Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 189
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ١ؕ قُلْ هِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّ١ؕ وَ لَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِهَا وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى١ۚ وَ اْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے الْاَهِلَّةِ : نئے چاند قُلْ : آپ کہ دیں ھِىَ : یہ مَوَاقِيْتُ : (پیمانہ) اوقات لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَالْحَجِّ : اور حج وَلَيْسَ : اور نہیں الْبِرُّ : نیکی بِاَنْ : یہ کہ تَاْتُوا : تم آؤ الْبُيُوْتَ : گھر (جمع) مِنْ : سے ظُهُوْرِھَا : ان کی پشت وَلٰكِنَّ : اور لیکن الْبِرَّ : نیکی مَنِ : جو اتَّقٰى : پرہیزگاری کرے وَاْتُوا : اور تم آؤ الْبُيُوْتَ : گھر (جمع) مِنْ : سے اَبْوَابِهَا : ان کے دروازوں سے وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : کامیابی حاصل کرو
تجھ سے پوچھتے ہیں حال نئے چاند کا کہہ دے کہ یہ اوقات مقررہ ہیں لوگوں کے واسطے اور حج کے واسطے اور نیکی یہ نہیں کہ گھروں میں آؤ ان کی پشت کی طرف سے اور لیکن نیکی یہ کہ جو کوئی ڈرے اللہ سے اور گھروں میں آؤ دروازوں سے اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم اپنی مراد کر پہنچو،
ربط آیات
آیت لَيْسَ الْبِرُّ کے تحت بیان ہوچکا ہے کہ اس کے بعد آخر سورة بقرہ تک ابواب البر کا بیان ہوگا جو اہم احکام شرعیہ پر مشتمل ہیں، ان میں پہلا حکم قصاص کا دوسرا وصیت کا، تیسرا اور چوتھا صوم اور اس کے متعلقہ مسائل کا، پانچواں اعتکاف کا، چھٹا مال حرام سے بچنے کا تھا، مذکور الصدر دو آیتوں میں حج اور جہاد کے احکام و مسائل کا بیان ہے اور حج کے حکم سے پہلے یہ بتلایا گیا کہ روزہ اور حج وغیرہ میں قمری مہینوں اور دنوں کا اعتبار ہوگا،
لغاتاَهِلَّةِ ہلال کی جمع ہے، قمری مہینہ کی ابتدائی چند راتوں کے چاند کو ہلال کہا جاتا ہے مواقیت، میقات کی جمع ہے جس کے معنی مطلق وقت یا منتہائے وقت کے آتے ہیں (قرطبی)
خلاصہ تفسیر
حکم ہفتم، اعتبار حساب قمری درحج وغیرہ
(بعضے آدمی) آپ سے (ان) چاندوں کے (ہر مہینہ گھٹنے بڑہنے کی) حالت (اور اس میں جو فائدہ ہے اس فائدہ) کی تحقیقات کرتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ (فائدہ اس کا یہ ہے کہ) وہ چاند (اپنے اس گھٹنے اور بڑہنے کے اعتبار سے لزوما یا سہولۃ) آلہ شناخت اوقات ہیں لوگوں کے (اختیاری معاملات مثل عدت و مطالبہ حقوق کے) لئے اور (غیر اختیاری عبادات مثل) حج (وزکوۃ و روزہ وغیرہ) کے لئے،
حکم ہشتم، اصلاح رسم جاہلیت
(بعض لوگ قبل اسلام کے اگر حج کا احرام باندھنے کے بعد کسی ضرورت سے گھر جانا چاہتے تھے تو دروازہ سے جانا ممنوع جانتے تھے اس لئے پشت کی دیوار میں نقب دے کر اس میں سے اندر جاتے تھے اور اس عمل کو فضیلت سمجھتے تھے حق تعالیٰ اس کے متعلق بعد ذکر حج کے ارشاد فرماتے ہیں) اور اس میں کوئی فضیلت نہیں کہ گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آیا کرو، ہاں لیکن فضیلت یہ ہے کہ کوئی شخص حرام (چیزوں) سے بچے اور (چونکہ گھروں میں دروازہ کی طرف سے آنا حرام نہیں ہے اس لئے اس سے بچنا بھی ضروری نہیں سو اگر آنا چاہو تو) گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور (اصل الاصول تو یہ ہے کہ) خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہو (اس سے البتہ) امید ہے کہ تم (دارین میں) کامیاب ہو،
