Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 36
وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙ
وَاعْبُدُوا : اور تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَلَا تُشْرِكُوْا : اور نہ شریک کرو بِهٖ : اس کے ساتھ شَيْئًا : کچھ۔ کسی کو وَّ : اور بِالْوَالِدَيْنِ : ماں باپ سے اِحْسَانًا : اچھا سلوک وَّ : اور بِذِي الْقُرْبٰى : قرابت داروں سے وَالْيَتٰمٰي : اور یتیم (جمع) وَالْمَسٰكِيْنِ : اور محتاج (جمع) وَالْجَارِ : ہمسایہ ذِي الْقُرْبٰى : قرابت والے وَالْجَارِ : اور ہمسایہ الْجُنُبِ : اجنبی وَالصَّاحِبِ بالْجَنْۢبِ : اور پاس بیٹھنے والے (ہم مجلس) وَ : اور ابْنِ السَّبِيْلِ : مسافر وَمَا : اور جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : تمہاری ملک (کنیز۔ غلام اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا مَنْ : جو كَانَ : ہو مُخْتَالًا : اترانے والا فَخُوْرَۨا : بڑ مارنے والا
اور بندگی کرو اللہ کی اور شریک نہ کرو اس کا کسی کو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور قرابت والوں کے ساتھ اور یتیموں اور فقیروں اور ہمسایہ قریب اور ہمسایہ اجنبی اور پاس بیٹھنے والے اور مسافر کے ساتھ اور اپنے ہاتھ کے مال یعنی غلام باندیوں کے ساتھ بیشک اللہ کو پسند نہیں آتا اترانے والا بڑائی کرنے والا جو کہ بخل کرتے ہیں
ربط آیات
سورة نساء کی تفسیر میں آپ دیکھتے آئے ہیں کہ اس سورت میں حقوق العباد کا زیادہ اہتمام کیا گیا ہے، شروع سورت سے یہاں تک عام انسانی حقوق کی اہمیت کا اجمالی تذکرہ فرمانے کے بعد یتیموں اور عورتوں کے حقوق کا اہتمام اور ان میں کوتاہی پر سزا، وعید اور اس دنیا میں جو ان کی دو صنف ضعیف یعنی بچوں اور عورتوں کے ساتھ ظلم روا رکھا گیا اور ظالمانہ رسمیں اختیار کی گئیں ان کی اصلاح کا اور پھر وراثت کے حقوق کا بیان آیا ہے، اس کے بعد والدین اور دوسرے رشتہ داروں اور تعلق داروں اور پڑوسیوں اور عام انسانوں کے حقوق کا کچھ تفصیلی بیان آ رہا ہے اور چونکہ ان حقوق کو علی سبیل الکمال وہی شخص ادا کرسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور رسول اور قیامت کے ساتھ عقیدہ درست رکھتا ہو، نیز بخل، کبر اور ریا سے بھی بچتا ہو، اس لئے کہ یہ امور بھی ادا حقوق میں مانع ہوتے ہیں اس لئے ان آیات میں توحید اور ترغیب و ترہیب کے کچھ مضامین ارشاد فرمائے اور شرک، انکار قیامت، عصیان رسول اور بخل وغیرہ اخلاق ذمیمہ کی مذمت بھی ذکر فرمائی
خلاصہ تفسیر
اور تم اللہ کی عبادت اختیار کرو (اس میں توحید بھی آگئی) اور اس کے ساتھ کسی چیز کو (خواہ وہ انسان ہو یا غیر انسان عبادت میں یا ان کی خاص صفات میں، اعتضاد میں) شریک مت کرو اور (اپنے) والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرو اور (دوسرے) اہل قرابت کے ساتھ بھی، اور یتیموں کے ساتھ بھی اور غریب غرباء کے ساتھ بھی، اور پاس والے پڑوسی کے ساتھ بھی اور دور والے پڑسی کے ساتھ بھی اور ہم مجلس کے ساتھ بھی، (خواہ وہ مجلس دائمی ہو جیسے سفر طویل کی رفاقت اور کسی مباح کام میں شرکت یا عارضی ہو جیسے سفر قصیر، یا اتفاقی جلسہ میں شرکت) اور راہ گیر کے ساتھ بھی (خواہ وہ تمہارا