کا علاج قراردیا ہے۔ ڈھیلے ڈھالے اصولوں اور چھپ چھپا کر سزائیں دینے سے یہمرض ختم نہیں کیا جاسکتا۔ جب ہم دوسرے مذاہب کی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہاں ایسے فطری اصول نہیں ملتے جن سے اس گھنائو نے جرم کو ناقابل معافی قرار دیا گیا ہو یا ایسی سزائیں متعین کی گئی ہوں جو دوسروں کے لئے عبرت و نصیحت بن سکتی ہوں مثلاً نصاری (عیسائیوں) نے ناجائز جنسی تعلق کی سزا یہ مقرر کی ہے کہ (1) اگر کوئی کنوارا مرد کسی کنواری لڑکی سے زنا کرتا ہے تو وہ ایک سخت گناہ کی بات تو ہے مگر اس پر کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ (2) اگر کوئی شادی شدہ شخص کسی دوسری شادی شدہ عورت سے زنا کرتا ہے تو یہ سخت گناہ لیکن اس کی سزا یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر پر اس رشتے کی پامالی اور بےوفائی کا الزام لگا کر طلاق حاصل کرسکتی ہے۔ اسی طرح مرد کو بھی یہ اختیار ہے لیکن اس کے بعد مرد یا عورت کسی دوسرے سے شادی نہیں کرسکتے اور زندگی بھر انہیں راہب یا راہبہ بن کر زندگی گذارنا ہوگی۔ نصاری کے برخلاف یہودیوں کے ہاں یہ قانون ہے کہ جو شخص دوسرے کی بیوی سے اس سنگین جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو زانی اور زانیہ دونوں کو جان سے مار دیاجائے گا۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ بدکاروں کو کھلی چھٹی دینے اور محض طلاق کا بہانہ بنانے یا کسی کو کسی جیل کی کو ٹھڑی میں جان سے مارڈالنے سے اس بدکاری کو عبرت و نصیحت بنانا ممکن نہیں ہے کیونکہ آئے دن یہ واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں۔ ایک مختصر سی مدت کے لئے یہ ایک اخباری خبر ہوتی ہے پھر لوگ بھول جاتے ہیں اور زانی اور زانیہ مرد اور عورتوں میں کمی نہیں آتی۔ دین اسلام نے اس برائی کو جڑ و بنیاد سے کھود نے اور عبرت ناک سزادینے کا جو طریقہ مقرر کیا ہے وہی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اور اس ذہنی اور عملی بیماری کا موثر علاج ہے اس کی تفصیل چند بنیادی اصولوں کو بیان کرنے کے بعد عرض کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے سورة نور کی ابتدائ ” فرضنہا “ سے کی ہے (یعنی ہم نے اس کو فرض کردیا ہے) بتایا یہ جارہا ہے کہ اس سورت میں جو بھی احکامات بیان کئے جارہے ہیں ان کو ماننا اور اطاعت کرنا ہر اس شخص پر لازم اور واجب ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والا ہے۔ یہ محض چند سفارشات یا نصیحتوں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ ایسی واضح کھلی اور صاف صاف باتیں ہیں جن پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ اسی میں انسانی معاشرہ کی حقیقی زندگی ہے۔ اس بدترین فعل کی سزا کیا ہے ؟ اس کی تفصیلات کو فقہ کی کتابوں یا معتبر علماء سے معلو کیا جاسکتا ہے۔ چند ضروری اور بنیادی باتوں کو درج ذیل سطور میں بیان کیا جارہا ہے تاکہ اس فعل بد کو دنیا سے مٹانے کی کچھ تفصیل سامنے آجائے۔ اللہ تعالیٰ نے ناجائز جنسی تعلق (زنا) کو بدتر ین فعل اور ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے جس کی سزا کسی اسلامی عدالت کے ذریعہ ہی دی جاسکتی ہے۔ خود سے کسی کو سزادینے کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔ جس پر ناجائز جنسی تعلق کی تہمت لگائی جائے اس کے لئے ضروری ہے کہ چار ایسے چشم دید ( عینی شاہدین) گواہ ہوں جنہوں نے ملزم مرد اور ملزمہ عورت کو عین حالت مباشرت میں اس طرح دیکھا ہو جیسے سرمہ دانی میں سلائی یا کنویں میں رسہ ڈالاجاتا ہے۔ اگر اس طرح گواہ نہ ہوں گے تو ملزمان پر شرعی حد جاری نہ کی جائے گی۔ اگر گواہی میں شبہ پیدا ہوجائے تو حد نافذ نہ کی جائے گی۔ لہذا چاروں گواہوں کے بیانات ایک جیسے اور یکساں ہوں۔ گواہی میں اس بات کو واضح طریقے پر بتایا گیا ہو کہ کس کو کس نے کس سے زنا کرتے دیکھا ہے۔ اگر گواھوں کے بیانات میں اختلاف یا تضاد پایا جائے گا تو حد جاری نہ کی جائے گی۔ گواہی دینے والے سب کے سب قابل اعتماد ہوں۔ کبھی کسی مقدمہ میں ان کو جھوٹا ثابت نہ کیا گیا ہو۔ وہ بد دیانت یا سزا یافتہ نہ ہوں۔ محض قاضی (ججض کی ذاتی معلومات پر حد جاری نہ کی جائے گی۔ کسی لڑکی کا حاملہ ہونا حد جاری کرنے کا ثبوت نہیں ہے جب تک کوئی گواہی یا زبان سے اقرار نہ ہو۔ مذکورہ اصولوں کا خیال رکھتے ہوئے جب گواہوں کی شہادت یا اقرار پر پوری طرح جرم ثابت ہوجائے تب شرعی سزا (کوڑے یارجم) نافذ کرنے میں کسی نام نہاد رعایت اور رحم کرنے کی قطعی اجازت نہیں ہوگی۔ ناجائز جنسی تعلق (زنا) کسی عورت نے کیا ہو یا مرد نے دونوں پر حد جاری کی جائے گی۔ مرد اور عورت میں فرق نہیں کیا جائے گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں پہلے زانیہ عورت کا ذکر کیا ہے پھر مرد کا تاکہ عورت کو صنف نازک قرار دے کر چھوڑ نہ دیاجائے یا اس کی سزا میں تخفیف یا کمی نہ کردی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ناجائز جنسی تعلق کو اتنا بد ترین فعل قرار دیا ہے کہ اس میں کسی باہمی رضا مندی یا راضی نامہ کی بھی گنجائش نہیں ہے چناچہ ایک لڑکا جس نے اپنی مالکن سے زنا کیا تھا تو لڑکے کے باپ نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک سو بکریاں اور ایک لونڈی بھیج کر درخواست کی کہ اس نوجوان لڑکے کی سزا کو ان چیزوں کے بدلے میں معاف کردیا جائے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تیری بکریاں اور لونڈی تجھے مبارک ہوں (آپ نے واپس کردیں) اور اس کے بعد آپ نے شریعت کے مطابق دونوں پر حد جاری فرمادی۔ رجم و سنگسار کی شرعی حیثیت : رجم (پتھر مار کر ہلاک کرنے) کا حکم قرآن کریم میں اشارۃ اور متواتر و مشہورا حادیث میں پوری وضاحت سے بیان فرمایا گیا ہے۔ شریعت نے زنا کو بدترین اور ناقابل معافی جرم قرار دے کر یہ سزا مقرر کی ہے کہ (1) اگر کوئی غیر شادی شدہ لڑکا یا غیر شادی شدہ لڑکی ناجائز جنسی تعلق (زنا) میں ملوث پائے گئے ہوں تو ان دونوں کو سو سو کوڑے مارے جائیں گے۔ (2) اگر وہ دونوں شادی شدہ ہوں یا ان میں سے کوئی ایک شادی شدہ ہو اور دوسرا کنوارا ہو تو شادی شدہ عورت یا مرد کو رجم و سنگسار کیا جائے گا اور غیر شادی شدہ کو ایک سو کوڑے مارے جائیں گے۔ (3) اگر ان میں سے دونوں یا کوئی ایک غلام یا باندی ہو تو غلام اور باندی کو چالیس چالیس کوڑے مارے جائیں گے یعنی ان کی سزا نصف ہوگی۔ (4) رجم و سنگسار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت کی موجودگی میں اس وقت تک پتھر مارے جائیں گے جب تک اس فعل کا مجرم یا مجرمہ ہلاک نہ ہوجائیں۔ (5) رجم و سنگسار یا کوڑوں کی سزا لوگوں کی نگاہوں سے دور کسی جیل یا کال کوٹھڑی کے اندر خاموشی سے نہیں دی جائے گی بلکہ (اعلان عام کرکے) مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کے سامنے رجم کیا جائے گا یا کوڑے مارے جائیں گے تاکہ ہر شخص اس عبرت ناک انجام کو دیکھ کر اس بدترین فعل کے نزدیک جانے کی ہمت نہ کرسکے۔ (6) رجم و سنگساری کے بعد مجرم یا مجرمہ کے لئے تمام مسلمانوں کی طرف کفن ‘ دفن اور نماز جنازہ کا اہتمام کیا جائے گا اور مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن کیا جائے گا۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کوڑوں کی سزا کے ساتھ ساتھ رجم و سنگسار کرنا بھی قرآن و سنت کے عین مطاق ہے۔ بعض ناواقف لوگ یا مغرب کی تہذیب کے سامنے شکست کھا جانے والے منکرین حدیث یہ کہتے ہیں کہ قرآن میں زانی یا زانیہ کے لئے کوڑے مارنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن رجم و سنگساری کا حکم نہیں دیا گیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی ہر آیت اور ہر لفظ کی تشریح و تعبیر کرنے کا حق صرف نبی کریم ﷺ ہی کو حاصل ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” وہ (نبی کریم ﷺ کوئی بات اپنی خواہش نفس سے نہیں کہتے جب تک اللہ کی طرف سے وحی نہ آجائے “ دوسری جگہ فرمایا کہ ” اے مومنو ! رسول اللہ تمہیں جو کچھ دیدیں اس کو لے لو اور جس چیز سے منع فرمادیں اس سے رک جائو “۔ قرآن کریم کے اس اصول کے تحت ہی نبی کریم ﷺ نے اپنی دنیاوی زندگی میں رجم و سنگساری کے اصول کو جاری فرمایا اور آپ کے بعد آپ کے خلفا راشدین ؓ اور صحابہ کرام ؓ بھی اسی عمل پر قائم رہے کہ اگر کوئی شادی شدہ مرد یا عورت نے اس جرم کا ارتکاب کیا تو ان کو پتھر مار کر ہلاک کیا گیا اور غیر شادی شدہ کو ایک ایک سو کوڑے مارے گئے۔ تمام معتبر اور صحیح حدیثوں میں اس بات کو نہایت وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ” ماعز اور غامد یہ “ پر سزائے رجم و سنگساری کو جاری فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت زید ابن خلاد جہنی کی صحیح ترین روایات سے ثابت ہے کہ ایک مرتبہ ایک غیر شادی شدہ لڑکے نے جو ایک شادی شدہ عورت کاملازم تھا اس کے ساتھ زنا کیا زانی لڑکے کا باپ اس کو لے کر نبی کریم ﷺ کے پاس گیا (اور کچھ رعایتیں چاہیں) تو آپ نے فرمایا کہ میں تم دونوں کا فیصلہ کتاب اللہ کی مطابق کروں گا۔ چناچہ آپ نے حکم دیا کہ زانی لڑکے کو جو غیر شادی شدہ ہے ایک سو کوڑے مارے جائیں اور شادی شدہ عورت کو سنگسار کردیا جائے کیونکہ دونوں نے اپنے جرم کا اقرار لیا تھا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا کہ زنا کی سزا میں ہم شرعی حیثیت سے رجم و سنگسار کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ اللہ کی حدود میں سے ایک حد ہے۔ اس بات کو اچھی طرح سن لو کہ رسول اللہ ﷺ نے خود رجم و سنگسار کیا اور ہم نے آپ کے بعد مجرموں کو رجم و سنگسار کیا۔ اور اگر مجھے یہ خطرہ نہ ہوتا کہ کہنے والے کہیں گے کہ عمر ؓ نے کتاب اللہ میں اپنی طرف سے کچھ بڑھا لیا ہے تو میں قرآن کے کسی کونے پر بھی اس کو لکھ دیتا۔ فرمایا کہ اس پر عمر بن خطاب ؓ گواہ ہے۔ عبدالرحمن ابن عوف گواہ ہیں اور فلاں ابن فلاں گواہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رجم و سنگسار کیا اور آپ کے بعد ہم نے (زانیوں کو ) رجم و سنگسار کیا (نسائی) ۔ اس حدیث میں حضرت عمر فاروق ؓ نے نبی کریم ﷺ کے ارشادات اور عمل کو کتاب اللہ اور آیت کتاب اللہ سے تعبیر فرمایا جو بالکل سچ ہے۔ اس موضوع پر ہمارے اکابر علماء نے نہایت تفصیل سے رجم و سنگسار پر کتابیں لکھی ہیں مزید معلومات کے لئے وہاں دیکھ لیا جائے۔ کوڑوں کی سزا : قرآن کریم اور احادیث کے اصولوں کی روشنی میں کوڑوں کی سزا دینے میں دو بنیادی مقصد ہیں (1) مناسب جسمان سزا دینا (2) اور زانیہ عورت اور زانی مرد کے فعل اور اس کی ذلت و رسوائی۔ کوڑوں کی سزا میں وحشیانہ یا ظالمانہ طریقے اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ بہت سی باتوں کا لحاظ کرتے ہوئے اس سزا کو عبرت و نصیحت بنایا گیا ہے۔ چنانچہ جب کوئی غیر شادی شدہ مرد یا غیر شادی شدہ عورت اس ناجائز جنسی تعلق (زناض میں مبتلا پایا جائے جس پر عینی شاہدین نے معتبر اور مکمل گواہی پیش کردی ہو اور قاضی نے ان دونوں پر حد جاری کرنے کا حکم دیدیا ہو تو (اطلاع عام کے ذریعہ) مومنوں کی ایک جماعت کی موجودگی میں ان کو ایک ایک سو کوڑے مارے جائیں گے اور اس میں کسی نرمی یا کمی بیشی کی اجازت نہیں ہوگی۔ جس کوڑے سے ماراجائے وہ درمیانہ اور اوسط درجہ کا ہو۔ نہ اتنا سخت ہو کہ اس سے مجرم کا جسم یاکھال پھٹ جائے اور اس کے گوشت کے ٹکڑے اڑجائیں۔ کو ڑانہ اتنا نرم ہو کہ یہ سزا محض ایک رسم یا مذاق بن کر رہ جائے۔ کوڑا ایسا ہونا چاہیے کہ ضرب (مار) کا اثر کھال تک رہے گوشت تک نہ پہنچے۔ ہاتھوں کو اتنا اونچا کرکے کوڑے نہ مارے جائیں جن سے کوڑے مارنے والے کی بغلیں کھل جائیں۔ کوڑے کی جگہ بید کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ کوڑے جسم کے کسی ایک حصے پر نہ مارے جائیں بلکہ چہرہ ‘ سر اور شرم گاہ کو بجا کر جسم کے مختلف حضوں پر اس سزا کو پھیلا دیا جائے۔ ایک سو کوڑے وقفے وقفے سے بھی مارے جاسکتے ہیں اور ایک ساتھ بھی۔ بیس بیس کوڑے ہر روز مارے جاسکتے ہیں لیکن بہتر یہی ہے کہ ایک ہی دن میں ایک سو کوڑے مارے جائیں۔ اگر سزا کسی غلام یا باندی کو دی جائے تو ان کو نصف سزادی جائے گی یعنی چالیس چالیس کوڑے۔ اگر عورت حاملہ ہو تو وضع حمل ( بچہ پیدا ہونے) تک انتظار کیا جائے گا۔ جب بچہ پیدا ہوجائے تو مناسب وقت پر سزادی جائے گی۔ اگر مجرم نہایت کمزور ‘ شدید بیمار یا بہت زیادہ بوڑھا ہو جو کوڑوں کی سزا برداشت نہ کرسکے تو ایک ایسی ٹہنی (درخت کی شاخ) لی جائے جس میں ایک سو شاخیں ہوں ان کو ایک دفعہ مار دیا جائے تو اس سے حکم کی تعمیل ہوجائے گی۔ (ابودائود۔ ترمذی) مرد کو سزادینے کے لئے ستر کو چھپانے والے کپڑوں کے سوا ہر کپڑا اتار کر سزادی جائے گی اس کے برخلاف عورت کے صرف موٹے اور روئی دار کپڑے اتارے جائیں گے اور بقیہ کپڑوں کو اس کے جسم پر اس طرح لپیٹ دیا جائے گا جس سے سزا کے وقت کسی طرح اس کا جسم برہنہ نہ ہونے پائے۔ کسی چیز سے یا رسی وغیرہ سے مجرم کو باندھ کر سزا نہیں دی جائے گی۔ البتہ اگر مجرم بھاگنے یا حملہ کرنے کی کوشش کرے تو اس کو کسی چیز سے باندھ کر سزادی جاسکتی ہے۔ مرد کو کھڑاکرکے اور عورت کو بٹھا کر سزادی جائے گی۔ اگر کسی قاضی نے گواہوں کی گواہی پر سزادی ہے تو کوڑے مارنے کی ابتداء گواہوں سے کرائی جائے گی اور اگر مجرم یا مجرمہ نے خود ہی اقرار کیا ہو تو سزا کی ابتداء خود قاضی عدالت کرے گا۔ سخت سردی یا سخت گرمی کے وقت کوڑے مارنا مناسب نہیں ہے اس کا بھی خیا ل رکھنا ضروری ہے۔ شریعت کے ان تمام اصولوں سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ عبرت کے لیے یہ ایک بہت ہی سخت سزا تو ہے لیکن اس کو وحشیانہ سزا کہنا ایک بہت بڑی زیادتی ہے۔ ان اسلامی سزاؤں کو وحشیانہ قراردینے میں جس قدر پرو پیگنڈا کیا جاتا ہے وہ مذکورہ اصولوں کی روشنی میں بےحقیقت ہو کر رہ جاتا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ غیر مسلم اگر ان سزاؤں کو وحشیانہ کہتے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک تو اسلام کا وجود ہی دہشت گردی ہے اور انہوں نے ہمیشہ دین اسلام کو سمجھنے کے بجائے تعصب اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے لیکن جب ہمارے نام نہاد مسلمان ان سزاؤں کو وحشیانہ کہتے ہیں اور اس پر زور قلم صرف کرتے ہیں تو ان پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب فرمائے ۔ آمین۔ جیسا کہ آپ نے سروئہ نور کی ابتدائی آیتوں میں ملاحظہ کرلیا ہے کہ قرآن کریم میں ناجائز جنسی تعلق (زنا) کرنے والوں کے لئے جس قدر سخت ‘ ذلت آمیز اور عبرت ناک سزا مقرر کی گئی ہے اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہر مومن اس بدترین گناہ کے قریب جانے سے بھی ڈرتا رہے اور وہ لوگ جو پرسکون اور اعتماد سیبھر پور نیکی کے ساتھ زندگی گذار نا چاہتے ہیں وہ اپنے معاشرہ میں تحفظ محسوس کرسکیں۔ اسی لئے ایسیمعاشرہ میں ایسے بدکار لوگوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے جو اپنے ذہنی دیوالیہ پن کا اظہار کر کے اخلاق و کردار کی گراوٹ میں مبتلا ہو کر زنا جیسے فعل تک پہنچ گئے ہوں۔ ایسے مردوں اور عورتوں کے لئے تو وہی لوگ مناسب ہیں جو ان کی طرح ذہنی مریض ہوں۔ ایک مومن صالح کو بہر حال ان سے دور رہنے اور پرہیز کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس میں ایک اور اہم خرابی کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے جس کا عرب میں کسی حدتک رواج ہوگیا تھا۔ اور وہ یہ تھا کہ بعض غریب و مفلس لوگ اپنے فقرو فاقہ سے تنگ آکر اور مال و دولت کے لالچ میں ایسی دولت مند اور مال دار فاحشہ عورتوں سے شادی کرلیتے تھے جن کی آمدنی پر وہ عیش و عشرت کی زندگی گذار سکیں۔ دین اسلام نے اس بےغیرتی اور بےحیائی سے روکنے کے لئے بھی فرمایا ہے کہ کوئی شخص فاحثہ اور بدکردار عورتوں سے دنیاوی لالچ میں آکر نکاح نہ کرے کیونکہ اس جذبے سے نکاح کرنا اہل ایمان پر حرام قرار دیا دیا گیا ہے۔ اگر کوئی پاک دامن مرد یا عورت گھریلو سکون اور روحانی تسکین کے لئے کسی زانیہ یا زانی سے نکاح کرلے تو وہ نکاح ہوجائے گا۔ لیکن اگر زانیہ یا زانی کی بد کرداری کی حفاظت کے لئے محض دکھاوے کی شادی ہو تو وہ نکاح نہیں ہوگا کیونکہ اگر کوئی شخص نکاح کے باوجود اس پر راضی رہے کہ اس کی بیوی زنا کاری میں مبتلا رہے اور اس میں کوئی حرج نہ سمجھتا ہو تو ایسا نکاح حرام ہے۔ شریعت نے اس بات کو بھی واضح کر کے بیان کردیا ہے کہ ایک مومن مرد یا مومن عورت کا نکاح کسی مشرک عورت یا مشرک مرد سے نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اس بات کو بھی صاف کردیا گیا ہے کہ اگر زانی یا زانیہ ” سزا کے بعد “ سچے دل سے توبہ کر کے آئندہ زندگی نیکی اور پرہیز گاری کے ساتھ گذارنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرمادے گا۔ اگر رجم و سنگساری کے بعد یا کوڑوں کی سزا میں اس کی موت واقع ہو جئے تو اس کو باقاعدہ غسل اور کفن دے کر اس کی نماز جنازہ پڑھائی جائے گی اور مسلمانوں کے قبرستان میں اس کو دفن کیا جائے گا۔ جس نے اپنے فعل بد سے توبہ کرلی ہے اس کا نام برائی کے ساتھ نہیں لیا جائے گا۔
Top