Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 171
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ١ؕ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗ١ۚ اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ١٘ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ١۫ۚ وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ١ؕ اِنْتَهُوْا خَیْرًا لَّكُمْ١ؕ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ؕ سُبْحٰنَهٗۤ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ١ۘ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا۠   ۧ
يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لَا تَغْلُوْا : غلو نہ کرو فِيْ دِيْنِكُمْ : اپنے دین میں وَ : اور لَا تَقُوْلُوْا : نہ کہو عَلَي اللّٰهِ : پر (بارہ میں) اللہ اِلَّا : سوائے الْحَقَّ : حق اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں الْمَسِيْحُ : مسیح عِيْسَى : عیسیٰ ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم رَسُوْلُ : رسول اللّٰهِ : اللہ وَكَلِمَتُهٗ : اور اس کا کلمہ اَلْقٰىهَآ : اس کو ڈالا اِلٰي : طرف مَرْيَمَ : مریم وَ : اور رُوْحٌ : روح مِّنْهُ : اس سے فَاٰمِنُوْا : سو ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسول وَلَا : اور نہ تَقُوْلُوْا : کہو ثَلٰثَةٌ : تین اِنْتَھُوْا : باز رہو خَيْرًا : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں اللّٰهُ : اللہ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ : معبودِ واحد سُبْحٰنَهٗٓ : وہ پاک ہے اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : ہو لَهٗ : اس کا وَلَدٌ : اولاد لَهٗ : اس کا مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَكَفٰي : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ وَكِيْلًا : کارساز
اے کتاب والو مت مبالغہ کرو اپنے دین کی بات میں اور مت کہو اللہ تعالیٰ کی شان میں مگر پکی بات بیشک مسیح جو ہے عیسیٰ مریم کا بیٹا وہ رسول ہے اللہ کا اور کا کلام ہے جسکو ڈالا مریم کی طرف اور روح ہے اس کے ہاں کی سو مانو اللہ کو اور اس کے رسولوں کو اور نہ کہو کہ خدا تین ہیں اس بات کو چھوڑو بہتر ہوگا تمہارے واسطے بیشک اللہ معبو ہے اکیلا اس کے لائق نہیں ہے کہ اس کے اولاد ہو، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور کافی ہے اللہ کار ساز
ربط آیات
ماقبل کی آیات میں یہود کو خطاب تھا اور انہی کی گمراہیوں کی تفصیل ذکر کی گئی اس آیت میں نصاری کو خطاب ہے اور ان کی بد اعتقادی اور خدا اور حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق ان کے باطل خیالات کی تردید کی گئی ہے۔
خلاصہ تفسیر
اے اہل کتاب (یعنی انجیل والو) تم اپنے دین (کے بارہ) میں (عقیدہ حقہ کی) حد سے مت نکلو اور اللہ تعالیٰ کی شان میں غلط بات مت کہو (کہ نعوذ باللہ وہ صاحب اولاد ہے، جیسا بعض کہتے تھے المسیح ابن اللہ یا وہ مجموعہ آلہہ کا ایک جزو ہے جیسا بعض کہتے تھے ان اللہ ثالث ثلثة اور بقیہ دو جز ایک حضرت عیسیٰ ؑ کو کہتے تھے اور ایک حضرت جبرئیل ؑ کو جیسا آیت آئندہ میں ولا الملکة المقربون کے بڑھانے سے معلوم ہوتا ہے اور بعضے حضرت مریم (علیہا السلام) کو جیسا اتخذونی وامی سے معلوم