Maarif-ul-Quran - An-Noor : 50
اَفِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْۤا اَمْ یَخَافُوْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ رَسُوْلُهٗ١ؕ بَلْ اُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۠   ۧ
اَفِيْ قُلُوْبِهِمْ : کیا ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : کوئی روگ اَمِ : یا ارْتَابُوْٓا : وہ شک میں پڑے ہیں اَمْ : یا يَخَافُوْنَ : وہ ڈرتے ہیں اَنْ : کہ يَّحِيْفَ اللّٰهُ : ظلم کرے گا اللہ عَلَيْهِمْ : ان پر وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول بَلْ : بلکہ اُولٰٓئِكَ : وہ هُمُ : وہی الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
کیا ان کے دلوں میں روگ ہے یا دھوکے پڑے ہوئے ہیں، یا ڈرتے ہیں کہ بےانصافی کرے گا ان پر اللہ اور اس کا رسول کچھ نہیں وہی لوگ بےانصاف ہیں
معارف و مسائل
یہ آیات ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہیں۔ طبری وغیرہ نے یہ واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ منافقین میں سے ایک شخص بشر نامی تھا اس کے اور ایک یہودی کے درمیان ایک زمین کے متعلق جھگڑا اور خصومت تھی۔ یہودی نے اس کو کہا کہ چلو تمہارے ہی رسول سے ہم فیصلہ کرا لیں مگر بشر منافق ناحق پر تھا یہ جانتا تھا کہ آنحضرت ﷺ کے پاس مقدمہ گیا تو آپ حق کے موافق فیصلہ کریں گے اور میں ہار جاؤں گا اس نے اس سے انکار کیا اور آنحضرت ﷺ کے بجائے کعب بن اشرف یہودی کے پاس مقدمہ لے جانے کو کہا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور آیت اَفِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ الآیتہ میں جو ان کے دلوں میں کفر یقینی کا مرض یا نبوت میں شک ہونے کی نفی کی گئی ہے اس کی مراد یہ ہے کہ یہ کفر یقینی یا شک ان کے دربار نبوی میں مقدمہ لانے سے گریز کرنے کا سبب نہیں اگرچہ کفر و شک کا ہونا منافقین میں ثابت اور واضح ہے مگر مقدمہ نہ لانا اصل میں اس سبب سے ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ حق کا فیصلہ ہوگا تو ہم ہار جائیں گے۔
Top