Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 220
فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ؕ وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْیَتٰمٰى١ؕ قُلْ اِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَیْرٌ١ؕ وَ اِنْ تُخَالِطُوْهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَاَعْنَتَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
فِى الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور وہ آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے (بارہ) میں الْيَتٰمٰي : یتیم (جمع) قُلْ : آپ کہ دیں اِصْلَاحٌ : اصلاح لَّھُمْ : ان کی خَيْرٌ : بہتر وَاِنْ : اور اگر تُخَالِطُوْھُمْ : ملالو ان کو فَاِخْوَانُكُمْ : تو بھائی تمہارے وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے الْمُفْسِدَ : خرابی کرنے والا مِنَ : سے (کو) الْمُصْلِحِ : اصلاح کرنے والا وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا اللّٰهُ : اللہ لَاَعْنَتَكُمْ : ضرور مشقت میں ڈالتا تم کو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
دنیا و آخرت کی باتوں میں اور تجھ سے پوچھتے ہیں یتیموں کا حکم کہہ دے سنوارنا ان کے کام کا بہتر ہے اور اگر ان کا خرچ ملا لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں اور اللہ جانتا ہے خرابی کرن والے اور سنوارنے والے کو اور اگر اللہ چاہتا تو تم پر شفقت ڈالتا اللہ زبردست ہے تدبیر والا،
سترہواں حکم۔ مخالطت یتیم
(چونکہ ابتداء میں مثل ہندوستان کے عرب میں بھی یتیموں کا حق دینے میں پوری احتیاط نہ تھی اس لئے یہ وعید سنائی گئی کہ یتیموں کا مال کھانا ایسا ہے جیسا دوزخ کے انگار پیٹ میں بھرنا تو سننے والے ڈر کے مارے اتنی احتیاط کرنے لگے کہ ان کا کھانا بھی الگ پکواتے اور الگ رکھواتے اور اتفاقا اگر بچہ کم کھاتا تو کھانا بچتا اور سڑتا تھا کیونکہ اس کا استعمال نہ ان لوگوں کے لئے جائز تھا اور نہ یتیم کے مال کو صدقہ کردینے کا اختیار تھا اس طرح تکلیف بھی ہوتی اور یتیم کا نقصان بھی اس لئے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا گیا اس کے متعلق آیت میں یہ ارشاد آیا) اور لوگ آپ سے یتیم بچوں (کے خرچ علیٰحدہ یا شامل رکھنے) کا حکم پوچھتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ (اصل مقصود ہمارا ان کے اموال کھانے کی ممانعت سے یہ ہے کہ ان کی مصلحت کو ضائع نہ کیا جائے اور جب خرچ شامل رکھنے میں ان کی مصلحت ہے تو) ان کی مصلحت کی رعایت رکھنا (علیٰحدہ خرچ رکھنے سے جو خلاف مصلحت ہے) زیادہ بہتر ہے اور تم ان کے ساتھ خرچ شامل رکھو تو (کچھ ڈر کی بات نہیں کیونکہ) وہ بچے تمہارے (دینی) بھائی ہیں (اور بھائی بھائی شامل رہا ہی کرتے ہیں) اور اللہ تعالیٰ مصلحت کے ضائع کرنے والے کو اور مصلحت کی رعایت رکھنے والے کو (الگ الگ) جانتے ہیں (اس لئے کھانے پینے میں اشتراک ایسا نہ ہونا چاہئے جس میں یتیم کی مصلحت ضائع ہوجائے اور بلا علم وبلا قصد کچھ کمی بیشی ہو بھی جائے تو چونکہ اللہ تعالیٰ کو اس کی نیک نیتی معلوم ہے اس لئے اس پر مواخذہ ہوگا) اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو (اس معاملہ میں سخت قانون مقرر کرکے) تم کو مصیبت میں ڈال دیتے (کیونکہ) اللہ تعالیٰ زبردست ہیں (مگر قانون سہل اس لئے مقرر فرمایا کہ وہ) حکمت والے (بھی) ہیں (ایسا حکم نہیں دیتے جو نہ ہوسکے)
Top