Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 171
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ١ؕ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗ١ۚ اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ١٘ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ١۫ۚ وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ١ؕ اِنْتَهُوْا خَیْرًا لَّكُمْ١ؕ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ؕ سُبْحٰنَهٗۤ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ١ۘ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا۠ ۧ
يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ
: اے اہل کتاب
لَا تَغْلُوْا
: غلو نہ کرو
فِيْ دِيْنِكُمْ
: اپنے دین میں
وَ
: اور
لَا تَقُوْلُوْا
: نہ کہو
عَلَي اللّٰهِ
: پر (بارہ میں) اللہ
اِلَّا
: سوائے
الْحَقَّ
: حق
اِنَّمَا
: اس کے سوا نہیں
الْمَسِيْحُ
: مسیح
عِيْسَى
: عیسیٰ
ابْنُ مَرْيَمَ
: ابن مریم
رَسُوْلُ
: رسول
اللّٰهِ
: اللہ
وَكَلِمَتُهٗ
: اور اس کا کلمہ
اَلْقٰىهَآ
: اس کو ڈالا
اِلٰي
: طرف
مَرْيَمَ
: مریم
وَ
: اور
رُوْحٌ
: روح
مِّنْهُ
: اس سے
فَاٰمِنُوْا
: سو ایمان لاؤ
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَرُسُلِهٖ
: اور اس کے رسول
وَلَا
: اور نہ
تَقُوْلُوْا
: کہو
ثَلٰثَةٌ
: تین
اِنْتَھُوْا
: باز رہو
خَيْرًا
: بہتر
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
اِنَّمَا
: اس کے سوا نہیں
اللّٰهُ
: اللہ
اِلٰهٌ وَّاحِدٌ
: معبودِ واحد
سُبْحٰنَهٗٓ
: وہ پاک ہے
اَنْ
: کہ
يَّكُوْنَ
: ہو
لَهٗ
: اس کا
وَلَدٌ
: اولاد
لَهٗ
: اس کا
مَا
: جو
فِي السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں میں
وَمَا
: اور جو
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
وَكَفٰي
: اور کافی ہے
بِاللّٰهِ
: اللہ
وَكِيْلًا
: کارساز
اے کتاب والو مت مبالغہ کرو اپنے دین کی بات میں اور مت کہو اللہ تعالیٰ کی شان میں مگر پکی بات بیشک مسیح جو ہے عیسیٰ مریم کا بیٹا وہ رسول ہے اللہ کا اور کا کلام ہے جسکو ڈالا مریم کی طرف اور روح ہے اس کے ہاں کی سو مانو اللہ کو اور اس کے رسولوں کو اور نہ کہو کہ خدا تین ہیں اس بات کو چھوڑو بہتر ہوگا تمہارے واسطے بیشک اللہ معبو ہے اکیلا اس کے لائق نہیں ہے کہ اس کے اولاد ہو، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور کافی ہے اللہ کار ساز
ربط آیات
ماقبل کی آیات میں یہود کو خطاب تھا اور انہی کی گمراہیوں کی تفصیل ذکر کی گئی اس آیت میں نصاری کو خطاب ہے اور ان کی بد اعتقادی اور خدا اور حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق ان کے باطل خیالات کی تردید کی گئی ہے۔
خلاصہ تفسیر