ہوتا ہے یا وہ عین مسیح ہے جیسا بعض کہتے تھے ان اللہ ھو المسیح ابن مریم، غرض یہ سب عقیدے باطل ہیں) مسیح عیسیٰ بن مریم تو اور کچھ بھی نہیں البتہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ایک کلمہ (پیدائش) ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے (حضرت) مریم تک (حضرت جبرئیل ؑ کے واسطہ سے) پہنچایا تھا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک جان (دارچیز) ہیں (کہ اس جان کو حضرت مریم کے جسم میں بواسطہ نفخ حضرت جبرئیل ؑ کے پہنچا دیا تھا باقی نہ وہ ابن اللہ ہیں نہ تین میں کے ایک ہیں، جیسا عقائد مذکورہ میں لازم آتا ہے) سو (جب یہ سب باتیں غلط ہیں تو سب سے توبہ کرو اور) اللہ پر اور اس کے سب رسولوں پر (ان کی تعلیم کے مطابق ایمان لاؤ (اور وہ موقوف ہے توحید پر، پس توحید کا عقیدہ رکھو) اور یوں مت کہو کہ (خدا) تین ہیں (مقصود منع کرنا ہے شرک سے اور وہ سب اقوال مذکورہ میں مشترک ہے، اس شرک سے) باز آجاؤ تمہارے لئے بہتر ہوگا (اور توحید کے قائل ہوجاؤ کیونکہ) معبود حقیقی تو ایک ہی معبود ہے (اور وہ صاحب اولاد ہونے سے منزہ ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں موجودات ہیں سب اس کی ملک ہیں (اور ان کا منزہ اور مالک علی الاطلاق ہونا دلیل ہی توحید کی) اور (ایک دلیل یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ کار ساز ہونے میں کافی ہیں (اور ان کے سوا سب کار سازی میں ناکافی و محتاج الی الغیر اور ایک حد پر جا کر عاجز ہوجاتے ہیں اور یہ کفایت صفات کمال سے ہے اور صفات کا کمال لوازم الوہیت سے ہے، جب وہ غیر اللہ میں منتقی ہے پس الوہیت میں بھی منفی ہے، لہٰذا توحید ثابت ہے۔
معارف و مسائل
وکلمتہ اس لفظ میں یہ بتلایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ اللہ کا کلمہ ہیں، مفسرین نے اس کے مختلف معانی بیان کئے ہیں۔
(1) امام غزالی فرماتے ہیں کہ کسی بچے کی پیدائش میں دو عامل کارفرما ہوتے ہیں، ایک عامل نطفہ ہے، اور دوسرا اللہ تعالیٰ کا کلمہ ”کن“ فرمانا جس کے بعد وہ بچہ وجود میں آجاتا ہے ........ حضرت عیسیٰ ؑ کے حق میں چونکہ پہلا عامل منفی ہے، اس لئے دوسرے عامل کی طرف نسبت کر کے آپ کو کلمتہ اللہ کہا گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مادی اسباب کے واسطہ کے بغیر صرف کلمہ ”کن“ سے پیدا ہوئے ہیں ........ اس صورت میں القھا الی مریم کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کلمہ حضرت مریم (علیہا السلام) تک پہنچا دیا جس کے نتیجہ میں حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش عمل میں آگئی۔
(2) بعض نے فرمایا کہ کلمة اللہ، بشارة اللہ کے معنی میں ہے اور مادہ اس سے حضرت عیسیٰ ؑ ہیں، اللہ جل شانہ، نے فرشتوں کے ذریعہ حضرت مریم (علیہا السلام) کو حضرت عیسیٰ کی جو بشارت دی تھی اس میں ”کلمہ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اذ قالت الملکة یمرم ان اللہ یبشرک بکلمة
(3) بعض نے فرمایا کلمة آیت اور نشانی کے معنی میں ہے، جیسا کہ دوسری جگہ یہ لفظ آیتہ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، وصدقت بکلمت ربھا
وروح منہ اس لفظ میں دو باتیں قابل غور ہیں ایک یہ کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو روح کہنے کے کیا معنی ہیں ؟ ........ اور دوسرے یہ کہ اللہ جل شانہ کی طرف جو اس کی نسبت کی گئی ہے اس نسبت کا کیا مطلب ہے ؟
