Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ١۫ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے (مومن)
لَا تَاْكُلُوْٓا
: نہ کھاؤ
اَمْوَالَكُمْ
: اپنے مال
بَيْنَكُمْ
: آپس میں
بِالْبَاطِلِ
: ناحق
اِلَّآ
: مگر
اَنْ تَكُوْنَ
: یہ کہ ہو
تِجَارَةً
: کوئی تجارت
عَنْ تَرَاضٍ
: آپس کی خوشی سے
مِّنْكُمْ
: تم سے
َلَا تَقْتُلُوْٓا
: اور نہ قتل کرو
اَنْفُسَكُمْ
: اپنے نفس (ایکدوسرے)
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
بِكُمْ
: تم پر
رَحِيْمًا
: بہت مہربان
اے ایمان والوں نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کے آپس میں ناحق مگر یہ کہ تجارت ہو آپس کی خوشی سے اور نہ خون کرو آپس میں بیشک اللہ تم پر مہربان ہے
ربط آیات
شروع سورة نساء میں تمام انسانوں کا ایک ماں باپ سے پیدا ہونا اور سب کا ایک رشتہ اخوت میں جکڑے رہنا بیان فرما کر عام انسانوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی ادائیگی کی طرف اجمالی اشارہ فرمایا، پھر یتیموں اور عورتوں کا تفصیلی بیان آیا، پھر میراث کے احکام کا بیان ہوا، جس میں یتیموں، عورتوں کے علاوہ دوسرے رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کی بھی تاکید آئی، اس کے بعد نکاح کے احکام آئے کہ کس عورت سے نکاح حلال ہے کس سے حرام، کیونکہ نکاح ایک ایسا معاملہ اور معاہدہ ہے جس سے عورت کی جان اور مال میں تصرف کرنے کا کسی کو حق ملتا ہے۔
مذکورہ آیتوں میں عام انسانوں کے جان و مال کی حفاظت اور ان میں ہر ناجائز تصرف کرنے کی ممانعت کا بیان ہے، خواہ وہ انسان مرد ہوں یا عورتیں اور عزیز رشتہ دار ہوں یا غیر یہاں تک کہ مسلم ہوں یا وہ غیر مسلم جن سے ترک جنگ کا کوئی معاہدہ ہوچکا ہو (کما صرح بہ المظہری)
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق (یعنی غیر مباح) طور پر مت کھاؤ (برتو) لیکن (مباح طور پر ہو مثلاً) کوئی تجارت ہو جو باہمی رضامندی سے (واقع) ہو (بشرطیکہ اس میں اور بھی سب شرائط شرعیہ ہوں) تو مضائقہ نہیں (یہ تو مالی تصرف تھا، آگے تصرف نفسی کو فرماتے ہیں) اور تم ایک دوسرے کو قتل بھی مت کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم پر بڑے مہربان ہیں (اس لئے ضرر رسانی کی صورتوں کو منع فرما دیا، بالخصوص جبکہ اس میں یہ اثر ہو کہ دوسرا شخص پھر تم کو ضرور پہنچاوے گا، تو یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ تم کو بھی ضرر سے بچا لیا) اور (چونکہ قتل ان دونوں امروں میں اشدہ اس لئے اس پر بالخصوص و عید سناتے ہیں کہ) جو شخص ایسا فعل (یعنی قتل) کرے گا اس طور پر کہ حد (شرع) سے گذر جائے اور (وہ گذرنا بھی خطاء فعل یا خطاء رائے سے نہ ہو بلکہ) اس طور پر کہ (قصداً) ظلم کرے تو ہم عنقریب (یعنی بعدالموت) اس کو (دوزخ کی) آگ میں داخل کریں گے اور یہ امر (یعنی ایسی سزا دینا) اللہ تعالیٰ کو (بالکل) آسان ہے (کچھ اہتمام کی حاجت نہیں جس میں اس احتمال کی گنجائش ہو کہ شاید کسی وقت اہتمام و سامان جمع نہ ہو تو سزا ٹل جائے گی۔)
معارف و مسائل
جس طرح باطل طریقہ سے غیر کا مال کھانا جائز نہیں، خود اپنا مال بھی باطل طریق سے خرچ کرنا جائز نہیں۔