اے اہل کتاب (یعنی انجیل والو) تم اپنے دین (کے بارہ) میں (عقیدہ حقہ کی) حد سے مت نکلو اور اللہ تعالیٰ کی شان میں غلط بات مت کہو (کہ نعوذ باللہ وہ صاحب اولاد ہے، جیسا بعض کہتے تھے المسیح ابن اللہ یا وہ مجموعہ آلہہ کا ایک جزو ہے جیسا بعض کہتے تھے ان اللہ ثالث ثلثة اور بقیہ دو جز ایک حضرت عیسیٰ ؑ کو کہتے تھے اور ایک حضرت جبرئیل ؑ کو جیسا آیت آئندہ میں ولا الملکة المقربون کے بڑھانے سے معلوم ہوتا ہے اور بعضے حضرت مریم (علیہا السلام) کو جیسا اتخذونی وامی سے معلوم ہوتا ہے یا وہ عین مسیح ہے جیسا بعض کہتے تھے ان اللہ ھو المسیح ابن مریم، غرض یہ سب عقیدے باطل ہیں) مسیح عیسیٰ بن مریم تو اور کچھ بھی نہیں البتہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ایک کلمہ (پیدائش) ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے (حضرت) مریم تک (حضرت جبرئیل ؑ کے واسطہ سے) پہنچایا تھا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک جان (دارچیز) ہیں (کہ اس جان کو حضرت مریم کے جسم میں بواسطہ نفخ حضرت جبرئیل ؑ کے پہنچا دیا تھا باقی نہ وہ ابن اللہ ہیں نہ تین میں کے ایک ہیں، جیسا عقائد مذکورہ میں لازم آتا ہے) سو (جب یہ سب باتیں غلط ہیں تو سب سے توبہ کرو اور) اللہ پر اور اس کے سب رسولوں پر (ان کی تعلیم کے مطابق ایمان لاؤ (اور وہ موقوف ہے توحید پر، پس توحید کا عقیدہ رکھو) اور یوں مت کہو کہ (خدا) تین ہیں (مقصود منع کرنا ہے شرک سے اور وہ سب اقوال مذکورہ میں مشترک ہے، اس شرک سے) باز آجاؤ تمہارے لئے بہتر ہوگا (اور توحید کے قائل ہوجاؤ کیونکہ) معبود حقیقی تو ایک ہی معبود ہے (اور وہ صاحب اولاد ہونے سے منزہ ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں موجودات ہیں سب اس کی ملک ہیں (اور ان کا منزہ اور مالک علی الاطلاق ہونا دلیل ہی توحید کی) اور (ایک دلیل یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ کار ساز ہونے میں کافی ہیں (اور ان کے سوا سب کار سازی میں ناکافی و محتاج الی الغیر اور ایک حد پر جا کر عاجز ہوجاتے ہیں اور یہ کفایت صفات کمال سے ہے اور صفات کا کمال لوازم الوہیت سے ہے، جب وہ غیر اللہ میں منتقی ہے پس الوہیت میں بھی منفی ہے، لہٰذا توحید ثابت ہے۔
معارف و مسائل
وکلمتہ اس لفظ میں یہ بتلایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ اللہ کا کلمہ ہیں، مفسرین نے اس کے مختلف معانی بیان کئے ہیں۔
(1) امام غزالی فرماتے ہیں کہ کسی بچے کی پیدائش میں دو عامل کارفرما ہوتے ہیں، ایک عامل نطفہ ہے، اور دوسرا اللہ تعالیٰ کا کلمہ ”کن“ فرمانا جس کے بعد وہ بچہ وجود میں آجاتا ہے ........ حضرت عیسیٰ ؑ کے حق میں چونکہ پہلا عامل منفی ہے، اس لئے دوسرے عامل کی طرف نسبت کر کے آپ کو کلمتہ اللہ کہا گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مادی اسباب کے واسطہ کے بغیر صرف کلمہ ”کن“ سے پیدا ہوئے ہیں ........ اس صورت میں القھا الی مریم کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کلمہ حضرت مریم (علیہا السلام) تک پہنچا دیا جس کے نتیجہ میں حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش عمل میں آگئی۔
