Maarif-ul-Quran - Yaseen : 26
قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ١ؕ قَالَ یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَۙ
قِيْلَ : ارشاد ہوا ادْخُلِ : تو داخل ہوجا الْجَنَّةَ ۭ : جنت قَالَ : اس نے کہا يٰلَيْتَ : اے کاش قَوْمِيْ : میری قوم يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتی
حکم ہوا چلا جا بہشت میں بولا کسی طرح میری قوم معلوم کرلیں
(آیت) قیل ادخل الجنة قال یلیت قومی یعلمون الآیة، یعنی اس شخص کو جو گوشہ شہر سے رسولوں پر ایمان لانے کی تلقین کے لئے آیا تھا اس کو کہا گیا کہ جنت میں داخل ہوجاؤ۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ خطاب کسی فرشتے کے ذریعے ہوا ہے، کہ جنت میں چلے جاؤ۔ اور مراد جنت میں داخل ہونے سے یہ خوش خبری دینا ہے کہ جنت تمہارا مقام متعین ہوچکا ہے، جو اپنے وقت پر حشر ونشر کے بعد حاصل ہوگا۔ (قرطبی)
اور یہ بھی بعید نہیں کہ ان کو ان کا مقام جنت اس وقت دکھلا دیا گیا ہو، اس کے علاوہ برزخ میں بھی اہل جنت کو جنت کے پھل پھول اور راحت کی چیزیں ملتی ہیں۔ اس لئے ان کا عالم برزخ میں پہنچنا ایک حیثیت سے جنت ہی میں داخل ہونا ہے۔
قرآن کریم کے اس لفظ سے کہ اس کو کہا گیا کہ جنت میں داخل ہوجا اس کی طرف اشارہ ہے کہ اس شخص کو شہید کردیا گیا تھا، کیونکہ دخول جنت یا آثار جنت کا مشاہدہ بعد موت ہی ہوسکتا ہے۔
تاریخی روایات میں حضرت ابن عباس، مقاتل، مجاہد ائمہ تفسیر سے منقول ہے کہ یہ شخص حبیب ابن اسماعیل نجار تھا، اور یہ ان لوگوں میں ہے جو ہمارے رسول اللہ ﷺ پر آپ کی بعثت سے چھ سو سال پہلے ایمان لایا ہے۔ جیسا کہ تبع اکبر کے متعلق منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بشارت کتب سابقہ میں پڑھ کر آپ کی ولادت سے بہت پہلے آپ پر ایمان لایا تھا۔ تیسرے بزرگ آدمی جو آپ پر آپ کی بعثت اور دعوے سے پہلے ایمان لائے ورقہ بن نوفل ہیں جن کا ذکر صحیح بخاری کی حدیث ابتداء وحی کے واقعات میں آیا ہے۔ یہ بھی رسول کریم ﷺ کی خصوصیت ہے کہ آپ کی ولادت وبعثت سے پہلے آپ پر یہ تین آدمی ایمان لے آئے تھے یہ معاملہ کسی اور رسول و نبی کے ساتھ نہیں ہوا۔
وہب بن منبہ کی روایت میں ہے کہ یہ شخص جذامی تھا، اور ان کا مکان شہر کے سب سے آخری دروازہ پر تھا۔ اپنے مفروضہ معبودوں سے دعا کرتا تھا کہ مجھے تندرست کردیں جس پر ستر سال گزر چکے تھے۔ یہ رسول شہر انطاکیہ میں اتفاقاً اسی دروازے سے داخل ہوئے تو اس شخص سے پہلے پہل ملاقات ہوئی تو انہوں نے اس کو بت پرستی سے باز آنے اور ایک خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت دی۔ اس نے کہا کہ آپ کے پاس آپ کے دعویٰ کی کوئی دلیل و علامت صحت بھی ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ہے۔ اس نے اپنی جذام کی بیماری بتلا کر پوچھا کہ آپ یہ بیماری دور کرسکتے ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں ہم اپنے رب سے دعا کریں گے وہ تمہیں تندرست کر دے گا۔ اس نے کہا کہ کیا عجیب بات کہتے ہو، میں ستر سال سے اپنے معبودوں سے دعا مانگتا ہوں کچھ فائدہ نہیں ہوا، تمہارا رب کیسے ایک دن میں میری حالت بدل دے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ہمارا رب ہر چیز پر قادر ہے، اور جن کو تم نے خدا بنا رکھا ہے ان کی کوئی حقیقت نہیں، یہ کسی کو نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ یہ سن کر یہ شخص ایمان لے آیا اور ان بزرگوں نے اس کے لئے دعا کی، اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسا تندرست کردیا کہ بیماری کا کوئی اثر باقی نہ رہا۔ اب تو اس کا ایمان پختہ ہوگیا، اور اس نے عہد کیا کہ دن بھر میں جو کچھ کمائے گا اس کا آدھا اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا۔ جب ان رسولوں پر شہر کے لوگوں کی یلغار کی خبر پائی تو یہ دوڑ کر آیا، اور اپنی قوم کو سمجھایا اور اپنے ایمان کا اعلان کردیا۔ پوری قوم اس کی دشمن ہوگئی، اور سب مل کر اس پر ٹوٹ پڑے۔ حضرت ابن مسعود کی روایت میں ہے کہ لاتوں اور ٹھوکروں سے سب نے مل کر اس کو شہید کردیا۔ بعض روایات میں ہے کہ اس پر پتھر برسائے، اور اس وقت بھی ان سب کی بےتحاشا مار پڑنے کے وقت وہ کہتا جاتا تھا رب اھد قومی، ”اے میرے پروردگار ! میری قوم کو ہدایت کر دے“
بعض روایتوں میں ہے کہ ان لوگوں نے تینوں رسولوں کو شہید کردیا مگر کسی صحیح روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ ان کا کیا حال رہا بظاہر وہ مقتول نہیں ہوئے۔ (قرطبی)
Top