آیت کے الفاظ میں اموالکم بینکم کا لفظ آیا ہے، جس کے معنی ہیں ”اپنے مال آپس میں“ اس میں یہ بات تو باتفاق مفسرین داخل ہے ہی کہ کوئی شخص دوسرے کا مال ناجائز طریق پر نہ کھائے، ابوحیان نے تفسیر بحر محیط میں فرمایا کہ اس کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی اپنا ہی مال ناجائز طور پر کھائے، مثلاً ایسے کاموں میں خرچ کرے جو شرعاً گناہ یا اسراف بےجا ہیں، وہ بھی آیت کی رو سے ممنوع و ناجائز ہے۔
آیت میں لاتاکلوا کا لفظ آیا ہے جس کے معنی ہیں ”مت کھاؤ۔“ مگر عام محاورے کے اعتبار سے اس کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے کے مال میں ناحق طور پر کسی قسم کا تصرف نہ کرو، خواہ کھانے پینے کا ہو یا اسے استعمال کرنے کا، عرف عام میں کسی کے مال میں تصرف کرنے کو اس کا کھانا ہی بولا جاتا ہے، اگرچہ وہ چیز کھانے کی نہ ہو، لفظ ”باطل“ جس کا ترجمہ ”ناحق“ سے کیا گیا ہے عبداللہ بن مسعود اور جمہور صحابہ کے نزدیک تمام ان صورتوں پر حاوی ہے جو شرعاً ممنوع اور ناجائز ہیں، جس میں چوری، ڈاکہ، غضب، خیانت، رشوت، سود و قمار اور تمام معاملات فاسدہ داخل ہیں۔ (بحر محیط)
باطل طریقہ سے کوئی مال کھانے کی تشریح و تفصیل۔
قرآن کریم نے ایک لفظ بالباطل فرما کر تمام ناجائز طریقوں سے حاصل کئے ہوے مال کو حرام قرار دیدیا، پھر ان ناجائز طریقوں کی تفصیلات رسول کریم ﷺ کے حوالہ فرمائی، آپ نے ہر ناجائز معاملہ کی تفصیل بیان فرما دی۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جو تفصیلات ناجائز خریدو فروخت یا ناجائز اجارہ وغیرہ کی رسول کریم ﷺ کی احادیث میں مذکور ہیں وہ درحقیقت اس قرآنی حکم کی تشریح ہے اس لئے وہ سب احکام ایک حیثیت سے قرآن ہی کے احکام ہیں، احادیث رسول کریم ﷺ میں جتنے احکام شرعیہ مذکور ہوئے ہیں، سب کا عام طور پر یہی حال ہے کہ وہ کسی نہ کسی قرآنی اشارہ کی تشریح ہوتی ہے، خواہ ہمیں معلوم ہو یا نہ ہو کہ یہ فلاں آیت کی تشریح ہے۔
آیت کے پہلے جملہ میں ناحق اور ناجائز طریقوں سے کسی کے مال میں تصرف کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے دوسرے جملہ میں جائز طریقوں کو حرمت سے مستثنی کرنے کے لئے ارشاد فرمایا الا ان تکون تجارة عن تراض منکم یعنی دوسروں کا وہ مال حرام نہیں جو بذریعہ تجارت باہمی رضامندی سے حاصل کیا گیا ہو۔
جائز طریقے اگرچہ تجارت کے علاوہ اور بھی ہیں، مثلاً عاریتہ ہبہ، صدقہ، میراث، لیکن عام طور پر ایک شخص کا مال دوسرے کے تصرف میں آنے کی معروف و جاری صورت تجارت ہی ہے۔
پھر تجارت کے معنی عام طور پر صرف بیع و شراء کے لئے جاتے ہیں، مگر تفسیر مظہری میں اجارہ یعنی ملازمت و مزدوری اور کرایہ کے معاملات کو بھی تجارت میں داخل قرار دیا گیا ہے، کیوں کہ بیع میں تو مال کے بدلہ میں مال حاصل کیا جاتا ہے اور اجارہ میں محنت و خدمت کے بدلہ میں مال حاصل ہوتا ہے، لفظ تجارت ان دونوں کو حاوی ہے۔
مضمون آیت کا خلاصہ یہ ہوا کہ کسی کا مال ناحق کھانا رام ہے، لیکن اگر رضامندی کے ساتھ یعنی بیع و شراء یا ملازمت و مزدوری کا معاملہ ہوجائے تو اس طرح دوسرے کا مال حاصل کرنا اور اس میں مالکانہ تصرفات کرنا جائز ہے۔