(2) بعض نے فرمایا کہ کلمة اللہ، بشارة اللہ کے معنی میں ہے اور مادہ اس سے حضرت عیسیٰ ؑ ہیں، اللہ جل شانہ، نے فرشتوں کے ذریعہ حضرت مریم (علیہا السلام) کو حضرت عیسیٰ کی جو بشارت دی تھی اس میں ”کلمہ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اذ قالت الملکة یمرم ان اللہ یبشرک بکلمة
(3) بعض نے فرمایا کلمة آیت اور نشانی کے معنی میں ہے، جیسا کہ دوسری جگہ یہ لفظ آیتہ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، وصدقت بکلمت ربھا
وروح منہ اس لفظ میں دو باتیں قابل غور ہیں ایک یہ کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو روح کہنے کے کیا معنی ہیں ؟ ........ اور دوسرے یہ کہ اللہ جل شانہ کی طرف جو اس کی نسبت کی گئی ہے اس نسبت کا کیا مطلب ہے ؟
اس سلسلہ میں مفسرین کے متعدد اقوال منقول ہیں۔
(1) بعض نے فرمایاعرف کا قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی شئے کی طہارت اور پاکیزگی کو بیان کرنا ہوتا ہے تو مبالغہ کے لئے اس پر روح کا اطلاق کردیا جاتا ہے، حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش میں چونکہ کسی باپ کے نطفہ کا دخل نہیں تھا اور وہ صرف اللہ جل شانہ کے ارادہ اور کلمہ کن کا نتیجہ تھے، اس لئے اپنی طہارت و نظافت میں درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے، اسی وجہ سے عرف کے محاورہ کے مطابق کے مطابق ان کو روح کہا گیا اور اللہ کی طرف نسبت ان کی تعظیم و تشریف کے لئے ہے، جس طرح مساجد کی تعظیم کے لئے ان کی نسبت اللہ کی طرف کردی جاتی ہے، ”مساجد اللہ“ ، یا کعبہ کی نسبت اللہ کی طرف کر کے ”بیت اللہ“ کہا جاتا ہے، یا کسی اطاعت شعار بندہ کی نسبت اللہ کی طرف کر کے ”عبداللہ“ کہا جاتا ہے، چناچہ سورة بنی اسرائیل میں آنحضرت ﷺ کے لئے یہ صیغہ استعمال کیا گیا ہے اسری بعبدہ
(2) بعض حضرات نے فرمایا عیسیٰ ؑ کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے مردہ دلوں میں روحانی حیات ڈال کر پھر زندہ کردیں، چونکہ وہ روحانی حیات کا سبب تھے جس طرح روح جسمانی حیات کا سبب ہوا کرتی ہے، اس لئے اس اعتبار سے ان کو روح کہا گیا، جیسا کہ خود قرآن کریم کے لئے بھی یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ وکذلک اوحینا الیک روحامن امرنا، کیونکہ قرآن کریم بھی روحانی حیات بخشتا ہے۔
(3) بعض نے فرمایا کہ روح کا استعمال راز کے معنی میں ہوتا ہے، حضرت عیسیٰ ؑ اپنی عجیب و غریب پیدائش کی وجہ سے چونکہ اللہ جل شانہ کی ایک نشانی اور راز تھے اس لئے انہیں روح اللہ کہا گیا۔
(4) بعض نے کہا کہ یہاں مضاف مخذوف ہے اور اصل عبارت یوں تھی ذوروح منہ اور چونکہ ذی روح ہونے میں سب حیوان برابر ہیں، اس لئے عیسیٰ ؑ کا امتیاز اس طرح ظاہر کیا گیا کہ ان کی نسبت اللہ جل شانہ نے اپنی طرف کردی۔
