Maarif-ul-Quran - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جو لوگ لائے ہیں یہ طوفان تمہیں میں ایک جماعت ہیں تم اس کو نہ سمجھو برا اپنے حق میں بلکہ یہ بہتر ہے تمہارے حق میں ہر آدمی کے لئے ان میں سے وہ ہے جتنا اس نے گناہ کمایا اور جس نے اٹھایا ہے اس کا بڑا بوجھ اس کے واسطے بڑا عذاب ہے
ربط آیات
جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ سورة نور کا بیشتر حصہ ان احکام سے متعلق ہے جو عفت و عصمت کی حفاظت کے لئے جاری کئے گئے ہیں۔ اس کے بالمقابل عفت و عصمت پر دست اندازی اور اس کی خلاف ورزی کی دنیوی سزا میں اور ان پر آخرت کا وبال عظیم ذکر کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں پہلے حد زنا پھر حد قذف اور پھر لعان کا بیان آ چکا ہے۔ حد قذف کے ضمن میں کسی پاکدامن عورت پر جب تک چار گواہوں کی شہادت نہ ہو زنا کا الزام لگانا گناہ عظیم قرار دیا ہے اور ایسا کرنے والے کیلئے حد شرعی اسی کوڑے لگانے کی جاری فرمائی ہے۔ یہ مسئلہ عام مسلمان پاکدامن عورتوں سے متعلق تھا۔ اور چونکہ 06 ہجری میں بعض منافقین نے ام المومنین حضرت صدیقہ عائشہ پر ایسی تہمت گھڑی تھی، اور تقلیداً بعض مسلمان بھی اس کا تذکرہ کرنے لگے تھے یہ معاملہ عام مسلمان پاکدامن عورتوں کے معاملہ سے کہیں زیادہ اشد تھا۔ اس لئے قرآن کریم نے حضرت صدیقہ عائشہ کی برات اور پاکی کے بیان میں اس جگہ دس آیتیں مذکور الصدر نازل فرمائیں جن میں حضرت صدیقہ کی برات و نزاہت کا اعلان اور ان کے معاملہ میں جن لوگوں نے افتراء و بہتان میں کسی طرح کا حصہ لیا تھا ان سب کو تنبیہ اور دنیا و آخرت میں ان کے وبال کا بیان ہے۔ یہ بہتان بندی کا واقعہ قرآن و حدیث میں واقعہ افک کے نام سے مشہور ہے۔ افک کہتے ہیں بدترین قسم کے جھوٹ و افترا و بہتان کو۔ ان آیات کی تفسیر سمجھنے میں قصہ افک کے معلوم ہونے کو بڑا دخل ہے اس لئے مناسب ہے کہ پہلے مختصر طور پر یہ قصہ بیان کردیا جاوے۔
قصہ افک و بہتان
صحیحین اور دوسری کتب حدیث میں یہ واقعہ غیر معمولی طویل تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اس کا مختصر بیان یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ غزوہ بنی المصطلق میں جس کو غزوہ مریسیع بھی کہا جاتا ہے 06 ہجری میں تشریف لے گئے تو امہات المومنین میں سے حضرت صدیقہ عائشہ ساتھ تھیں، حضرت عائشہ کا اونٹ جس پر ان کا ہودج (پردہ دار شغدف) ہوتا تھا اور چونکہ اس وقت احکام پردہ کے نازل ہوچکے تھے تو معمول یہ تھا کہ صدیقہ عائشہ اپنے ہودج میں سوار ہوجائیں پھر لوگ اس ہودج کو اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیتے تھے۔ غزوہ سے فراغت اور مدینہ طیبہ کی طرف واپسی میں ایک روز یہ قصہ پیش آیا کہ ایک منزل میں قافلہ ٹھہرا آخر شب میں کوچ سے کچھ پہلے اعلان کیا گیا کہ قافلہ روانہ ہونے والا ہے تاکہ لوگ اپنی اپنی ضرورتوں سے فارغ ہو کر تیار ہوجاویں۔ حضرت صدیقہ عائشہ کو قضاء حاجت کی ضرورت تھی اس سے فراغت کے لئے جنگل کی طرف چلی گئیں وہاں اتفاق سے ان کا ہار ٹوٹ کر گرگیا اس کی تلاش میں ان کو دیر لگ گئی۔ جب واپس اپنی جگہ پہنچیں تو دیکھا کہ قافلہ روانہ ہوچکا ہے ان کے اونٹ کا قصہ یہ ہوا کہ جب کوچ ہونے لگا تو عادت کے مطابق حضرت صدیقہ عائشہ کا ہودج یہ سمجھ کر اونٹ پر سوار کردیا گیا کہ حضرت صدیقہ اس میں موجود ہیں اٹھاتے وقت بھی کچھ شبہ اس لئے نہ ہوا کہ اس وقت حضرت صدیقہ کی عمر کم اور بدن میں نحیف تھیں کسی کو یہ اندازہ ہی نہ ہوا کہ ہودج خالی ہے چناچہ اونٹ کو ہانک دیا گیا۔ حضرت صدیقہ نے اپنی جگہ واپس آ کر قافلہ کو نہ پایا تو بڑی دانشمندی اور وقار و استقلال سے کام لیا کہ قافلہ کے پیچھے دوڑنے یا ادھر ادھر تلاش کرنے کے بجائے اپنی جگہ چادر اوڑھ کر بیٹھ گئیں اور خیال کیا کہ جب آنحضرت ﷺ اور رفقاء کو یہ معلوم ہوگا کہ میں ہودج میں نہیں ہوں تو مجھے تلاش کرنے کے لئے یہاں پہنچیں گے، اگر میں ادھر ادھر کہیں اور گئی تو ان کو تلاش میں مشکل ہوگی اس لئے اپنی جگہ پر چادر میں لپٹ کر بیٹھ رہیں۔ آخر رات کا وقت تھا نیند کا غلبہ ہوا وہیں لیٹ کر آنکھ لگ گئی۔
