Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ١۫ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) لَا تَاْكُلُوْٓا : نہ کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بِالْبَاطِلِ : ناحق اِلَّآ : مگر اَنْ تَكُوْنَ : یہ کہ ہو تِجَارَةً : کوئی تجارت عَنْ تَرَاضٍ : آپس کی خوشی سے مِّنْكُمْ : تم سے َلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو اَنْفُسَكُمْ : اپنے نفس (ایکدوسرے) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : بہت مہربان
اے ایمان والوں نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کے آپس میں ناحق مگر یہ کہ تجارت ہو آپس کی خوشی سے اور نہ خون کرو آپس میں بیشک اللہ تم پر مہربان ہے
ربط آیات
شروع سورة نساء میں تمام انسانوں کا ایک ماں باپ سے پیدا ہونا اور سب کا ایک رشتہ اخوت میں جکڑے رہنا بیان فرما کر عام انسانوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی ادائیگی کی طرف اجمالی اشارہ فرمایا، پھر یتیموں اور عورتوں کا تفصیلی بیان آیا، پھر میراث کے احکام کا بیان ہوا، جس میں یتیموں، عورتوں کے علاوہ دوسرے رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کی بھی تاکید آئی، اس کے بعد نکاح کے احکام آئے کہ کس عورت سے نکاح حلال ہے کس سے حرام، کیونکہ نکاح ایک ایسا معاملہ اور معاہدہ ہے جس سے عورت کی جان اور مال میں تصرف کرنے کا کسی کو حق ملتا ہے۔
مذکورہ آیتوں میں عام انسانوں کے جان و مال کی حفاظت اور ان میں ہر ناجائز تصرف کرنے کی ممانعت کا بیان ہے، خواہ وہ انسان مرد ہوں یا عورتیں اور عزیز رشتہ دار ہوں یا غیر یہاں تک کہ مسلم ہوں یا وہ غیر مسلم جن سے ترک جنگ کا کوئی معاہدہ ہوچکا ہو (کما صرح بہ المظہری)
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق (یعنی غیر مباح) طور پر مت کھاؤ (برتو) لیکن (مباح طور پر ہو مثلاً) کوئی تجارت ہو جو باہمی رضامندی سے (واقع) ہو (بشرطیکہ اس میں اور بھی سب شرائط شرعیہ ہوں) تو مضائقہ نہیں (یہ تو مالی تصرف تھا، آگے تصرف نفسی کو فرماتے ہیں) اور تم ایک دوسرے کو قتل بھی مت کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم پر بڑے مہربان ہیں (اس لئے ضرر رسانی کی صورتوں کو منع فرما دیا، بالخصوص جبکہ اس میں یہ اثر ہو کہ دوسرا شخص پھر تم کو ضرور پہنچاوے گا، تو یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ تم کو بھی ضرر سے بچا لیا) اور (چونکہ قتل ان دونوں امروں میں اشدہ اس لئے اس پر بالخصوص و عید سناتے ہیں کہ) جو شخص ایسا فعل (یعنی قتل) کرے گا اس طور پر کہ حد (شرع) سے گذر جائے اور (وہ گذرنا بھی خطاء فعل یا خطاء رائے سے نہ ہو بلکہ) اس طور پر کہ (قصداً) ظلم کرے تو ہم عنقریب (یعنی بعدالموت) اس کو (دوزخ کی) آگ میں داخل کریں گے اور یہ امر (یعنی ایسی سزا دینا) اللہ تعالیٰ کو (بالکل) آسان ہے (کچھ اہتمام کی حاجت نہیں جس میں اس احتمال کی گنجائش ہو کہ شاید کسی وقت اہتمام و سامان جمع نہ ہو تو سزا ٹل جائے گی۔)
معارف و مسائل
جس طرح باطل طریقہ سے غیر کا مال کھانا جائز نہیں، خود اپنا مال بھی باطل طریق سے خرچ کرنا جائز نہیں۔