(5) ایک قول یہ بھی ہے کہ روح، نفخ (پھونک) کے معنی میں ہے، حضرت جبرئیل ؑ نے حضرت مریم کے گریبان میں اللہ کے حکم سے پھونک دیا تھا اور اسی سے حمل قرار پا گیا، چونکہ حضرت عیسیٰ ؑ بطور معجزہ کے صرف نفخ سے پیدا ہوگئے تھے اس لئے آپ کو روح اللہ کہا گیا، قرآن کریم کی دوسری آیت فنفخنا فیہا من روحنا سے اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اس کے علاہ بھی متعدد احتمالات بیان کئے گئے ہیں، بہرحال اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ اللہ کا ایک جز ہیں اور یہی روح حضرت عیسیٰ ؑ کی انسانی شکل میں ظاہر ہوگئی ہے۔
لطیفہ۔ علامہ آلوسی نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ہارون الرشید کے دربار میں ایک نصرانی طبیب نے حضرت علی بن الحسین واقدی سے مناظرہ کیا اور ان سے کہا کہ تمہاری کتاب میں ایسا لفظ موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ اللہ کا جزو ہیں اور دلیل میں یہ آیت پڑھ دی، جس میں ”روح منہ“ کے الفاظ ہیں۔
علامہ واقدی نے ان کے جواب میں ایک دوسری آیت پڑھ دی وسخرلکم ما فی السموت وما فی الارض جمیعاً منہ (اس آیت میں کہا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اسی اللہ سے ہے اور منہ کے ذریعہ سے سب چیزوں کی نسبت اللہ کی طرف کردی گئی ہے) اور فرمایا کہ روح منہ کا اگر مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ اللہ کا جزو ہیں تو اس آیت کا مطلب پھر یہ ہوگا کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے وہ بھی اللہ کا جزو ہے ؟ یہ جواب سن کر نصرانی طبیب لاجواب ہوا اور مسلمان ہوگیا۔
ولاتقولوا ثلثة نزول قرآن کے وقت نصاری جن بڑے بڑے فرقوں میں تقسیم تھے تثلیث کے متعلق ان کا عقیدہ تین جدا جدا اصولوں پر مبنی تھا، ایک فرقہ کہتا تھا کہ مسیح عین خدا ہیں اور خدا ہی بشکل مسیح دنیا میں اتر آیا ہے، دوسرے فرقہ کا کہنا یہ تھا کہ مسیح ابن اللہ ہے اور تیسرا فرقہ یہ دعویٰ کرتا تھا کہ وحدت کا راز تین میں پوشیدہ ہے، باپ، بیٹا مریم اس جماعت میں بھی دو گروہ تھے، دوسرا گروہ وہ حضرت مریم کی جگہ روح القدس کو اقنوم ثالث کہتا تھا غرض یہ لوگ حضرت مسیح ؑ کو ثالث ثلاثہ تسلیم کرتے تھے اس لئے قرآن کریم میں تینوں کو جدا جدا بھی مخاطب کیا ہے اور یکجا بھی، اور نصاریٰ پر یہ واضح کردیا گیا ہے کہ حق ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ مسیح ؑ مریم (علیہا السلام) کے بطن سے پیدا شدہ انسان اور خدا کے سچے رسول ہیں، اس سے زیادہ جو کچھ کہا جاتا ہے سب باطل اور لغو ہے، خواہ اس میں تفریط ہو جیسا کہ یہود کا عقیدہ ہے کہ العیاذ باللہ وہ شعبدہ باز اور مفتری تھے، یا افراط ہو جیسا کہ نصاری کا عقیدہ ہے کہ وہ خدا ہیں یا خدا کے بیٹے ہیں، یا تین میں تیسرے ہیں۔
