Maarif-ul-Quran - An-Noor : 28
فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْهَاۤ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتّٰى یُؤْذَنَ لَكُمْ١ۚ وَ اِنْ قِیْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ
فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ تَجِدُوْا : تم نہ پاؤ فِيْهَآ : اس میں اَحَدًا : کسی کو فَلَا تَدْخُلُوْهَا : تو تم نہ داخل ہو اس میں حَتّٰى : یہانتک کہ يُؤْذَنَ : اجازت دی جائے لَكُم : تمہیں وَاِنْ : اور اگر قِيْلَ لَكُمُ : تمہیں کہا جائے ارْجِعُوْا : تم لوٹ جاؤ فَارْجِعُوْا : تو تم لوٹ جایا کرو هُوَ : یہی اَزْكٰى : زیادہ پاکیزہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : وہ جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْمٌ : جاننے والا
پھر اگر نہ پاؤ اس میں کسی کو تو اس میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ ملے تم کو اور اگر تم کو جواب ملے کہ پھر جاؤ تو پھر جاؤ اس میں خوب ستھرائی ہے تمہارے لئے اور اللہ جو تم کرتے ہو اس کو جانتا ہے
مسئلہ۔ اگر کسی شخص نے کسی شخص سے استیذان کیا اور اس نے جواب میں کہہ دیا کہ اس وقت ملاقات نہیں ہو سکتی لوٹ جایئے تو اس سے برا نہ ماننا چاہئے کیونکہ ہر شخص کے حالات اور اس کے مقتضیات مختلف ہوتے ہیں بعض وقت وہ مجبور ہوتا ہے باہر نہیں آسکتا نہ آپ کو اندر بلا سکتا ہے تو ایسی حالت میں اس کے عذر کو قبول کرنا چاہئے۔ آیت مذکورہ میں یہی ہدایت ہے وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ یعنی جب آپ سے کہا جائے کہ اس وقت لوٹ جائیں تو آپ کو خوشدلی سے لوٹ آنا چاہئے اس سے برا ماننا یا وہیں جم کر بیٹھ جانا دونوں چیزیں درست نہیں بعض حضرات سلف سے منقول ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ میں عمر بھر اس تمنا میں رہا کہ کسی کے پاس جا کر استیذان کروں اور وہ مجھے یہ جواب دے کر لوٹ جاؤ تو میں اس حکم قرآن کی تعمیل کا ثواب حاصل کروں مگر عجیب اتفاق ہے کہ مجھے کبھی یہ نعمت نصیب نہ ہوئی۔
مسئلہ۔ شریعت اسلام نے حسن معاشرت کے آداب سکھانے اور سب کو ایذاء و تکلیف سے بچانے کا دو طرفہ معتدل نظام قائم فرمایا ہے اس آیت میں جس طرح آنے والے کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اگر استیذان کرنے پر آپ کو اجازت نہ ملے اور کہا جائے کہ اس وقت لوٹ جاؤ تو کہنے والے کو معذور سمجھو اور خوشدلی کے ساتھ واپس لوٹ جاؤ برا نہ مانو اسی طرح ایک حدیث میں اس کا دوسرا رخ اس طرح آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان لزورک علیک حقا یعنی جو شخص آپ سے ملاقات کے لئے آئے اس کا بھی آپ پر حق ہے یعنی اس کا یہ حق ہے کہ اس کو اپنے پاس بلاؤ یا باہر آ کر اس سے ملو، اس کا اکرام کرو، بات سنو بلا کسی شدید مجبوری اور عذر کے ملاقات سے انکار نہ کرو۔