کسب معاش کے ذرائع میں تجارت اور محنت سب سے افضل ہے۔
دوسرے کا مال حاصل کرنے کی جائز صورتوں میں سے اس آیت میں صرف تجارت کے ذکر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کسب معاش کے ذرائع میں سے تجارت اور محنت سب سے افضل اور اطیب ذریعہ معاش ہے،
حضرت رافع بن خدیج ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کونسی کمائی حلال وطیب ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا
”یعنی انسان کے ہاتھ کی مزدوری اور ہر سچی بیع و شراء (جس میں جھوٹ فریب نہ ہو۔)“
حضرت ابوسعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
”سجا تاجر جو امانت دا ہو وہ انبیاء اور صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا ؟
اور حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔
”سچا تاجر قیامت کے روز عرش کے سایہ میں ہوگا۔“
پاکیزہ کمائی کے خاص شرائط۔
اور حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا
”سب سے زیادہ پاک کمائی تاجروں کی کمائی ہے، بشرطیکہ وہ جب بات کریں تو جھوٹ نہ بولیں، اور جب وعدہ کریں تو وعدہ خلافی نہ کریں اور جب ان کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت نہ کریں اور جب کوئی سامان (کسی سے) خریدیں تو (تاجروں کی عادت کے مطابق) اس سامان کو برا اور خراب نہ بتائیں اور جب اپنا سامان فروخت کریں تو (واقعہ کے خلاف) اس کی تعریف نہ کریں اور جب ان کے ذمہ کسی کا قرض ہو تو ٹالیں نہیں اور جب ان کا قرض کسی کے ذمہ ہو تو اس کو تنگ نہ کریں۔“
(اخرجہ الاصبہانی، از حاشیہ مظہری)
”قیامت کے روز تاجر لوگ فاجروں، گنہگاروں کی صف میں ہوں گے بجز اس شخص کے جو اللہ سے ڈرے اور نیکی کا معاملہ کرے اور سچ بولے۔“
دوسرے کا مال حلال ہونے کے لئے تجارت اور تراضی کی دو شرطیں۔
آیت کے اس جملہ میں تجارت کے ساتھ عن تراض منکم فرما کر یہ بتلا دیا کہ جہاں تجارت ہی نہ ہو بلکہ تجارت کے نام پر جواء، سٹہ، یا ربو اور سود کا معاملہ ہو یا مال ابھی موجود نہیں، محض ذہنی قرار داد پر اس کا سودا کیا گیا ہو وہ بیع باطل اور حرام ہے۔
اس طرح اگر تجارت یعنی مبادلہ اموال تو ہو لیکن اس میں فریقین کی رضامندی نہ ہو وہ بھی بیع فاسد اور ناجائز ہے اور یہ دنوں صورتیں اکل اموال بالباطل میں داخل ہیں، پہلی صورت کو فقہاء بیع باطل کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور دوسری صورت کو بیع فاسد کے نام سے۔
تشریح اس کی یہ ہے کہ ایک مال کا دوسرے مال سے تبادلہ کرنے کا نام تجارت ہے۔ اگر ان میں کسی ایک جانب مال ہو اور اس کے بالمقابل مال ہی نہ ہو تو وہ تجارت نہیں، بلکہ فریب ہے، سود کے معاملات کا یہی حال ہے کہ سود کی رقم ادھار کی میعاد کا معاوضہ ہوتا ہے، اور یہ میعاد کوئی مال نہیں، اسی طرح سٹہ، جواء کہ اس میں ایک طرف تو مال متعین موجود ہے، دوسری طرف مال کا ہونا یا نہ ہونا مشکوک ہے، اسی طرح وہ وعدے کے سودے جن میں مال ابھی تک وجود میں نہیں آیا اور اس کا سودا کرلیا گیا تو ایک طرف مال اور دوسری طرف موہوم وعدہ ہے، اس لئے حقیقت کے اعتبار سے یہ تجارت ہی نہیں بلکہ ایک قسم کا دھوکہ فریب ہے، اسی لئے فقہاء نے اس کو بیع باطل قرار دیا ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ دونوں طرف سے مال اور تبادلہ مال تو ہے، لیکن کسی ایک جانب سے رضامندی نہ ہو، یہ تجارت تو ہوئی مگر فاسد اور غلط قسم کی تجارت ہے، اس لئے اس کو بیع فاسد کہا جاتا ہے اور ناجائز ہے۔