قرآن کریم نے بیشمار آیات میں ایک طرف تو نصاری اور یہود کی گمراہی کو واضح کیا اور دوسری طرف حضرت عیسیٰ ؑ کی شان رفیع اور عنداللہ ان کے مقام اعلی کو واضح فرمایا ہے تاکہ افراط وتفریط کے کج راہوں میں سے حق کا معتدل راستہ نمایاں ہوجائے۔
عیسائی عقائد اور ان کے مختلف پہلوؤں پر اور اس کے بالمقابل اسلام کی حقانیت پر اگر تفصیلی معلومات حاصل کرنا ہوں تو حضرت مولانا رحمتہ اللہ صاحب کیرانوی کی مشہور عالم کتاب ”اظہار الحق“ کا مطالعہ کریں، جس کا عربی سے ترجمہ مع شرح و تحقیق حال میں دارالعلوم کراچی نے تین جلدوں میں شائع کیا ہے۔
لہ ما فی السموات وما فی الارض وکفی باللہ وکیلا، یعنی آسمان اور زمین میں اوپر سے نیچے تک جو کچھ ہے سب اس کی مخلوق اور اس کی مملوک اور اس کے بندے ہیں، پھر کہتے اس کا شریک یا اس کا بیٹا کون اور کیونکر ہوسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب کام بنانے والا ہے اور سب کی کار سازی کے لئے وہی کافی اور بس ہے، کسی دوسرے کی حاجت نہیں، پھر بتلایئے اس کو شریک یا بیٹے کی حاجت کیسے ہو سکتی ہے ؟
خلاصہ۔ یہ ہوا کہ نہ کسی مخلوق میں اس کی شریک بننے کی قابلیت اور لیاقت اور نہ اس کی ذات پاک میں اس کی گنجائش اور نہ اس کی حاجت، جس سے معلوم ہوگیا کہ مخلوقات میں کسی کو خدا کا شریک یا بیٹا کہنا اس کا کام ہے جو ایمان اور عقل دونوں سے محروم ہو۔
دین میں غلو حرام ہے۔ (قولہ تعالی) لاتغلوا فی دینکم، اس آیت میں اہل کتاب کو غلو فی الدین سے منع فرمایا گیا، غلو کے لفظی معنی حد سے نکل جانے کے ہیں اور امام حصاص نے احکام القرآن میں فرمایا
”یعنی دین کے بارے میں غلو یہ ہے کہ دین میں جس چیز کی جو حد مقرر کی گئی ہے اس سے آگے نکل جائے۔“
اہل کتاب یعنی یہود و نصاری دونوں کو اس حکم کا مخاطب اس لئے بنایا گیا کہ غلوفی الدین ان دونوں میں مشترک ہے اور یہ دونوں فرقے غلوفی الدین ہی کے شکار ہیں، کیونکہ نصاری نے تو عیسیٰ ؑ کو ماننے اور ان کی تعظیم میں غلو کیا، ان کو خدا یا خدا کا بیٹا یا تیسرا خدا بنادیا اور یہود نے ان کے نہ ماننے اور رد کرنے میں غلو کیا کہ ان کو رسول بھی نہ مانا، بلکہ معاذ اللہ ان کی والدہ ماجدہ مریم پر تہمت لگائی اور ان کے نسب پر عیاں لگایا۔
چونکہ غلو فی الدین کے سبب یہود و نصاری کی گمراہی اور تباہی مشاہدہ میں آچکی تھی، اس لئے رسل اکرم ﷺ نے اپنی امت کو اس معاملہ میں پوری احتیاط کی تاکید فرمائی، مسند احمد میں حضرت فاروق اعظم کی روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا
”میری مدح وثناء میں ایسا مبالغہ نہ کر جیسا نصاری نے عیسیٰ بن مریم کے معاملہ میں کیا ہے، خوب سمجھ لو کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس لئے تم مجھے اللہ کا بندہ اور رسول کہا کرو۔“
(اس روایت کو بخاری اور ابن مدینی نے بھی روایت کیا ہے اور صحیح السن قرار دیا ہے۔)