مسئلہ۔ اگر کسی کے دروازے پر جا کر استیذان کیا اور اندر سے کوئی جواب نہ آیا تو سنت یہ ہے کہ دوبارہ پھر استیذان کرے اور پھر بھی جواب نہ آوے تو تیسری مرتبہ کرے۔ اگر تیسری مرتبہ بھی جواب نہ آوے تو اس کا حکم وہی ہے جو ارجعوا کا ہے۔ یعنی لوٹ جانا چاہئے کیونکہ تین مرتبہ کہنے سے تقریباً یہ تو معتین ہوجاتا ہے کہ آواز سن لی مگر یا تو وہ شخص ایسی حالت میں ہے کہ جواب نہیں دے سکتا مثلاً نماز پڑھ رہا ہے یا بیت الخلاء میں ہے یا غسل کر رہا ہے اور یا پھر اس کو اس وقت ملنا منظور نہیں دونوں حالتوں میں وہیں جمے رہنا اور مسلسل دستک وغیر دیتے رہنا بھی موجب ایذا ہے جس سے بچنا واجب ہے اور استیذان کا اصل مقصد ہی ایذا سے بچنا ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اذا استاذن احدکم ثلاثاً فلم یوذن لہ فلیرجع یعنی جب کوئی آدمی تین مرتبہ استیذان کرے اور کوئی جواب نہ آوے تو اس کو لوٹ جانا چاہئے (ابن کثیر بحوالہ صحیح بخاری) اور مسند احمد میں حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ حضرت سعد بن عبادہ کے مکان پر تشریف لے گئے اور سنت کے مطابق باہر سے استیذان کے لئے سلام کیا السلام علیکم حضرت سعد بن عبادہ نے سلام کا جواب تو دیا مگر آہستہ کہ حضور نہ سنیں، آپ نے دوبارہ پھر سہ بارہ سلام کیا۔ حضرت سعد سنتے اور آہستہ جواب دیتے رہے تین مرتبہ ایسا کرنے کے بعد آپ لوٹ گئے جب سعد نے دیکھا کہ اب آواز نہیں آ رہی تو گھر سے نکل کر پیچھے دوڑے اور یہ عذر پیش کیا کہ یا رسول اللہ میں نے ہر مرتبہ آپ کی آواز سنی اور جواب بھی دیا مگر آہستہ دیا تاکہ زبان مبارک سے زیادہ سے زیادہ سلام کے الفاظ میرے بارے میں نکلیں وہ میرے لئے موجب برکت ہوگا (آپ نے ان کو طریقہ سنت بتلا دیا کہ تین مرتبہ جواب نہ آنے پر لوٹ جانا چاہئے) اس کے بعد حضرت سعد آنحضرت ﷺ کو اپنے گھر ساتھ لے گئے انہوں نے کچھ مہمانی کی آپ نے اس کو قبول فرمایا۔
حضرت سعد کا یہ عمل غلبہ عشق و محبت کا اثر تھا کہ اس وقت ذہن اس طرف نہ گیا کہ سردار دو عالم دروازے پر تشریف فرما ہیں مجھے فوراً جا کر ان کے قدم چوم لینے چاہئیں بلکہ ذہن اس طرف متوجہ ہوگیا کہ آپ کی زبان مبارک سے السلام علیکم جتنی مرتبہ زیادہ نکلے گا میرے لئے زیادہ مفید ہوگا۔ بہرحال اس سے یہ مسئلہ ثابت ہوگیا کہ تین مرتبہ استیذان کے بعد جواب نہ آوے تو سنت یہ ہے کہ لوٹ جائے وہیں جم کر بیٹھ جانا خلاف سنت اور مخاطب کے لئے موجب ایذا ہے کہ اس کو دباؤ ڈال کر نکلنے پر مجبور کرنا ہے۔
مسئلہ۔ یہ حکم اس وقت ہے جبکہ سلام یا دستک وغیرہ کے ذریعہ اجازت حاصل کرنے کی کوشش تین متربہ کرلی ہو کہ اب وہاں جم کر بیٹھ جانا موجب ایذا ہے لیکن اگر کوئی کسی عالم یا بزرگ کے دروازہ پر بغیر استیذان کئے ہوئے اور بغیر ان کو اطلاع دیئے ہوئے انتظار میں بیٹھ رہے کہ جب اپنی فرصت کے مطابق باہر تشریف لاویں گے تو ملاقات ہوجائے گی یہ اس میں داخل نہیں بلکہ عین ادب ہے خود قرآن کریم نے لوگوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب گھر میں ہوں تو ان کو آواز دے کر بلانا ادب کے خلاف ہے بلکہ لوگوں کو چاہئے کہ انتظار کریں جس وقت آپ اپنی ضرورت کے مطابق باہر تشریف لاویں اس وقت ملاقات کریں۔ آیت یہ ہے وَلَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ اور حضرت ابن عباس فرماتے ہیں میں بعض اوقات کسی انصاری صحابی کے دروازہ پر پورے دوپہر انتظار کرتا رہتا ہوں کہ جب وہ باہر تشریف لاویں تو ان سے کسی حد کی تحقیق کروں اور اگر میں ان سے ملنے کے لئے اجازت مانگتا تو وہ ضرور مجھے اجازت دیدیتے مگر میں اس کو خلاف ادب سمجھتا تھا اس لئے انتظار کی مشقت گوارا کرتا تھا۔ (صحیح بخاری)
Top