اس سلسلہ میں مفسرین کے متعدد اقوال منقول ہیں۔
(1) بعض نے فرمایاعرف کا قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی شئے کی طہارت اور پاکیزگی کو بیان کرنا ہوتا ہے تو مبالغہ کے لئے اس پر روح کا اطلاق کردیا جاتا ہے، حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش میں چونکہ کسی باپ کے نطفہ کا دخل نہیں تھا اور وہ صرف اللہ جل شانہ کے ارادہ اور کلمہ کن کا نتیجہ تھے، اس لئے اپنی طہارت و نظافت میں درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے، اسی وجہ سے عرف کے محاورہ کے مطابق کے مطابق ان کو روح کہا گیا اور اللہ کی طرف نسبت ان کی تعظیم و تشریف کے لئے ہے، جس طرح مساجد کی تعظیم کے لئے ان کی نسبت اللہ کی طرف کردی جاتی ہے، ”مساجد اللہ“ ، یا کعبہ کی نسبت اللہ کی طرف کر کے ”بیت اللہ“ کہا جاتا ہے، یا کسی اطاعت شعار بندہ کی نسبت اللہ کی طرف کر کے ”عبداللہ“ کہا جاتا ہے، چناچہ سورة بنی اسرائیل میں آنحضرت ﷺ کے لئے یہ صیغہ استعمال کیا گیا ہے اسری بعبدہ
(2) بعض حضرات نے فرمایا عیسیٰ ؑ کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے مردہ دلوں میں روحانی حیات ڈال کر پھر زندہ کردیں، چونکہ وہ روحانی حیات کا سبب تھے جس طرح روح جسمانی حیات کا سبب ہوا کرتی ہے، اس لئے اس اعتبار سے ان کو روح کہا گیا، جیسا کہ خود قرآن کریم کے لئے بھی یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ وکذلک اوحینا الیک روحامن امرنا، کیونکہ قرآن کریم بھی روحانی حیات بخشتا ہے۔
(3) بعض نے فرمایا کہ روح کا استعمال راز کے معنی میں ہوتا ہے، حضرت عیسیٰ ؑ اپنی عجیب و غریب پیدائش کی وجہ سے چونکہ اللہ جل شانہ کی ایک نشانی اور راز تھے اس لئے انہیں روح اللہ کہا گیا۔
(4) بعض نے کہا کہ یہاں مضاف مخذوف ہے اور اصل عبارت یوں تھی ذوروح منہ اور چونکہ ذی روح ہونے میں سب حیوان برابر ہیں، اس لئے عیسیٰ ؑ کا امتیاز اس طرح ظاہر کیا گیا کہ ان کی نسبت اللہ جل شانہ نے اپنی طرف کردی۔
(5) ایک قول یہ بھی ہے کہ روح، نفخ (پھونک) کے معنی میں ہے، حضرت جبرئیل ؑ نے حضرت مریم کے گریبان میں اللہ کے حکم سے پھونک دیا تھا اور اسی سے حمل قرار پا گیا، چونکہ حضرت عیسیٰ ؑ بطور معجزہ کے صرف نفخ سے پیدا ہوگئے تھے اس لئے آپ کو روح اللہ کہا گیا، قرآن کریم کی دوسری آیت فنفخنا فیہا من روحنا سے اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اس کے علاہ بھی متعدد احتمالات بیان کئے گئے ہیں، بہرحال اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ اللہ کا ایک جز ہیں اور یہی روح حضرت عیسیٰ ؑ کی انسانی شکل میں ظاہر ہوگئی ہے۔
لطیفہ۔ علامہ آلوسی نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ہارون الرشید کے دربار میں ایک نصرانی طبیب نے حضرت علی بن الحسین واقدی سے مناظرہ کیا اور ان سے کہا کہ تمہاری کتاب میں ایسا لفظ موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ اللہ کا جزو ہیں اور دلیل میں یہ آیت پڑھ دی، جس میں ”روح منہ“ کے الفاظ ہیں۔