خلاصہ یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ اور بشر ہونے میں سب کے ساتھ شریک ہوں، میرا سب سے بڑا درجہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، اس سے آگے بڑھانا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں مجھے شریک قرار دے دویہ غلو، تم نصاری کی طرح کہیں اس غلو میں مبتلا نہ ہوجاؤ اور یہود و نصاری کا یہ غلو فی الدین صرف انبیاء ہی کی حد تک نہیں رہا، بلکہ انہوں نے جب یہ عادت ہی ڈال لی تو انبیاء (علیہم السلام) کے حوارییین اور متبعین اور ان کے نائبین کے مقابلہ میں بھی یہی برتاؤ اختیار کرلیا، رسول کو تو خدا بنادیا تھا، رسول کے متبعین کو معصوم کا درجہ دیدیا، پھر یہ بھی تنقید و تحقیق نہ کی کہ یہ لوگ حقیقتا انبیاء کے متبع اور ان کی تعلیم پر صحیح طور سے قائم بھی ہیں یا محض وراثتہً عالم یا شیخ سمجھے جاتے ہیں، نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں ان کی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آگئی جو خود بھی گمراہ تھے اور ان کی گمراہی کو اور بڑھاتے تھے، دین اور تدین ہی کی راہ سے ان کا دین برباد ہوگیا، قرآن حکیم نے ان لوگوں کی اس حالت کا بیان اس آیت میں فرمایا ہےاتخذوا احبارھم ورھبانھم ارباباً من دون اللہ، یعنی ان لوگوں نے اپنے مذہبی پیشواؤ کو بھی معبود کا درجہ دیدیا، اس طرح رسول کو تو خدا بنایا ہی تھا، اتباع رسول کے نام پر پچھلے مذہبی پیشواؤں کی بھی پرستش شروع کردی۔
اس سے معلوم ہوا کہ غلو فی الدین وہ تباہ کن چیز ہے جس نے پچھلی امتوں کے دین کو دین ہی کے نام پر برباد کردیا ہے، اسی لئے ہمارے آقا و مولا حضرت نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو اس وباء عظیم سے بچانے کے لئے مکمل تدبیریں فرمائیں۔
حدیث میں ہے کہ حج کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے رمی جمرات کے لئے حضرت عبداللہ بن عباس کو فرمایا کہ آپ کے واسطے کنکریاں جمع کر لائیں، انہوں نے متوسط قسم کی کنکریاں پیش کردیں، آپ نے ان کو بہت پسند فرما کردو مرتبہ فرمایابمثلھن بمثلھن یعنی ایسی ہی متوسط کنکریوں سے جمرات پر رمی کرنا چاہئے، پھر فرمایا
”یعنی غلو فی الدین سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی امتیں غلو فی الدین ہی کی وجہ سے ہلاک و برباد ہوئیں۔“
اس حدیث سے چند اہم مسائل معلوم ہوئے
فوائد مہمہ۔ اول یہ کہ حج میں جو کنکریاں جمرات پر پھینکیں جاتی ہیں، ان کی حد مسنون یہ ہے کہ وہ متوسط ہوں، نہ بہت چھوٹی ہوں نہ بہت بڑی، بڑے بڑے پتھر اٹھا کر پھینکنا غلو فی الدین میں داخل ہے۔
دوسرے یہ معلوم ہوا کہ ہر چیز کی حد شرعی وہ ہے جو رسول کریم ﷺ نے اپنے قول و عمل سے متعین فرما دی، اس سے تجاوز کرنا غلو ہے۔
تیسرے یہ واضح ہوگیا کہ غلو فی الدین کی تعریف یہ ہے کہ کسی کام میں اس کی حد مسنون سے تجاوز کیا جائے۔