حکم نہم، قتال کفار
(ذی قعدہ 6 ہجری میں حضور ﷺ ادائے عمرہ کے قصد سے مکہ معظمہ تشریف لے چلے اس وقت تک مکہ معظمہ مشرکین کے قبضہ اور حکومت میں تھا ان لوگوں نے حضور ﷺ اور آپ کے ہمراہیوں کو مکہ کے اندر نہ جانے دیا اور عمرہ رہ گیا آخر بڑی گفتگو کے بعد یہ معاہدہ قرار پایا کہ سال آئندہ تشریف لاکر عمرہ ادا فرماویں۔ چناچہ ذی قعدہ 7 ھ میں پھر آپ اسی قصد سے تشریف لے چلے لیکن آپ کے ساتھ مسلمانوں کو یہ اندیشہ ہوا کہ شاید مشرکین اپنا معاہدہ پورا نہ کریں اور آمادہ مقابلہ ومقاتلہ نہ ہوجاویں تو ایسی حالت میں نہ سکوت مصلحت ہے اور اگر مقابلہ کیا جاوے تو ذی قعدہ میں قتال لازم آتا ہے اور یہ مہینہ منجملہ ان چار مہینوں کے ہے جن کو اشہر حرم کہا جاتا ہے ان چاروں مہینوں میں اس وقت تک قتل و قتال حرام و ممنوع تھا یہ چار مہینے ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب تھے غرض مسلمان اس تردد سے پریشان تھے حق تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں کہ ان خاص معاہدہ کرنے والوں کے ساتھ بوجہ باہمی معاہدہ کے تم کو اپنی جانب سے ابتداءً قتال کرنے کی اجازت نہیں لیکن اگر وہ لوگ خود عہد شکنی کریں اور تم سے لڑنے کو آمادہ ہوجاویں تو اس وقت تم کسی طرح کا اندیشہ دل میں مت لاؤ) اور (بےتکلف) تم (بھی) لڑو اللہ کی راہ میں (یعنی اس نیت سے کہ یہ لوگ دین کی مخالفت کرتے ہیں) ان لوگوں کے ساتھ جو (نقص عہد کرکے) تمہارے ساتھ لڑنے لگیں اور (ازخود) حد (معاہدہ) سے مت نکلو (کہ عہد شکنی کرکے لڑنے لگو) واقعی اللہ تعالیٰ حد (قانون شرعی) سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتے اور (جس حالت میں وہ خود عہد شکنی کریں تو اس وقت دل کھول کر خواہ) ان کو قتل کرو جہاں ان کو پاؤ اور (خواہ) ان کو (مکہ سے) نکال باہر کرو جہاں سے انہوں نے تم کو (تنگ کرکے اور ایذائیں پہنچا کر) نکلنے (اور ہجرت کرنے) پر مجبور کیا ہے اور (تمہارے اس قتل واخراج کے بعد بھی عقلا الزام انھیں پر رہے گا کیونکہ عہد شکنی جو ان سے واقع ہوگی بڑی شرارت کی بات ہے اور ایسی) شرارت (ضرر میں) قتل (واخراج) سے بھی سخت تر ہے (کیونکہ اس قتل واخراج کی نوبت اس شرارت ہی کی بدولت پہنچتی ہے) اور (علاوہ معاہدہ کے ان کے ساتھ ابتداءً قتال کرنے سے ایک اور امر بھی مانع ہے وہ یہ کہ حرم شریف یعنی مکہ اور اس کا گردا گرد ایک واجب الاحترام جگہ ہے اور اس میں قتال کرنا اس کے احترام کے خلاف ہے اس لئے بھی حکم دیا جاتا ہے کہ) ان کے ساتھ مسجد حرام کے قرب (ونواح) میں (جو حرم کہلاتا ہے) قتال مت کرو جب تک کہ وہ لوگ وہاں تم سے خود نہ لڑیں ہاں اگر وہ (کفار) خود ہی لڑنے کا سامان کرنے لگیں تو (اس وقت پھر تم کو بھی اجازت ہے کہ) تم (بھی) ان کو مارو (دھاڑو) ایسے کافروں (جو حرم میں لڑنے لگیں) ایسی ہی سزا ہے،

معارف و مسائل