علامہ واقدی نے ان کے جواب میں ایک دوسری آیت پڑھ دی وسخرلکم ما فی السموت وما فی الارض جمیعاً منہ (اس آیت میں کہا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اسی اللہ سے ہے اور منہ کے ذریعہ سے سب چیزوں کی نسبت اللہ کی طرف کردی گئی ہے) اور فرمایا کہ روح منہ کا اگر مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ اللہ کا جزو ہیں تو اس آیت کا مطلب پھر یہ ہوگا کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے وہ بھی اللہ کا جزو ہے ؟ یہ جواب سن کر نصرانی طبیب لاجواب ہوا اور مسلمان ہوگیا۔
ولاتقولوا ثلثة نزول قرآن کے وقت نصاری جن بڑے بڑے فرقوں میں تقسیم تھے تثلیث کے متعلق ان کا عقیدہ تین جدا جدا اصولوں پر مبنی تھا، ایک فرقہ کہتا تھا کہ مسیح عین خدا ہیں اور خدا ہی بشکل مسیح دنیا میں اتر آیا ہے، دوسرے فرقہ کا کہنا یہ تھا کہ مسیح ابن اللہ ہے اور تیسرا فرقہ یہ دعویٰ کرتا تھا کہ وحدت کا راز تین میں پوشیدہ ہے، باپ، بیٹا مریم اس جماعت میں بھی دو گروہ تھے، دوسرا گروہ وہ حضرت مریم کی جگہ روح القدس کو اقنوم ثالث کہتا تھا غرض یہ لوگ حضرت مسیح ؑ کو ثالث ثلاثہ تسلیم کرتے تھے اس لئے قرآن کریم میں تینوں کو جدا جدا بھی مخاطب کیا ہے اور یکجا بھی، اور نصاریٰ پر یہ واضح کردیا گیا ہے کہ حق ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ مسیح ؑ مریم (علیہا السلام) کے بطن سے پیدا شدہ انسان اور خدا کے سچے رسول ہیں، اس سے زیادہ جو کچھ کہا جاتا ہے سب باطل اور لغو ہے، خواہ اس میں تفریط ہو جیسا کہ یہود کا عقیدہ ہے کہ العیاذ باللہ وہ شعبدہ باز اور مفتری تھے، یا افراط ہو جیسا کہ نصاری کا عقیدہ ہے کہ وہ خدا ہیں یا خدا کے بیٹے ہیں، یا تین میں تیسرے ہیں۔
قرآن کریم نے بیشمار آیات میں ایک طرف تو نصاری اور یہود کی گمراہی کو واضح کیا اور دوسری طرف حضرت عیسیٰ ؑ کی شان رفیع اور عنداللہ ان کے مقام اعلی کو واضح فرمایا ہے تاکہ افراط وتفریط کے کج راہوں میں سے حق کا معتدل راستہ نمایاں ہوجائے۔
عیسائی عقائد اور ان کے مختلف پہلوؤں پر اور اس کے بالمقابل اسلام کی حقانیت پر اگر تفصیلی معلومات حاصل کرنا ہوں تو حضرت مولانا رحمتہ اللہ صاحب کیرانوی کی مشہور عالم کتاب ”اظہار الحق“ کا مطالعہ کریں، جس کا عربی سے ترجمہ مع شرح و تحقیق حال میں دارالعلوم کراچی نے تین جلدوں میں شائع کیا ہے۔
لہ ما فی السموات وما فی الارض وکفی باللہ وکیلا، یعنی آسمان اور زمین میں اوپر سے نیچے تک جو کچھ ہے سب اس کی مخلوق اور اس کی مملوک اور اس کے بندے ہیں، پھر کہتے اس کا شریک یا اس کا بیٹا کون اور کیونکر ہوسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب کام بنانے والا ہے اور سب کی کار سازی کے لئے وہی کافی اور بس ہے، کسی دوسرے کی حاجت نہیں، پھر بتلایئے اس کو شریک یا بیٹے کی حاجت کیسے ہو سکتی ہے ؟
خلاصہ۔ یہ ہوا کہ نہ کسی مخلوق میں اس کی شریک بننے کی قابلیت اور لیاقت اور نہ اس کی ذات پاک میں اس کی گنجائش اور نہ اس کی حاجت، جس سے معلوم ہوگیا کہ مخلوقات میں کسی کو خدا کا شریک یا بیٹا کہنا اس کا کام ہے جو ایمان اور عقل دونوں سے محروم ہو۔
دین میں غلو حرام ہے۔ (قولہ تعالی) لاتغلوا فی دینکم، اس آیت میں اہل کتاب کو غلو فی الدین سے منع فرمایا گیا، غلو کے لفظی معنی حد سے نکل جانے کے ہیں اور امام حصاص نے احکام القرآن میں فرمایا
”یعنی دین کے بارے میں غلو یہ ہے کہ دین میں جس چیز کی جو حد مقرر کی گئی ہے اس سے آگے نکل جائے۔“
