Maarif-ul-Quran - Yaseen : 41
وَ اٰیَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَهُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِۙ
وَاٰيَةٌ : اور ایک نشانی لَّهُمْ : ان کے لیے اَنَّا : کہ ہم حَمَلْنَا : ہم نے سوار کیا ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد فِي الْفُلْكِ : کشتی میں الْمَشْحُوْنِ : بھری ہوئی
اور ایک نشانی ہے ان کے واسطے کہ ہم نے اٹھا لیا ان کی نسل کو اس بھری ہوئی کشتی میں
(آیت) وایة لہم انا حملنا ذریتہم فی الفلک المشحون وخلقنا لہم من مثلہ ما یرکبون، پہلے زمینی مخلوقات کا پھر آسمانی کا بیان اور ان میں اللہ تعالیٰ شانہ، کی حکمت وقدرت کے مظاہر کا بیان آ چکا ہے۔ اس آیت میں بحر اور اس سے متعلقہ اشیاء میں مظاہر قدرت کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کشتیوں کو خود وزنی بوجھ سے بھری ہوئی ہونے کے باوجود پانی کی سطح پر چلنے کے قابل بنادیا کہ پانی ان کو غرق کرنے کے بجائے دور ملکوں تک پہنچاتا ہے۔ اور آیت میں ارشاد یہ ہے کہ ہم نے ان کی ذریت کو کشتیوں میں سوار کیا، حالانکہ سوار ہونے والے خود یہ لوگ تھے۔ ذریت کا ذکر شاید اس لئے کیا کہ انسان کا بڑا بوجھ اس کی اولاد و ذریت ہوتی ہے، خصوصاً جبکہ وہ چلنے پھرنے کے قابل نہ ہو۔ اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ صرف یہی نہیں کہ تم خود ان کشتیوں میں سوار ہو سکو بلکہ چھوٹے بچے اور ضعیف آدمی اور ان کے سب سامان یہ کشتیاں اٹھاتی ہیں۔ اور خلقنا لہم من مثلہ ما یرکبون کے معنی یہ ہیں کہ انسان کی سواری اور بار برداری کے لئے صرف کشتی ہی نہیں بلکہ کشتی کی مثل اور بھی سواری بنائی ہے۔ اس سے اہل عرب نے اپنی عادت کے مطابق اونٹ کی سواری مراد لی ہے، کیونکہ اونٹ بار برادری میں سب جانوروں سے زیادہ ہے، بڑے بڑے بوجھ کے انبار لے کر ملکوں کا سفر کرتا ہے، اسی لئے عرب اونٹ کو سفینة البر یعنی خشکی کی کشتی کہا کرتے تھے۔
Top