حب دنیا کی حدود۔ ضرورت سے زیادہ دنیا کے مال و دولت اور عیش و عشرت کی طمع اسلام میں مذمت ہے اور اس کے ترک کرنے کی ہدایتیں بھی قرآن میں بکثرت وارد ہیں، لیکن رسول کریم ﷺ نے جہاں طمع دنیا اور حب دنیا سے منع فرمایا وہیں اپنے قول و عمل سے اس کی حدود بھی متعین فرما دی ہیں کہ نکاح کرنے کو اپنی سنت قرار دیا اور اس کی ترغیب دی، اولاد پیدا کرنے کے فوائد اور درجات بتلائے اہل و عیال کے ساتھ حسن معاشرت اور ان کے حقوق کی ادائیگی کو فرض قرار دیا اپنی اور ان کی ضروریات کے لئے کس معاش کو فریضہ بعدا لفریضہ فرمایا، تجارت، زراعت، صنعت، حرفت اور مزدوری کی لوگوں کو تاکید فرمائی، اسلامی حکمت کا قیام اور اسلامی نظام کی ترویج کو فریضہ نبوت قرار دے کر اپنے عمل سے پورے جزیرة العرب میں ایک نظام مملکت قائم فرمایا اور خلفائے راشدین نے اس کو دنیا کے مشرق و مغرب میں پھیلا دیا، جس سے ملوم ہوا کہ بقدر ضرورت ان چیزوں کا اشتغال نہ حب دنیا میں شمارے نہ حرص و طمع میں۔
یہود و نصاری نے اس حقیقت کو نہ سمجھا اور رہبانیت میں مبتلا ہوگئے، قرآن حکیم نے ان کی اس کجروی کو ان الفاظ میں رد فرمایارہبانیة ابتدموھا ماکتبنا ھاعلیھم الا ابتغآء رضوان اللہ فما رعوھا حق رعایتھا ”یعنی ان لوگوں نے اپنی طرف سے رہبانیت کے یعنی ترک دنیا کے طریقے اختیار کر لئے جو ہم نے ان کے ذمہ نہ لگائے تھے، پھر جو چیزیں خود عائد کرلی تھیں ان کو پورا بھی نہ کرسکے۔“
سنت اور بدعت کی حدود۔ رسول کریم ﷺ نے عبادات، معاملات اور معاشرت سب ہی چیزوں میں اپنے قول عمل سے اعتدال کی حدود مقرر فرما دی ہیں اور ان سے پیچھے رہنا کوتاہی اور آگے بڑھنا گمراہی ہے، اسی لئے آپ نے بدعات اور محدثات کو بڑی شدت کے ساتھ روکا ہے، ارشاد فرمایا
”یعنی ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے۔“
بدعت اسی چیز کو کہا جاتا ہے جو آنحضرت ﷺ کے قول و عمل میں صراحتہ یا اشارة موجد نہ ہو۔
حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ نے لکھا ہے کہ اسلام میں بدعت کو اس لئے سخت جرم قرار دیا کہ وہ تحریف دین کا راستہ ہے، پچھلی امتوں میں یہی ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب اور اپنے رسل کی تعلیمات پر اپنی طرف سے اضافے کر لئے اور ہر آنے والی نسل ان میں اضافے کرتی رہی یہاں تک کہ یہ پتہ نہ رہا کہ اصل دین کیا تھا اور لوگوں کے اضافے کیا ہیں۔
شاہ صاحب نے اپنی کتاب حجتہ اللہ البالغہ کے اندر یہ بیان فرمایا ہے کہ تحریف دین کے دنیا میں کیا کیا اسباب پیش آئے ہیں اور شریعت اسلام نے ان سب کے دروازوں پر کس طرح پہرہ بٹھایا کہ سوراخ سے یہ وباء اس امت میں نہ پھیلے۔