اہل کتاب یعنی یہود و نصاری دونوں کو اس حکم کا مخاطب اس لئے بنایا گیا کہ غلوفی الدین ان دونوں میں مشترک ہے اور یہ دونوں فرقے غلوفی الدین ہی کے شکار ہیں، کیونکہ نصاری نے تو عیسیٰ ؑ کو ماننے اور ان کی تعظیم میں غلو کیا، ان کو خدا یا خدا کا بیٹا یا تیسرا خدا بنادیا اور یہود نے ان کے نہ ماننے اور رد کرنے میں غلو کیا کہ ان کو رسول بھی نہ مانا، بلکہ معاذ اللہ ان کی والدہ ماجدہ مریم پر تہمت لگائی اور ان کے نسب پر عیاں لگایا۔
چونکہ غلو فی الدین کے سبب یہود و نصاری کی گمراہی اور تباہی مشاہدہ میں آچکی تھی، اس لئے رسل اکرم ﷺ نے اپنی امت کو اس معاملہ میں پوری احتیاط کی تاکید فرمائی، مسند احمد میں حضرت فاروق اعظم کی روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا
”میری مدح وثناء میں ایسا مبالغہ نہ کر جیسا نصاری نے عیسیٰ بن مریم کے معاملہ میں کیا ہے، خوب سمجھ لو کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس لئے تم مجھے اللہ کا بندہ اور رسول کہا کرو۔“
(اس روایت کو بخاری اور ابن مدینی نے بھی روایت کیا ہے اور صحیح السن قرار دیا ہے۔)
خلاصہ یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ اور بشر ہونے میں سب کے ساتھ شریک ہوں، میرا سب سے بڑا درجہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، اس سے آگے بڑھانا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں مجھے شریک قرار دے دویہ غلو، تم نصاری کی طرح کہیں اس غلو میں مبتلا نہ ہوجاؤ اور یہود و نصاری کا یہ غلو فی الدین صرف انبیاء ہی کی حد تک نہیں رہا، بلکہ انہوں نے جب یہ عادت ہی ڈال لی تو انبیاء (علیہم السلام) کے حوارییین اور متبعین اور ان کے نائبین کے مقابلہ میں بھی یہی برتاؤ اختیار کرلیا، رسول کو تو خدا بنادیا تھا، رسول کے متبعین کو معصوم کا درجہ دیدیا، پھر یہ بھی تنقید و تحقیق نہ کی کہ یہ لوگ حقیقتا انبیاء کے متبع اور ان کی تعلیم پر صحیح طور سے قائم بھی ہیں یا محض وراثتہً عالم یا شیخ سمجھے جاتے ہیں، نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں ان کی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آگئی جو خود بھی گمراہ تھے اور ان کی گمراہی کو اور بڑھاتے تھے، دین اور تدین ہی کی راہ سے ان کا دین برباد ہوگیا، قرآن حکیم نے ان لوگوں کی اس حالت کا بیان اس آیت میں فرمایا ہےاتخذوا احبارھم ورھبانھم ارباباً من دون اللہ، یعنی ان لوگوں نے اپنے مذہبی پیشواؤ کو بھی معبود کا درجہ دیدیا، اس طرح رسول کو تو خدا بنایا ہی تھا، اتباع رسول کے نام پر پچھلے مذہبی پیشواؤں کی بھی پرستش شروع کردی۔
اس سے معلوم ہوا کہ غلو فی الدین وہ تباہ کن چیز ہے جس نے پچھلی امتوں کے دین کو دین ہی کے نام پر برباد کردیا ہے، اسی لئے ہمارے آقا و مولا حضرت نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو اس وباء عظیم سے بچانے کے لئے مکمل تدبیریں فرمائیں۔
حدیث میں ہے کہ حج کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے رمی جمرات کے لئے حضرت عبداللہ بن عباس کو فرمایا کہ آپ کے واسطے کنکریاں جمع کر لائیں، انہوں نے متوسط قسم کی کنکریاں پیش کردیں، آپ نے ان کو بہت پسند فرما کردو مرتبہ فرمایابمثلھن بمثلھن یعنی ایسی ہی متوسط کنکریوں سے جمرات پر رمی کرنا چاہئے، پھر فرمایا
