Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 44
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِیْهَا هُدًى وَّ نُوْرٌ١ۚ یَحْكُمُ بِهَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَ كَانُوْا عَلَیْهِ شُهَدَآءَ١ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ
اِنَّا : بیشک ہم اَنْزَلْنَا : ہم نے نازل کی التَّوْرٰىةَ : تورات فِيْهَا : اس میں هُدًى : ہدایت وَّنُوْرٌ : اور نور يَحْكُمُ : حکم دیتے تھے بِهَا : اس کے ذریعہ النَّبِيُّوْنَ : نبی (جمع) الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا : جو فرماں بردار تھے لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو هَادُوْا : یہودی ہوئے (یہود کو) وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ : اللہ والے (درویش) وَالْاَحْبَارُ : اور علما بِمَا : اس لیے کہ اسْتُحْفِظُوْا : وہ نگہبان کیے گئے مِنْ : سے (کی) كِتٰبِ اللّٰهِ : اللہ کی کتاب وَكَانُوْا : اور تھے عَلَيْهِ : اس پر شُهَدَآءَ : نگران (گواہ) فَلَا تَخْشَوُا : پس نہ ڈرو النَّاسَ : لوگ وَاخْشَوْنِ : اور ڈرو مجھ سے وَ : اور لَا تَشْتَرُوْا : نہ خریدو (نہ حاصل کرو) بِاٰيٰتِيْ : میری آیتوں کے بدلے ثَمَنًا : قیمت قَلِيْلًا : تھوڑی وَمَنْ : اور جو لَّمْ يَحْكُمْ : فیصلہ نہ کرے بِمَآ : اس کے مطابق جو اَنْزَلَ اللّٰهُ : اللہ نے نازل کیا فَاُولٰٓئِكَ : سو یہی لوگ هُمُ : وہ الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع)
ہم نے نازل کی توریت کہ اس میں ہدایت اور روشنی ہے اس پر حکم کرتے تھے پیغمبر جو کہ حکم برادر تھے اللہ کے یہود کو اور حکم کرتے تھے درویش اور عالم اس واسطے کہ وہ نگہبان ٹھہرائے گئے تھے اللہ کی کتاب پر اور اس کی خبر گیری پر مقرر تھے سو تم نہ ڈرو لوگوں سے اور مجھ سے ڈرو اور مت خریدو میری آیتوں پر مول تھوڑا، اور جو کوئی حکم نہ کرے اس کے موافق جو کہ اللہ نے اتارا سو وہ ہی لوگ ہیں کافر،
خلاصہ تفسیر
ربطیہ سورة مائدہ کا ساتواں رکوع ہے اس میں حق تعالیٰ نے یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کو یکجائی طور پر ایک اہم اور خاص حکم شرع پر متنبہ فرمایا ہے، جس کا ذکر سورة مائدہ میں متفرق طور پر اوپر سے چلا آیا ہے، اور وہ معاملہ ہے اللہ جل شانہ سے کئے ہوئے عہد و پیمان کی خلاف ورزی کا اور اس کے بھیجے ہوئے احکام میں تغیر وتبدل اور تحریف و تاویل کا جو یہود و نصاریٰ کی دائمہ خصلت و عادت بن گیا تھا۔
