Maarif-ul-Quran - An-Noor : 29
لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ مَسْكُوْنَةٍ فِیْهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا تَكْتُمُوْنَ
لَيْسَ : نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : اگر تَدْخُلُوْا : تم داخل ہو بُيُوْتًا : ان گھروں میں غَيْرَ مَسْكُوْنَةٍ : جہاں کسی کی سکونت نہیں فِيْهَا : جن میں مَتَاعٌ : کوئی چیز لَّكُمْ : تمہاری وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تُبْدُوْنَ : جو تم ظاہر کرتے ہو وَمَا : اور جو تَكْتُمُوْنَ : تم چھپاتے ہو
نہیں گناہ تم پر اس میں کہ جاؤ ان گھروں میں جہاں کوئی نہیں بستا، اس میں کچھ چیز ہو تمہاری اور اللہ کو معلوم ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو۔
لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ مَسْكُوْنَةٍ فِيْهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ ، لفظ متاع کے لغوی معنی کسی چیز کے برتنے استعمال کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے ہیں اور جس چیز سے فائدہ اٹھایا جائے اس کو بھی متاع کہا جاتا ہے اس آیت میں متاع کے لغوی معنی ہی مراد ہیں جس کا ترجمہ برت سے کیا گیا ہے یعنی برتنے کا استحقاق، حضرت صدیق اکبر سے روایت ہے کہ جب استیذان کی آیات مذکورہ نازل ہوئیں جن میں بغیر اجازت کے کسی مکان میں داخل ہونے کی ممانعت ہے تو صدیق اکبر نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اس ممانعت کے بعد قریش کے تجارت پیشہ لوگ کیا کریں گے کیونکہ مکہ اور مدینہ سے ملک شام تک ان کے تجارتی سفر ہوتے ہیں اور اس راستہ میں جا بجا ان کے مسافر خانے بنے ہوتے ہیں جن میں دوران سفر وہ لوگ قیام کرتے ہیں ان میں کوئی مستقل رہنے والا نہیں ہوتا تو وہاں استیذان کی کیا صورت ہوگی اجازت کس سے حاصل کی جائے گی۔ اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی (رواہ ابن ابی حاتم، مظہری) اس شان نزول کے واقعہ سے معلوم ہوا کہ آیت میں بیوت غیر مسکونہ سے مراد وہ مکانات اور مقامات ہیں جو کسی خاص فرد یا قوم کے لئے خصوصی طور پر رہائش گاہ نہیں بلکہ افراد قوم کو عام اجازت وہاں جانے ٹھہرنے اور استعمال کرنے کی ہے جیسے وہ مسافر خانے جو شہروں اور جنگلوں میں اسی غرض کے لئے بنائے گئے ہوں اور باشتراک علت عام مسجدیں، خانقاہیں، دینی مدارس، ہسپتال، ڈاکخانہ، ریلوے اسٹیشن، ہوائی جہازوں کے مستقر اور قومی تفریحات کے لئے جو مکانات بنائے گئے ہوں غرض رفاہ عام کے سب ادارے اسی حکم میں ہیں کہ وہاں ہر شخص بلا اجازت جاسکتا ہے۔
مسئلہ۔ رفاہ عام کے اداروں میں جس مقام پر اس کے مالکان یا متولیان کی طرف سے داخلہ کے لئے کچھ شرائط اور پابندیاں ہوں اس کی پابندی شرعاً واجب ہے مثلاً ریلوے اسٹیشن پر اگر بغیر پلیٹ فارم کے جانے کی اجازت نہیں ہے تو پلیٹ فارم ٹکٹ حاصل کرنا ضروری ہے اس کی خلاف ورزی ناجائز ہے ایروڈرم (ہوائی اڈے) کے جس حصہ میں جانے کی محکمہ کی طرف سے اجازت نہ ہو وہاں بغیر اجازت کے جانا شرعاً جائز نہیں۔
مسئلہ۔ اسی طرح مساجد، مدارس، خانقاہوں، ہسپتالوں وغیرہ میں جو کمرے وہاں کے منتظمین یا دوسرے لوگوں کی رہائش کے لئے مخصوص ہوں جیسے مساجد، مدارس اور خانقاہوں کے خاص حجرے یا ریلوے، ایروڈروم اور ہسپتالوں کے دفاتر اور مخصوص کمرے جو مریضوں یا دوسروں لوگوں کی رہائش گاہ ہیں وہ بیوت غیر مسکونہ کے حکم میں نہیں، بلکہ مسکونہ کے حکم میں ہیں ان میں بغیر اجازت جانا شرعاً ممنوع اور گناہ ہے۔
استیذان سے متعلق چند دوسرے مسائل