پہلی آیت میں صحابہ کرام کا ایک سوال اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا جواب نقل کیا گیا ہے، امام المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام کی ایک شان ہے کہ انہوں نے بوجہ عظمت وہیبت کے اپنے رسول ﷺ سے سوالات بہت کم کئے ہیں بخلاف پچھلی امتوں کے کہ جنہوں نے بکثرت سوالات کئے اور اس ادب کو ملحوظ نہیں رکھا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ صحابہ کرام ؓ اجمعین کے سوالات جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے کل چودہ ہیں جن میں سے ایک سوال ابھی اوپر گذرا ہے، وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ دوسرا سوال یہ ہے اور ان کے بعد سورة بقرہ ہی میں چھ سوال اور مذکور ہیں اور باقی چھ سوالات مختلف سورتوں میں آئے ہیں،
آیت مذکورہ میں ذکر یہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ اجمعین نے رسول اللہ ﷺ سے اَهِلَّةِ یعنی شروع مہینے کے چاند کے متعلق سوال کیا کہ اس کی صورت آفتاب سے مختلف ہے کہ وہ کبھی باریک ہلالی شکل میں ہوتا ہے پھر آہستہ آہستہ بڑہتا ہے پھر پورا دائرہ ہوجاتا ہے پھر اس میں تدریجی کمی اسی طرح آتی ہے اس کی حقیقت دریافت کی یا حکمت و مصلحت کا سوال کیا دونوں احتمال ہیں مگر جو جواب دیا گیا اس میں حکمت و مصلحت کا بیان ہے اگر سوال ہی یہ تھا کہ چاند کے گھٹنے بڑہنے میں حکمت و مصلحت کیا ہے تب تو جواب اس کے مطابق ہو ہی گیا اور اگر سوال سے اس گھٹنے بڑ ہنے کی حقیقت دریافت کرنا مقصود تھا جو صحابہ کرام کی شان سے بعید ہے تو پھر جواب بجائے حقیقت کے حکمت و مصلحت بیان کرنے سے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اجرام سماویہ کے حقائق دریافت کرنا انسان کے بس میں بھی نہیں اور ان کا کوئی دینی یا دنیوی کام اس حقیقت کے علم پر موقوف بھی نہیں اس لئے حقیقت کا سوال فضول ہے پوچھنے اور بتلانے کی بات یہ ہے کہ چاند کے اس طرح گھٹنے بڑہنے چھپنے اور طلوع ہونے سے ہمارے کون سے مصالح وابستہ ہیں اس لئے جواب میں رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ تمہاری مصالح جو چاند سے وابستہ ہیں یہ ہیں کہ اس کے ذریعہ تمہیں اپنے معاملات اور معاہدوں کی میعاد مقرر کرنا اور حج کے ایام معلوم کرنا آسان ہوجائے گا،
قمری اور شمسی حساب کی شرعی حیثیت
اس آیت سے تو اتنا معلوم ہوا کہ چاند کے ذریعہ تمہیں تاریخوں اور مہینوں کا حساب معلوم ہوجائے گا جس پر تمہارے معاملات اور عبادات حج وغیرہ کی بنیاد ہے اسی مضمون کو سورة یونس کی آیت نمبر 5 میں اس عنوان سے بیان فرمایا ہے وَقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِيْنَ وَالْحِسَابَ (یونس) جس سے معلوم ہوا کہ چاند کو مختلف منزلوں اور مختلف حالات سے گذارنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سال اور مہینوں اور تاریخوں کا حساب معلوم ہوسکے مگر سورة بنی اسرائیل کی آیت نمبر 12 میں اس حساب کا تعلق آفتاب سے بھی بتلایا گیا ہے وہ یہ ہےفَمَــحَوْنَآ اٰيَةَ الَّيْلِ وَجَعَلْنَآ اٰيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِيْنَ وَالْحِسَابَ (12: 17) پھر مٹایا رات کا نمونہ اور بنادیا دن کا نمونہ دیکھنے کو تاکہ تلاش کرو فضل اپنے رب کا اور تاکہ معلوم کرو گنتی برسوں کی اور حساب۔