اس رکوع میں حق تعالیٰ نے اول اہل تورات یہود کو مخاطب فرما کر ان کو اس کج روی اور اس کے انجام بد پر ابتدائی دو آیتوں میں متنبہ فرمایا، اور اس کے ضمن میں قصاص کے متعلق بعض احکام بھی اس مناسبت سے ذکر فرما دیئے کہ پچھلی آیتوں میں جو واقعہ یہود کی سازش کا ذکر کیا گیا ہے وہ قصاص کے متعلق تھا کہ بنو نضیر دیت اور قصاص میں مساوات کے قائل نہ تھے بلکہ بنو قریظہ کو اپنے سے کم دیت لینے پر مجبور کر رکھا تھا، ان دونوں آیتوں میں یہود کو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون کے خلاف اپنا قانون جاری کرنے پر سخت تنبیہ فرمائی اور ایسا کرنے والوں کو کافر اور ظالم قرار دیا۔
اس کے بعد تیسری آیت میں اہل انجیل نصاریٰ کو اسی مضمون کا خطاب فرما کر اللہ کے نازل کئے ہوئے قانون کے خلاف کوئی قانون جاری کرنے پر سخت تنبیہ فرمائی، اور ایسا کرنے والوں کو سرکش و نافرمان قرار دیا۔
اس کے بعد چوتھی، پانچویں اور چھٹی آیت میں رسول کریم ﷺ کو مخاطب بنا کر مسلمانوں کو اسی مضمون کے متعلق ہدایات دیں گئیں کہ وہ اہل کتاب کی اس بیماری میں مبتلا نہ ہوجائیں، کہ جاہ و مال کے لالچ میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو بدلنے لگیں، یا اس کے قانون کے خلاف کوئی قانون اپنی طرف سے جاری کرنے لگیں۔
اس کے ضمن میں ایک اور اہم اصولی مسئلہ یہ بھی بیان فرما دیا کہ اگرچہ اصول عقائد اور اطاعت حق جل شانہ، کے معاملہ میں تمام انبیاء (علیہم السلام) ایک ہی عقیدہ اور ایک ہی طریقہ کے پابند ہیں، لیکن بہ تقاضائے حکمت ہر پیغمبر کو اس کے زمانہ کی مناسب شریعت دی گئی ہے جس میں بہت سے فروعی اور جزوی احکام مختلف ہیں، اور یہ بتلایا کہ ہر پیغمبر کو جو شریعت دی گئی، اس کے زمانہ میں وہی مقتضائے حکمت اور واجب الاتباع تھی، اور جب اس کو منسوخ کرکے دوسری شریعت لائی گئی تو اس وقت وہی عین حکمت و مصلحت اور واجب الاتباع ہوگئی، اس میں شریعتوں کے مختلف ہوتے رہنے اور بدلتے رہنے کی ایک خاص حکمت کی طرف بھی اشارہ فرما دیا۔
ہم نے (موسیٰ علیہ الالسلام پر) توریت نازل فرمائی تھی جس میں (عقائد صحیحہ کی بھی) ہدایت تھی اور (احکام عملیہ کا بھی) وضوح تھا، انبیاء (بنی اسرائیل) جو کہ (باوجود لاکھوں آدمیوں کے مقتداء ومطاع ہونے کے) اللہ تعالیٰ کے مطیع تھے اس (توراة) کے موافق یہود کو حکم دیا کرتے تھے اور (اسی طرح ان میں کے) اہل اللہ اور علماء بھی (اسی کے موافق کہ وہی اس وقت کی شریعت تھی حکم دیتے تھے) بوجہ اس کے کہ ان (اہل اللہ و علماء) کو اس کتاب اللہ (پر عمل کرنے اور کرانے) کی نگہداشت کا حکم (حضرت انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ سے) دیا گیا تھا اور وہ اس کے (یعنی اس پر عمل کرنے کرانے کے) اقراری ہوگئے تھے (یعنی چونکہ ان کو اس کا حکم ہوا تھا اور انہوں نے اس حکم کو قبول کرلیا تھا، اس لئے ہمیشہ اس کے پابند رہے) سو (اے اس زمانہ کے رؤ سا و علماء یہود جب ہمیشہ سے تمہارے سب مقتداء توریت کو ماننے آئے ہیں تو) تم بھی (تصدیق رسالت