آیت کے الفاظ میں اموالکم بینکم کا لفظ آیا ہے، جس کے معنی ہیں ”اپنے مال آپس میں“ اس میں یہ بات تو باتفاق مفسرین داخل ہے ہی کہ کوئی شخص دوسرے کا مال ناجائز طریق پر نہ کھائے، ابوحیان نے تفسیر بحر محیط میں فرمایا کہ اس کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی اپنا ہی مال ناجائز طور پر کھائے، مثلاً ایسے کاموں میں خرچ کرے جو شرعاً گناہ یا اسراف بےجا ہیں، وہ بھی آیت کی رو سے ممنوع و ناجائز ہے۔
آیت میں لاتاکلوا کا لفظ آیا ہے جس کے معنی ہیں ”مت کھاؤ۔“ مگر عام محاورے کے اعتبار سے اس کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے کے مال میں ناحق طور پر کسی قسم کا تصرف نہ کرو، خواہ کھانے پینے کا ہو یا اسے استعمال کرنے کا، عرف عام میں کسی کے مال میں تصرف کرنے کو اس کا کھانا ہی بولا جاتا ہے، اگرچہ وہ چیز کھانے کی نہ ہو، لفظ ”باطل“ جس کا ترجمہ ”ناحق“ سے کیا گیا ہے عبداللہ بن مسعود اور جمہور صحابہ کے نزدیک تمام ان صورتوں پر حاوی ہے جو شرعاً ممنوع اور ناجائز ہیں، جس میں چوری، ڈاکہ، غضب، خیانت، رشوت، سود و قمار اور تمام معاملات فاسدہ داخل ہیں۔ (بحر محیط)
باطل طریقہ سے کوئی مال کھانے کی تشریح و تفصیل۔
قرآن کریم نے ایک لفظ بالباطل فرما کر تمام ناجائز طریقوں سے حاصل کئے ہوے مال کو حرام قرار دیدیا، پھر ان ناجائز طریقوں کی تفصیلات رسول کریم ﷺ کے حوالہ فرمائی، آپ نے ہر ناجائز معاملہ کی تفصیل بیان فرما دی۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جو تفصیلات ناجائز خریدو فروخت یا ناجائز اجارہ وغیرہ کی رسول کریم ﷺ کی احادیث میں مذکور ہیں وہ درحقیقت اس قرآنی حکم کی تشریح ہے اس لئے وہ سب احکام ایک حیثیت سے قرآن ہی کے احکام ہیں، احادیث رسول کریم ﷺ میں جتنے احکام شرعیہ مذکور ہوئے ہیں، سب کا عام طور پر یہی حال ہے کہ وہ کسی نہ کسی قرآنی اشارہ کی تشریح ہوتی ہے، خواہ ہمیں معلوم ہو یا نہ ہو کہ یہ فلاں آیت کی تشریح ہے۔
آیت کے پہلے جملہ میں ناحق اور ناجائز طریقوں سے کسی کے مال میں تصرف کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے دوسرے جملہ میں جائز طریقوں کو حرمت سے مستثنی کرنے کے لئے ارشاد فرمایا الا ان تکون تجارة عن تراض منکم یعنی دوسروں کا وہ مال حرام نہیں جو بذریعہ تجارت باہمی رضامندی سے حاصل کیا گیا ہو۔
جائز طریقے اگرچہ تجارت کے علاوہ اور بھی ہیں، مثلاً عاریتہ ہبہ، صدقہ، میراث، لیکن عام طور پر ایک شخص کا مال دوسرے کے تصرف میں آنے کی معروف و جاری صورت تجارت ہی ہے۔
پھر تجارت کے معنی عام طور پر صرف بیع و شراء کے لئے جاتے ہیں، مگر تفسیر مظہری میں اجارہ یعنی ملازمت و مزدوری اور کرایہ کے معاملات کو بھی تجارت میں داخل قرار دیا گیا ہے، کیوں کہ بیع میں تو مال کے بدلہ میں مال حاصل کیا جاتا ہے اور اجارہ میں محنت و خدمت کے بدلہ میں مال حاصل ہوتا ہے، لفظ تجارت ان دونوں کو حاوی ہے۔
مضمون آیت کا خلاصہ یہ ہوا کہ کسی کا مال ناحق کھانا رام ہے، لیکن اگر رضامندی کے ساتھ یعنی بیع و شراء یا ملازمت و مزدوری کا معاملہ ہوجائے تو اس طرح دوسرے کا مال حاصل کرنا اور اس میں مالکانہ تصرفات کرنا جائز ہے۔
