Maarif-ul-Quran - An-Noor : 46
لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ١ؕ وَ اللّٰهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ : تحقیق ہم نے نازل کیں اٰيٰتٍ : آیتیں مُّبَيِّنٰتٍ : واضح وَاللّٰهُ : اور اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے وہ چاہتا ہے اِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
ہم نے اتاریں آیتیں کھول کھول کر بتلانے والی، اور اللہ چلائے جس کو چاہے سیدھی راہ پر
خلاصہ تفسیر
ہم نے (حق کے) سمجھانے والے دلائل (ہدایت عام کے لئے) نازل فرمائے ہیں اور (ان عام میں سے) جس کو اللہ چاہتا ہے راہ راست کی طرف (خاص) ہدایت فرماتا ہے (کہ وہ الوہیت کے حقوق علمیہ یعنی عقائد صحیحہ اور حقوق عملیہ یعنی اطاعت کو بجا لاتا ہے ورنہ بہت سے محروم ہی رہتے ہیں) اور یہ منافق لوگ (زبان سے) دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور رسول پر ایمان لے آئے اور (خدا و رسول کا) حکم (دل سے) مانا پھر اس کے بعد (جب عمل کر کے اپنا دعویٰ ثابت کرنے کا وقت آیا تو) ان میں کا ایک گروہ (جو بہت زیادہ شریر ہے خدا و رسول کے حکم سے) سرتابی کرتا ہے (اس وقت سے وہ صورت مراد ہے کہ جب ان کے ذمہ کسی کا حق چاہتا ہو اور صاحب حق اس منافع سے درخواست کرے کہ چلو جناب رسول اللہ ﷺ کے پاس مقدمہ لے چلیں اس موقع پر یہ سرتابی کرتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ آپ کے اجلاس میں جب حق ثابت ہوجاوے گا تو اسی کے موافق آپ فیصلہ کریں گے جیسا عنقریب آیت وَاِذَا دُعُوْٓا میں اس موقع کا یہی بیان آتا ہے اور تخصیص ایک فریق کی باوجودیکہ تمام منافقین ایسے ہی تھے اس لئے ہے کہ غریب غرباء کو باوجود کراہت قلبی کے صاف انکار کرنے کی جرأت و ہمت نہیں ہوا کرتی یہ کام وہی لوگ کرتے ہیں جن کو کچھ وجاہت اور قوت حاصل ہو) اور یہ لوگ بالکل ایمان نہیں رکھتے (یعنی دل میں تو کسی منافق کے بھی ایمان نہیں مگر ان کا تو وہ ظاہری ملمع شدہ ایمان بھی نہ رہا جیسا اس آیت میں ہے وَلَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ اور اس آیت میں ہے قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ اور بیان اس حکم عدولی کا یہ ہے کہ) یہ لوگ جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف اس غرض سے بلائے جاتے ہیں کہ رسول ﷺ ان کے (اور ان کے خصوم کے) درمیان میں فیصلہ کردیں تو ان میں کا ایک گروہ (وہاں حاضر ہونے سے) پہلو تہی کرتا ہے (اور ٹالتا ہے اور یہ بلانا اگرچہ رسول ہی کی طرف ہے مگر چونکہ آپ کا فیصلہ حکم خداوندی کی بناء پر ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف بھی نسبت کردی گئی غرض جب ان کے ذمہ کسی کا حق چاہتا ہے تب تو ان کی یہ حالت ہوتی ہے) اور اگر (اتفاق سے) ان کا حق (کسی دوسرے کے ذمہ ہو) تو سر تسلیم خم کئے ہوئے (بےتکلف آپ کے بلانے پر) آپ کے پاس چلے آتے ہیں (کیونکہ اطمینان ہوتا ہے کہ وہاں حق کا فیصلہ ہوگا اس میں ہمارا فائدہ ہے۔ آگے ان لوگوں کے اعراض اور حاضر نہ ہونے کی وجہ و اسباب چند احتمالات کے طور پر بیان کر کے اور سب احتمالات کی نفی اور ایک احتمال کا اثبات ہے) آیا (اس اعراض کا سبب یہ ہے کہ) ان کے دلوں میں (کفر یقینی کا) مرض ہے (یعنی ان کو اس کا یقین ہے کہ آپ اللہ کے رسول نہیں) یا یہ (نبوت کی طرف سے) شک میں پڑے ہیں (کہ رسول نہ ہونے کا یقین تو نہیں مگر رسول ہونے کا بھی یقین نہیں) یا ان کو یہ اندیشہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کرنے لگیں (اور ان کے ذمہ جو حق ہے اس سے زائد دلا دیں، سو واقعہ یہ ہے کہ ان اسباب میں سے کوئی بھی سبب) نہیں (ہے) بلکہ (اصلی سبب یہ ہے کہ) یہ لوگ (ان مقدمات میں) برسر ظلم (ہوتے) ہیں (اس لئے حضور نبوی میں مقدمہ لانا پسند نہیں کرتے کہ ہم ہار جاویں گے اور باقی اسباب سابقہ سب منفی ہیں) مسلمانوں (کی شان اور ان) کا قول تو جب ان کو (کسی مقدمہ میں) اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے یہ ہے کہ وہ (خوشی خوشی) کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے (تمہارا کلام) سن لیا اور (اس کو) مان لیا (اور پھر فوراً چلے جاتے ہیں یہ ہے علامت اس کی کہ ایسوں کا آمنا اور اطعنا کہنا دنیا میں بھی صادق ہے) اور ایسے (ہی) لوگ (آخرت میں میں بھی) فلاح پائیں گے اور (ہمارے یہاں کا تو قاعدہ کلیہ ہے کہ) جو شخص اللہ اور اس کے رسول کا کہنا مانے اور اللہ سے ڈرے اور اس کی مخالفت سے بچے بس ایسے لوگ بامراد ہوں گے اور (نیز ان منافقین کی یہ حالت ہے کہ) وہ لوگ بڑا زور لگا کر قسمیں کھایا کرتے ہیں کہ واللہ (ہم ایسے فرمانبردار ہیں کہ) اگر آپ ان کو (یعنی ہم کو حکم دیں (کہ گھر بار سب چھوڑ دو) تو وہ (یعنی ہم) ابھی (سب چھوڑ چھاڑ) نکل کھڑے ہوں آپ (ان سے) کہہ دیجئے کہ بس قسمیں نہ کھاؤ (تمہاری) فرمانبرداری کی حقیقت معلوم ہے (کیونکہ) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی پوری خبر رکھتا ہے (اور اس نے مجھ کو بتلا دیا ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے قُلْ لَّا تَعْتَذِرُوْا لَنْ نُّؤ ْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّاَنَا اللّٰهُ مِنْ اَخْبَارِكُمْ اور) آپ (ان سے) کہئے کہ (باتیں بنانے سے کام نہیں چلتا کام کرو یعنی) اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو (آگے اللہ تعالیٰ اہتمام شان مضمون کے واسطے خود ان لوگوں کو خطاب فرماتا ہے کہ رسول کے اس کہنے کے اور تبلیغ کے بعد) پھر اگر تم لوگ (اطاعت سے) روگردانی کرو گے تو سمجھ رکھو کہ (رسول کا کوئی ضرر نہیں کیونکہ) رسول کے ذمہ وہی تبلیغ (کا کام) ہے جس کا ان پر بار رکھا گیا ہے۔ (جس کو وہ کرچکے اور سبکدوش ہوگئے) اور تمہارے ذمہ وہ (اطاعت کا کام) ہے جس کا تم پر بار رکھا گیا ہے (جس کو تم نہیں بجا لائے پس تمہارا ہی ضرر ہوگا) اور اگر (روگردانی نہ کی بلکہ) تم نے ان کی اطاعت کرلی (جو عین اطاعت اللہ ہی کی ہے) تو راہ پر جا لگو گے اور (بہرحال) رسول کے ذمہ صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہے (آگے تم سے باز پرس ہوگی کہ قبول کیا یا نہیں۔)
Top