دوسری طرف قدرت نے یہ سامان کیا کہ حضرت صفوان بن معطل صحابی جن کو آنحضرت ﷺ نے اسی خدمت کے لئے مقرر کیا ہوا تھا کہ وہ قافلہ کے پیچھے رہیں اور قافلہ روانہ ہونے کے بعد گری پڑی کوئی چیز رہ گئی ہو تو اس کو اٹھا کر محفوظ کرلیں۔ وہ صبح کے وقت اس جگہ پہنچے، ابھی روشنی پوری نہ تھی اتنا دیکھا کہ کوئی آدمی پڑا سو رہا ہے۔ قریب آئے تو حضرت صدیقہ عائشہ کو پہچان لیا کیونکہ انہوں نے پردہ کے احکام نازل ہونے سے پہلے ان کو دیکھا تھا۔ پہچاننے کے بعد انتہائی افسوس کے ساتھ ان کی زبان سے انا للہ وانا الیہ راجعون نکلا، یہ کلمہ صدیقہ کے کان میں پڑا تو آنکھ کھل گئی اور چہرہ ڈھانپ لیا۔ حضرت صفوان نے اپنا اونٹ قریب لا کر بٹھا دیا۔ حضرت صدیقہ اس پر سوار ہوگئیں اور خود اونٹ کی نکیل پکڑ کر پیادہ پا چلنے لگے یہاں تک کہ قافلہ میں مل گئے۔
عبد اللہ بن ابی بڑا خبیث منافق رسول اللہ ﷺ کا دشمن تھا اس کو ایک بات ہاتھ لگ گئی اور کم بخت نے واہی تباہی بکنا شروع کیا اور بعض بھولے بھالے مسلمان بھی سنی سنائی اس کا تذکرہ کرنے لگے۔ جیسے حضرت حسان و حضرت مسطح مردوں میں سے اور حضرت حمنہ عورتوں میں سے تفسیر در منثور میں بحوالہ ابن مردویہ حضرت ابن عباس کا یہی قول نقل کیا ہے کہ اعانہ ای عبداللہ ابن ابی حسان و مسطح و حمنہ۔
جب اس منافق کے بہتان کا چرچا ہوا تو خود رسول اللہ ﷺ کو اس سے سخت صدمہ پہنچا۔ صدیقہ عائشہ کو تو انتہائی صدمہ پہنچنا ظاہر ہی ہے عام مسلمانوں کو بھی اس سے سخت رنج و افسوس ہوا۔ ایک مہینہ تک یہی قصہ چلتا رہا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیقہ کی برات اور بہتان باندھنے یا اس میں شریک ہونے والوں کی مذمت میں مذکورہ بالا آیات نازل فرما دیں جن کی تفسیر آگے آتی ہے۔ قرآنی ضابطہ کے مطابق جس کا ذکر ابھی حد قذف کے تحت میں آ چکا ہے تہمت لگانے والوں سے شہادت کا مطالبہ کیا گیا وہ تو ایک بالکل ہی بےبنیاد خبر تھی گواہ کہاں سے آتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نبی کریم ﷺ نے تہمت لگانے والوں پر شرعی ضابطہ کے مطابق حد قذف جاری کی، ہر ایک کو اسی اسی کوڑے لگائے۔ بزار اور ابن مردویہ نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے تین مسلمانوں پر حد قذف جاری فرمائی۔ مسطح، حمنہ، حسان اور طبرانی نے حضرت عمر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر عبداللہ بن ابی منافق جس نے اصل تہمت گھڑی تھی اس پر دوہری حد جاری فرمائی پھر مومنین نے توبہ کرلی اور منافقین اپنے حال پر قائم رہے (بیان القرآن)

خلاصہ تفسیر
(اے مسلمانو ! تم جو صدیقہ عائشہ کے متعلق جھوٹی تہمت کی شہرت سے رنجیدہ ہو اس میں خود صدیقہ بھی داخل ہیں تو تم زیادہ غم نہ کرو کیونکہ) جن لوگوں نے یہ طوفان (حضرت صدیقہ عائشہ کی نسبت) برپا کیا ہے وہ تمہارے میں کا ایک (چھوٹا سا) گروہ ہے (کیونکہ تہمت لگانے والے کل چار تھے، ایک بالذات اور جھوٹی تہمت گھڑنے والا یعنی عبداللہ ابن ابی منافق، اور تین بالواسطہ جو اس کی خبر سے متاثر ہوگئے یعنی حسان، مسطح و حمنہ جو مومن مخلص تھے ان سب کو قرآن نے (منکم) میں داخل کیا یعنی مسلمانوں میں، حالانکہ عبداللہ ابن ابی منافق تھا اس کی وجہ ان کا ظاہری دعوائے اسلام تھا۔ مطلب آیت کا تسلی دینا ہے کہ زیادہ غم نہ کرو، اول تو خبر جھوٹی، پھر ناقل بھی کل چار ہی آدمی اور زیادہ آدمی تو اس کے مخالف ہی ہیں پس عرفاً بھی یہ موجب زیادہ غم کا نہ ہونا چاہئے، آگے ایک اور طریقہ پر تسلی ہے کہ) تم اس (بہتان بندی) کو اپنے حق میں برا نہ سمجھو (گو ظاہر میں غم کی بات ہے مگر واقع میں اس سے تمہارا ضرر نہیں) بلکہ یہ (بااعتبار انجام کے) تمہارے حق میں بہتر ہی بہتر ہے (کیونکہ اس غم سے تم کو صبر کا ثواب ملا، تمہارے درجے بڑھے۔ خصوصاً متہم حضرات کی براة کے لئے نص قطعی آئی اور آئندہ بھی مسلمانوں کے حق میں خیر ہے کہ ایسے مصیبت زدہ اس واقعہ سے تسلی حاصل کیا کریں گے پس تمہارا تو کوئی ضرر نہ ہوا البتہ ان چرچا کرنے والوں کا ضرر ہوا کہ) ان میں سے ہر شخص کو جتنا کسی نے کچھ کیا تھا گناہ ہوا (مثلاً زبان سے کہنے والوں کو زیادہ گناہ اور سن کر خاموش رہ جانے والوں کو یا دل سے بدگمانی کرنے والوں کو اس کے موافق گناہ ہوا) اور ان میں جس نے اس (بہتان) میں سب سے بڑا حصہ لیا (کہ اس کو اختراع کیا مراد اس سے عبداللہ بن ابی منافق ہے) اس کو (سب سے بڑھ کر) سخت سزا ہوگی (مراد اس سے جہنم ہے جس کا استحقاق پہلے سے بوجہ کفر و نفاق و عداوت رسول کے بھی تھا اب اور زیادہ سزا کا مستحق ہوگیا، یہ تو غم زدوں کے ضرر کی نفی اور بہتان باندھنے والوں کے ضرر کا اثبات تھا آگے (ان میں جو مومنین تھے ان کو ناصحانہ ملامت ہے کہ) جب تم لوگوں نے یہ بات سنی تھی تو مسلمان مردوں (جن میں حسان و مسطح بھی آگئے) اور مسلمان عورتوں نے (جن میں حمنہ بھی آگئیں) اپنے آپس والوں کے ساتھ (یعنی حضرت صدیقہ اور ان صحابی کے ساتھ دل سے) گمان نیک کیوں نہ کیا اور (زبان سے) یہ کیوں نہ کہا کہ یہ صریح جھوٹ ہے جیسا کہ درمنثور میں ابو ایوب اور ان کی زوجہ کا یہی قول مروی ہے۔ اس میں بہتان باندھنے والوں کے ساتھ وہ بھی شامل ہیں جو سن کر خاموش رہے یا شک میں پڑگئے ان سب پر بھی ملامت ہے جن میں عام مومنین و مومنات بھی داخل ہوگئے۔ آگے اس تہمت کو رد کرنے اور نیک گمان رکھنے کے وجوب کی وجہ ارشاد ہے کہ) یہ (بہتان لگانے والے) لوگ اس (اپنے قول) پر چار گواہ کیوں نہ لائے (جو کہ اثبات زنا کے لئے شرط ہے) سو جس حالت میں یہ لوگ گواہ (موافق قاعدہ کے) نہیں لائے تو بس اللہ کے نزدیک (جو قانون ہے) اس کے اعتبار سے) یہ جھوٹے ہیں (آگے بہتان لگانے والوں میں جو مومن تھے ان پر بھی رحمت کا ذکر ہے) اور اگر (اے حسان و مسطح و حمنہ) تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم نہ ہوتا دنیا میں (بھی کہ توبہ کی مہلت دی) اور آخرت میں (بھی کہ توبہ کی توفیق دی اور اس کو قبول بھی کرلیا اگر یہ نہ ہوتا) تو جس شغل میں تم پڑے تھے اس میں تم پر سخت عذاب واقع ہوتا (جیسا عبداللہ بن ابی کو بوجہ عدم توجہ کے ہوگا گو اس وقت مہلت دنیا میں اس کو بھی دے دیگئی مگر مجموعہ دارین میں رحمت نہیں ہے اور اس سے معلوم ہوگیا کہ صحابہ مقبول التوبہ اور پاک ہو کر آخرت میں مرحوم ہیں اور علیکم میں خطاب مومنین کو ہونے کا قرینہ اولاً اوپر کی آیت میں یہ ارشاد ہے ظَنَّ الْمُؤ ْمِنُوْنَ ثانیا فِي الْاٰخِرَةِ فرمانا کہ منافق تو آخرت میں جہنم کے درک اسفل یعنی نچلے طبقہ کا مستحق ہے وہ یقیناً مرحوم فی الاخرہ نہیں ہو سکتا۔ ثالثاً آگے يَعِظُكُمُ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ میں طبرانی نے ابن عباس کا قول نقل کیا یرید مسطحا و حمنة و حسانا۔ کذا فی الدار المنثور یعنی وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ کے مخاطب صرف تین مومن ہیں۔ یعنی مسطح، حمنہ، حسان، آگے اس کا بیان ہے کہ مومنین پر اگر اللہ کا خاص فضل نہ ہوتا کہ ان کو توبہ کی توفیق دی اور توبہ بھی کرلی تو جو کام انہوں نے کیا تھا وہ اپنی ذات میں عذاب عظیم کا موجب تھا فرمایا) جبکہ تم اس (جھوٹ بات) کو اپنی زبان سے نقل در نقل کر رہے تھے اور اپنے منہ سے ایسی بات کہہ رہے تھے جس کی تم کو (کسی دلیل سے) مطلق خبر نہیں (اور ایسی خبر کے ناقل کا کاذب ہونا فَاُولٰۗىِٕكَ عِنْدَ اللّٰهِ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ میں بیان ہوچکا ہے) اور تم اس کو ہلکی بات سمجھ رہے تھے حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بھاری بات (یعنی موجب گناہ عظیم) تھی (اول تو کسی پاکدامن عورت پر زنا کی تہمت خود بڑی معصیت ہے پھر وہ بھی کون، ازواج مطہرات میں سے کہ ان پر تہمت لگانا جناب رسول مقبول ﷺ کی ایذاء کا سبب بنا پس اس میں بہت سے اسباب معصیت کے جمع تھے) اور تم نے جب اس (بات) کو (اول) سنا تھا تو یوں کیوں نہ کہا کہ ہم کو زیبا نہیں کہ ایسی بات منہ سے بھی نکالیں۔ معاذ اللہ یہ تو بڑا بہتان ہے (جیسا کہ بعض صحابہ نے اسی طرح کہا تھا جیسا کہ سعد بن معاذ و زید بن حارثہ و ابی ایوب سے اسی طرح کا قول منقول ہے اور زائد کی نفی نہیں ہے ممکن ہے اور بہتوں نے کہا ہو۔ مطلب یہ کہ قاذفین اور ساکتین سب کو یہی کہنا چاہئے تھا۔ یہاں تک تو ماضی پر ملامت تھی اب مستقبل کے لئے نصیحت ہے جو کہ اصل مقصود ہے ملامت کا پس ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ پھر ایسی حرکت مت کرنا اگر تم ایمان والے ہو اور اللہ تعالیٰ تم سے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے (جس میں نصیحت اور حد قذف اور قبول توبہ جو اوپر مذکور ہوچکے ہیں سب داخل ہیں) اور اللہ تعالیٰ بڑا جاننے والا حکمت والا ہے (تمہارے دل کی ندامت کا حال بھی اس کو معلوم ہے اس لئے توبہ قبول کرلی اور سیاست کی حکمت بھی خوب جانتا ہے اس لئے تمہیں سیاسةً دنیا میں سزا دی گئی بھذا فسرہ بن عباس رواہ فی الدار۔ یہاں تک نزول براءة سے قبل تہمت کا تذکرہ کرنے والوں کا ذکر تھا۔ آگے ان کا ذکر ہے جو قرآن میں نزول براءة کے بعد بھی باز نہ آویں اور ظاہر ہے ایسا شخص بےایمان ہی ہوگا پس ارشاد ہے) جو لوگ (بعد نزول ان آیات کے بھی) چاہتے ہیں (یعنی اس کی کوشش عملی کرتے ہیں) کہ بےحیائی کی بات کا مسلمانوں میں چرچا ہو۔ (یعنی یہ خبر شائع ہو کہ ان مسلمانوں میں بےحیائی کی بات ہے۔ حاصل مطلب یہ کہ جو لوگ ان حضرات مقدسین کی طرف سے زنا کی نسبت کرتے ہیں) ان کے لئے دنیا و آخرت میں سزائے دردناک (مقرر) ہے اور (اس امر پر سزا کا تعجب مت کرو کیونکہ) اللہ تعالیٰ جانتا ہے (کہ کون معصیت کس درجہ کی ہے) اور تم (اس کی حقیقت پوری) نہیں جانتے (رواہ فی الدر عن ابن عباس، آگے ان لوگوں کو خطاب ہے جنہوں نے توبہ کرلی اور اس پر آخرت کے عذاب عظیم سے محفوظ ہوگئے (اور اے تائبین) اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے (جس نے تم کو توفیق توبہ کی دی) اور یہ کہ اللہ بڑا شفیق بڑا رحیم ہے (جس نے تمہاری توبہ قبول کرلی) تو تم بھی (اس وعید سے) نہ بچتے (آگے مسلمانوں کو اپنی رحمت سے بلا تخصیص اس معصیت مذکورہ کے، تمام معاصی سے احتراز رکھنے کا امر اور تزکیہ بالتوبہ کی تصریح ہے جو اہتمام کے واسطے بعنوانات مختلفہ مکرر ہے ارشاد فرماتے ہیں کہ) اے یمان والو تم شیطان کے قدم بقدم مت چلو (یعنی اس کے اغواء واضلال پر عمل مت کرو) اور جو شخص شیطان کے قدم بقدم چلتا ہے تو وہ (ہمیشہ ہر شخص) کو بےحیائی اور نامعقول ہی کام کرنے کو کہے گا (جیسا اس واقعہ افک میں تم نے دیکھ لیا) اور (شیطان کے قدم بقدم چل چلنے کے اور گناہ سمیٹ لینے کے بعد اس کے وبال و ضرر سے جو کہ ثابت ہو ہی چکا تھا نجات دیدینا یہ بھی ہمارا ہی فضل تھا ورنہ) اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی کبھی بھی (توبہ کر کے) پاک صاف نہ ہوتا (یا تو توبہ کی توفیق ہی نہ ہوتی جیسا منافقین کو نہ ہوئی اور یا توبہ قبول نہ کی جاتی، کیونکہ ہم پر کوئی چیز واجب تو ہے نہیں) و لیکن اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے (توبہ کی توفیق دے کر) پاک و صاف کردیتا ہے (اور بعد توبہ کے اپنے فضل سے وعدہ قبولیت کا بھی فرما لیا ہے) اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سنتا سب کچھ جانتا ہے (پس تمہاری توبہ سن لی اور تمہاری ندامت جان لی اس لئے فضل فرما دیا۔ آگے اس کا بیان ہے کہ بعد نزول آیات براءة کے بعض صحابہ نے (جن میں ابوبکر صدیق بھی ہیں، رواہ البخاری اور دوسرے صحابہ بھی ہیں۔ کذا فی الدر المنثور عن ابن عباس) شدت غیظ میں قسم کھالی کہ جس جس نے یہ چرچا کیا ہے جن میں حاجت مند بھی تھے ان کو اب سے کسی قسم کی مالی امداد نہ دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی عفو تقصیر اور امداد جاری کردینے کے لئے ارشاد فرماتے ہیں) اور جو لوگ تم میں (دینی) بزرگی اور (دنیوی) وسعت والے ہیں وہ اہل قرابت کو اور مساکین کو اور اللہ کی راہ میں ہجرت والوں کو دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں (یعنی اس قسم کے مقتضیٰ پر قائم نہ رہیں بلکہ توڑ ڈالیں یہ مطلب ہے ورنہ قسم تو ہو ہی چکی تھی، یعنی ان صفات کا مقتضیٰ ہے امداد کرنا خصوصاً جس میں کوئی سبب امداد کرنے کا ہو جیسے حضرت مسطح کہ وہ حضرت ابوبکر کے نزدیک کے رشتہ دار بھی ہیں اور مسکین اور مہاجر بھی ہیں، آگے ترغیب کے لئے فرماتے ہیں کہ) اور چاہئے کہ یہ معاف کردیں اور درگزر کریں کیا تم یہ بات نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف کر دے (سو تم بھی اپنے قصور واروں کو معاف کردو) بیشک اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے (سو تم کو بھی تخلق باخلاق الٰہیہ چاہئے آگے منافقین کی وعید کی تفصیل ہے جس کا اوپر اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ الخ میں اجمالاً ذکر تھا یعنی) جو لوگ (بعد نزول آیات کے بدکاری کی) تہمت لگاتے ہیں ان عورتوں کو جو پاکدامن ہیں (اور) ایسی باتوں (کے کرنے اور اس کے ارادے) سے (بھی محض) بیخبر ہیں (اور) ایمان والیاں ہیں (اور جن کی براءة نص قرآن سے ثابت ہوچکی ہے اور جمع لانا اس لئے ہے کہ سب ازواج مطہرات کو شامل ہوجاوے کہ الطیبات سے سب کی طہارت ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگ جو ایسی مطہرات کو متہم کریں کافر اور منافق ہی ہو سکتے ہیں) ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی جاتی ہے (یعنی خدا تعالیٰ کی رحمت خاصہ سے دارین میں بوجہ کفر کے دور ہوں گے) اور ان کو (آخرت میں) بڑا عذاب ہوگا جس روز ان کے خلاف ان کی زبانیں گواہی دیں گی اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں بھی (گواہی دیں گے) ان کاموں کی جو کہ یہ لوگ کیا کرتے تھے (مثلاً زبان کہے گی کہ اس نے میرے ذریعہ سے فلاں فلاں کفر کی بات بکی۔ اور ہاتھ پاؤں کہیں گے کہ اس نے ترویج کفریات کے لئے یوں تگا پو کی) اس روز اللہ تعالیٰ ان کو انکار واجبی بدلہ پورا پورا دے گا اور (اس روز ٹھیک ٹھیک) ان کو معلوم ہوگا کہ اللہ ہی ٹھیک فیصلہ کرنے والا (اور) بات (کی حقیقت) کو کھول دینے والا ہے (یعنی اب تو بوجہ کفر کے اس بات کا اعتقاد ان کو کما حقہ نہیں مگر قیامت کے روز معلوم ہوجاوے گا اور یہ معلوم کر کے بالکل نجات سے مایوس ہوجائیں گے، کیونکہ ان کے مناسب فیصلہ عذاب ابدی ہے یہ آیتیں غیر تائبین کے بارے میں ہیں جو نزول آیات برات کے بعد بھی اعتقاد تہمت سے باز نہیں آئے۔ تائبین کو فَضْلُ اللّٰهِ وَرَحْمَتُهٗ میں مرحوم دارین فرمایا اور غیر تائبین کو لُعِنُوْا میں ملعون دارین فرمایا۔ تائبین کو لَمَسَّكُمْ فِيْ مَآ اَفَضْتُمْ فِيْهِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ میں عذاب سے محفوظ بتلایا تھا اور غیر تائبین کو لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ میں و نیز اس سے قبل والَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ الخ میں مبتلائے عذاب بتلایا۔ تائبین کے لئے فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ میں بشارت عفو و غفران یعنی ستر معصیت کی فرمائی تھی اور غیر تائبین کے لئے تَشْهَدُ اور يّوَفِّيْهِمُ میں وعید عدم عفو اور فضیحت کی فرمائی۔ تائبین کو مَا زَكٰي مِنْكُمْ الخ میں طاہر بتلایا تھا غیر تائبین کو اگلی آیت میں خبیث فرمایا جس میں مضمون برات پر استدلال کر کے قصہ کو ختم فرمایا ہے یعنی یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ) گندی عورتیں گندے مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لائق ہوتے ہیں اور ستھری عورتیں ستھرے مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور ستھرے مرد ستھری عورتوں کے لائق ہوتے ہیں (ایک مقدمہ تو یہ ہوا اور دوسرا مقدمہ ضروریات سے ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ کو ہر چیز آپ کے لائق اور مناسب ہی دی گئی ہے اور وہ ستھری ہی چیزیں ہیں تو ضرور اس مقدمہ ضروریہ کے اعتبار سے آپ کی بی بی بھی ستھری ہیں اور ان کے ستھرے ہونے سے اس تہمت خاص سے حضرت صفوان کا منزہ ہونا بھی لازم آیا اسی لئے آگے فرماتے ہیں کہ) یہ اس بات سے پاک ہیں جو یہ (منافق) بکتے پھرتے ہیں، ان (حضرات) کے لئے (آخرت میں) مغفرت اور عزت کی روزی (یعنی جنت) ہے۔

معارف و مسائل
حضرت صدیقہ عائشہ کے خصوصی فضائل و کمالات اور قصہ افک کا کچھ بقیہ
رسول اللہ ﷺ کے دشمنوں نے آپ کے خلاف اپنی ساری ہی تدبیریں صرف کر ڈالیں اور آپ کو ایذا پہنچانے کی جو جو صورتیں کسی کے ذہن میں آسکتی تھیں وہ سبھی جمع کی گئیں۔ کفار کی طرف سے جو ایذائیں آپ کو پہنچی ہیں ان میں شاید یہ آخری سخت اور روحانی ایذا تھی کہ ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ عالم و فاضل اور مقدس ترین ام المومنین صدیقہ عائشہ پر اور ان کے ساتھ حضرت صفوان بن معطل جیسے مقدس صحابی پر عبداللہ ابن ابی منافق نے تہمت گھڑی۔ منافقین نے اس کو رنگ دیئے اور پھیلایا۔ اس میں سب سے زیادہ رنج دہ یہ بات ہوئی کہ چند سیدھے سادے مسلمان بھی ان کی سازش سے متاثر ہو کر تہمت کے تذکرے کرنے لگے۔ اس بےاصل و بےدلیل ہوائی تہمت کی چند روز میں خود ہی حقیقت کھل جاتی مگر ام المومنین کو اور خود رسول اللہ ﷺ کو جو اس تہمت سے روحانی ایذا پہنچنی تھی حق تعالیٰ نے اس کے ازالہ اور صدیقہ کی برات کے لئے وحی الٰہی کے کسی اشارہ پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ قرآن کے تقریباً دو رکوع ان کی برات میں نازل فرمائے۔ اور جن لوگوں نے یہ تہمت گھڑی یا جن لوگوں نے اس کے تذکرے میں حصہ لیا ان سب پر عذاب دنیا و آخرت کی ایسی وعیدیں بیان فرمائیں کہ شاید اور کسی موقع پر ایسی وعیدیں نہیں آئیں۔
درحقیقت اس واقعہ افک نے حضرت صدیقہ عائشہ کی عفت و تقدس کے ساتھ ان کی اعلیٰ عقل و فہم کے کمالات کو بھی روشن کردیا۔ اسی لئے اس واقعہ میں جو آیات اوپر مذکور ہوئیں ان میں سے پہلی آیت میں حق تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس حادثہ کو اپنے لئے شر نہ سمجھو بلکہ یہ تمہارے لئے خیر ہے اس سے بڑی خیر کیا ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے دس آیات میں ان کی پاکی اور نزاہت کی شہادت دی جو قیامت تک تلاوت کی جائے گی۔ خود صدیقہ عائشہ فرماتی ہیں کہ مجھے اپنی جگہ یہ تو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی رسول اللہ ﷺ پر میری صفائی اور برات ظاہر فرما دیں گے مگر میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتی تھی کہ میرے معاملہ میں قرآن کی آیات نازل ہوجاویں گی جو ہمیشہ پڑھی جاویں گی۔ اس جگہ واقعہ کی کچھ مزید تفصیل جان لینا بھی آیات کے سمجھنے میں معین ہوگا اس لئے اس کو مختصراً لکھا جاتا ہے۔