علماء و مشائخ کی تعظیم و اتباع میں راہ اعتدال۔ ان اسباب میں سے دین کے بارے میں تعمق و تشدد یعنی غلو فی الدین کو بڑا سبب قرار دیا مگر افسوس ہے کہ رسول کریم ﷺ کے اس قدر اہتمام اور شریعت کی اتنی پابندیوں کے باجود آج امت مسلمہ اسی غلو کی بری طرح شکار ہے، دین کے سارے ہی شعبوں میں اس کے آثار نمایاں ہیں، ان میں سے بالخصوص جو چیز ملت کے لئے مہلک اور انتہائی مضر ثابت ہو رہی ہے وہ دینی مقتداء و پیشواؤں کا معاملہ ہے، مسلمانوں کی ایک جماعت تو اس پر گئی ہے کہ مقتداء و پیشواء علماء و عرفاء کوئی چیز نہیں، کتاب اللہ ہمارے لئے کافی ہے، جیسے وہ اللہ کی کتاب سمجھتے ہیں ہم بھی سمجھ سکتے ہیں، ھم رجال ونحن رجال یعنی وہ بھی آدمی ہیں ہم بھی آدمی ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر ہوسناک جو نہ عربی زبان سے، واقف ہے نہ قرآن کے حقائق معارف سے نہ رسول کریم ﷺ کے بیان و تفسیر سے محض قرآن کا ترجمہ دیکھ کر اپنے کو قرآن کا عالم کہنے لگا، قرآن کریم کی جو تفسیر تشریح خود رسول کریم ﷺ یا آپ کے بلاواسطہ شاگرد یعنی صحابہ کرام سے منقول ہے اس سب سے قطع نظر جو بات ذہن میں آگئی اس کو قرآن کے سر تھوپ دیا، حالانہ اگر صرف کتاب بغیر معلم کے کافی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کو یہ قدرت تھی کہ کتاب کے نسخے لکھے لکھائے لوگوں کو پہنچا دیتے، رسول کو معلم بناکر بھیجنے کی ضرورت نہ تھی، اور اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ بات صرف کتاب اللہ کے ساتھ مخصوص نہیں، کسی بھی علم فن کی کتاب کا محض ترجمہ دیکھ کر کبھی کوئی شخص اس فن کا عالم نہیں بن سکتا، ڈاکٹری، یا طب یونانی کی کتابوں کا ترجمہ دیکھ کر آج تک کوئی حکیم یا ڈاکٹر نہیں بنا، انجینئری کی کتابیں دیکھ کر کوئی انجینئر نہیں بنا، کپڑا سینے یا کھانا پکانے کی کتابیں دیکھ کر کوئی درزی یا باورچی نہیں بنا، بلکہ ان سب چیزوں میں تعلیم و تعلم اور معلم کی ضرورت سب کے نزدیک مسلم ہے، مگر افسوس کہ قرآن و سنت ہی کو ایسا سرسری سمجھ لیا گیا ہے کہ اس کے لئے کسی معلم کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی، چناچہ ایک بہت بڑی تعلیم یافتہ لوگوں کی جماعت تو اس طرف غلو میں بہہ گئی کہ صرف قرآن کے مطابق کو کافی سمجھ بیٹھے، علماء سلف کی تفسیروں اور تعبیروں کو اور ان کے اقتداء، و اتباع کو سرے سے نظر انداز کردیا۔
دوسری طرف ایک بھاری جماعت مسلمانوں کی اسغز میں مبتلا ہوگئی کہ اندھا دھند جس کو چاہا اپنا مقتداء اور پیشوا بنا لیا، پھر ان کی اندھی تقلید شروع کردی، نہ یہ معلوم کہ جس کو ہم مقتداء اور پیشواء بنا رہے ہیں یہ علم و عمل اور صلاح وتقوی کے معیار پر صحیح بھی اترتا ہے یا نہیں ؟ اور نہ پھر اس طرف کوئی دھیان کیا کہ جو تعلیم یہ دے رہا ہے وہ قرآن و سنت کے مخالف تو نہیں ؟ شریعت اسلام نے غلو سے بچا کر ان دونوں کے درمیان طریقہ کار یہ بتلایا کہ کتاب اللہ کو رجال اللہ سے سیکھو اور رجال اللہ کو کتاب اللہ سے پہچانو، یعنی قرآن و سنت کی مشہور تعلیمات کے ذریعہ پہلے ان لوگوں کو پہچانو جو کتاب و سنت کے علوم میں مشغول ہیں اور ان کی زندگی کتاب و سنت کے رنگ میں رنگی ہوتی ہے، پھر کتاب و سنت کے ہر الجھے ہوئے مسئلہ میں ان کی تفسیر و تشریح کو اپنی رائے سے مقدم سمجھو، اور ان کا اتباع کرو۔
Top