”یعنی غلو فی الدین سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی امتیں غلو فی الدین ہی کی وجہ سے ہلاک و برباد ہوئیں۔“
اس حدیث سے چند اہم مسائل معلوم ہوئے
فوائد مہمہ۔ اول یہ کہ حج میں جو کنکریاں جمرات پر پھینکیں جاتی ہیں، ان کی حد مسنون یہ ہے کہ وہ متوسط ہوں، نہ بہت چھوٹی ہوں نہ بہت بڑی، بڑے بڑے پتھر اٹھا کر پھینکنا غلو فی الدین میں داخل ہے۔
دوسرے یہ معلوم ہوا کہ ہر چیز کی حد شرعی وہ ہے جو رسول کریم ﷺ نے اپنے قول و عمل سے متعین فرما دی، اس سے تجاوز کرنا غلو ہے۔
تیسرے یہ واضح ہوگیا کہ غلو فی الدین کی تعریف یہ ہے کہ کسی کام میں اس کی حد مسنون سے تجاوز کیا جائے۔
حب دنیا کی حدود۔ ضرورت سے زیادہ دنیا کے مال و دولت اور عیش و عشرت کی طمع اسلام میں مذمت ہے اور اس کے ترک کرنے کی ہدایتیں بھی قرآن میں بکثرت وارد ہیں، لیکن رسول کریم ﷺ نے جہاں طمع دنیا اور حب دنیا سے منع فرمایا وہیں اپنے قول و عمل سے اس کی حدود بھی متعین فرما دی ہیں کہ نکاح کرنے کو اپنی سنت قرار دیا اور اس کی ترغیب دی، اولاد پیدا کرنے کے فوائد اور درجات بتلائے اہل و عیال کے ساتھ حسن معاشرت اور ان کے حقوق کی ادائیگی کو فرض قرار دیا اپنی اور ان کی ضروریات کے لئے کس معاش کو فریضہ بعدا لفریضہ فرمایا، تجارت، زراعت، صنعت، حرفت اور مزدوری کی لوگوں کو تاکید فرمائی، اسلامی حکمت کا قیام اور اسلامی نظام کی ترویج کو فریضہ نبوت قرار دے کر اپنے عمل سے پورے جزیرة العرب میں ایک نظام مملکت قائم فرمایا اور خلفائے راشدین نے اس کو دنیا کے مشرق و مغرب میں پھیلا دیا، جس سے ملوم ہوا کہ بقدر ضرورت ان چیزوں کا اشتغال نہ حب دنیا میں شمارے نہ حرص و طمع میں۔
یہود و نصاری نے اس حقیقت کو نہ سمجھا اور رہبانیت میں مبتلا ہوگئے، قرآن حکیم نے ان کی اس کجروی کو ان الفاظ میں رد فرمایارہبانیة ابتدموھا ماکتبنا ھاعلیھم الا ابتغآء رضوان اللہ فما رعوھا حق رعایتھا ”یعنی ان لوگوں نے اپنی طرف سے رہبانیت کے یعنی ترک دنیا کے طریقے اختیار کر لئے جو ہم نے ان کے ذمہ نہ لگائے تھے، پھر جو چیزیں خود عائد کرلی تھیں ان کو پورا بھی نہ کرسکے۔“
سنت اور بدعت کی حدود۔ رسول کریم ﷺ نے عبادات، معاملات اور معاشرت سب ہی چیزوں میں اپنے قول عمل سے اعتدال کی حدود مقرر فرما دی ہیں اور ان سے پیچھے رہنا کوتاہی اور آگے بڑھنا گمراہی ہے، اسی لئے آپ نے بدعات اور محدثات کو بڑی شدت کے ساتھ روکا ہے، ارشاد فرمایا
”یعنی ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے۔“
بدعت اسی چیز کو کہا جاتا ہے جو آنحضرت ﷺ کے قول و عمل میں صراحتہ یا اشارة موجد نہ ہو۔
حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ نے لکھا ہے کہ اسلام میں بدعت کو اس لئے سخت جرم قرار دیا کہ وہ تحریف دین کا راستہ ہے، پچھلی امتوں میں یہی ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب اور اپنے رسل کی تعلیمات پر اپنی طرف سے اضافے کر لئے اور ہر آنے والی نسل ان میں اضافے کرتی رہی یہاں تک کہ یہ پتہ نہ رہا کہ اصل دین کیا تھا اور لوگوں کے اضافے کیا ہیں۔
شاہ صاحب نے اپنی کتاب حجتہ اللہ البالغہ کے اندر یہ بیان فرمایا ہے کہ تحریف دین کے دنیا میں کیا کیا اسباب پیش آئے ہیں اور شریعت اسلام نے ان سب کے دروازوں پر کس طرح پہرہ بٹھایا کہ سوراخ سے یہ وباء اس امت میں نہ پھیلے۔
