Maarif-ul-Quran - An-Noor : 34
وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ وَّ مَثَلًا مِّنَ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَ۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور تحقیق اَنْزَلْنَآ : ہم نے نازل کیے اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف اٰيٰتٍ : احکام مُّبَيِّنٰتٍ : واضح وَّ مَثَلًا : اور مثالیں مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو خَلَوْا : گزرے مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَمَوْعِظَةً : اور نصیحت لِّلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور ہم نے اتاریں تمہاری طرف آیتیں کھلی ہوئی اور کچھ حال ان کا جو ہوچکے تم سے پہلے اور نصیحت ڈرنے والوں کو
خلاصہ تفسیر
اور ہم نے (تم لوگوں کی ہدایت کے واسطے اس سورت میں یا قرآن میں رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ سے) تمہارے پاس کھلے کھلے احکام (علمیہ و عملیہ) بھیجے ہیں اور جو لوگ تم سے پہلے گزرے ہیں ان کی (یا ان جیسے لوگوں کی) بعض حکایات اور (خدا سے) ڈرنے والوں کے لئے نصیحت کی باتیں (بھیجی ہیں) اللہ تعالیٰ نور (ہدایت) دینے والا ہے آسمانوں (میں رہنے والوں) کا اور زمین (میں رہنے والوں) کا (یعنی اہل آسمان و زمین میں جن کو ہدایت ہوئی ہے ان سب کو اللہ ہی نے ہدایت دی ہے اور مراد آسمان و زمین سے کل عالم ہے پس جو مخلوقات آسمان و زمین سے باہر ہے وہ بھی داخل ہوگئی جیسے حاملان عرش) اس کے نور (ہدایت) کی حالت عجیبہ ایسی ہے جیسے (فرض کرو) ایک طاق ہے (اور) اس میں ایک چراغ (رکھا) ہے (اور) وہ چراغ (خود طاق میں نہیں رکھا بلکہ) ایک قندیل میں ہے (اور قندیل طاق میں رکھا ہے اور) وہ قندیل ایسا (صاف شفاف ہے جیسا کہ ایک چمکدار ستارہ ہو (اور) وہ چراغ ایک نہایت مفید درخت (کے تیل) سے روشن کیا جاتا ہے جو زیتون (کا درخت) ہے جو (کسی آڑ کے) نہ پورب رخ ہے اور نہ (کسی آڑ کے) پچھم رخ ہے۔ (یعنی نہ اس کی جانب مشرقی میں کسی درخت یا پہاڑ کی آڑ ہے کہ شروع دن میں اس پر دھوپ نہ پڑے اور نہ اس کی جانب غربی میں کوئی آڑ پہاڑ ہے کہ آخر دن میں اس پر دھوپ نہ پڑے بلکہ کھلے میدان میں ہے جہاں تمام دن دھوپ رہتی ہے ایسے درخت کا روغن بہت لطیف اور صاف اور روشن ہوتا ہے اور) اس کا تیل (اس قدر صاف اور سلگنے والا ہے کہ) اگر اس کو آگ بھی نہ چھوئے تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خود بخود جل اٹھے گا (اور جب آگ بھی لگ گئی تب تو) نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ ہے (یعنی ایک تو اس میں خود قابلیت نور کی اعلی درجہ کی تھی پھر اوپر سے فاعل یعنی آگ کے ساتھ اجتماع ہوگیا اور پھر اجتماع بھی ان کیفیات کے ساتھ کہ چراغ قندیل میں رکھا ہو جس سے بالمشاہدہ چمک بڑھ جاتی ہے اور پھر وہ ایسے طاق میں رکھا ہو جو ایک طرف سے بند ہو ایسے موقع پر شعاعیں ایک جگہ سمٹ کر بہت تیز روشنی ہوتی ہے اور پھر تیل بھی زیتون کا جو صاف روشنی اور دھواں کم ہونے میں مشہور ہے تو اس قدر تیز روشنی ہوگی جیسے بہت سی روشنیاں جمع ہوگئی ہوں اس کو نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ فرمایا۔ یہاں مثال ختم ہوگئی پس اسی طرح مومن کے قلب میں اللہ تعالیٰ جب نور ہدایت ڈالتا ہے تو روز بروز اسی کا انشراح قبول حق کے لئے بڑھتا چلا جاتا ہے اور ہر وقت احکام پر عمل کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ گو بالفعل بعض احکام کا علم بھی نہ ہوا ہو کیونکہ علم تدریجاً حاصل ہوتا ہے جیسے وہ روغن زیتون آگ لگنے سے پہلے ہی روشنی کے لئے مستعد تھا، مومن بھی علم احکام سے پہلے ہی ان پر عمل کے لئے مستعد ہوتا ہے اور جب اس کو علم حاصل ہوتا ہے تو نور عمل یعنی عمل کے پختہ ارادہ کے ساتھ نور علم بھی مل جاتا ہے جس سے وہ فوراً ہی قبول کرلیتا ہے پس عمل و علم جمع ہو کر نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ صادق آجاتا ہے اور یہ نہیں ہوتا کہ علم احکام کے بعد اس کو کچھ تامل و تردد ہو کہ اگر موافق نفس کے پایا تو قبول کرلیا ورنہ رد کردیا۔ اسی انشراح اور نور کو دوسری آیت میں اس طرح بیان فرمایا ہے۔ اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰي نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ یعنی جس شخص کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا تو وہ اپنے رب کی طرف سے ایک نور پر ہوتا ہے اور ایک جگہ فرمایا فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهدِيَهٗ يَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ۔ غرض نور ہدایت الہیہ کی یہ مثال ہے اور) اللہ تعالیٰ اپنے (اس) نور (ہدایت) تک جس کو چاہتا ہے راہ دیتا ہے (اور پہنچا دیتا ہے) اور (ہدایت کی جو یہ مثال دی گئی اسی طرح قرآن میں بہت سی مثالیں بیان کی گئی ہیں تو اس سے بھی لوگوں کی ہدایت ہی مقصود ہے اس لئے) اللہ تعالیٰ لوگوں (کی ہدایت) کے لئے (یہ مثالیں بیان فرماتا ہے (تاکہ مضامین عقلیہ محسوس چیزوں کی طرح قریب الی الفہم ہوجاویں) اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے (اس لئے جو مثال افادہ مقصود کے لئے کافی ہو اور جس میں اغراض مثال کے پورے مرعی ہوں اسی کو اختیار کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ مثالیں بیان کرتا ہے اور وہ مثال نہایت مناسب ہوتی ہے تاکہ خوب ہدایت ہو۔ آگے اہل ہدایت کا حال بیان فرماتے ہیں کہ) وہ ایسے گھروں میں (جاکر عبادت کرتے) ہیں جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان کا ادب کیا جاوے اور ان میں اللہ کا نام لیا جاوے (مراد ان گھروں سے مسجدیں ہیں اور ان کا ادب یہ کہ ان میں جنب و حائض داخل نہ ہوں اور ان میں کوئی نجس چیز داخل نہ کی جاوے۔ وہاں غل نہ مچایا جاوے۔ دنیا کے کام اور باتیں کرنے کے لئے وہاں نہ بیٹھیں۔ بدبو کی چیز کھا کر ان میں نہ جاویں وغیرہ ذلک، غرض) ان (مسجدوں) میں ایسے لوگ صبح و شام اللہ کی پاکی (نمازوں میں) بیان کرتے ہیں جن کو اللہ کی یاد (یعنی بجا آوری احکام) سے (جس وقت کے متعلق جو حکم ہو) اور (بالخصوص) نماز پڑھنے سے اور زکوة دینے سے (کہ یہ احکام فرعیہ میں سب سے اہم ہیں) نہ خرید غفلت میں ڈالنے پاتی ہے اور نہ فروخت (اور باوجود اطاعت و عبادت کے ان کی خشیت کا یہ حال ہے کہ) وہ ایسے دن (کی دارو گیر) سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں بہت سے دل اور آنکھیں الٹ جاویں گی (جیسا دوسری آیت میں ہے يُؤ ْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ یعنی یہ لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور اس کے باوجود ان کے دل قیامت کی باز پرس سے ڈرتے رہتے ہیں اور مقصود اس سے اہل نور ہدایت کے اوصاف و اعمال کا بیان فرمانا ہے اور آگے ان کے انجام کا ذکر ہے کہ) انجام (ان لوگوں کا) یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اعمال کا بہت ہی اچھا بدلہ دے گا (یعنی جنت) اور (علاوہ جزا کے) ان کو اپنے فضل سے اور بھی زیادہ دے گا (جزا وہ جس کا وعد مفصل مذکور ہے اور زیادہ وہ جس کا مفصل وعدہ نہیں گو مجمل عنوانوں سے ہوا ہو۔) اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بیشمار (یعنی بہت کثرت سے) دے دیتا ہے (پس ان لوگوں کو جنت میں اسی طرح بیشمار دے گا۔ یہاں تک تو ہدایت اور اہل ہدایت کا بیان تھا آگے ضلالت اور اہل ضلالت کا ذکر ہے یعنی) اور جو لوگ کافر (اور اہل ضلال اور نور ہدایت سے دور) ہیں ان کے اعمال (بوجہ کافروں کی دو قسمیں ہونے کے دو مثالوں کے مشابہ ہیں کیونکہ ایک قسم تو وہ کفار ہیں جو آخرت اور قیامت کے قائل ہیں اور اپنے بعض اعمال پر یعنی جو ان کے گمان کے مطابق کار ثواب اور حسنات ہیں توقع جزائے آخرت کی رکھتے ہیں اور دوسری قسم وہ کفار ہیں جو آخرت اور قیامت کے منکر ہیں۔ قسم اول کفار کے اعمال تو) ایسے ہیں جیسے ایک چٹیل میدان میں چمکتا ہوا ریت کہ پیاسا (آدمی) اس کو (دور سے) پانی خیال کرتا ہے (اور اس کی طرف دڑوتا ہے) یہاں تک کہ جب اس کے پاس آیا تو اس کو (جو سمجھ رکھا تھا) کچھ بھی نہ پایا اور (غایت پیاس، پھر نہایت یاس سے جو جسمانی اور روحانی صدمہ پہنچا اور اس سے تڑپ تڑپ کر مرگیا تو یوں کہنا چاہئے کہ بجائے پانی کے) قضاء الٰہی یعنی موت کو پایا سو اللہ تعالیٰ نے اس (کی عمر) کا حساب اس کو برابر سرابر چکا دیا (اور بیباق کردیا یعنی عمر کا خاتمہ کردیا) اور اللہ تعالیٰ (جس چیز کی میعاد آجاتی ہے اس کا) دم بھر میں حساب (فیصل) کردیتا ہے (اس کو کچھ بکھیڑا نہیں کرنا پڑتا کہ دیر لگے اور میعاد سے کچھ بھی توقف ہوجاوے بس یہ مضمون ایسا ہے جیسا دوسری جگہ ارشاد ہے اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَاۗءَ لَا يُؤ َخَّرُ وقولہ وَلَنْ يُّؤ َخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَاۗءَ اَجَلُهَا حاصل اس مثال کا یہ ہوا کہ جیسے پیاسا ریت کو ظاہری چمک سے پانی سمجھا اسی طرح یہ کافر اپنے اعمال کو ظاہری صورت سے مقبول اور مثمر نافع آخرت سمجھا اور جیسا وہ پانی نہیں اسی طرح یہ اعمال شرط قبول یعنی ایمان نہ ہونے کے سبب مقبول اور نافع نہیں ہیں اور جب وہاں جا کر اس پیاسے کو حقیقت معلوم ہوئی اسی طرح اس کو آخرت میں پہنچ کر حقیقت معلوم ہوگی اور جس طرح یہ پیاسا اپنی توقع کے غلط ہونے سے حسرت و افسوس میں خائب ہو کر مر گیا اسی طرح یہ کافر بھی اپنی توقع کے غلط ہونے پر اس وقت حسرت میں اور ہلاکت ابدی یعنی عقاب جہنم میں مبتلا ہوگا۔ ایک قسم کی مثال تو یہ ہوئی۔ آگے دوسری قسم کے کافروں کے اعمال کی مثال ہے یعنی) یا وہ (اعمال باعتبار خصوصیت منکرین قیامت کے) ایسے ہیں جیسے بڑے گہرے سمندر کے اندرونی اندھیرے (جن کا ایک سبب دریا کی گہرائی ہے اور پھر یہ) کہ اس (سمندر کے اصلی سطح) کو ایک بڑی موج نے ڈھانک لیا ہو (پھر وہ موج بھی اکیلی نہیں بلکہ) اس (موج) کے اوپر دوسری موج (ہو پھر) اس کے اوپر بادل (ہو جس سے ستارہ وغیرہ کی روشنی بھی نہ پہنچتی ہو غرض) اوپر تلے بہت سے اندھیرے (ہی اندھیرے) ہیں کہ اگر (ایسی حالت میں کوئی آدمی دریا کی تہہ میں) اپنا ہاتھ نکالے (اور اس کو دیکھنا چاہے) تو (دیکھنا تو درکنار) دیکھنے کا احتمال بھی نہیں (اس مثال کا حاصل یہ ہے کہ ایسے کافر جو آخرت اور قیامت کے اور اس میں جزاء و سزا ہی کے منکر ہیں ان کے پاس وہمی نور بھی نہیں جیسے قسم اول کے کافروں کے پاس ایک وہمی اور خیالی نور تھا کیونکہ انہوں نے بعض نیک اعمال کو اپنی آخرت کا سامان سمجھا تھا مگر وہ شرط ایمان نہ ہونے کے سبب حقیقی نور نہ تھا ایک وہمی نور تھا۔ یہ لوگ جو منکر آخرت ہیں انہوں نے اپنے اعتقاد و خیال کے مطابق بھی کوئی کام آخرت کے لئے کیا ہی نہیں جس کے نور کا ان کو وہم و خیال ہو۔ غرض ان کے پاس ظملت ہی ظلمت ہے نور کا وہم و خیال بھی نہیں ہوسکتا جیسا کہ تہہ دریا کی مثال میں ہے اور نظر نہ آنے میں ہاتھ کی تخصیص شاید اس لئے کہ انسانی اعضاء وجوارح میں ہاتھ نزدیک تر ہے پھر اس کو جتنا نزدیک کرنا چاہو نزدیک آجاتا ہے اور جب ہاتھ ہی نظر نہ آیا تو دوسرے اعضاء کا معاملہ ظاہر ہے) اور (آگے ان کفار کے اندھیرے میں ہونے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ) جس کو اللہ ہی نور (ہدایت) نہ دے اس کو (کہیں سے بھی) نور نہیں (میسر آسکتا)
Top