کسب معاش کے ذرائع میں تجارت اور محنت سب سے افضل ہے۔
دوسرے کا مال حاصل کرنے کی جائز صورتوں میں سے اس آیت میں صرف تجارت کے ذکر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کسب معاش کے ذرائع میں سے تجارت اور محنت سب سے افضل اور اطیب ذریعہ معاش ہے،
حضرت رافع بن خدیج ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کونسی کمائی حلال وطیب ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا
”یعنی انسان کے ہاتھ کی مزدوری اور ہر سچی بیع و شراء (جس میں جھوٹ فریب نہ ہو۔)“
حضرت ابوسعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
”سجا تاجر جو امانت دا ہو وہ انبیاء اور صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا ؟
اور حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔
”سچا تاجر قیامت کے روز عرش کے سایہ میں ہوگا۔“
پاکیزہ کمائی کے خاص شرائط۔
اور حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا
”سب سے زیادہ پاک کمائی تاجروں کی کمائی ہے، بشرطیکہ وہ جب بات کریں تو جھوٹ نہ بولیں، اور جب وعدہ کریں تو وعدہ خلافی نہ کریں اور جب ان کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت نہ کریں اور جب کوئی سامان (کسی سے) خریدیں تو (تاجروں کی عادت کے مطابق) اس سامان کو برا اور خراب نہ بتائیں اور جب اپنا سامان فروخت کریں تو (واقعہ کے خلاف) اس کی تعریف نہ کریں اور جب ان کے ذمہ کسی کا قرض ہو تو ٹالیں نہیں اور جب ان کا قرض کسی کے ذمہ ہو تو اس کو تنگ نہ کریں۔“
(اخرجہ الاصبہانی، از حاشیہ مظہری)
”قیامت کے روز تاجر لوگ فاجروں، گنہگاروں کی صف میں ہوں گے بجز اس شخص کے جو اللہ سے ڈرے اور نیکی کا معاملہ کرے اور سچ بولے۔“
دوسرے کا مال حلال ہونے کے لئے تجارت اور تراضی کی دو شرطیں۔
آیت کے اس جملہ میں تجارت کے ساتھ عن تراض منکم فرما کر یہ بتلا دیا کہ جہاں تجارت ہی نہ ہو بلکہ تجارت کے نام پر جواء، سٹہ، یا ربو اور سود کا معاملہ ہو یا مال ابھی موجود نہیں، محض ذہنی قرار داد پر اس کا سودا کیا گیا ہو وہ بیع باطل اور حرام ہے۔
اس طرح اگر تجارت یعنی مبادلہ اموال تو ہو لیکن اس میں فریقین کی رضامندی نہ ہو وہ بھی بیع فاسد اور ناجائز ہے اور یہ دنوں صورتیں اکل اموال بالباطل میں داخل ہیں، پہلی صورت کو فقہاء بیع باطل کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور دوسری صورت کو بیع فاسد کے نام سے۔
تشریح اس کی یہ ہے کہ ایک مال کا دوسرے مال سے تبادلہ کرنے کا نام تجارت ہے۔ اگر ان میں کسی ایک جانب مال ہو اور اس کے بالمقابل مال ہی نہ ہو تو وہ تجارت نہیں، بلکہ فریب ہے، سود کے معاملات کا یہی حال ہے کہ سود کی رقم ادھار کی میعاد کا معاوضہ ہوتا ہے، اور یہ میعاد کوئی مال نہیں، اسی طرح سٹہ، جواء کہ اس میں ایک طرف تو مال متعین موجود ہے، دوسری طرف مال کا ہونا یا نہ ہونا مشکوک ہے، اسی طرح وہ وعدے کے سودے جن میں مال ابھی تک وجود میں نہیں آیا اور اس کا سودا کرلیا گیا تو ایک طرف مال اور دوسری طرف موہوم وعدہ ہے، اس لئے حقیقت کے اعتبار سے یہ تجارت ہی نہیں بلکہ ایک قسم کا دھوکہ فریب ہے، اسی لئے فقہاء نے اس کو بیع باطل قرار دیا ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ دونوں طرف سے مال اور تبادلہ مال تو ہے، لیکن کسی ایک جانب سے رضامندی نہ ہو، یہ تجارت تو ہوئی مگر فاسد اور غلط قسم کی تجارت ہے، اس لئے اس کو بیع فاسد کہا جاتا ہے اور ناجائز ہے۔
