Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 151
كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَؕۛ
كَمَآ : جیسا کہ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا فِيْكُمْ : تم میں رَسُوْلًا : ایک رسول مِّنْكُمْ : تم میں سے يَتْلُوْا : وہ پڑھتے ہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اٰيٰتِنَا : ہمارے حکم وَيُزَكِّيْكُمْ : اور پاک کرتے ہیں تمہیں وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتے ہیں تم کو الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَيُعَلِّمُكُمْ : اور سکھاتے ہیں تمہیں مَّا : جو لَمْ تَكُوْنُوْا : تم نہ تھے تَعْلَمُوْنَ : جانتے
جیسا کہ بھیجا ہم نے تم میں رسول تم ہی میں کا پڑہتا ہے تمہارے آگے آیتیں ہماری اور پاک کرتا ہے تم کو اور سکھلاتا ہے تم کو کتاب اور اس کے اسرار اور سکھاتا ہے تم کو جو تم نہ جانتے تھے،
خلاصہ تفسیر
(یعنی ہم نے کعبہ کو قبلہ مقرر کرکے حضرت ابراہیم ؑ کی ایک دعا جو درباب مقبولیت بناء کعبہ تھی اس طرح قبول کی) جس طرح (ان کی دوسری دعا جو درباب بعثت محمدیہ کے تھی قبول کی کہ) تم لوگوں میں ہم نے ایک (عظیم الشان) رسول کو بھیجا (جو کہ) تم ہی میں سے (ہیں اور وہ) ہماری آیات (و احکام) پڑھ پڑھ کر تم کو سناتے ہیں اور (خیالات و رسوم جہالت سے) تمہاری صفائی کرتے رہتے ہیں اور تم کو کتاب (الہی) اور فہم کی باتیں بتلاتے رہتے ہیں اور تم کو ایسی (مفید) باتیں تعلیم کرتے ہیں جن کی تم کو خبر بھی نہ تھی (اور نہ کتب سابقہ یا عقل ان کے لئے کافی تھی اور اس شان کے رسول کے مبعوث ہونے کی ابراہیم ؑ کی دعاء تھی سو اس کا ظہور ہوگیا) ان (مذکورہ) نعمتوں پر مجھ کو (منعم ہونے کی حیثیت سے) یاد کرو میں تم کو (عنایت سے) یاد رکھوں گا اور میری (نعمت کی) شکر گذاری کرو اور (انکار نعمت یا ترک اطاعت سے) میری ناسپاسی مت کرو،
معارف و مسائل
یہاں تک قبلہ کی بحث چلی آرہی تھی اب اس بحث کو ایسے مضمون پر ختم فرمایا گیا ہے جو اس بحث کی تمہید میں حضرت ابراہیم ؑ بانی کعبہ کی دعا میں ضمناً آیا تھا یعنی رسول اللہ ﷺ کا اولاد ابراہیم ؑ میں ایک خاص شان کے ساتھ مبعوث ہونا اس میں اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت میں بانی کعبہ کی دعا کو بھی دخل ہے اس لئے اگر ان کا قبلہ کعبہ کو بنادیا گیا تو اس میں کوئی تعجب یا انکار کی بات نہیں ہے،
كَمَآ اَرْسَلْنَا میں حرف کاف جو تشبیہ کے لئے آتا ہے اس کی ایک توجیہ تو وہ ہے جو خلاصہ تفسیر سے معلوم ہوچکی ہے دوسری ایک توجیہ یہ بھی ہوسکتی ہے جس کو قرطبی نے اختیار کیا ہے کہ اس حرف کاف کا تعلق بعد کی آیت فاذْكُرُوْنِيْٓ سے ہے اور معنی یہ ہیں کہ جیسا ہم نے تم پر ایک نعمت قبلہ کی پھر دوسری نعمت رسول اللہ ﷺ کی بعثت کی مبذول فرمائی ہے ایسی ہی نعمت ذکر اللہ بھی ہے ان سب نعمتوں کا شکر ادا کرو تاکہ یہ نعمتیں اور زیادہ ہوجائیں قرطبی نے فرمایا کہ كَمَآ اَرْسَلْنَا کا کاف یہاں ایسا ہی ہے جیسے انفال میں كَمَآ اَخرَجَکَ اور سورة حجر میں كَمَآ اَنزلنا علی المقتَسمین آیا ہے،
فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ ذکر کے اصلی معنی یاد کرنے کے ہیں جس کا تعلق قلب سے ہے زبان سے ذکر کرنے کو بھی ذکر اس لئے کہا جاتا ہے کہ زبان ترجمان قلب ہے اس سے معلوم ہوا کہ ذکر زبانی وہی معتبر ہے جس کے ساتھ دل میں بھی اللہ کی یاد ہو مولانا رومی نے اسی کے متعلق فرمایا،
بر زبان تسبیح در دل گاؤ خر
ایں چنیں تسبیح کے دارد اثر
لیکن اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر کوئی شخص زبان سے ذکر و تسبیح میں مشغول ہو مگر اس کا دل حاضر نہ ہو اور ذکر میں نہ لگے تو وہ بھی فائدہ سے خالی نہیں۔ حضرت ابوعثمان سے کسی نے ایسی ہی حالت کی شکایت کی کہ ہم زبان سے ذکر کرتے ہیں مگر قلوب میں اس کی کوئی حلاوت محسوس نہیں کرتے آپ نے فرمایا اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر کرو کہ اس نے تمہارے ایک عضو یعنی زبان کو تو اپنی اطاعت میں لگا لیا (قرطبی)
Top