Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 24
وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ۚ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ١ۚ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ١ؕ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةً١ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
وَّ : اور الْمُحْصَنٰتُ : خاوند والی عورتیں مِنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں اِلَّا : مگر مَا : جو۔ جس مَلَكَتْ : مالک ہوجائیں اَيْمَانُكُمْ : تمہارے داہنے ہاتھ كِتٰبَ اللّٰهِ : اللہ کا حکم ہے عَلَيْكُمْ : تم پر وَاُحِلَّ : اور حلال کی گئیں لَكُمْ : تمہارے لیے مَّا وَرَآءَ : سوا ذٰلِكُمْ : ان کے اَنْ : کہ تَبْتَغُوْا : تم چاہو بِاَمْوَالِكُمْ : اپنے مالوں سے مُّحْصِنِيْنَ : قید (نکاح) میں لانے کو غَيْرَ : نہ مُسٰفِحِيْنَ : ہوس رانی کو فَمَا : پس جو اسْتَمْتَعْتُمْ : تم نفع (لذت) حاصل کرو بِهٖ : اس سے مِنْھُنَّ : ان میں سے فَاٰتُوْھُنَّ : تو ان کو دو اُجُوْرَھُنَّ فَرِيْضَةً : ان کے مہر مقرر کیے ہوئے وَلَا : اور نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر فِيْمَا : اس میں جو تَرٰضَيْتُمْ : تم باہم رضا مند ہوجاؤ بِهٖ : اس سے مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد الْفَرِيْضَةِ : مقرر کیا ہوا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور خاوند والی عورتیں مگر جن کے مالک ہوجائیں تمہارے ہاتھ حکم ہوا اللہ کا تم پر اور حلال ہیں تم کو سب عورتیں ان کے سوا بشرطیکہ طلب کرو ان کو اپنے مال کے بدلے قید میں لانے کو نہ مستی نکالنے کو پھر جس کو کام میں لائے تم ان عورتوں میں سے تو ان کو دو ان کے حق میں جو مقرر ہوئے اور گناہ نہیں تم کو اس بات میں کہ ٹھہرالو تم دونوں آپس کی رضا سے مقرر کئے پیچھے بیشک اللہ ہے خبردار حکمت والا۔
والمحصنت من النسآء
یعنی شوہروں والی عورتیں بھی حرام کی گئیں جب تک کوئی عورت کسی شخص کے نکاح میں ہو، دوسرا شخص اس سے نکاح نہیں کرسکتا، اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ ایک عورت بیک وقت ایک سے زائد شوہر والی نہیں ہو سکتی ہے، اس دور کے بعض جاہل ملحد کہنے لگے ہیں کہ مردوں کو جب ایک سے زائد بیویوں کی اجازت ہے تو عورتوں کو بھی ایک سے زائد شوہروں سے متمتع ہونے کی اجازت ملنی چاہئے، یہ مطالبہ اس آیت شریفہ کے بالکل خلاف ہے، ایسی جاہلانہ باتیں کرنے والے لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ مرد کے لئے کثرت تاریخ شاہد ہے، لیکن عورت کے لئے ایک وقت میں ایک سے زائد شوہر ہونا، اس عورت کے لئے بھی باعث مصیبت ہے اور جو دو مرد ایک عورت کے شوہر بن جائیں ان کے لئے بھی باعث ننگ و عار ہے اور اس بےشرمی ہے نیز اس میں کسی بچہ کے ثابت النسب ہونے کا بھی کوئی راستہ باقی نہیں رہتا، جب کئی مرد کسی عورت سے استمتاع