Maarif-ul-Quran - Al-Ankaboot : 3
وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ فَتَنَّا : البتہ ہم نے آزمایا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَلَيَعْلَمَنَّ : تو ضرور معلوم کرلے گا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے ہیں وَ : اور لَيَعْلَمَنَّ : وہ ضرور معلوم کرلے گا الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
اور ہم نے جانچا ہے ان کو جو ان سے پہلے تھے سو البتہ معلوم کرے گا اللہ جو لوگ سچے ہیں اور البتہ معلوم کرے گا جھوٹوں کو
فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا، یعنی ان امتحانات اور شدائد کے ذریعہ مخلص اور غیر مخلص اور نیک و بد میں ضرور امتیاز کریں گے۔ کیونکہ مخلصین کے ساتھ منافقین کا خلط ملط بعض اوقات بڑے نقصانات پہنچا دیتا ہے مقصد اس آیت کا نیک و بد اور مخلص و غیر مخلص کا امتیاز واضح کردینا ہے، جس کو اس طرح تعبیر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جان لے گا صادقین کو اور کا ذبین کو، اللہ تعالیٰ کو تو ہر انسان کا صادق یا کاذب ہونا اس کے پیدا ہونے سے پہلے بھی معلوم ہے، امتحانات اور آزمائشوں کے جان لینے کے معنی یہ ہیں کہ اس امتیاز کو دوسروں پر بھی ظاہر فرما دیں گے۔
اور حضرت سیدی حکیم الامت تھانوی نے اپنے شیخ مولانا محمد یعقوب صاحب سے اس کی توجیہ یہ بھی نقل فرمائی ہے کہ بعض اوقات عوام کے درجہ علم پر تنزل کر کے بھی کلام کیا جاتا ہے، عام انسان مخلص اور منافقت میں فرق آزمائش ہی کے ذریعہ معلوم کرتے ہیں ان کے مذاق کے مطابق حق تعالیٰ نے فرمایا کہ ان مختلف قسم کے امتحانات کے ذریعہ ہم یہ جان کر رہیں گے کہ کون مخل ہے کون نہیں، حالانکہ اس کے علم میں یہ سب کچھ ازل سے ہے۔ واللہ اعلم
Top