علماء و مشائخ کی تعظیم و اتباع میں راہ اعتدال۔ ان اسباب میں سے دین کے بارے میں تعمق و تشدد یعنی غلو فی الدین کو بڑا سبب قرار دیا مگر افسوس ہے کہ رسول کریم ﷺ کے اس قدر اہتمام اور شریعت کی اتنی پابندیوں کے باجود آج امت مسلمہ اسی غلو کی بری طرح شکار ہے، دین کے سارے ہی شعبوں میں اس کے آثار نمایاں ہیں، ان میں سے بالخصوص جو چیز ملت کے لئے مہلک اور انتہائی مضر ثابت ہو رہی ہے وہ دینی مقتداء و پیشواؤں کا معاملہ ہے، مسلمانوں کی ایک جماعت تو اس پر گئی ہے کہ مقتداء و پیشواء علماء و عرفاء کوئی چیز نہیں، کتاب اللہ ہمارے لئے کافی ہے، جیسے وہ اللہ کی کتاب سمجھتے ہیں ہم بھی سمجھ سکتے ہیں، ھم رجال ونحن رجال یعنی وہ بھی آدمی ہیں ہم بھی آدمی ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر ہوسناک جو نہ عربی زبان سے، واقف ہے نہ قرآن کے حقائق معارف سے نہ رسول کریم ﷺ کے بیان و تفسیر سے محض قرآن کا ترجمہ دیکھ کر اپنے کو قرآن کا عالم کہنے لگا، قرآن کریم کی جو تفسیر تشریح خود رسول کریم ﷺ یا آپ کے بلاواسطہ شاگرد یعنی صحابہ کرام سے منقول ہے اس سب سے قطع نظر جو بات ذہن میں آگئی اس کو قرآن کے سر تھوپ دیا، حالانہ اگر صرف کتاب بغیر معلم کے کافی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کو یہ قدرت تھی کہ کتاب کے نسخے لکھے لکھائے لوگوں کو پہنچا دیتے، رسول کو معلم بناکر بھیجنے کی ضرورت نہ تھی، اور اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ بات صرف کتاب اللہ کے ساتھ مخصوص نہیں، کسی بھی علم فن کی کتاب کا محض ترجمہ دیکھ کر کبھی کوئی شخص اس فن کا عالم نہیں بن سکتا، ڈاکٹری، یا طب یونانی کی کتابوں کا ترجمہ دیکھ کر آج تک کوئی حکیم یا ڈاکٹر نہیں بنا، انجینئری کی کتابیں دیکھ کر کوئی انجینئر نہیں بنا، کپڑا سینے یا کھانا پکانے کی کتابیں دیکھ کر کوئی درزی یا باورچی نہیں بنا، بلکہ ان سب چیزوں میں تعلیم و تعلم اور معلم کی ضرورت سب کے نزدیک مسلم ہے، مگر افسوس کہ قرآن و سنت ہی کو ایسا سرسری سمجھ لیا گیا ہے کہ اس کے لئے کسی معلم کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی، چناچہ ایک بہت بڑی تعلیم یافتہ لوگوں کی جماعت تو اس طرف غلو میں بہہ گئی کہ صرف قرآن کے مطابق کو کافی سمجھ بیٹھے، علماء سلف کی تفسیروں اور تعبیروں کو اور ان کے اقتداء، و اتباع کو سرے سے نظر انداز کردیا۔
دوسری طرف ایک بھاری جماعت مسلمانوں کی اسغز میں مبتلا ہوگئی کہ اندھا دھند جس کو چاہا اپنا مقتداء اور پیشوا بنا لیا، پھر ان کی اندھی تقلید شروع کردی، نہ یہ معلوم کہ جس کو ہم مقتداء اور پیشواء بنا رہے ہیں یہ علم و عمل اور صلاح وتقوی کے معیار پر صحیح بھی اترتا ہے یا نہیں ؟ اور نہ پھر اس طرف کوئی دھیان کیا کہ جو تعلیم یہ دے رہا ہے وہ قرآن و سنت کے مخالف تو نہیں ؟ شریعت اسلام نے غلو سے بچا کر ان دونوں کے درمیان طریقہ کار یہ بتلایا کہ کتاب اللہ کو رجال اللہ سے سیکھو اور رجال اللہ کو کتاب اللہ سے پہچانو، یعنی قرآن و سنت کی مشہور تعلیمات کے ذریعہ پہلے ان لوگوں کو پہچانو جو کتاب و سنت کے علوم میں مشغول ہیں اور ان کی زندگی کتاب و سنت کے رنگ میں رنگی ہوتی ہے، پھر کتاب و سنت کے ہر الجھے ہوئے مسئلہ میں ان کی تفسیر و تشریح کو اپنی رائے سے مقدم سمجھو، اور ان کا اتباع کرو۔
Top