کریں گے تو پیدا ہونے والی اولاد کو ان میں سے کسی ایک کا بیٹا تجویز کرنے کا کوئی طریق باقی نہ رہے گا، اس طرح کا بدترین مطالبہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو انسانیت کے سراپا دشمن ہوں اور جن کی غیرت و حیا کا جنازہ نکل چکا ہو ایسے لوگ اولاد اور والدین کے حقوق کی لائن سے وجود میں آنے والی رحمتوں سے پوری انسانیت کو محروم کرنے کی حمایت میں لگے ہوئے ہیں، جب نسب ثابت نہیں ہوگا تو باہمی حقوق و فرائض کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے گی ؟
خالص طبعی اور عقلی اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو ایک عورت کے لئے متعدد شوہر ہونے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔
1۔ ازدواج کا بنیادی مقصد تناسل ہے، اس اعتبار سے متعدد عورتیں تو ایک مرد سے حاملہ ہو سکتی ہیں لیکن ایک عورت متعدد مردوں سے حاملہ نہیں ہو سکتی وہ ایک ہی سے حاملہ ہوگی، اس لئے متعدد شوہروں کی صورت میں ایک کے علاوہ باقی شوہروں کی قوت ضائع گئی۔ شہوت رانی کے سوا ان کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہوسکا۔
2۔ تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت ہے کہ عورت مرد کے مقابلہ میں صنف نازک ہے وہ سال کے اکثر حصہ میں استمتاع کے بھی قابل نہیں رہتی، بعض حالات میں اس کے لئے ایک ہی شوہر کے حقوق پورے کرنا ممکن نہیں ہوتا، چہ جائے کہ ایک سے زیادہ شوہر ہوں۔
3۔ چونکہ مرد جسمانی قوت کے اعتبار سے عورت کے مقابلہ میں زیادہ صحت مند ہے، اس لئے اگر کسی مرد کی جنسی قوت معمول سے زیادہ ہو اور ایک عورت سے اس کی تشفی نہ ہو سکتی ہو تو اسے جائز طریقہ سے دوسرے اور تیسرے نکاح کا موقع ملنا چاہئے، ورنہ وہ دوسرے ناجائز طریقے اختیار کرے گا اور پورے معاشرے کو باگڑ دے گا، لیکن عورت سے ایسے بگاڑ کا اندیشہ نہیں ہے۔
شریعت اسلامیہ میں اس مسئلہ کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ نہ صرف کسی شخص کے نکاح میں ہوتے ہوئے عورت کے دوسرے نکاح کو حرام قرار دیا ہے بلکہ کسی عورت کا کوئی شوہر طلاق دیدے یا مر جائے تو اس کی عدت گزرنے تک بھی کسی دوسرے شخص سے اس عورت کا نکاح نہیں ہو سکتا۔
الاماملکت ایمانکم یہ جملہ اوالمحصنت من النسآء سے استثناء ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر والی بیوی سے کسی دوسرے شخص کو نکاح کرنا جائز نہیں ہے، الا یہ کہ کوئی عورت مملوکہ باندی ہو کر آجائے جس کی صورت یہ ہے کہ مسلمانوں نے دارالحرب کے کافروں سے جہاد کیا اور وہاں سے کچھ عورتیں قید کر کے لے آئے، ان عورتوں میں جو عورت دارالاسلام میں لائی گئی اور اس کا شوہر دارالحرب میں رہ گیا، تو اس عورت کا نکاح دارالاسلام میں آنے سے اپنے سابق شوہر سے ختم ہوگیا، اب یہ عورت اگر کتابیہ یا مسلمہ ہو تو اس سے دارالاسلام کا کوئی بھی مسلمان نکاح کرسکتا ہے اور اگر امیر المومنین اس کو باندی بنا کر کسی فوجی سپاہی کو مال غنیمت کی تقسیم میں دیدے تب بھی اس سے استمتاع جائز ہے ........ لیکن یہ نکاح و استمتاع ایک حیض آنے کے بعد ہی جائز ہے اور اگر حمل ہے تو وضع حمل ضروری ہے۔
