Maarif-ul-Quran - Al-Ankaboot : 8
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا١ؕ وَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا١ؕ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
وَوَصَّيْنَا : اور ہم نے حکم دیا الْاِنْسَانَ : انسان کو بِوَالِدَيْهِ : ماں باپ سے حُسْنًا : حسنِ سلوک کا وَاِنْ : اور اگر جَاهَدٰكَ : تجھ سے کوشش کریں لِتُشْرِكَ بِيْ : کہ تو شریک ٹھہرائے میرا مَا لَيْسَ : جس کا نہیں لَكَ : تجھے بِهٖ عِلْمٌ : اس کا کوئی علم فَلَا تُطِعْهُمَا : تو کہا نہ مان ان کا اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ : میری طرف تمہیں لوٹ کر آنا فَاُنَبِّئُكُمْ : تو میں ضرور بتلاؤں گا تمہیں بِمَا : وہ جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اور ہم نے تاکید کردی انسان کو اپنے ماں باپ سے بھلائی سے رہنے کی، اور اگر وہ تجھ سے زور کریں کہ تو شریک کرے میرا جس کی تجھ کو خبر نہیں تو ان کا کہنا مت مان، مجھی تک پھر آنا ہے تم کو سو میں بتلا دوں گا تم کو جو کچھ تم کرتے تھے
خلاصہ تفسیر
اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور (اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ) اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ تو ایسی چیز کو میرا شریک ٹھہرائے جس (کے معبود ہونے) کی کوئی (صحیح) دلیل تیرے پاس نہیں ہے، (اور ہر چیز ایسی ہی ہے کہ کل اشیاء کے ناقابل عبادت ہونے پر دلائل قائم ہیں) تو (اس باب میں) ان کا کہنا نہ ماننا، تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے سو میں تم کو تمہارے سب کام (نیک ہوں یا بد) جتلا دوں گا اور (تم میں) جو لوگ ایمان لائے ہوں گے ہم ان کو نیک بندوں (کے درجہ) میں (جو کہ بہشت ہے داخل کردیں گے (ور اسی طرح اعمال بد پر ان کے مناسب سزا دیں گے، پس اسی بناء پر جس نے والدین کی اطاعت کو ہماری اطاعت پر مقدم رکھا ہوگا۔ وہ سزا پائے گا اور جس نے اس کا عکس کیا ہوگا نیک جزا پائے گا، حاصل یہ ہوا کہ واقعہ بالا میں ماں باپ کی نافرمانی سے وسوسہ گناہ کا نہ کیا جائے۔

معارف و مسائل
وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ ، وصیت کہتے ہیں کسی شخص کو کسی عمل کی طرف بلانے کو جبکہ وہ بلانا نصیحت و خیر خواہی پر مبنی ہو (مظہری)
بِوَالِدَيْهِ حُسْـنًا، لفظ حسن مصدر ہے بمعنی خوبی، اس جگہ خوبی والے طرز عمل کو مبالغہ کے لئے حسن سے تعبیر کیا ہے۔ مراد واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ وصیت فرمائی کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
وَاِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ ، یعنی والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے حکم کی اطاعت اسی حد تک کی جائے کہ وہ حکم اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف نہ ہو، وہ اگر اولاد کو کفر و شرک پر مجبور کریں تو اس میں ان کی اطاعت ہرگز نہ کی جائے جیسا کہ حدیث میں ہے لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق (رواہ احمد و الحاکم و صححہ) یعنی خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔
یہ آیت حضرت سعد بن ابی وقاص کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ صحابہ کرام میں سے ان دس حضرات میں شامل ہیں جن کو آپ نے بیک وقت جنتی ہونے کی بشارت دی ہے جن کو عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے یہ اپنی والدہ کے بہت فرمانبردار اور ان کی راحت رسانی میں بڑے مستعد تھے۔ ان کی والدہ حمنہ بنت ابی سفیان کو جب یہ معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے سعد مسلمان ہوگئے تو انہوں نے بیٹے کو تنبیہ کی اور قسم کھالی کہ میں اس وقت تک نہ کھانا کھاؤں گی نہ پانی پیوں گی جب تک کہ تم پھر اپنے آبائی دین پر واپس آجاؤ یا میں اسی طرح بھوک پیاس سے مرجاؤں اور ساری دنیا میں ہمیشہ کے لئے یہ رسوائی تمہارے سر رہے کہ تم اپنی ماں کے قاتل ہو (مسلم، ترمذی) اس آیت قرآن نے حضرت سعد کو ان کی بات ماننے سے روک دیا۔
بغوی کی روایت میں ہے کہ حضرت سعد کی والدہ ایک دن رات اور بعض اقوال کے مطابق تین دن تین رات اپنی قسم کے مطابق بھوکی پیاسی رہی۔ حضرت سعد حاضر ہوئے ماں کی محبت و اطاعت اپنی جگہ تھی، مگر اللہ تعالیٰ کے فرمان کے سامنے کچھ نہ تھی، اس لئے والدہ کو خطاب کر کے کہا کہ اماں جان اگر تمہارے بدن میں سو روحیں ہوتیں اور ایک ایک کر کے نکلتی رہتی ہیں اس کو دیکھ کر بھی کبھی اپنا دین نہ چھوڑتا، اب تم چاہو کھاؤ پیو یا مر جاؤ، بہرحال اپنے دین سے نہیں ہٹ سکتا، ماں نے ان کی اس گفتگو سے مایوس ہو کر کھانا کھالیا۔
Top