Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 41
فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا٢ؕؐ
فَكَيْفَ : پھر کیسا۔ کیا اِذَا : جب جِئْنَا : ہم بلائیں گے مِنْ : سے كُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت بِشَهِيْدٍ : ایک گواہ وَّجِئْنَا : اور بلائیں گے بِكَ : آپ کو عَلٰي : پر هٰٓؤُلَآءِ : ان کے شَهِيْدًا : گواہ
پھر کیا حال ہوگا جب بلادیں گے ہم ہر امت میں سے احوال کہنے والا اور بلا دیں گے تجھ کو ان لوگوں پر احوال بتانے والا
فکیف اذا جئنا من کل امة سے میدان آخرت کے استحضار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور کفار قریش کی توبیخ بھی مقصود ہے۔
ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جب میدان حشر میں ہر ہر امت کا نبی اپنی امت کے نیک و بد اعمال پر بطور گواہ پیش ہوگا اور آپ بھی اپنی امت پر گواہ بن کر حاضر ہوں گے اور بطور خاص ان کفار و مشرکین کے متعلق خدائی عدالت میں گواہی دیں گے کہ انہوں نے کھلے کھلے معجزات دیکھ کر بھی تکذیب کی اور آپ کی وحدانیت اور میری رسالت پر ایمان نہ لائے۔
بخاری شریف میں روایت ہے حضو راقدس ﷺ نے عبداللہ بن مسعود سے فرمایا کہ مجھے قرآن سناؤ، حضرت عبداللہ نے عرض کیا آپ مجھ سے سننا چاہتے ہیں ؟ حالانکہ قرآن آپ ہی پر نازل ہوا ہے آپ نے فرمایا ہاں پڑھو، میں نے سورة نساء کی تلاوت شروع کردی اور جب فکیف اذا جئنا من کل امة بشھید پر پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ اب بس کرو اور جب میں نے آپ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو آپ کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
علامہ قسطلانی لکھتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کو اس آیت سے آخرت کا منظر مستحضر ہوگیا اور اپنی امت کے کوتاہ عمل اور بےعمل لوگوں کی بابت خیال آیا اس لئے آنسو مبارک جاری ہوگئے۔
فائدہ۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ ھولاء کا اشارہ زمانہ رسالت میں موجود کفار و منافقین کی طرف ہے اور بعض فرماتے ہیں کہ قیامت تک کی پوری امت کی طرف اشارہ ہے اس لئے کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہا آپ کی امت کے اعمال آپ پر پیش ہوتے رہتے ہیں۔
بہرحال اس سے معلوم ہوا کہ گزشتہ امتوں کے انبیاء اپنی اپنی امت پر بطور گواہ پیش ہوں گے، اور آپ بھی اپنی امت کے اعمال کی گواہی دیں گے ........ قرآن کریم کے اس اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے جو اپنی کسی امت کے متعلق گواہی دے، ورنہ قرآن کریم میں اس کا اور اس کی شہادت کا بھی ذکر ہوتا۔ اس اعتبار سے یہ آیت ختم نبوت کی دلیل بھی ہے۔
Top