اس سفر سے واپس آنے کے بعد حضرت صدیقہ اپنے گھریلو کاموں میں مشغول ہوگئیں ان کو کچھ خبر نہیں تھی کہ منافقین نے ان کے بارے میں کیا خبریں اڑائی ہیں۔ صحیح بخاری کی روایت میں خود حضرت صدیقہ کا بیان یہ ہے کہ سفر سے واپسی کے بعد کچھ میری طبیعت خراب ہوگئی اور سب سے بڑی وجہ طبیعت خراب ہونے کی یہ ہوگئی کہ میں رسول اللہ ﷺ کا وہ لطف کرم اپنے ساتھ نہ دیکھتی تھی جو ہمیشہ سے معمول تھا بلکہ اس عرصہ میں آپ کا معاملہ یہ رہا کہ گھر میں تشریف لاتے اور سلام کرتے پھر پوچھ لیتے کیا حال ہے اور واپس تشریف لے جاتے تھے۔ مجھے چونکہ اس کی کچھ خبر نہ تھی کہ میرے بارے میں کیا خبر مشہور کی جا رہی ہے اس لئے رسول اللہ ﷺ کے اس طرز عمل کا راز مجھ پر نہ کھلتا تھا۔ میں اسی غم میں گھلنے لگی۔ ایک روز اپنی کمزوری کی وجہ سے مسطح صحابی کی والدہ ام مسطح کو ساتھ لے کر میں نے قضاء حاجت کے لئے باہر جانے کا ارادہ کیا کیونکہ اس وقت گھروں میں بیت الخلاء بنانے کا رواج نہ تھا۔ جب میں قضاء حاجت سے فارغ ہو کر گھر کی طرف آنے لگی تو ام مسطح کا پاؤں ان کی بڑی چادر میں الجھا اور یہ گر پڑیں۔ اس وقت ان کی زبان سے یہ کلمہ نکلا تعس مسطح یہ ایسا کلمہ ہے جو عرب میں بددعا کے لئے استعمال ہوتا ہے اس میں ماں کی زبان سے اپنے بیٹے مسطح کے لئے بددعا کا کلمہ سن کر صدیقہ عائشہ کو تعجب ہوا۔ ان سے فرمایا کہ یہ بہت بری بات ہے تم ایک نیک آدمی کو برا کہتی ہو جو غزوہ بدر کا شریک تھا یعنی ان کا بیٹا مسطح، اس پر ام مسطح نے تعجب سے کہا کہ بیٹی کیا تم کو خبر نہیں کہ مسطح میرا بیٹا کیا کہتا پھرتا ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیا کہتا ہے تب ان کی والدہ نے مجھے یہ سارا واقعہ اہل افک کی چلائی ہوئی تہمت کا اور مسطح کا اس میں شریک ہونا بیان کیا۔ صدیقہ فرماتی ہیں کہ یہ سن کر میرا مرض دوگنا ہوگیا۔ جب میں گھر میں واپس آئی اور حسب معمول رسول اللہ ﷺ تشریف لائے سلام کیا اور مزاج پرسی فرمائی تو صدیقہ نے آنحضرت ﷺ سے اجازت طلب کی کہ اپنے والدین کے گھر چلی جاؤں آپ نے اجازت دیدی۔ منشاء یہ تھا کہ والدین سے اس معاملہ کی تحقیق کریں۔ میں نے جا کر والدہ سے پوچھا، انہوں نے تسلی دی کہ تم جیسی عورتوں کے دشمن ہوا کرتے ہیں اور ایسی چیزیں مشہور کیا کرتے ہیں تم اس کے غم میں نہ پڑو خود بخود معاملہ صاف ہوجاوے گا۔ میں نے کہا، سبحان اللہ ! لوگوں میں اس کا چرچا ہوچکا میں اس پر کیسے صبر کروں۔ میں ساری رات روتی رہی، نہ میرا آنسو تھما نہ آنکھ لگی۔ دوسری طرف رسول اللہ ﷺ نے جو اس خبر کے پھیلنے سے سخت غمگین تھے اور اس عرصہ میں اس معاملے کے متعلق کوئی وحی بھی آپ پر نہ آئی تھی اس لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ، اور اسامہ بن زید جو دونوں گھر کے ہی آدمی تھے ان سے مشورہ لیا کہ ایسی حالت میں مجھے کیا کرنا چاہئے۔ حضرت اسامہ بن زید نے تو کھل کر عرض کیا کہ جہاں تک ہمارا علم ہے ہمیں عائشہ کے بارے میں کوئی بدگمانی نہیں۔ ان کی کوئی بات ایسی نہیں جس سے بدگمانی کی راہ پیدا ہو۔ آپ ان افواہوں کی کچھ پرواہ نہ کریں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے (آپ کو غم و اضطراب سے بچانے کے لئے) یہ مشورہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کچھ تنگی نہیں فرمائی اگر افواہوں کی بناء پر عائشہ کی طرف سے کچھ تکدر طبعی ہوگیا ہے تو عورتیں اور بہت ہیں۔ اور آپ کا یہ تکدر اس طرح بھی رفع ہوسکتا ہے کہ بریرہ جو صدیقہ عائشہ کی کنیز ہیں ان سے ان کے حالات کی تحقیق فرما لیجئے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے بریرہ سے پوچھ گچھ فرمائی بریرہ نے عرض کیا کہ اور تو کوئی بات عیب کی مجھے ان میں نظر نہیں آئی بجز اس کے کہ نو عمر لڑکی ہیں بعض اوقات آٹا گوندھ کر رکھ دیتی ہیں خود سو جاتی ہیں بکری آ کر آٹا کھا جاتی ہے (اس کے بعد حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا خطبہ دینا اور برسر منبر تہمت گھڑنے والوں اور افواہ پھیلانے والوں کی شکایت کا ذکر فرمانا اور طویل قصہ مذکور ہے۔ آگے کا مختصر قصہ یہ ہے کہ) صدیقہ فرماتی ہیں کہ مجھے یہ سارا دن پھر دوسری رات بھی مسلسل روتے ہوئے گزری میرے والدین بھی میرے پاس آگئے تھے وہ ڈر رہے تھے کہ رونے سے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ میرے والدین میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور میرے پاس بیٹھ گئے اور جب سے یہ قصہ چلا تھا اس سے پہلے آپ میرے پاس آ کر نہ بیٹھے تھے پھر آپ نے ایک مختصر خطبہ شہادت پڑھا اور فرمایا اے عائشہ مجھے تمہارے بارے میں یہ باتیں پہنچی ہیں۔ اگر تم بری ہو تو ضرور اللہ تعالیٰ تمہیں بری کردیں گے (یعنی برات کا اظہار بذریعہ وحی فرما دیں گے) اور اگر تم سے کوئی لغزش ہوگئی ہے تو اللہ سے توبہ و استغفار کرو کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اعتراف کر کے توبہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتے ہیں۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنا کلام پورا فرما لیا تو میرے آنسو بالکل خشک ہوگئے، میری آنکھوں میں ایک قطرہ نہ رہا۔ میں نے اپنے والد ابوبکر صدیق سے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ کی بات کا جواب دیجئے۔ ابوبکر نے عذر کیا کہ میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ پھر میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ آپ جواب دیجئے انہوں نے بھی عذر کردیا کہ میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ اب مجبور ہو کر مجھے ہی بولنا پڑا، میں ایک کم عمر لڑکی تھی اب تک قرآن بھی زیادہ نہیں پڑھ سکی تھی۔ اس وقت اس رنج و غم اور انتہائی صدمہ کی حالت میں جبکہ اچھے اچھے عقلاء کو بھی کوئی معقول کلام کرنا آسان نہیں ہوتا حضرت صدیقہ نے جو کچھ فرمایا وہ ایک عجیب و غریب عاقلانہ فاضلانہ کلام ہے اس کے الفاظ بعینہ لکھے جاتے ہیں۔
واللہ لقد عرفت لقد سمعتم ھذا الحدیث حتی استقر فی انفسکم و صدقتم بہ ولئن قلت لکم انی بریئة واللہ یعلم اتی برئیة لا تصدقونی ولان اعترفت لکم بامر واللہ یعلم انی منہ برئیة لتصدقونی واللہ لا اجد لی ولکم مثلا الا کما قال ابو یوسف فصبر جمیل واللہ المستعان علی ماتصفون
" بخدا مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ آپ نے اس بات کو سنا اور سنتے ہی یہاں تک کہ آپ کے دل میں بیٹھ گئی اور آپ نے اس کی (عملاً تصدیق کردی۔ اب اگر میں یہ کہتی ہوں کہ میں اس سے بری ہوں جیسا کہ اللہ جانتا ہے کہ واقع میں بری ہوں تو آپ میری تصدیق نہ کریں گے اور اگر میں ایسے کام کا اعتراف کرلوں جس سے میرا بری ہونا اللہ تعالیٰ جانتا ہے تو آپ میری بات مان لیں گے۔ واللہ اب میں اپنے اور آپ کے معاملہ کی کوئی مثال بجز اس کے نہیں پاتی جو یوسف ؑ کے والد یعقوب ؑ نے اپنے بیٹوں کی غلط بات سن کر فرمائی تھی کہ میں صبر جمیل اختیار کرتا ہوں اور اللہ سے اس معاملہ میں مدد طلب کرتا ہوں جو تم بیان کر رہے ہو "۔
صدیقہ فرماتی ہیں کہ اتنی بات کر کے میں الگ اپنے بستر پر جا کر لیٹ گئی اور فرمایا کہ مجھے یقین تھا کہ جیسا کہ میں فی الواقع بری ہوں اللہ تعالیٰ میری برات کا اظہار بذریعہ وحی ضرور فرماویں گے۔ لیکن یہ وہم و خیال بھی نہ تھا کہ میرے معاملے میں قرآن کی آیات نازل ہوں گی جو ہمیشہ تلاوت کی جاویں گی کیونکہ میں اپنا مقام اس سے بہت کم محسوس کرتی تھی۔ ہاں یہ خیال تھا کہ غالباً آپ کو خواب میں میری برات ظاہر کردی جاوے گی۔ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی اس مجلس سے ابھی نہیں اٹھے تھے اور گھر والوں میں بھی کوئی نہیں اٹھا تھا کہ آپ پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو نزول وحی کے وقت ہوا کرتی تھی جس سے سخت سردی کے زمانے میں آپ کی پیشانی مبارک سے پسینہ پھوٹنے لگتا تھا جب یہ کیفیت رفع ہوئی تو رسول اللہ ﷺ ہنستے ہوئے اٹھے اور سب سے پہلا کلمہ جو فرمایا وہ یہ تھا ابشری یا عائشہ اما اللہ فقد ابراک یعنی اے عائشہ خوشخبری سنو اللہ تعالیٰ نے تو تمہیں بری کردیا۔ میری والدہ نے کہا کہ کھڑی ہوجاؤ اور آنحضرت ﷺ کے پاس حاضر ہو میں نے کہا کہ نہ میں اس معاملہ میں اللہ کے سوا کسی کا احسان مانتی ہوں نہ کھڑی ہوں گی میں اپنے رب کی شکر گزار ہوں کہ اسی نے مجھے بری فرمایا۔
حضرت صدیقہ کی چند خصوصیات
امام بغوی نے انہیں آیات کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ حضرت صدیقہ عائشہ کی چند خصوصیات ایسی ہیں جو ان کے علاوہ کسی دوسری عورت کو نصیب نہیں ہوئیں اور صدیقہ عائشہ بھی (بطور تحدیث بالنعمة) ان چیزوں کو فخر کے ساتھ بیان فرمایا کرتی تھیں۔ ایک یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے نکاح میں آنے سے پہلے جبرائیل امین ایک ریشمی کپڑے میں میری تصویر لے کر آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور فرمایا کہ یہ تمہاری زوجہ ہے (رواہ الترمذی عن عائشة) اور بعض روایات میں ہے کہ جبرئیل امین اپنی ہتھیلی میں یہ صورت لے کر تشریف لائے تھے۔