اس تیسری آیت سے اگرچہ یہ ثابت ہوا کہ سال اور مہینوں وغیرہ کا حساب آفتاب سے بھی لگایا جاسکتا ہے (کما ذکرہ فی روح المعانی)
لیکن چاند کے معاملہ میں جو الفاظ قرآن کریم نے استعمال کئے ان سے واضح اشارہ اس طرف نکلتا ہے کہ شریعت اسلام میں حساب چاند ہی کا متعین ہے خصوصاً ان عبادات میں جن کا تعلق کسی خاص مہینے اور اس کی تاریخوں سے ہے جیسے روزہ رمضان، حج کے مہینے، حج کے ایام، محرم، شب برأت وغیرہ سے جو احکام متعلق ہیں وہ سب رویت ہلال سے متعلق کئے گئے ہیں کیونکہ اس آیت میں ھِىَ مَوَاقِيْتُ للنَّاسِ وَالْحَجِّ فرما کر بتلا دیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حساب چاند ہی کا معتبر ہے اگرچہ یہ حساب آفتاب سے بھی معلوم ہوسکتا ہے۔
شریعت اسلام نے چاند کے حساب کو اس لئے اختیار فرمایا کہ اس کو ہر آنکھوں والا افق پر دیکھ کر معلوم کرسکتا ہے عالم، جاہل، دیہاتی، جزیروں، پہاڑوں کے رہنے والے جنگلی سب کو اس کا علم آسان ہے بخلاف شمسی حساب کے کہ وہ آلات رصدیہ اور قواعد ریاضیہ پر موقوف ہے جس کو ہر شخص آسانی سے معلوم نہیں کرسکتا پھر عبادات کے معاملہ میں تو قمری حساب کو بطور فرض متعین کردیا اور عام معاملات تجارت وغیرہ میں بھی اسی کو پسند کیا جو عبادت اسلامی کا ذریعہ ہے اور ایک طرح کا اسلامی شعار ہے اگرچہ شمسی حساب کو بھی ناجائز قرار نہیں دیا شرط یہ ہے کہ اس کا رواج اتنا عام نہ ہوجائے کہ لوگ قمری حساب کو بالکل بھلا دیں کیونکہ ایسا کرنے میں عبادات روزہ وحج وغیرہ میں خلل لازم آتا ہے جیسا اس زمانے میں عام دفتروں اور کاروباری اداروں بلکہ نجی اور شخصی مکاتبات میں بھی شمسی حساب کا ایسا رواج ہوگیا ہے کہ بہت سے لوگوں کو اسلامی مہینے بھی پورے یاد نہیں رہے یہ شرعی حیثیت کے علاوہ غیرت قومی وملی کا بھی دیوالیہ پن ہے اگر دفتری معاملات میں جن کا تعلق غیر مسلموں سے بھی ہے ان میں صرف شمسی حساب رکھیں باقی نجی خط و کتابت اور روز مرہ کی ضروریات میں قمری اسلامی تاریخوں کا استعمال کریں تو اس میں فرض کفایہ کی ادائیگی کا ثواب بھی ہوگا اور اپنا قومی شعار بھی محفوظ رہے گا۔
مسئلہلَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِھَا اس آیت سے یہ مسئلہ بھی نکل آیا کہ جس چیز کو شریعت اسلام نے ضروری یا عبادت نہ سمجھا ہو اس کو اپنی طرف سے ضروری اور عبادت سمجھ لینا جائز نہیں اسی طرح جو چیز شرعا جائز ہو اس کو گناہ سمجھنا بھی گناہ ہے ان لوگوں نے ایسا ہی کر رکھا تھا کہ گھر کے دروازوں سے داخل ہونا جو شرعاً جائز تھا اس کو گناہ قرار دیا، اور مکان کی پشت سے دیوار توڑ کر آیا جو شرعا ضروری نہیں تھا اس کو ضروری سمجھا اسی پر ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی بدعات کے ناجائز ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ غیر ضروری چیزوں کو فرض وواجب کی طرح ضروری سمجھ لیا جاتا ہے یا بعض چیزوں کو حرام و ناجائز قرار دے دیا جاتا ہے اس آیت سے ایسا کرنے کی ممانعت واضح طور پر ثابت ہوگئی جس سے ہزاروں اعمال کا حکم معلوم ہوگیا،
Top