Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 174
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ : اے لوگو ! قَدْ جَآءَكُمْ : تمہارے پاس آچکی بُرْهَانٌ : روشن دلیل مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَاَنْزَلْنَآ : اور ہم نے نازل کیا اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف نُوْرًا : روشنی مُّبِيْنًا : واضح
اے لوگو تمہارے پاس پہنچ چکی تمہارے رب کی طرف سے سند اور اتاری ہم نے تم پر روشنی واضح
خلاصہ تفسیر
اے (تمام) لوگو یقیناً تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک (کافی) دلیل آچکی ہے (وہ ذات مبارک ہے رسول اللہ ﷺ کی) اور ہم نے تمہارے پاس ایک صاف نور بھیجا ہے (وہ قرآن مجید ہے پس رسول اللہ ﷺ اور قرآن کے ذریعہ سے جو کچھ تم کو بتلایا جائے وہ سب حق ہے جن میں مضامین مذکورہ بھی داخل ہیں) سو جو لوگ اللہ پر ایمان لائے (جس کے لئے توحید و تنزیہ کا اعتقاد لازم ہے) اور انہوں نے اللہ (کے دین) کو (یعنی اسلام کو) مضبوط پکڑا (جس کے لئے رسول اور قرآن کی تصدیق لازم ہے) سو ایسوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں یعنی جنت میں) داخل کریں گے اور اپنے فضل میں (لے لیں گے یعنی دخول جنت کے علاوہ اور بھی نعمائے عظمی دیں گے جن میں دیدار الہی بھی داخل ہے) اور اپنے تک (پہنچنے کا) ان کو سیدھا راستہ بتلا دیں گے (یعنی دنیا میں ان کو طریق رضا پر قائم و ثابت رکھیں گے اور اسی سے تارک ایمان و اعمال صالحہ کی حالت معلوم ہوگئی کہ ان کو یہ ثمرات نہ ملیں گے۔)
معارف و مسائل
برہان سے کیا مراد ہے ؟: (قولہ تعالی) قدجآء کم برھان من ربکم برہان کے لفظی معنی دلیل کے ہیں، اس سے مراد آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس ہے (روح)
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی ذات اقدس کو لفظ برہان سے اس لئے تعبیر فرمایا کہ آپ کی ذات مبارک اور آپ کے اخلاق کریمانہ، آپ کے معجزات اور آپ پر کتاب کا نزول، یہ سب چیزیں آپ کی نبوت اور آپ کی رسالت کے کھلے کھلے دلائل ہیں، جن کو دیکھنے کے بعد کسی اور دلیل کی احتیاج باقی نہیں رہتی تو یوں سمجھنا چاہئے کہ آپ کی ذات خود ہی ایک مجسم دلیل ہے۔
اور نور سے مراد قرآن مجید ہے (روح) جیسا کہ سورة مائدہ کی اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے قدجآء کم من اللہ نور و کتب مبین (5: 51) ”یعنی تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشن چیز آئی ہے اور وہ ایک کتاب واضح یعنی قرآن ہے“ (بیان القرآن) اس آیت میں جس کو نر کہا گیا ہے آگے اسی کو کتاب مبین کہا گیا، یہاں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ عطف تو تغائر کو چاہتا ہے لہٰذا نور اور کتاب ایک چیز نہیں ہو سکتے، اس لئے کہ تغائر عنوان کا کافی ہے اگرچہ مصداق اور معنون ایک ہی ہے (روح)
اور اگر نور سے مراد آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس ہو، اور کتاب سے مراد قرآن مجید ہو تو یہ بھی صحیح ہے (روح) لیکن اس سے آنحضرت ﷺ کا ایسا نور محض ہونا ثابت نہیں ہوتا جو بشریت اور جسمانیت کے منافی ہو۔
Top