اس تشریح سے بیع و شراء اور تجارت کی جتنی ناجائز صورتیں ہیں سب نکل جاتی ہیں۔
شرط تراضی کی حقیقت۔
البتہ ایک تیسری قسم اور ہے جس میں طرفین سے تبادلہ مال بھی ہے اور بظاہر فریقین کی رضامندی بھی، مگر وہ رضامندی درحقیقت مجبوری کی رضامندی ہوتی ہے، حقیقی رضامندی نہیں ہوتی، اس لئے شرعاً اس تیسری قسم کو بھی دوسری ہی قسم میں داخل قرار دیا گیا ہے، مثلاً عام ضرورت کی چیزوں کو سب طرف سے سمیٹ کر کوئی ایک شخص یا ایک کمپنی اسٹاک کرے اور پھر اس کی قیمت میں خاطر خواہ اضافہ کر کے فروخت کرنے لگے، چونکہ بازار میں دوسری جگہ ملتی نہیں، گاہک مجبور ہے کہ مہنگی سستی جیسی بھی یہ فروخت کرے وہ اس کو خریدے، اس صورت میں اگرچہ گاہک خود چل کر آتا ہے اور بظاہر رضامندی کے ساتھ خریدتا ہے، لیکن اس کی یہ رضامندی درحقیقت ایک مجبوری کے تحت ہے، اس لئے کالعدم ہے۔
اسی طرح کوئی شوہر اپنی بیوی کے ساتھ معاشرت کی ایسی صورتیں پیدا کر دے کہ وہ اپنا مہر معاف کرنے پر مجبور ہوجائے تو گو معافی کے وقت وہ اپنی رضامندی کا اظہار کرتی ہے لیکن درحقیقت رضامندی نہیں ہوتی۔
یا کوئی آدمی جب یہ دیکھے کہ میرا جائز کام بغیر رشوت دیئے نہیں ہوگا وہ رضامندی کے ساتھ رشوت دینے کے لئے آمادہ ہو تو چونکہ یہ رضامندی بھی درحقیقت رضامندی نہیں اس لئے شرعاً کالعدم ہے۔
اس سے معلوم ہوگیا کہ الا ان تکون تجارة عن تراض منکم سے بیع شراء اور تجارت کی صرف انہی صورتوں کا جواز ثابت ہوا جس کا جواز رسول کریم ﷺ کی احادیث سے ثابت ہے، اور فقہاء نے ان کو منضبط کردیا ہے اور جتنی صورتیں بیع و شراء اور تجارت کی شرعاً ممنوع و ناجائز ہیں وہ سب اس سے خارج ہیں، قرآن کریم کے اس ایک لفظ نے فقہ کی پوری کتاب البیوع اور کاتب الاجارہ کا مکل بیان کردیا۔
آیت کا تیسرا جملہ یہ ہے ولاتقتلوا انفسکم جس کے لفظی معنی یہ ہیں کہ تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو اس میں باتفاق مفسرین خودکشی بھی داخل ہے اور یہ بھی کہ ایک دوسرے کو ناحق قتل کرلے۔
آیت کے پہلے جملہ میں عام انسانوں کے مالی حقوق اور ان کی حفاظت کا بیان تھا، اس جملہ میں ان کے جانی حقوق کی حفاظت کا بیان آ گیا .... اور اس جگہ مال کو مقدم اور جان کو مؤخر شاید اس لئے بیان فرمایا گیا کہ مالی حقوق میں ظلم و جور اور کوتاہی و غفلت بہت عام ہے، ناحق قتل دخول ریزی اگرچہ اس سے زیادہ اشد ہے مگر عادة اس میں ابتلاء کم ہے، اس لئے اس کو مؤ خر بیان فرمایا۔
آیت کے آخر میں ارشاد ہے ان اللہ کان بکم رحیماً یعنی جو احکام اس آیت میں دیئے گئے ہیں کہ لوگوں کا مال ناحق نہ کھاؤ یا کسی کو ناحق قتل نہ کرو، یہ سب احکام تمہارے حق میں رحمت خداوندی ہیں تاکہ تم ان کاموں کے اخروی وبال سے بھی محفوظ رہو اور دنیوی سزاؤں سے بھی۔
Top