دوسری یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے سوا کسی کنواری لڑکی سے نکاح نہیں کیا۔ تیسری یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ان کی گود میں ہوئی۔ چوتھی یہ کہ بیت عائشہ ہی میں آپ مدفون ہوئے۔ پانچویں یہ کہ آپ پر اس وقت بھی وحی نازل ہوتی تھی جبکہ آپ حضرت صدیقہ کے ساتھ ایک لحاف میں ہوتے تھے دوسری کسی بی بی کو یہ خصوصیت حاصل نہ تھی۔ چھٹی یہ کہ آسمان سے ان کی برات نازل ہوئی۔ ساتویں یہ کہ وہ خلیفہ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی ہیں اور صدیقہ ہیں اور ان میں سے ہیں جن سے دنیا ہی میں مغفرت کا اور رزق کریم کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرما لیا ہے۔ (مظھری)
حضرت صدیقہ کی فقیہانہ اور عالمانہ تحقیقات اور فاضلانہ تقریر کو دیکھ کر حضرت موسیٰ بن طلحہ نے فرمایا کہ میں نے صدیقہ عائشہ سے زیادہ فصیح وبلیغ نہیں دیکھا۔ (رواہ الترمذی)
تفسیر قرطبی میں نقل کیا ہے کہ یوسف ؑ پر تہمت لگائی گئی تو اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹے بچے کو گویائی دے کر اس کی شہادت سے ان کی برات ظاہر فرمائی اور حضرت مریم (علیہا السلام) پر تہمت لگائی گئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے فرزند عیسیٰ ؑ کی شہادت سے ان کو بری کیا اور حضرت صدیقہ عائشہ پر تہمت لگائی گئی تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی دس آیات نازل کر کے ان کی برات کا اعلان کیا، جس نے ان کے فضل و عزت کو اور بڑھا دیا۔
آیات مذکورہ کی اجمالی تفسیر خلاصہ تفسیر کے عنوان میں آ چکی ہے اب آیات کے خاص خاص جملوں سے متعلق کچھ مباحث ہیں وہ دیکھئے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ جَاۗءُوْ بالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ ، افک کے اصلی لغوی معنے پلٹ دینے اور بدل دینے کے ہیں۔ بدترین قسم کا جھوٹ جو حق کو باطل سے اور باطل کو حق سے بدل دے پاکباز متقی کو فاسق، فاسق کو متقی پرہیزگار بنا دے اس جھوٹ کو بھی افک کہتے ہیں۔ عصبہ کے معنے جماعت کے ہیں جو دس سے چالیس تک ہو، اس سے کم و بیش کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے منکم سے مراد مومنین ہیں۔ اس تہمت کا اصل گھڑنے والا اگرچہ مسلمان نہیں بلکہ منافق عبداللہ ابن ابی تھا جو مومنین میں داخل نہیں مگر منافقین جو دعویٰ اسلام کا کرتے تھے ان پر بھی ظاہری احکام مومنین کے جاری ہوتے تھے اس لئے منکم کے لفظ میں اس کو بھی شامل کرلیا گیا۔ مسلمانوں میں سے دو مرد اور ایک عورت اس میں مبتلا ہوئے جن پر رسول اللہ ﷺ نے آیات نازل ہونے کے بعد حد قذف جاری فرمائی۔ کما مر سابقا۔ مگر مومنین سب تائب ہوگئے اور اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی ان میں سے حضرت حسان اور مسطح دونوں شرکائے بدر میں سے ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مغفرت کا اعلان فرما دیا ہے۔ اسی لئے حضرت صدیقہ عائشہ کے سامنے کوئی حضرت حسان کی برائی کرتا تو وہ پسند نہ کرتی تھیں اگرچہ یہ بھی ان دو مردوں میں شامل تھے جن پر حد قذف لگائی گئی تھی اور صدیقہ فرماتی تھیں کہ حسان نے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کفار کا شاعرانہ مقابلہ خوب کیا ہے اس لئے ان کو برا نہیں کہنا چاہئے۔ اور وہ جب صدیقہ عائشہ کے پاس حاضر ہوتے تو ان کو تعظیم تکریم کے ساتھ بٹھاتی تھیں۔ (مظہری وغیرہ)
لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ ، یہ خطاب نبی کریم ﷺ اور صدیقہ عائشہ اور صفوان اور تمام مومنین کو ہے جن کو اس افواہ کی اشاعت سے صدمہ پہنچا۔ اور معنے یہ ہیں کہ اس واقعہ کو آپ برا نہ سمجھیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں برات نازل فرما کر ان کا اعزاز اور بڑھا دیا اور جن لوگوں نے یہ حرکات کی تھیں ان کی وعید شدید نازل فرما دی جو قیامت تک محرابوں میں پڑھی جائے گی۔
لِكُلِّ امْرِۍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ ، یعنی جن لوگوں نے اس بہتان میں جتنا حصہ لیا اسی مقدار سے اس کا گناہ لکھا گیا ہے اور اسی تناسب سے اس کو عذاب ہوگا۔ جس نے یہ خبر گھڑی اور چلتی کی جس کا ذکر آگے آتا ہے وہ سب سے زیادہ عذاب کا مستحق ہے، جس نے خبر سن کر تائید کی وہ اس سے کم، جس نے سن کر سکوت کیا وہ اس سے کم۔
وَالَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ، لفظ کبر بکسر الکاف کے معنے بڑے کے ہیں مراد یہ ہے جس نے اس تہمت میں بڑا کام کیا یعنی اس کو گھڑا اور چلتا کیا اس کے بعد عذاب عظیم ہے مراد اس سے عبداللہ بن ابی منافق ہے (رواہ البغوی وغیرہ)
Top