Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - An-Noor : 33
وَ لْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى یُغْنِیَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْهِمْ خَیْرًا١ۖۗ وَّ اٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ وَ لَا تُكْرِهُوْا فَتَیٰتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ مَنْ یُّكْرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَلْيَسْتَعْفِفِ
: اور چاہیے کہ بچے رہیں
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
لَا يَجِدُوْنَ
: نہیں پاتے
نِكَاحًا
: نکاح
حَتّٰى
: یہانتک کہ
يُغْنِيَهُمُ
: انہیں گنی کردے
اللّٰهُ
: اللہ
مِنْ فَضْلِهٖ
: اپنے فضل سے
وَالَّذِيْنَ
: اور جو لوگ
يَبْتَغُوْنَ
: چاہتے ہوں
الْكِتٰبَ
: مکاتبت
مِمَّا
: ان میں سے جو
مَلَكَتْ
: مالک ہوں
اَيْمَانُكُمْ
: تمہارے دائیں ہاتھ (غلام)
فَكَاتِبُوْهُمْ
: تو تم ان سے مکاتبت ( آزادی کی تحریر) کرلو
اِنْ عَلِمْتُمْ
: اگر تم جانو (پاؤ)
فِيْهِمْ
: ان میں
خَيْرًا
: بہتری
وَّاٰتُوْهُمْ
: اور تم ان کو دو
مِّنْ
: سے
مَّالِ اللّٰهِ
: اللہ کا مال
الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ
: جو اس نے تمہیں دیا
وَلَا تُكْرِهُوْا
: اور تم نہ مجبور کرو
فَتَيٰتِكُمْ
: اپنی کنیزیں
عَلَي الْبِغَآءِ
: بدکاری پر
اِنْ اَرَدْنَ
: اگر وہ چاہیں
تَحَصُّنًا
: پاکدامن رہنا
لِّتَبْتَغُوْا
: تاکہ تم حاصل کرلو
عَرَضَ
: سامان
الْحَيٰوةِ
: زندگی
الدُّنْيَا
: دنیا
وَمَنْ
: اور جو
يُّكْرِھْهُّنَّ
: انہیوں مجبور کرے گا
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
مِنْۢ بَعْدِ
: بعد
اِكْرَاهِهِنَّ
: ان کے مجبوری
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: نہایت مہربان
اور اپنے آپ کو تھامتے رہیں جن کو نہیں ملتا سامان نکاح کا جب تک کہ مقدور دے ان کو اللہ اپنے فضل سے اور جو لوگ چاہیں لکھت آزادی کی مال دے کر ان میں سے کہ جو تمہارے ہاتھ کے مال ہیں تو ان کو لکھ کر دے دو اگر سمجھو ان میں کچھ نیکی اور دو ان کو اللہ کے مال سے جو اس نے تم کو دیا ہے اور نہ زبردستی کرو اپنی چھوکریوں پر بدکاری کے واسطے اگر وہ چاہیں قید سے رہنا کہ تم کمانا چاہو اسباب دنیا کی زندگانی کا اور جو کوئی ان پر زبردستی کرے گا تو اللہ ان کی بےبسی کے پیچھے بخشنے والا مہربان ہے۔
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى يُغْنِيَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ یعنی جو لوگ مال و اسباب کے لحاظ سے نکاح پر قدرت نہیں رکھتے اور نکاح کرنے میں یہ خطرہ ہے کہ بیوی کے حقوق ادا نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوجائیں گے ان کو چاہئے کہ عفت اور صبر کے ساتھ اس کا انتظار کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے اور اس صبر کے لئے ایک تدبیر بھی حدیث میں یہ بتلا دی گئی ہے کہ کثرت سے روزے رکھا کریں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو اتنے مالی وسائل عطا فرمائیں گے جن سے نکاح پر قدرت ہوجائے۔