اس تشریح سے بیع و شراء اور تجارت کی جتنی ناجائز صورتیں ہیں سب نکل جاتی ہیں۔
شرط تراضی کی حقیقت۔
البتہ ایک تیسری قسم اور ہے جس میں طرفین سے تبادلہ مال بھی ہے اور بظاہر فریقین کی رضامندی بھی، مگر وہ رضامندی درحقیقت مجبوری کی رضامندی ہوتی ہے، حقیقی رضامندی نہیں ہوتی، اس لئے شرعاً اس تیسری قسم کو بھی دوسری ہی قسم میں داخل قرار دیا گیا ہے، مثلاً عام ضرورت کی چیزوں کو سب طرف سے سمیٹ کر کوئی ایک شخص یا ایک کمپنی اسٹاک کرے اور پھر اس کی قیمت میں خاطر خواہ اضافہ کر کے فروخت کرنے لگے، چونکہ بازار میں دوسری جگہ ملتی نہیں، گاہک مجبور ہے کہ مہنگی سستی جیسی بھی یہ فروخت کرے وہ اس کو خریدے، اس صورت میں اگرچہ گاہک خود چل کر آتا ہے اور بظاہر رضامندی کے ساتھ خریدتا ہے، لیکن اس کی یہ رضامندی درحقیقت ایک مجبوری کے تحت ہے، اس لئے کالعدم ہے۔
اسی طرح کوئی شوہر اپنی بیوی کے ساتھ معاشرت کی ایسی صورتیں پیدا کر دے کہ وہ اپنا مہر معاف کرنے پر مجبور ہوجائے تو گو معافی کے وقت وہ اپنی رضامندی کا اظہار کرتی ہے لیکن درحقیقت رضامندی نہیں ہوتی۔
یا کوئی آدمی جب یہ دیکھے کہ میرا جائز کام بغیر رشوت دیئے نہیں ہوگا وہ رضامندی کے ساتھ رشوت دینے کے لئے آمادہ ہو تو چونکہ یہ رضامندی بھی درحقیقت رضامندی نہیں اس لئے شرعاً کالعدم ہے۔
اس سے معلوم ہوگیا کہ الا ان تکون تجارة عن تراض منکم سے بیع شراء اور تجارت کی صرف انہی صورتوں کا جواز ثابت ہوا جس کا جواز رسول کریم ﷺ کی احادیث سے ثابت ہے، اور فقہاء نے ان کو منضبط کردیا ہے اور جتنی صورتیں بیع و شراء اور تجارت کی شرعاً ممنوع و ناجائز ہیں وہ سب اس سے خارج ہیں، قرآن کریم کے اس ایک لفظ نے فقہ کی پوری کتاب البیوع اور کاتب الاجارہ کا مکل بیان کردیا۔
آیت کا تیسرا جملہ یہ ہے ولاتقتلوا انفسکم جس کے لفظی معنی یہ ہیں کہ تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو اس میں باتفاق مفسرین خودکشی بھی داخل ہے اور یہ بھی کہ ایک دوسرے کو ناحق قتل کرلے۔
آیت کے پہلے جملہ میں عام انسانوں کے مالی حقوق اور ان کی حفاظت کا بیان تھا، اس جملہ میں ان کے جانی حقوق کی حفاظت کا بیان آ گیا .... اور اس جگہ مال کو مقدم اور جان کو مؤخر شاید اس لئے بیان فرمایا گیا کہ مالی حقوق میں ظلم و جور اور کوتاہی و غفلت بہت عام ہے، ناحق قتل دخول ریزی اگرچہ اس سے زیادہ اشد ہے مگر عادة اس میں ابتلاء کم ہے، اس لئے اس کو مؤ خر بیان فرمایا۔
آیت کے آخر میں ارشاد ہے ان اللہ کان بکم رحیماً یعنی جو احکام اس آیت میں دیئے گئے ہیں کہ لوگوں کا مال ناحق نہ کھاؤ یا کسی کو ناحق قتل نہ کرو، یہ سب احکام تمہارے حق میں رحمت خداوندی ہیں تاکہ تم ان کاموں کے اخروی وبال سے بھی محفوظ رہو اور دنیوی سزاؤں سے بھی۔
Top