جبکہ یہ معلوم ہوچکا کہ استیذان کے احکام شرعیہ کا اصل مقصد لوگوں کی ایذا رسانی سے بچنا اور حسن معاشرت کے آداب سکھانا ہے تو اشتراک علت سے مسائل ذیل کا حکم بھی معلوم ہوگیا۔
ٹیلیفون سے متعلق بعض مسائل
مسئلہ۔ کسی شخص کو ایسے وقت ٹیلیفون پر مخاطب کرنا جو عادة اس کے سونے یا دوسری ضروریات میں یا نماز میں مشغول ہونے کا وقت ہو بلا ضرورت شدیدہ جائز نہیں کیونکہ اس میں بھی وہی ایذا رسانی ہے جو کسی کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونے اور اس کی آزادی میں خلل ڈالنے سے ہوتی ہے۔
مسئلہ۔ جس شخص سے ٹیلیفون پر بات چیت اکثر کرنا ہو تو مناسب یہ ہے کہ اس سے دریافت کرلیا جائے کہ آپ کو ٹیلیفون پر بات کرنے میں کس وقت سہولت ہوتی ہے پھر اس کی پابندی کرے۔
مسئلہ۔ ٹیلیفون پر اگر کوئی طویل بات کرنا ہو تو پہلے مخاطب سے دریافت کرلیا جائے کہ آپ کو ذرا سی فرصت ہو تو میں اپنی بات عرض کروں کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ٹیلیفون کی گھنٹی آنے پر آدمی طبعاً مجبور ہوتا ہے کہ فوراً معلوم کرے کہ کون کیا کہنا چاہتا ہے اور اس ضرورت سے وہ کسی بھی حال میں اور اپنے ضروری کام میں ہو تو اس کو چھوڑ کر ٹییفون اٹھاتا ہے۔ کوئی بےرحم آدمی اس وقت لمبی بات کرنے لگے تو سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے۔
مسئلہ۔ بعض لوگ ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی رہتی ہے اور کوئی پروا نہیں کرتے نہ پوچھتے ہیں کہ کون ہے کیا کہنا چاہتا ہے یہ اسلامی اخلاق کے خلاف اور بات کرنے والے کی حق تلفی ہے جیسے حدیث میں آیا ہے ان لزورک علیک حقا یعنی جو شخص آپ کی ملاقات کو آئے اس کا تم پر حق ہے کہ اس سے بات کرو اور بلاضرورت ملاقات سے انکار نہ کرو اسی طرح جو آدمی ٹیلیفون پر آپ سے بات کرنا چاہتا ہے اس کا حق ہے کہ آپ اس کو جواب دیں۔
مسئلہ۔ کسی کے مکان پر ملاقات کے لئے جاؤ اور اجازت حاصل کرنے کے لئے کھڑے ہو تو گھر کے اندر نہ جھانکو کیونکہ استیذان کی مصلحت تو یہی ہے کہ دوسرا آدمی جو چیز آپ پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا آپ کو اس کی اطلاع نہ ہونی چاہئے اگر پہلے ہی گھر میں جھانک کر دیکھ لیا تو یہ مصلحت فوت ہوجاوے گی حدیث میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے (رواہ البخاری و مسلم عن سہل بن سعد الساعدی) رسول اللہ ﷺ کی عادت شریف یہ تھی کہ کسی کے پاس جاتے اور اجازت حاصل کرنے کے لئے کھڑے ہوتے تو دروازے کے بالمقابل کھڑے ہونے کے بجائے دائیں یا بائیں کھڑے ہو کر استیذان فرماتے تھے دروازہ کے بالمقابل کھڑے ہونے سے اس لئے اجتناب فرماتے کہ اول تو اس زمانے میں دروازے پر پردے بہت کم تھے اور پردہ بھی ہو تو ہوا سے کھل جانے کا احتمال بہرحال ہے۔ (مظہری)
مسئلہ۔ جن مکانوں میں داخل ہونا آیات مذکورہ میں بغیر اجازت کے ممنوع قرار دیا ہے یہ عام حالات میں ہے اگر اتفاقاً کوئی حادثہ آگ لگنے یا مکان منہدم ہونے کا پیش آجائے تو اجازت لئے بغیر اس میں جاسکتے ہیں اور امداد کے لئے جانا چاہئے۔ (مظہری)
مسئلہ۔ جس شخص کو کسی نے بلا کر بھیجا ہے اگر وہ اس کے قاصد کے ساتھ ہی آ گیا تو اب اس کو اجازت لینے کی ضرورت نہیں قاصد کا آنا ہی اجازت ہے۔ ہاں اگر اس وقت نہ آیا کچھ دیر کے بعد پہنچا تو اجازت لینا ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اذا دعی احدکم فجاء مع الرسول فان ذلک لہ اذن، یعنی جو آدمی بلایا جائے اور وہ قاصد کے ساتھ ہی آ جاوے تو یہی اس کے لئے اندر آنے کی اجازت ہے۔ (رواہ ابوداؤد مظہری)
Top