Maarif-ul-Quran - An-Noor : 37
رِجَالٌ١ۙ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءِ الزَّكٰوةِ١۪ۙ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْهِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُۗۙ
رِجَالٌ : وہ لوگ لَّا تُلْهِيْهِمْ : انہیں غافل نہیں کرتی تِجَارَةٌ : تجارت وَّلَا بَيْعٌ : اور نہ خریدو فروخت عَنْ : سے ذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کی یاد وَاِقَامِ : اور قائم رکھنا الصَّلٰوةِ : نماز وَاِيْتَآءِ : اور ادا کرنا الزَّكٰوةِ : زکوۃ يَخَافُوْنَ : وہ ڈرتے ہیں يَوْمًا : اس دن سے تَتَقَلَّبُ : الٹ جائیں گے فِيْهِ : اس میں الْقُلُوْبُ : دل (جمع) وَالْاَبْصَارُ : اور آنکھیں
وہ مرد کہ نہیں غافل ہوتے سودا کرنے میں اور نہ بیچنے میں اللہ کی یاد سے اور نماز قائم رکھنے سے اور زکوٰة دینے سے ڈرتے رہتے ہیں اس دن سے جس میں الٹ جائیں گے دل اور آنکھیں
رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ، اس میں ان مومنین کی خاص صفات بیان کی گئی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نور ہدایت کے خاص مورد اور مسجدوں کو آباد رکھنے والے ہیں اس میں لفظ رجال کی تعبیر میں اس طرف اشارہ ہے کہ مساجد کی حاضری دراصل مردوں کے لئے ہے عورتوں کی نماز ان کے گھروں میں افضل ہے۔
مسند احمد اور بیہقی میں حضرت ام سلمہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے خیر مساجد النساء قعر بیوتھن، یعنی عورتوں کی بہترین مساجد ان کے گھروں تک تنگ و تاریک گوشے ہیں۔ اس آیت میں مومنین صالحین کی یہ صفت بیان کی ہے کہ ان کو تجارت اور بیع کا مشغلہ اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتا۔ لفظ تجارت میں چونکہ بیع بھی داخل ہے اس لئے بعض مفسرین نے مقابلہ کی وجہ سے اس جگہ تجارت سے مراد خریداری اور بیع سے مراد فروخت کرنا لیا ہے اور بعض نے تجارت کو اپنے مفہوم عام میں رکھا ہے یعنی لین دین خریدو فروخت کے معاملات، پھر بیع کو الگ کر کے بیان کرنے کی حکمت یہ بتلائی ہے کہ معاملات تجارت تو ایک وسیع مفہوم ہے جس کے فوائد و منافع کبھی مدتوں میں وصول ہوتے ہیں اور کسی چیز کو فروخت کردینے اور قیمت مع نفع کے نقد وصول کرلینے کا فائدہ فوری اور نقد ہے اس کو خصوصیت سے اس لئے ذکر فرمایا کہ اللہ کے ذکر اور نماز کے مقابلہ میں وہ کسی بڑے سے بڑے دنیوی فائدہ کا بھی خیال نہیں کرتے۔
حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ یہ آیت بازار والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور ان کے صاحبزادے حضرت سالم فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت عبداللہ بن عمر بازار سے گزرے تو نماز کا وقت ہوگیا تھا لوگوں کو دیکھا کہ دکانیں بند کر کے مسجد کی طرف جا رہے ہیں تو فرمایا کہ انہی لوگوں کے بارے میں قرآن کا یہ ارشاد ہے رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ
اور عہد رسالت میں دو صحابی تھے ایک تجارت کرتے تھے دوسرے صنعت و حرفت یعنی لوہار کا کام کرتے اور تلواریں بنا کر بیچتے تھے۔ پہلے صحابی کی تجارت کا حال یہ تھا کہ اگر سودا تولنے کے وقت اذان کی آواز کان میں پڑجاتی تو وہیں ترازو کو پٹک کر نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے۔ دوسرے بزرگ کا یہ عالم تھا کہ اگر گرم لوہے پر ہتھوڑے کی ضرب لگا رہے ہیں اور کان میں آواز اذان کی آگئی تو اگر ہتھوڑا مونڈھے پر اٹھائے ہوئے ہیں تو وہیں مونڈھے کے پیچھے ہتھوڑا ڈال کر نماز کو چل دیتے تھے اٹھائے ہوئے ہتھوڑے کی ضرب سے کام لینا بھی گوارا نہ تھا ان کی مدح میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (قرطبی)
صحابہ کرام اکثر تجارت پیشہ تھے
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام زیادہ تر تجارت پیشہ یا صنعت پیشہ تھے جو کام کہ بازاروں سے متعلق ہیں کیونکہ تجارت و بیع کا مانع از یاد خدا نہ ہونا انہی لوگوں کا وصف ہوسکتا ہے جن کا مشغلہ تجارت و بیع کا ہو ورنہ یہ کہنا فضول ہوگا (رواہ الطبرانی عن ابن عباس۔ روح)
يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ ، یہ مومنین جن کا ذکر اوپر آیت میں آیا ہے ان کا آخری وصف ہے جس میں بتلایا ہے کہ یہ حضرات ہر وقت ذکر اللہ اور طاعات و عبادات میں مشغول ہونے کے باوجود بےفکر اور بےڈر بھی نہیں ہوجاتے بلکہ قیامت کے حساب کا خوف ان پر مسلط رہتا ہے اور یہ اس نور ہدایت کا کمال ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو عطا ہوا ہے جس کا ذکر اوپر آیت میں يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ میں فرمایا۔ آخر میں ایسے حضرات کی جزاء کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے عمل کی بہترین جزاء عطا فرما ویں گے۔
Top