مہمان ہو یا نہ ہو) اور ان (غلام لونڈیوں) کے ساتھ بھی جو (شرعاً) تمہارے مالکانہ قبضہ میں ہیں (غرض ان سب سے خوش معاملگی کرو جس کی تفصیل شرع نے دوسرے موقع پر بتلا دی ہے اور جو لوگ ان حقوق کو ادا نہیں کرتے اکثر اس کے کئی سبب ہیں یا تو ان کے مزاج میں تکبر ہے کہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور کسی کی طرف التفات ہی نہیں کرتے اور یا ان کی طبیعت میں بخل غالب ہے کہ کسی کو دیتے دلاتے جان نکلتی ہے اور یا ان کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اعتقاد نہیں کہ آپ کے احکام کو اور اداء حقوق کے ثواب کے وعدوں کو اور تلاف حقوق کے عذاب کی وعیدوں کو صحیح نہیں سمجھتے اور یہ کفر ہے اور یا ان کی عادت نمائش اور نام و نمود کی ہے، اس لئے جہاں نمود ہو وہاں دیتے دلاتے ہیں گو حق نہ ہو اور جہاں نمود نہ ہو وہاں ہمت نہیں ہوتی گو حق ہو اور یا ان کو سرے سے اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ عقیدہ نہیں، یا وہ قیامت کے قائل نہیں اور یہ بھی کفر ہے، اس لئے اسی ترتیب سے جو ان امور کا انفراداً یا اجتماعاً ارتکاب کرتے ہیں ان کا حال بھی سن لو کہ) بیشک اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں سے محبت نہیں رکھتے جو (دل میں) اپنے کو بڑا سمجھتے ہوں (زبان سے) شیخی کی باتیں کرتے ہوں، جو کہ بخل کرتے ہوں اور دوسرے لوگوں کو بھی بخل کی تعلیم کرتے ہوں (خواہ زبان سے یا اس طرح سے کہ ان کو دیکھ کر دوسرے یہی تعلیم پاتے ہیں) اور وہ اس چیز کو پوشیدہ رکھتے ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے (اس سے مراد یا مال و دولت ہے جب کہ بلامصلحت حفاظت کے محض بخل کی وجہ سے چھپا دے کہ اہل حقوق ان سے توقع ہی نہ کریں، یا مراد علم دین ہے کہ یہود اخبار رسالت کو چھپایا کرتے تھے، پس بخل بھی عام ہوجاوے گا، پس اس میں بخلاء و منکرین رسالت دونوں آگئے) اور ہم نے ایسے ناسپاسوں کے لئے (جو نعمت مال یا نعمت بعثت رسول کی حق شناسی نہ کریں) اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے اور جو لوگ کہ اپنے مالوں کو لوگوں کے دکھلانے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر اور آخری دن (یعنی قیامت کے دن) پر اعتقاد نہیں رکھتے (ان کا بھی یہی حال ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان سے محبت نہیں) اور (بات یہ ہے کہ) شیطان جس کا مصاحب ہو (جیسا ان مذکور لوگوں کا ہوا ہے) تو وہ اس کا برا مصاحب ہے (کہ ایسا مشورہ دیتا ہے جس میں انجام کار سخت ضرر ہو۔)
معارف و مسائل
حقوق کے بیان سے پہلے توحید کا ذکر کیوں۔ حقوق کی تفصیل سے پہلے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت اور توحید کا مضمون اس طرح ارشاد فرمایا گیاواعبدواللہ ولاتشرکوا بہ شیئاً یعنی ”اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو عبادت میں شریک نہ ٹھہراؤ۔“