خلاصہ تفسیر
اور تمہارے مملوکوں میں سے (غلام ہوں یا لونڈیاں) جو مکاتب ہونے کے خواہاں ہوں تو (بہتر ہے کہ) ان کو مکاتب بنادیا کرو اگر ان میں بہتری (کے آثار) پاؤ اور اللہ کے (دیئے ہوئے) اس مال میں سے ان کو بھی دو جو اللہ نے تم کو دے رکھا ہے (تاکہ جلدی آزاد ہو سکیں) اور اپنی (مملوکہ) لونڈیوں کو زنا کرنے پر مجبور نہ کرو (بالخصوص) جب وہ پاکدامن رہنا چاہیں (اور تمہاری یہ ذلیل حرکت) محض اس لئے کہ دنیوی زندگی کا کچھ فائدہ (یعنی مال) تم کو حاصل ہوجائے اور جو شخص ان کو مجبور کرے گا (اور وہ بچنا چاہیں گی) تو اللہ تعالیٰ ان کے مجبور کئے جانے کے بعد (ان کے لئے) بخشنے والا مہربان ہے۔
معارف و مسائل
پچھلی آیت میں مملوک غلاموں اور لونڈیوں کو اگر نکاح کرنے کی ضرورت ہو تو آقاؤں کو ہدایت کی گئی تھی کہ ان کو نکاح کی اجازت دیدینا چاہئے اپنی مصلحت کے لئے ان کے طبعی مصالح کو مؤ خر نہ کریں یہ ان کے لئے فاضل اور بہتر ہے۔ خلاصہ اس ہدایت کا اپنے مملوک غلاموں لونڈیوں کے ساتھ حسن معاملہ اور ان کو تکلیف سے بچانا ہے اس کی مناسبت سے آیت مذکورہ میں ایک دوسری ہدایت ان کے آقاؤں کے لئے یہ دی گئی ہے کہ اگر یہ مملوک غلام یا لونڈی آقاؤں سے معاملہ مکاتبت کا کرنا چاہیں تو ان کی اس خواہش کو پورا کردینا بھی آقاؤں کے لئے افضل اور مستحب موجب ثواب ہے۔ صاحب ہدایہ اور عامہ فقہاء نے اس حکم کو حکم استحباب ہی قرار دیا ہے یعنی آقا کے ذمہ واجب تو نہیں کہ اپنے مملوک کو مکاتب بنا دے لیکن مستحب اور افضل ہے اور معاملہ مکاتبت کی صورت یہ ہے کہ کوئی مملوک اپنے آقا سے کہے کہ آپ مجھ پر کچھ رقم مقرر کردیں کہ وہ رقم میں اپنی محنت و کسب سے حاصل کر کے آپ کو ادا کر دوں تو میں آزاد ہوجاؤں اور آقا اس کو قبول کرے، یا معاملہ برعکس ہو کہ آقا چاہے کہ اس کا غلام کچھ معینہ رقم اس کو دیدے تو آزاد ہوجائے اور غلام اس کو قبول کرے۔ اگر آقا اور مملوک کے درمیان ایجاب و قبول کے ذریعہ یہ معاملہ مکاتبت کا طے ہوجاتا ہے تو وہ شرعاً لازم ہوجاتا ہے آقا کو اس کے فسخ کرنے کا اختیار نہیں رہتا جس وقت بھی غلام معینہ رقم کما کر اس کو دیدے گا خود بخود آزاد ہوجائے گا۔
یہ رقم جو بدل کتابت کہلاتی ہیں شریعت نے اس کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی خواہ غلام کی قیمت کے برابر ہو یا اس سے کم یا زیادہ جس پر فریقین میں بات طے ہوجائے وہ بدل کتابت ٹھہرے گا۔ اپنے مملوک غلام یا لونڈی کو مکاتب بنا دینے کی ہدایت اور اس کو مستحب اور افضل قرار دینا شریعت اسلام کے ان ہی احکام میں سے ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت اسلام کا مقتضی یہ ہے کہ جو لوگ شرعی حیثیت سے غلام ہیں ان کی آزادی کے زیادہ سے زیادہ راستے کھولے جائیں۔ تمام کفارات میں ان کے آزاد کرنے کے احکام دیئے گئے ہیں۔ ویسے بھی غلام آزاد کرنے میں بہت بڑے ثواب کا وعدہ ہے مکاتبت کا معاملہ بھی اسی کا ایک راستہ ہے اس لئے اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ البتہ اس کے ساتھ شرط یہ لگائی گئی کہ اِنْ عَلِمْتُمْ فِيْهِمْ خَيْرًا یعنی مکاتب بنانا جب درست ہوگا جبکہ تم ان میں بہتری کے آثار دیکھو۔ حضرت عبداللہ بن عمر اور اکثر حضرات ائمہ نے اس بہتری سے مراد قوت کسب بتلائی ہے یعنی جس شخص میں یہ دیکھو کہ اگر اس کو مکاتب بنادیا تو کما کر معینہ رقم جمع کرلے گا اس کو مکاتب بناؤ ورنہ جو اس قابل نہ ہو اس کو مکاتب بنا دینے سے غلام کی محنت بھی ضائع ہوگی آقا کا نقصان بھی ہوگا اور صاحب ہدایہ نے فرمایا کہ خیر اور بہتری سے مراد اس جگہ یہ ہے کہ اس کے آزاد ہونے سے مسلمانوں کو کسی نقصان کے پہنچنے کا خطرہ نہ ہو مثلاً یہ کہ وہ کافر ہو اور اپنے کافر بھائیوں کی مدد کرتا ہو اور صحیح بات یہ ہے کہ لفظ خیر اس جگہ دونوں چیزوں پر حاوی ہے کہ غلام میں قوت کسب بھی ہو اور اس کی آزادی سے مسلمانوں کو کوئی خطرہ بھی نہ ہو۔ (مظہری)
وَّاٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّال اللّٰهِ الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ ، یعنی بخشش کرو ان پر اس مال میں سے جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔ یہ خطاب مسلمانوں کو عموماً اور آقاؤں کو خصوصاً کیا گیا ہے کہ جب اس غلام کی آزادی ایک معینہ رقم جمع کر کے آقا کو دینے پر موقوف ہے تو مسلمانوں کو چاہئے کہ اس میں اس کی مدد کریں زکوة کا مال بھی ان کو دے سکتے ہیں اور آقاؤں کو اس کی ترغیب ہے کہ خود بھی ان کی مالی امداد کریں یا بدل کتابت میں سے کچھ کردیں۔ صحابہ کرام کا معمول اسی لئے یہ رہا ہے کہ بدل کتابت میں جو رقم اس پر لگائی جاتی تھی اس میں سے تہائی چوتھائی یا اس سے کم حسب استطاعت کم کردیا کرتے تھے۔ (مظہری)
فن معاشیات کا ایک اہم مسئلہ اور اس میں قرآنی فیصلہ
آج کل دنیا میں مادہ پرستی کا دور دورہ ہے۔ ساری دنیا معاد و آخرت کو بھلا کر صرف معاش کے جال میں پھنس گئی ہے ان کی علمی تحقیقات اور غور و فکر کا دائرہ صرف معاشیات ہی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے اور اس میں بحث و تحقیق کے زور نے ایک ایک معمولی مسئلہ کو ایک مستقل فن بنادیا ہے۔ ان فنون میں سب سے بڑا فن معاشیات کا ہے۔
اس معاملہ میں آج کل عقلاء دنیا کے دو نظریئے زیادہ معروف و مشہور ہیں اور دونوں ہی باہم متصادم ہیں ان کے تصادم نے اقوام دنیا میں تصادم اور جنگ وجدال کے ایسے دروازے کھول دیئے ہیں کہ ساری دنیا امن و اطمینان سے محروم ہوگئی۔