محمدیہ ﷺ کے باب میں جس کو حکم توریت میں ہے) لوگوں سے (یہ) اندیشہ مت کرو (کہ ہم تصدیق کرلیں گے تو عام لوگوں کی نظر میں ہماری جاہ میں فرق آئے گا) اور (صرف) مجھ سے ڈرو (کہ تصدیق نہ کرنے پر سزا دوں گا) اور میرے احکام کے بدلہ میں (دنیا کی) متاع قلیل (جو کہ تم کو اپنے عوام سے وصول ہوتی ہے) مت لو (کہ یہی حُبِّ جاہ و حبِّ مال تم کو باعث ہوتی ہیں تصدیق نہ کرنے پر) اور (یاد رکھو کہ) جو شخص خدا تعالیٰ کے نازل کئے ہوئے کے موافق حکم نہ کرے (بلکہ غیر حکم شرعی کو قصداً حکم شرعی بتلا کر اس کے موافق حکم کرے) سو ایسے لوگ بالکل کافر ہیں (جیسا اے یہود تم کر رہے ہو کہ عقائد میں بھی مثل عقیدہ رسالت محمدیہ ﷺ اور اعمال میں بھی جیسے حکم رجم وغیرہ اپنے مخترعات کو حکم الٓہی بتلا کر ضلال واضلال میں مبتلا ہو رہے ہو) اور ہم نے ان (یہود) پر اس (توراة) میں یہ بات فرض کی تھی کہ (اگر کوئی کسی کو ناحق عمداً قتل یا زخمی کرے اور صاحب حق دعویٰ کرے تو) جان بدلے جان کے اور آنکھ بدلے آنکھ کے اور ناک بدلے ناک کے اور کان بدلے کان کے اور دانت بدلے دانت کے اور (اسی طرح دوسرے) خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے پھر جو شخص (اس قصاص یعنی بدلہ لینے کا مستحق ہو کر بھی) اس (قصاص) کو معاف کر دے وہ (معاف کرنا) اس (معاف کرنے والے) کے لئے (اس کے گناہوں کا) کفارہ (یعنی گناہوں کے دور ہونے کا سبب) ہوجائے گا (یعنی معاف کرنا موجب ثواب ہے) اور (چونکہ یہود نے ان احکام کو چھوڑ رکھا تھا اس لئے مکرر وعید سناتے ہیں کہ) جو شخص خدا تعالیٰ کے نازل کئے ہوئے کے موافق حکم نہ کرے (جس کے معنی اوپر گزرے) سو ایسے لوگ بالکل ستم ڈھا رہے ہیں (یعنی بہت برا کام کر رہے ہیں) اور ہم نے ان (نبیوں) کے پیچھے (جن کا ذکر (آیت) یحکم بھا النبیون میں آیا ہے) عیسیٰ بن مریم ؑ کو اس حالت میں (پیغمبر بنا کر) بھیجا کہ وہ اپنے سے قبل کی کتاب یعنی توریت کی تصدیق فرماتے تھے (جو کہ لوازم رسالت سے ہے کہ تمام کتب الٓہیہ کی تصدیق کرے) اور ہم نے ان کو انجیل دی جس میں (توریت ہی کی طرح عقائد صحیحہ کی بھی) ہدایت تھی اور (احکام عملیہ کا بھی) وضوح تھا اور وہ (انجیل) اپنے سے قبل کی کتاب یعنی توریت کی تصدیق (بھی) کرتی تھی (کہ یہ بھی لوازم کتاب الٓہی سے ہے) اور وہ سراسر ہدایت اور نصیحت تھی خدا سے ڈرنے والوں کے لئے اور (ہم نے انجیل دے کر حکم کیا تھا کہ) انجیل والوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اس میں نازل فرمایا ہے اس کے موافق حکم کیا کریں اور (اے اس زمانہ کے نصاریٰ سن رکھو کہ) جو شخص خدا تعالیٰ کے نازل کئے ہوئے کے موافق حکم نہ کرے (اور اس کے معنی اوپر گزر چکے ہیں) تو ایسے لوگ بالکل بےحکمی کرنے والے ہیں (اور انجیل رسالت محمدیہ ﷺ کی