بیان حقوق سے پہلے مضمون عبادت اور توحید کو ذکر کرنے میں بہت سی حکمتیں ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کے حقوق کا اہتمام نہ ہو تو اس سے دنیا میں اور کسی کے حقوق کے اہتمام کی کیا امید رکھی جاسکتی ہے، برادری، سوسائٹی کی شرم یا حکومت کے قانون سے بچنے کے لئے ہزاروں راہیں ڈھونڈھ لیتا ہے، وہ چیز جو انسان کو انسانی حقوق کے احترام پر حاضر و غائب مجبور کرنیوالی ہے وہ صرف خوف خدا اور تقوی ہے اور یہ خوف وتقوی صرف توحید ہی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اس لئے مختلف تعلقات اور رشتہ والوں کے حقوق کی تفصیل سے پہلے اللہ تعالیٰ کی توحید و عبادت کی یاد دھانی مناسب تھی۔
توحید کے بعد والدین کے حقوق کا ذکر۔
اس کے بعد تمام رشتہ داروں اور تعلق والوں میں سب سے پہلے والدین کے حقوق کا بیان فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور اپنے حقوق کے متصل والدین کے حقوق کو بیان فرما کر اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ حقیقت اور اصل کے اعتبار سے تو سارے احسانات و انعامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، لیکن ظاہری اسباب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ احسانات انسان پر اس کے والدین کے ہیں کیونکہ عام اسباب میں وہی اس کے وجود کا سبب ہیں اور آفرینش سے لے کر اس کے جوان ہونے تک جتنے کٹھن مراحل ہیں ان سب میں بظاہر اسباب ماں باپ ہی اس کے وجود اور پھر اس کے بقاء و ارتقاء کے ضامن ہیں، اسی لئے قرآن کریم میں دوسرے مواقع میں بھی ماں باپ کے حقوق کو اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کے متصل بیان فرمایا گیا ہے، ایک جگہ ارشاد ہے
”یعنی میرا شکر ادا کرو اور اپنے ماں باپ کا شکر ادا کرو۔“
دوسری جگہ ارشاد ہے۔ واذا خذنامیثاق بنی اسرآئیل لاتعبدون الا اللہ وبالوالدین احساناً (2: 38) ان دونوں آیتوں میں والدین کے معاملہ میں یہ نہیں فرمایا کہ ان کے حقوق ادا کرو، یا ان کی خدمت کرو، بلکہ لفظ احسان لایا گیا، جس کے عام مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ حسب ضرورت ان کے نفقہ میں اپنا مال خرچ کریں اور یہ بھی داخل ہے کہ جیسی ضرورت ہو اس کے مطاق جسمانی خدمات انجام دیں، یہ بھی داخل ہے کہ ان کے ساتھ گفتگو میں سخت آواز سے یا بہت زور سے نہ بولیں جس سے ان کی بےادبی ہو، کوئی ایسا کلمہ نہ کہیں جس سے ان کی دل شکنی ہو، ان کے دوستوں اور تعلق والوں سے بھی کوئی ایسا سلوک نہ کریں جس سے والدین کی دل آزاری ہو، بلکہ ان کو آرام پہونچانے اور خوش رکھنے کے لئے جو صورتیں اختیار کرنی پڑیں وہ سب کریں، یہاں تک کہ اگر ماں باپ نے اولاد کے حقوق میں کوتاہی بھی کی ہو جب بھی اولاد کے لئے بدسلوکی کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔
حضرت معاذ بن جبل ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول کریم ﷺ نے دس وصیتیں فرمائی تھیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اگرچہ تمہیں قتل کردیا جائے یا آگ میں جلا دیا جائے، دوسرے یہ کہ اپنے والدین کی نافرمانی یا دل آزاری نہ کرو اگرچہ وہ یہ حکم دیں کہ تم اپنے اہل اور مال کو چھوڑ دو دوسرے یہ کہ اپنے والدین کی نافرمانی یا دل آزاری نہ کرو اگرچہ وہ یہ حکم دیں کہ تم اپنے اہل اور مال کو چھوڑ دو۔ (مسند احمد)
رسول کریم ﷺ کے ارشادات میں جس طرح والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکیدات وارد ہیں، اسی طرح اس کے بےانتہا فضائل اور درجات ثواب بھی مذکور ہیں۔
بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص یہ چاہے کہ اس کے رزق اور عمر میں برکت ہو اس کو چاہئے کہ صلہ رحمی کرے یعنی اپنے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرے۔
ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا باپ کی رضا میں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔
شعب الایمان میں بیہقی نے روایت کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو لڑکا اپنے والدین کا مطیع و فرمانبردار ہو جب وہ اپنے والدین کو عزت و محبت کی نظر سے دیکھتا ہے تو ہر نظر میں اس کو حج مقبول کا ثواب ملتا ہے۔
بیہقی ہی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمام گناہوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں لیکن جو شخص ماں باپ کی نافرمانی اور دل آزاری کرے اس کو آخرت سے پہلے دنیا ہی میں طرح طرح کی آفتوں میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔
قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید۔
آیت میں والذین کے بعد عام ذوی القربی یعنی تمام رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید آئی ہے، قرآن کریم کی ایک جامع اور مشہور آیت میں جس کو آنحضرت ﷺ اپنے خطبات کے آخر میں تلاوت فرمایا کرتے تھے، اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا ہے
ان اللہ یامرباعدل والاحسان وایتآء ذی القربی یعنی ”اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں سب کے ساتھ انصاف اور حسن سلوک کا اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کا“ جس میں رشتہ داروں کی حسب استطاعت مالی اور جانی خدمت بھی داخل ہے اور ان سے ملاقات و خبر گیری بھی۔
حضرت سلمان ابن عامر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ صدقہ عام مسکینوں فقیروں کو دینے میں تو صرف صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور اگر اپنے ذی رحم رشتہ دار کو دیا جائے تو اس میں دو ثواب ہیں، ایک صدقہ کا دوسرا صلہ رحمی کا یعنی رشتہ داری کے حقوق ادا کرنے کا۔ (مسند احمد، نسائی، ترمذی)
آیت مذکورہ میں اول والدین کے حقوق کی تاکید فرمائی پھر عام رشتہ داروں کی۔
یتیم اور مسکین کا حق۔
تیسرے نمبر پر ارشاد فرمایاوالیتمی والمساکین، یتیموں اور مساکین کے حقوق کا مفصل بیان اگرچہ شروع سورت میں آ چکا ہے مگر اس کی یاد دہانی رشتہ داروں کے ضمن میں فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ لاوارث بچوں اور بیکس لوگوں کی امداد و اعانت کو بھی ایسا ہی ضروری سمجھیں جیسا اپنے رشتہ داروں کے لئے کرتے ہیں۔
پڑوسی کا حق۔
چوتھے نمبر میں ارشاد فرمایا والجار ذی القربی، اور پانچویں نمبر میں والجار الجنب جار کے معنی پڑوسی کے ہیں، اس آیت میں اس کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں، ایک جار ذی القربی دوسرے جار جنب ان دو قسموں کی تفسیر و تشریح میں صحابہ کرام کے مختلف اقوال ہیں
عام مفسرین نے فرمایا کہ جار ذبی القربی سے مراد وہ پڑوسی ہے جو تمہارے مکان کے متصل رہتا ہے اور جار جنب سے وہ پڑوسی مراد ہے جو تمہارے مکان سے کچھ فاصلہ پر رہتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ جار ذی القربی سے وہ شخص مراد ہے جو پڑوسی بھی ہے اور رشتہ دار بھی، اس طرح اس میں دو حق جمع ہوگئے اور جار جنب سے مراد وہ ہے جو صرف پڑوسی ہے رشتہ دار نہیں، اسلئے اس کا درجہ پہلے سے موخر رکھا گیا۔
بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ جار ذی القربی وہ پڑوسی ہے جو اسلامی برادری میں داخل اور مسلمان ہے اور جارجنب سے غیر مسلم پڑوسی مراد ہے۔
الفاظ قرآن ان سب معانی کو متحمل ہیں اور حقیقت کے اعتبار سے بھی درجہ میں فرق ہوجانا امر معقول ہے اور معتبر ہے اور پڑوسی کے رشتہ دار یا غیر ہونے کے اعتبار سے بھی اور مسلم اور غیر مسلم ہونے کے اعتبار سے بھی ........ اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ پڑوسی خواہ قریب ہو یا بعید، رشتہ دار ہو یا مسلم ہو یا غیر مسلم، بہر حال اس کا حق ہے بقدر استطاعت کے امداد و اعانت اور خبر گیری لازم ہے۔
البتہ جس کا حق علاوہ پڑوسی کے دوسرا بھی ہے وہ دوسرے پڑوسیوں سے درجہ میں مقدم ہے، ایک حدیث میں خود رسول کریم ﷺ نے اس کو واضح فرما دیا ارشاد فرمایا کہ ”بعض پڑوسی وہ ہیں جن کا صرف ایک حق ہے، بعض وہ ہیں جن کے دو حق ہیں اور بعض وہ جن کے تین ہیں ہیں، ایک حق والا پڑوسی وہ غیرمسلم ہے جس سے کوئی رشتہ داری بھی نہیں، دو حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلمان بھی ہے، تین حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہے، مسلمان بھی اور رشتہ دار بھی۔“ (ابن کثیر)
رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جبرائیل امین ہمیشہ مجھے پڑوسی کی رعایت و امداد کی تاکید کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ شاید پڑوسی کو بھی رشتہ داروں کی طرح وراثت میں شریک کردیا جائے گا۔ (بخاری و مسلم)
ترمذی اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کسی محلہ کے لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل اور بہتر وہ شخص ہے جو اپنے پڑوسیوں کے حق میں بہتر ہو۔
مسند احمد کی ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ ایک پڑوسی کو پیٹ بھر کر کھاناجائز نہیں، جب کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔
ہمنشین کا حق۔
چھٹے نمبر میں ارشاد فرمایاوالصاحب بالجنب اس کے لفظی معنی ہم ”پہلوساتھی“ کے ہیں، جس میں رفیق سفر بھی داخل ہے جو ریل میں جہاز میں بس میں، گاڑی میں آپ کے برابر بیٹھا ہو اور وہ شخص بھی داخل ہے جو کسی عام مجلس میں آپ کے برابر بیٹھا ہو۔
شریعت اسلام نے جس طرح نزدیک و دور کے دائمی پڑوسیوں کے حقوق واجب فرمائے اسی طرح اس شخص کا بھی حق صحبت لازم کردیا۔ جو تھوڑی دیر کے لئے کسی مجلس یا سفر میں آپ کے برابر بیٹھا ہو جس میں مسلم و غیر مسلم اور رشتہ دار و غیر رشتہ دار سب برابر ہیں، اس کے ساتھ بھی حسن سلوک کی ہدایت فرمائی جس کا ادنی درجہ یہ ہے کہ آپ کے کسی قول و فعل سے اس کو ایذا نہ پہنچے، کوئی گفتگو ایسی نہ کریں جس سے اس کی دل آزاری ہو، کوئی کام ایسا نہ کریں جس سے اس کو تکلیف ہو، مثلاً سگریٹ پی کر اس کا دھواں اس کے منہ کی طرف نہ چھوڑیں، پان کھا کر پیک اس کی طرف نہ ڈالیں، اس طرح نہ بیٹھیں جس سے اس کی جگہ تنگ ہوجائے۔
