بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Ankaboot : 1
الٓمّٓۚ
الٓمّٓ : الف۔ لام۔ میم
الم
خلاصہ تفسیر
الۗمّۗ، اس کے معنی تو اللہ ہی کو معلوم ہیں، بعضے مسلمان جو کفار کی ایذاؤں سے گھبرا جاتے ہیں تو) کیا ان لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ اتنا کہنے میں چھوٹ جائیں گے کہ ہم ایمان لے آئے اور ان کو (انواع مصائب سے) آزمایا نہ جائے گا، (یعنی ایسا نہ ہوگا بلکہ اس قسم کے امتحانات بھی پیش آئیں گے) اور ہم تو (ایسے ہی واقعات سے) ان لوگوں کو بھی آزما چکے ہیں جو ان سے پہلے (مسلمان) ہو گذرے ہیں (یعنی اور امتوں کے مسلمانوں پر بھی یہ معاملے گذرے ہیں) سو (اسی طرح ان کی آزمائش بھی کی جائے گی اور اس آزمائش میں) اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو (ظاہری علم سے) جان کر رہے گا جو (ایمان کے دعویٰ میں) سچے تھے، اور جھوٹوں کو بھی جان کر رہے گا (چنانچہ جو صدق و اعتقاد سے مسلمان ہوتے ہیں وہ ان امتحانات میں ثابت رہتے ہیں بلکہ اور زیادہ پختہ ہوجاتے ہیں اور جو دفع الوقتی کے لئے مسلمان ہوجاتے ہیں وہ ایسے وقت میں اسلام کو چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ یعنی یہ ایک حکمت ہے امتحان کی کیونکہ مخلص اور غیر مخلص کے خلط ملط میں بہت سی مضرتیں ہوتی ہیں، خصوص ابتدائی حالات میں یہ مضمون تو مسلمانوں کے متعلق ہوا آگے ان ایذا دینے والے کفار کی نسبت فرماتے ہیں کہ) ہاں کیا جو لوگ برے برے کام کر رہے ہیں وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم سے کہیں نکل بھاگیں گے، ان کی یہ تجویز نہایت ہی بیہودہ ہے (یہ جملہ معترضہ کے طور پر تھا جس میں کفار کی بد انجامی سنا کر مسلمانوں کی ایک گونہ تسلی کردی کہ ان ایذاؤں کا ان سے بدلہ لیا جاوے گا، آگے پھر مسلمانوں کی طرف روئے سخن ہے کہ) جو شخص اللہ سے ملنے کی امید رکھتا ہو سو (اس کو تو ایسے ایسے حوادث سے پریشان ہونا ہی نہ چاہئے کیونکہ اللہ (کے ملنے) کا وہ معین وقت ضرور ہی آنے والا ہے (جس سے سارے غم غلط ہوجائیں گے۔ کقولہ تعالیٰ وَقَالُوا الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ) اور وہ سب کچھ سنتا سب کچھ جانتا ہے (نہ کوئی قول اس سے مخفی نہ کوئی فعل پس لقاء کے وقت تمہاری سب طاعات قولیہ و فعلیہ کا صلہ دے کر سب غم دور کر دے گا) اور (یاد رکھو کہ ہم جو تم کو ترغیب دے رہے ہیں مشقتوں کے برداشت کرنے کی سو اس میں ظاہر اور مسلم ہے کہ ہماری کوئی منفعت نہیں بلکہ) جو شخص محنت کرتا ہے وہ اپنے ہی (نفع کے) لئے محنت کرتا ہے (ورنہ) اللہ تعالیٰ کو (تو) تمام جہان والوں میں کسی کی حاجت نہیں (اس میں بھی ترغیب ہے) تحمل مشاق کی کیونکہ اپنے نفع پر متنبہ ہونے سے وہ فعل زیادہ آسان ہوجاتا ہے) اور (وہ نفع جو اطاعت سے پہنچتا ہے اس کا بیان یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور نیک کام کرتے ہیں ہم ان کے گناہ ان سے دور کردیں گے (جس میں بعض گناہ جیسے کفر و شرک تو ایمان سے زائل ہوجاتے ہیں اور بعض گناہ توبہ سے کہ اعمال صالحہ میں داخل ہے اور بعضے گناہ صرف حسنات سے اور بعضے گناہ محض فضل سے معاف ہوجائیں گے اور کوئی گناہ بعد قدرے سزا کے، یہاں تکفیر سب کو عام ہے اور ان کو ان کے (ان) اعمال (ایمان و اعمال صالحہ) کا (استحقاق سے) زیادہ اچھا بدلہ دیں گے۔ (پس اتنی ترغیبات پر اطاعت اور مجاہدہ پر استقامت کا اہتمام ضروری ہے۔
Top