Maarif-ul-Quran - Yaseen : 65
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
اَلْيَوْمَ : آج نَخْتِمُ : ہم مہر لگا دیں گے عَلٰٓي : پر اَفْوَاهِهِمْ : ان کے منہ وَتُكَلِّمُنَآ : اور ہم سے بولیں گے اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ وَتَشْهَدُ : اور گواہی دیں گے اَرْجُلُهُمْ : ان کے پاؤں بِمَا : اس کی جو كَانُوْا : وہ تھے يَكْسِبُوْنَ : کماتے (کرتے تھے)
آج ہم مہر لگا دیں گے ان کے منہ پر اور بولیں گے ہم سے ان کے ہاتھ اور بتلائیں گے ان کے پاؤں جو کچھ وہ کماتے تھے
الیوم نختم علیٰ افواھہم، محشر میں حساب کتاب کے لئے پیشی میں اول تو ہر شخص کو آزادی ہوگی جو چاہے عذر پیش کرے، مگر مشرکین وہاں قسمیں کھا کر اپنے شرک و کفر سے مکر جائیں گے واللہ ربنا ماکنا مشرکین۔
اور بعض یہ بھی کہیں گے کہ فرشتوں نے ہمارے نامہ اعمال میں جو کچھ لکھ دیا ہے ہم تو اس سے بری ہیں اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے کہ بول نہ سکیں اور ان کے مقابلہ میں خود انہی کے ہاتھ پاؤں اور اعضاء کو سرکاری گواہ بنا کر ان کو بولنے کی صلاحیت دے دیں گے وہ ان کے تمام اعمال کی گواہی دیں گے۔ آیت مذکورہ میں تو ہاتھ پاؤں کا بولنا ذکر کیا گیا ہے۔ دوسری آیت میں انسان کے کان، آنکھ اور کھال کا بولنا مذکور ہے، شھد علیھم سمعھم وابصارھم وجلودھم، اور ایک جگہ جو تشھد علیہم السنتھم آیا ہے، یعنی خود ان کی زبانیں گواہی دیں گی۔ یہ اس کے منافی نہیں کہ ان کے مونہوں پر مہر لگا دی جائے گی، کیونکہ مہر لگانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اختیار سے کچھ نہ بول سکیں گے، ان کی زبان کی مرضی کے خلاف چلے گی، اور شہادت دے گی۔
رہا یہ اشکال کہ ان اعضاء میں گویائی کیسے پیدا ہوگی تو اس کا جواب خود قرآن نے دے دیا ہے انطقنا اللہ الذی انطق کل شئی، یعنی یہ اعضاء کہیں گے جس اللہ نے ہر گویائی والے کو گویا کیا ہے، اس نے ہمیں بھی گویائی دے دی۔
Top