قرآن کریم کی اس ہدایت پر لوگ عمل کرنے لگیں تو ریلوے مسافروں کے سارے جھگڑے ختم ہوجائیں، ہر شخص اس پر غور کرے کہ مجھے صرف ایک آدمی کی جگہ کا حق ہے، اس سے زائد جگہ گھیرنے کا حق نہیں، دوسرا کوئی اگر قریب بیٹھا ہے تو اس ریل میں اس کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا میرا ہے۔
بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ صاحب بالجنب میں ہر وہ شخص داخل ہے جو کسی کام اور کسی پیشہ میں آپ کا شریک ہے، صنعت مزدوری میں، دفتر کی ملازمت میں، سفر میں حضر میں۔ (روح المعانی)
راہ گیر کا حق۔
ساتویں نمبر میں ارشاد فرمایاوابن السبیل، یعنی راہ گیر، اس سے مراد وہ شخص ہے جو دوران سفر آپ کے پاس آجائے یا آپ کا مہمان ہوجائے چونکہ اس اجنبی شخص کا کوئی تعلق والا یہاں نہیں ہے، تو قرآن نے اس کے اسلامی، بلکہ انسانی تعلق کی رعایت کر کے اس کا حق بھی آپ پر لازم کردیا کہ بقدر وسعت و استطاعت اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔
غلام، باندی اور ملازموں کا حق۔
آٹھویں نمبر میں ارشاد فرمایاوماملکت ایمانکم جس سے مراد مملوک غلام اور باندیاں ہیں، ان کا بھی یہ حق لازم کردیا گیا کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کریں، استطاعت کے موافق کھلانے پلانے، پہنانے میں کوتاہی نہ کریں، اور نہ ان کی طاقت سے زیادہ کام ان پر ڈالیں۔
اگرچہ الفاظ آیت کا صریح مدلول مملوک اور غلام اور باندیاں ہیں، لیکن اشتراک علت اور نبی کریم ﷺ کے ارشادات کی بناء پر یہ احکام نوکروں اور ملازموں پر بھی حاوی ہیں کہ ان کا بھی یہی حق ہے کہ مقررہ تنخواہ اور کھانا وغیرہ دینے میں بخل اور دیر نہ کریں اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر کام نہ ڈالیں۔
حقوق میں کوتاہی وہی لوگ کرتے ہیں جن کے دلوں میں تکبر ہو۔
آخر آیت میں ارشاد فرمایاان اللہ لایحب من کان مختالا فخوراً یعنی ”اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتے جو متکبر اور دوسروں پر اپنی بڑائی جتانے والا ہو۔“
آیت کا یہ آخری جملہ پچھلے تمام ارشادات کا تکملہ ہے کہ پچھلے آٹھ نمبروں میں جن لوگوں کے حقوق کی تاکید آئی ہے اس میں کوتاہی وہ ہی لوگ کرتے ہیں جن کے دلوں میں تکبر اور فخر و غرور ہے، اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو اس سے محفوظ رکھے۔
تکبر اور جاہلی تفاخر کی وعید میں بہت سی احادیث بھی وارد ہوئی ہیں
”حضرت عبداللہ مسعود سے روایت ہے وہ شخص جہنم میں (ہمیشہ کے لئے) نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہو اور جنت میں ایسا کوئی شخص نہیں جاسکے گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے مقدار تکبر ہو۔“
ایک اور حدیث جس میں کبر کی تعریف بھی مذکور ہے
”حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہو سکے گا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو، حاضرین میں سے ایک آدمی نے سوال کیا، لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے کپڑے اچھے ہوں ان کے جوتے اچھے ہوں (تو کیا یہ بھی تکبر میں داخل ہے ؟) آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خود بھی جمیل ہیں اور جمال کو پسند بھی فرماتے ہیں، تکبر نام ہے حق رد کرنے کا اور لوگوں کو ذلیل سمجھنے کا۔“
Top