خبر دے رہی ہے، تو تم اس کے خلاف کیوں چل رہے ہو) اور (توراة و انجیل کے بعد) ہم نے یہ کتاب (مسمیٰ بقرآن) آپ ﷺ کے پاس بھیجی ہے جو خود بھی صدق (و راستی) کے ساتھ موصوف ہے اور اس سے پہلے جو (آسمانی) کتابیں (آچکی) ہیں (جیسے توراة و انجیل و زبور) ان کی بھی تصدیق کرتی ہے، (کہ وہ نازل من اللہ ہیں) اور (چونکہ وہ کتاب مسمی بقرآن قیامت تک محفوظ و معمول بہ ہے، اور اس میں ان کتب سماویہ کی تصدیق موجود ہے اس لئے وہ کتاب) ان کتابوں (کے صادق ہونے کے مضمون) کی (ہمیشہ کے لئے) محافظ ہے (کیونکہ قرآن میں ہمیشہ یہ محفوظ رہے گا کہ وہ کتب نازل من اللہ ہیں جب قرآن ایسی کتاب ہے) تو ان (اہل کتاب) کے باہمی معاملات میں (جب کہ آپ کے اجلاس میں پیش ہوں) اسی بھیجی ہوئی کتاب کے موافق فیصلہ فرمایا کیجئے اور یہ جو سچی کتاب آپ کو ملی ہے اس سے دور ہو کر ان کی (خلاف شرع) خواہشوں (اور فرمائشوں) پر (آئندہ بھی) عملدرآمد نہ کیجئے (جیسا اب تک باوجود ان کی درخواست والتماس کے آپ ﷺ نے صاف انکار فرمایا، یعنی یہ آپ کی رائے نہایت ہی درست ہے، اسی پر ہمیشہ قائم رہئے، اور اے اہل کتاب تم کو اس قرآن کے حق جاننے سے اور اس کے فیصلہ کو ماننے سے کیوں انکار ہے ؟ کیا دین جدید کا آنا کچھ تعجب کی بات ہے ؟ آخر) تم میں سے ہر ایک (امت) کے لئے (اس کے قبل) ہم نے خاص شریعت اور خاص طریقت تجویز کی تھی (مثلاً یہود کی شریعت و طریقت توراة تھی، اور نصاریٰ کی شریعت اور طریقت انجیل تھی، پھر اگر امت محمدیہ ﷺ کے لئے شریعت و طریقت قرآن مقرر کیا گیا، جس کا حق ہونا بھی دلائل سے ثابت ہے تو وجہ انکار کیا) اور اگر اللہ تعالیٰ کو (سب کا ایک ہی طریقہ رکھنا) منظور ہوتا تو (وہ اس پر بھی قدرت رکھتے تھے کہ) تم سب (یہود و نصاریٰ و اہل اسلام) کو (ایک ہی شریعت دے کر) ایک ہی امت میں کردیتے (اور شرع جدید نہ آتی جس سے تم کو توحّش ہوتا ہے) لیکن (اپنی حکمت سے) ایسا، نہیں کیا (بلکہ ہر امت کو جدا جدا طریقہ دیا) تاکہ جو دین تم کو (ہر زمانہ میں نیا نیا) دیا ہے اس میں تم سب کا (تمہارے اظہار اطاعت کے لئے) امتحان فرما دیں (کیونکہ اکثر طبعی امر ہے کہ نئے طریقہ سے وحشت اور مخالفت کی طرف حرکت ہوتی ہے، لیکن جو شخص عقل صحیح و انصاف سے کام لیتا ہے، وہ اس ظہور حقیقت کے بعد اپنی طبیعت کو موافقت پر مجبور کردیتا ہے، اور یہ ایک امتحان عظیم ہے۔ پس اگر سب کی ایک ہی شریعت ہوتی تو اس شریعت کی ابتداء کے وقت جو لوگ ہوتے ان کا امتحان تو ہوجاتا، لیکن دوسرے جو ان کے مقلّد اور اس طریق سے مالوف ہوتے ان کا امتحان نہ ہوتا، اور اب ہر امت کا امتحان ہوگیا، اور امتحان کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ انسان کو جس چیز سے روکا جائے خواہ معمول ہو یا متروک اس پر حرص ہوتی ہے، اور یہ امتحان شرائع کے تعدّد میں اقویٰ ہے، کہ منسوخ سے روکا جاتا ہے، اور شریعت کے اتحاد میں گو معاصی سے روکتے، لیکن ان میں حقیقت کا تو شبہ نہیں ہوتا، اس لئے امتحان اس درجہ کا نہیں، ان دونوں امتحانوں کو مجموعہ ہر امت کے سلف اور خلف سب کو عام ہوگیا، جیسا کہ صورت اوّل کو صرف سلف سے خصوصیت ہے، پس جب شرع جدید میں یہ حکمت ہے) ، تو (تعصب کو چھوڑ کر) مفید باتوں کی طرف (یعنی ان عقائد و اعمال و احکام کی طرف جن پر قرآن مشتمل ہے) دوڑو (یعنی قرآن پر ایمان لاکر اس پر چلو ایک روز) تم سب کو خدا ہی کے پاس جانا ہے پھر وہ تم سب کو جتلا دے گا جس میں تم (باوجود وضوح حق کے دنیا میں خواہ مخواہ) اختلاف کیا کرتے تھے (اس لئے اس اختلاف بےجا کو چھوڑ کر حق کو جو کہ اب منحصر ہے قرآن میں قبول کرلو) اور (چونکہ ان اہل کتاب نے ایسی بلند پروازی کی کہ آپ سے درخواست اپنے موافق مقدمہ طے کردینے کی کرتے ہیں، جہاں کہ اس کا احتمال ہی نہیں، اس لئے ان کے حوصلے پست کرنے کو اور اس کو سنا کر ہمیشہ ہمیشہ ان کے ناامید کردینے کو) ہم (مکرر) حکم دیتے ہیں کہ آپ ان (اہل کتاب) کے باہمی معاملات میں (جب کہ آپ ﷺ کے اجلاس میں پیش ہوں) اس بھیجی ہوئی کتاب کے موافق فیصلہ فرمایا کیجئے اور ان کی (خلاف شرع) خواہشوں (اور فرمائشوں) پر (آئندہ بھی) عملدرآمد نہ کیجئے (جیسا اب تک بھی نہیں کیا) اور ان سے یعنی ان کی اس بات سے (آئندہ بھی مثل سابق) احتیاط رکھئے کہ وہ آپ کو خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کسی حکم سے بھی بچلاویں (یعنی گو اس کا احتمال نہیں لیکن اس کا قصد بھی رہے تو موجب ثواب بھی ہے) پھر (باوجود وضوح قرآن اور اس کے فیصلہ کے حق ہونے کے بھی) اگر یہ لوگ (قرآن سے اور آپ ﷺ کے فیصلہ سے جو موافق قرآن کے ہوگا) اعراض کریں تو یہ یقین کرلیجئے کہ بس خدا ہی کو منظور ہے کہ ان کے بعض جرموں پر (دنیا ہی میں) ان کو سزا دیدیں (اور وہ بعض جرم فیصلہ نہ ماننا ہے اور حقانیت قرآن کے نہ ماننے کی سزا پوری آخرت میں ملے گی، کیونکہ پہلا جرم ذمّی ہونے کے خلاف ہے، اور دوسرا جرم ایمان کے خلاف حربیت کی سزا دنیا میں ہوتی ہے اور کفر کی سزا آخرت میں، چناچہ یہود کی سرکشی اور عہد شکنی جب حد سے تجاوز ہوئی تو ان کو سزا قتل اور قید اور اخراج وطن کی دی گئی) اور (اے محمد ﷺ ان کے یہ حالات سن کر آپ ﷺ کو رنج ضرور ہوگا، لیکن آپ ﷺ زیادہ غم نہ کیجئے، کیونکہ) زیادہ آدمی تو (دنیا میں ہمیشہ سے) بےحکم ہی ہوتے (آئے) ہیں یہ لوگ (فیصلہ قرآنی سے جو کہ عین عدل ہے اعراض کرکے) پھر کیا زمانہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں (جس کو انہوں نے برخلاف شرائع سماویہ کے خود مخترع کرلیا تھا، جس کا ذکر دو واقعوں کے ضمن میں اس رکوع سے پہلے رکوع (آیت) یا