مسئلہ۔ اگر کوئی کافر عورت دالحرب میں مسلمان ہوجائے اور اس کا شوہر کافر ہے تو تین حیض گذرنے کے بعد وہ اس کے نکاح سے جدا ہوجائے گی۔
مسئلہ۔ اور اگر دارالسلام میں کوئی کافر عورت مسلمان ہوجائے اور اس کا شوہر کافر ہو تو حاکم شرع اس کے شوہر پر اسلام پیش کرے اگر وہ مسلمان ہونے سے انکار کرے تو قاضی ان دونوں میں تفریق کر دے اور یہ تفریق طلاق شمار ہوگی اس کے بعد عدت گذار کر وہ عورت کسی مسلمان سے نکاح کرسکتی ہے۔
کتب اللہ علیکم، یعنی جن محرمات کا ذکر ہوا ان کی حرمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے شدہ ہے، قال القرطبی ای حرمت ھذہ النسآء کتاباً من اللہ علیکم۔
واحل لکم ماورآء ذلکم، یعنی جو محرمات اب تک مذکور ہوئیں ان کے علاوہ دوسری عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں، مثلاً چچا کی لڑکی، خالہ کی لڑکی، ماموں زاد بہن، ماموں چچا کی بیوی ان کی فات یا طلاق دینے کے بعد بشرطیکہ یہ مذکوررہ اقسام اور کسی رشتہ سے محرم نہ ہوں اور اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی، جب وہ طلاق دیدے یا وفات پا جائے، بیوی مر جائے تو اس کی بہن کے ساتھ ........ وغیرہ ........ بیشمار صورتیں بنتی ہیں، ان سب کو ما ورآء ذلکم کے عموم میں داخل فرمایا دیا۔
مسئلہ۔ بیک وقت چار عورتوں سے زیادہ کو نکاح میں رکھنا جائز نہیں، اس کا تفصیلی بیان سورة نسآء کے شروع میں گذر چکا ہے، قریب کی آیت میں اس کا ذکر نہ دیکھ کر کسی کو یہ مغالطہ نہ ہوجائے کہ ماورآء ذلکم کے عموم میں بغیر کسی پابندی کے عورتوں سے نکاح جائز ہے، نیز بہت سی محرمات وہ ہیں جن کا ذکر احادیث شریفہ میں ہے اور ان کی طرف آیات میں اشارات بھی ہیں، جن کو ہم تفسیر کے ذیل میں ذکر کرتے چلے آئے ہیں۔
ان تبتغوا باموالکم یعنی محرمات کا یہ بیان تہارے لئے اس لئے کیا گیا ہے کہ اپنے مالوں کے ذریعہ حلال عورتیں تلاش کرو اور ان کو اپنے نکاح میں لاؤ۔
ابوبکر حصاص ؒ احکام القرآن میں لکھتے ہیں کہ اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں، ایک یہ کہ نکاح مہر سے خالی نہیں ہو سکتی (حتی کہ اگر زوجین آپس میں یہ طے کرلیں کہ نکاح بغیر مہر کے ہوگا تب بھی مہر لازم ہوگا، جس کی تفصیل کتب فقہ میں مذکور ہے) دوسرے یہ بات معلوم ہوئی کہ مہر وہ چیز ہونی چاہئے جس کو مال کہا جاسکے۔
حنفیہ کا مذہب یہ ہے کہ دس درہم سے کم مہر نہیں ہونا چاہئے، ایک درہم ساڑھے تین ماشہ چاندی کا ہوتا ہے۔
محصنین غیر مسافحین یعنی اپنے مالوں کے ذریعہ حلال عورتیں طلب کرو اور یہ سمجھ لو کہ عورتوں کی تلاش عفت و عصمت کے لئے ہے جو نکاح کا اہم مقصد ہے، اور نکاح کے ذریعہ اس چیز کو حاصل کرو، مال خرچ کر کے زنا کے لئے عورتیں تلاش نہ کرو۔