ایک نظام سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کو اصطلاح میں کیپٹل ازم کہا جاتا ہے۔ دوسرا نظام اشتراکیت کا ہے جس کو کمیونزم یا سوشل ازم کہا جاتا ہے۔ اتنی بات تو مشاہدہ کی ہے جس کا دونوں نظاموں میں سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اس دنیا میں انسان اپنی محنت اور کوشش سے جو کچھ کماتا اور پیدا کرتا ہے اس سب کی اصل بنیاد قدرتی وسائل پیداوار زمین، پانی اور معاون میں پیدا ہونے والی قدرتی اشیاء پر ہے۔ انسان اپنے غور و فکر اور محنت و مشقت کے ذریعہ انہیں وسائل پیداوار میں جوڑ توڑ اور تحلیل و ترکیب کے ذریعہ اپنی ضرورت کی لاکھوں اشیاء پیدا کرتا اور بناتا ہے۔ عقل کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ دونوں نظام پہلے یہ سوچتے کہ یہ قدرتی وسائل خود تو پیدا نہیں ہوگئے ان کا کوئی پیدا کرنے والا ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان کا اصل مالک بھی وہی ہوگا جو ان کا پیدا کرنے والا ہے۔ ہم ان وسائل پر قبضہ کرنے اور ان کے مالک بننے یا اسعتمال کرنے میں آزاد نہیں بلکہ اصل مالک و خالق نے اگر کچھ ہدایات دی ہیں تو ان کے تابع چلنا ہمارا فرض ہے۔ مگر مادہ پرستی کے جنون نے ان سبھی کو اصل خالق ومالک کے تصور ہی سے غافل کردیا۔ ان کے نزدیک اب بحث صرف یہ رہ گئی کہ وسائل پیداوار پر قبضہ کر کے ان سے ضروریات زندگی پیدا کرنے والا ان سب چیزوں کا خود بخود آزاد مالک و مختار ہوجاتا ہے، یا یہ سب چیزیں وقف عام اور مشترک ہیں ہر ایک کو ان سے نفع اٹھانے کا یکساں حق حاصل ہے ؟
پہلا نظریہ سرمایہ دارانہ نظام کا ہے جو انسان کو ان چیزوں پر آزاد ملکیت کا حق دیتا ہے کہ جس طرح چاہے اس کو حاصل کرے اور جہاں چاہے اس کو خرچ کرے اس میں اس پر کوئی روک ٹوک برداشت نہیں۔ یہی نظریہ قدیم زمانے کے مشرکین و کفار کا تھا جنہوں نے حضرت شعیب ؑ پر یہ اعتراض کیا تھا کہ یہ مال ہمارے ہیں ہم ان کے مالک ہیں آپ کو کیا حق ہے کہ ہم پر پابندی لگائیں کہ فلاں کام میں خرچ کرنا جائز اور فلاں میں حرام ہے۔ آیت قرآن اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِيْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰۗؤ ُ ا کا یہی مطلب ہے۔ اور دوسرا نظریہ اشتراکیت کا ہے جو کسی کو کسی چیز پر ملکیت کا حق نہیں دیتا بلکہ ہر چیز کو تمام انسانوں میں مشترک اور سب کو اس سے فائدہ اٹھانے کا یکساں حقدار قرار دیتا ہے اور اصل نظریہ اشتراکیت کی بنیاد یہی ہے۔ مگر پھر جب دیکھا کہ یہ ناقابل عمل تصور ہے اس پر کوئی نظام نہیں چلایا جاسکتا تو پھر کچھ اشیاء کو ملکیت کے لئے مستثنی بھی کردیا ہے۔
قرآن کریم نے ان دونوں بیہودہ نظریوں پر رد کر کے اصول یہ بنایا کہ کائنات کی ہر چیز دراصل اللہ تعالیٰ کی ملک ہے جو ان کا خالق ہے۔ پھر اس نے اپنے فضل و کرم سے انسان کو ایک خاص قانون کے تحت ملکیت عطا فرمائی ہے جن چیزوں کا اس قانون کی رو سے وہ مالک بنادیا گیا ہے اس میں دوسروں کے تصرف کو بغیر اس کی اجازت کے حرام قرار دیا مگر مالک بننے کے بعد بھی اس کو آزاد ملکیت نہیں دی کہ جس طرح چاہے کمائے اور جس طرح چاہے خرچ کرے بلکہ دونوں طرف ایک عادلانہ اور حکیمانہ قانون رکھا ہے کہ فلاں طریقہ کمانے کا حلال ہے فلاں حرام اور فلاں جگہ خرچ کرنا حلال ہے اور فلاں حرام اور یہ کہ جو چیز اس کی ملکیت میں دی ہے اس میں کچھ اور لوگوں کے حقوق بھی لگا دیئے ہیں جن کو ادا کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔
آیت مذکورہ اگرچہ ایک اور مضمون کے لئے آئی ہے مگر اس کے ضمن میں اسی اہم معاشی مسئلہ کے چند اصول بھی آگئے ہیں، الفاظ آیت پر نظر کیجئے وَّاٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّال اللّٰهِ الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ یعنی دو ان حاجتمند لوگوں کو اللہ کے اس مال میں سے جو اللہ نے تمہیں دے دیا ہے اس میں تین باتیں ثابت ہوئیں۔ اول یہ کہ اصل مالک مال اور ہر چیز کا اللہ تعالیٰ ہے دوسرے یہ کہ اسی نے اپنے فضل سے اس کے ایک حصہ کا تمہیں مالک بنادیا ہے تیسرے یہ کہ جس چیز کا تم کو مالک بنایا ہے اس پر کچھ پابندیاں بھی اس نے لگائی ہیں بعض چیزوں میں خرچ کرنے کو ممنوع قرار دیا اور بعض چیزوں میں خرچ کرنے کو لازم و واجب اور بعض میں مستحب اور افضل قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم
دوسرا حکم اس آیت میں ایک جاہلیت کی رسم مٹانے اور زنا و فواحش کے انسداد کے لئے یہ دیا گیا ہے وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ یعنی اپنی لونڈیوں کو اس پر مجبور نہ کرو کہ وہ زنا کاری کے ذریعہ مال کما کر تمہیں دیا کریں۔ جاہلیت میں بہت سے لوگ لونڈیوں کو اسی کام کے لئے استعمال کرتے تھے۔ اسلام نے جب زنا پر سخت سزائیں جاری کیں، آزاد اور غلام سب کو اس کا پابند کیا تو ضروری تھا کہ جاہلیت کی اس رسم کو مٹانے کے لئے خاص احکام دے۔
اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا، یعنی جبکہ وہ لونڈیاں زنا سے بچنے اور پاکدامن رہنے کا ارادہ کریں تو تمہارا ان کو مجبور کرنا بڑی بےحیائی اور بےغیرتی کی بات ہے۔ یہ الفاظ اگرچہ بصورت شرط آئے ہیں مگر باجماع امت درحقیقت مراد ان سے شرط نہیں کہ لونڈیاں زنا سے بچنا چاہیں تو ان کو زنا پر مجبور نہ کیا جائے ورنہ مجبور کرنا جائز ہے بلکہ بتلانا یہ ہے کہ عام عرف و عادت کے اعتبار سے لونڈیوں میں حیا اور پاکدامنی زمانہ جاہلیت میں نابود تھی۔ اسلام کے احکام کے بعد انہوں نے توبہ کی۔ ان کے آقاؤں نے مجبور کرنا چاہا تو اس پر یہ احکام آئے کہ جب وہ زنا سے بچنا چاہتی ہیں تو تم مجبور نہ کرو۔ اس میں ان کے آقاؤں کو زجر و تنبیہ اور تشنیع کرنا ہے کہ بڑی بےغیرتی اور بےحیائی کی بات ہے کہ لونڈیاں تو پاک رہنے کا ارادہ کریں اور تم انہیں زنا پر مجبور کرو۔
فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ، اس جملہ کا حاصل یہ ہے کہ لونڈیوں کو زنا پر مجبور کرنا حرام ہے۔ اگر کسی نے ایسا کیا اور وہ آقا کے جبر واکراہ سے مغلوب ہو کر زنا میں مبتلا ہوگئی تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو معاف فرما دیں گے اور اس کا سارا گناہ مجبور کرنے والے پر ہوگا۔ (مظہری) واللہ اعلم
Top