اس سے معلوم ہوگیا کہ اگرچہ زنا کار بھی مال خرچ کرتے ہیں لیکن وہ مال خرچ کرنا بھی حرام ہے اور اس مال کے ذریعہ جو عورت حاصل کی جائے اس سے استمتاع حلال نہیں ہوتا۔
لفظ غیر مسافحین بڑھا کر زنا کی ممانعت فرماتے ہوئے اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ زنا میں صرف شہوت رانی، سفح ماء، پانی بہانا مقصود ہوتا ہے، کیونکہ اس سے طلب اولاد اور ابقاء النسل کا ارادہ نہیں ہوتا، مسلمانوں کو پاک دامن رہنے اور تکثیر نسل انسانی کے لئے اپنی قوت کو ہر محل خرچ کرنا چاہئے، جس کا طریقہ ملک نکاح اور ملک یمین ہے۔
فما استمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن فریضة، یعنی نکاح کے بعد جن عورتوں سے استمتاع کرلو تو ان کے مہر دیدو، یہ دینا تمہارے اوپر فرض کیا گیا ہے۔
اس آیت میں استمتاع سے بیویوں سے ہمبستر ہونا اور وطی کرنا مراد ہے، اگر محض نکاح ہوجائے اور رخصتی نہ ہو اور شوہر کو استمتاع کا موقع نہ ملے، بلکہ وہ اس سے پہلے ہی طلاق دیدے تو آدھا مہر واجب ہوتا ہے اور اگر استمتاع کا موقع مل جائے تو پورا مہر واجب ہوجاتا ہے، اس آیت میں خصوصی توجہ دلائی ہے کہ جب کسی عورت سے استمتاع کرلیا تو اس کا مہر دینا ہر طرح سے واجب ہوگیا، اس میں کوتاہی ہی کرنا شریعت اسلامیہ کے خلاف ہے اور انسانی غیرت کا بھی یہ تقاضا ہے کہ جب نکاح کا مقصد حاصل ہوگیا تو بیوی کے حق میں کوتاہی اور ٹال مٹول نہ ہو ........ البتہ شریعت عورت کو یہ حق بھی دیتی ہے کہ مہر اگر معجل ہے تو مہر کی وصولی تک وہ شوہر کے پاس جانے سے انکار کرسکتی ہے۔
حرمت متعہ۔ لفظ استمتاع کا مادہ، م، ت، ع ہے، جس کے معنی کسی فائدہ کے حاصل ہونے کے ہیں، کسی شخص سے یا مال سے کوئی فائدہ حاصل کیا تو اس کو استمتاع کہتے ہیں، عربی قواعد کی رو سے کسی کلمہ کے مادہ میں س اور ت کا اضافہ کردینے سے طلب و حصول کے معنی پیدا ہوجاتے ہیں اس لغوی تحقیق کی بنیاد پر فما استعتم کا سیدھا مطلب پوری امت کے نزدیک خلفاً عن سلف وہی ہے، جو ہم نے ابھی اوپر بیان کیا ہے، لیکن ایک فرقہ کا کہنا ہے کہ اس سے اصطلاحی متعہ مراد ہے اور ان لوگوں کے نزدیک یہ آیت متعہ حلال ہونے کی دلیل ہے، حالانکہ متعہ جس کو کہتے ہیں اس کی صاف تردید قرآن کریم کی آیت بالا میں لفظ محصنین غیر مسافحین سے ہو رہی ہے، جس کی تشریح آگے آ رہی ہے۔
متعہ اصطلاحی جس کے جواز کا ایک فرقہ مدعی ہے یہ ہے کہ ایک مرد کسی عورت سے یوں کہے کہ اتنے دن کے لئے اتنے پیسے فلاں جنس کے عوض میں تم سے متعہ کرتا ہوں، متعہ اصطلاحی کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، محض مادہ اشتقاق کو دیکھ کر یہ فرقہ مدعی ہے کہ آیت سے حلت متعہ کا ثبوت ہو رہا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جب دوسرے معنی بھی کم از کم متحمل ہے (گو ہمارے نزدیک متعین ہے) تو ثبوت کا کیا راستہ ہے ؟
دوسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے محرکات کا ذکر فرما کر یوں فرمایا ہے کہ ان کے علاوہ اپنے اصول کے ذریعے حلال عورتیں تلاش کرو، اس حال میں کہ پانی بہانے والے نہ ہوں یعنی محض شہوت رانی مقصود نہ ہو اور ساتھ ہی ساتھ محصنین کی بھی قید لگائی ہے، یعنی یہ کہ عفت کا دھیان رکھنے والے ہوں ........ متعہ چونکہ مخصوص وقت کے لئے کیا جاتا ہے، اس لئے اس میں نہ حصول اولاد مقصود ہوتا ہے، نہ گھر بار بسانا اور نہ عفت و عصمت اور اسی لیئے جس عورت سے متعہ کیا جائے اس کو فریق مخالف زوجہ وارثہ بھی قرار نہیں دیتا اور اس کو ازواج معروفہ کی گنتی میں بھی شمار نہیں کرتا ........ اور چونکہ مقصد محض قضاء شہوت ہے، اس لئے مرد و عورت عارضی طور پر نئے نئے جوڑے تلاش کرتے رہتے ہیں جب یہ صورت ہے تو متعہ عفت و عصمت کا ضامن نہیں بلکہ دشمن ہے۔
صاحب ہدایہ نے حضرت امام مالک کی طرف منسوب کیا ہے کہ ان کے نزدیک متعہ جائز ہے، لیکن یہ نسبت بالکل غلط ہے، جیسا کہ شراح ہدایہ اور دیگر اکابر نے تصریح کی ہے کہ صاحب ہدایہ سے تسامح ہوا ہے۔
البتہ بعض لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ اخیر تک حلت متعہ کے قائل تھے، حالانکہ ایسا نہیں ہے، امام ترمذی نے باب ماجاء فی نکاح المتعہ کا باب قائم کر کے دو حدیثیں نقل کی ہیں، پہلی حدیث یہ ہے
”حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر عورتوں سے متعہ کرنے اور پالتو گدھو کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔“
حضرت علی ؓ کی یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے۔
دوسری حدیث جو امام ترمذی نے نقل کی ہے وہ یہ ہے
”حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں متعہ اسلام کے عہد اول میں مشروع تھا، یہاں تک کہ آیت کریمہ الا علی ازواجہم اوماملکت ایمانہم نازل ہوئی تو وہ منسوخ ہوگیا، اس کے بعد حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ زوجہ شرعیہ اور مملوکہ شرعیہ کے علاوہ ہر طرح کی شرمگاہ سے استمتاع حرام ہے۔“
البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ حضرت ابن عباس کچھ عرصہ تک متعہ کو جائز سمجھتے تھے پھر حضرت علی ؓ کے سمجھانے سے (جیسا کہ صحیح مسلم ج 1 ص 254 پر ہے) اور آیت شریفہ الا علی ازواجھم اوما ملکت ایمانھم سے متنبہ ہو کر رجوع فرما لیا، جیسا کہ ترمذی کی روایات سے معلوم ہوا۔
یہ عجیب بات ہے کہ جو فرقہ حلت متعہ کا قائل ہے باوجودیکہ اسے حضرت علی ؓ کے محب اور فرمانبردار ہونے کا دعویٰ ہے، لیکن اس مسئلہ میں وہ ان کا بھی مخالف ہے، وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون (62: 722)
صاحب روح المعانی، قاضی عیاض سے نقل کرتے ہیں کہ غزوہ خیبر سے پہلے متعہ حلال تھا پھر غزوہ خیبر میں حرام کردیا گیا، اس کے بعد فتح مکہ کے دن حلال کردیا گیا، لیکن پھر تین دن کے بعد ہمیشہ کے لئے حرام کردیا گیا۔
نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ فرمان باری تعالیٰ شانہ والذین ھم لفروجھتم حافظون الا علی ازواجھم اوماملکت ایمانھم فانھم غیر ملومین، یہ ایسا واضح ارشاد ہے جس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں، اس سے حرمت متعہ صاف ظاہر ہے، اس کے مقابل ہمیں بعض شاذ قراءتوں کا سہارا لینا قطعاً غلط ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا استمتعتم سے متعہ اصطلاحی مراد ہونے کی کوئی قطعی دلیل نہیں ہے، محض ایک احتمال ہے، یہ احتمال الا علی ازواجھم اوماملکت ایمانھم کے قطعی الدلات مضمون کے ہرگز معارض نہیں ہوسکتا اور بالفرض اگر دونوں دلیلیں قوت میں برابر ہوں تو کہا جائے گا وہ دونوں دلیلیں حلت و حرمت میں متعارض ہیں، بالفرض اگر تعارض مان لیا جائے تب بھی عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ محرم کو مبیح پر ترجیح ہونی چاہئے۔
مسئلہنکاح متعہ کی طرح نکاح موقت بھی حرام اور باطل ہے، نکاح موقت یہ ہے کہ ایک مقررہ مدت کے لئے نکاح کیا جائے ........ اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ متعہ میں لفظ متعہ بولا جاتا ہے اور نکاح موقت لفظ نکاح سے ہوتا ہے۔
ولا جناح علیکم فیما تراضیتم بہ من بعد الفریضة آیت کے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ باہمی مہر مقرر کرنے کے بعد مہر مقررہ کوئی حتمی چیز نہیں ہوتی کہ اس میں کمی بیشی درست نہ ہو، بلکہ شوہر مقرر مہر پر اپنی طرف سے اضافہ بھی کرسکتا ہے اور بیوی اگر چاہے تو اپنی خوش دلی سے تھوڑا یا پورا مہر معاف کرسکتی ہے، الفاظ کے عموم سے معلوم ہوا کہ عورت اگر مہر معجل طے کر کے تاجیل کرلے، یعنی بعد میں لینے کو منظور کرلے تو یہ بھی درست ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں۔
ان اللہ کان علیماً حکیماً ، آیت کے ختم پر یہ جملہ بڑھا کر ایک تو یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کو سب کچھ خبر ہے، احکام مذکورہ کی اگر کوئی شخص خلاف ورزی کرے تو اگرچہ اس کی خبر قاضی، حاکم اور کس انسان کو نہ ہو، لیکن اللہ جل شانہ کو تو سب خبر ہے، اس سے ہر حال میں ڈرتے رہنا چاہئے۔
اور یہ بھی بتلایا کہ جو احکام ارشا دفرمائے ہیں یہ سب کچھ حکمت پر مبنی ہیں، حکمت اس دقیق بات کو کہتے ہیں جو ہر شخص کی سمجھ میں نہیں آتی، حرمت و حلت کے احکام جو آیات میں مذکور ہیں ان کی علت کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے ان کو ہر حال میں ماننا لازم ہے، کیونکہ اگر ہمیں علت معلم نہیں تو صاحب حکم باری تعالیٰ شانہ کو تو معلوم ہے جو علیم اور حکیم ہے۔
اس دور کے بہت سے پڑھے لکھے جاہل احکام خداوندیہ کی علتیں تلاش کرتے ہیں، اگر کوئی علت معلوم نہیں ہوتی تو معاذ اللہ حکم ربی کو نامناسب یا دور حاضر کے تقاضوں کے خلاف کہہ کر ٹال دیتے ہیں، ان الفاظ میں ایسے لوگوں کا منہ بند کردیا گیا ہے اور بتلا دیا گیا ہے کہ تم نادان ہو، اللہ جل شانہ، دانا ہے تم ناسمجھ ہو اللہ حکیم ہے، اپنی سمجھ کو معیار حقانیت نہ بناء واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم
Top