ایھا الرسول کی تمہید میں گزر چکا ہے، حالانکہ وہ سراسر عدل اور دلیل کے خلاف ہے، یعنی اہل علم ہو کر علم اعراض کرنا اور جہل کا طالب ہونا عجب در عجب ہے) اور فیصلہ کرنے میں اللہ سے کون اچھا (فیصلہ کرنے والا) ہوگا (بلکہ کوئی مساوی بھی نہیں، پس خدائی فیصلہ کو چھوڑ کر دوسرے کے فیصلہ کا طالب ہونا عین جہل نہیں تو کیا ہے، لیکن یہ بات بھی) یقین (و ایمان) رکھنے والوں (ہی) کے نزدیک (کیونکہ اس کا سمجھنا موقوف ہے قوت عقلیہ کی صحت پر اور وہ کفار اس سے بےنصیب ہیں)۔

معارف و مسائل
آیات مذکورہ میں سے پہلی آیت میں ارشاد فرمایا
اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ،”یعنی ہم نے اپنی کتاب تورات بھیجی جس میں حق کی طرف رہنمائی اور ایک خاص نور تھا“۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ آج جو شریعت توراة کو منسوخ کیا جا رہا ہے تو اس میں تورات کی کوئی تنقیص نہیں، بلکہ تغیر زمانہ کے سبب سے تغیر احکام کی ضرورت کے ماتحت ایسا کیا گیا، ورنہ تورات بھی ہماری نازل کردہ کتاب ہے، اس میں بنی اسرائیل کے لئے اصول ہدایت بھی مذکور ہیں، اور ایک خاص نور بھی ہے، جو روحانی طور پر ان کے قلوب پر اثر انداز ہوتا ہے۔
اس کے بعد ارشاد فرمایايَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ ”یعنی تورات کو ہم نے اس لئے نازل کیا تھا کہ جب تک اس کی شریعت کو منسوخ نہ کیا جائے اس وقت تک آنے والے انبیاء اور ان کے نائب اللہ والے اور علماء سب اسی تورات کے مطابق فیصلے کیا کریں، اسی قانون کو دنیا میں چلایا کریں، اس میں انبیاء (علیہم السلام) کے نائبین کو دو قسموں میں ذکر فرمایا ہے، پہلے ربانیون دوسرے احبار، لفظ ربانی رب کی طرف منسوب ہے، جس کے معنی ہیں اللہ والا، اور احبار، حبر کی جمع ہے، یہود کے محاورہ میں عالم کو حبر کہا جاتا تھا، اگرچہ یہ بات بظاہر ہے کہ جو اللہ والا ہوگا ضروری ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کے ضروری احکام کا علم بھی ہو، ورنہ بغیر علم کے عمل نہیں ہوسکتا، اور بغیر احکام الہیہ کی اطاعت و عمل کے کوئی شخص اللہ والا نہیں ہو سکتا، اسی طرح اللہ کے نزدیک عالم اسی کو کہا جاتا ہے جو اپنے علم پر عمل بھی کرتا ہو، ورنہ وہ عالم جو احکام الٓہیہ سے واقف ہونے کے باوجود ضروری فرائض و واجبات پر بھی عمل نہیں کرتا نہ اس کی طرف کوئی دھیان دیتا ہے وہ اللہ و رسول کے نزدیک جاہل سے بدتر ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر اللہ والا عالم ہوتا ہے، اور ہر عالم اللہ والا ہوتا ہے۔ مگر اس جگہ ان دونوں کو الگ الگ بیان فرما کر اس بات پر متنبہ فرما دیا کہ اگرچہ اللہ والے کے لئے علم ضروری اور عالم کے لئے عمل ضروری ہے، لیکن جس پر جس رنگ کا غلبہ ہو اس کے اعتبار سے اس کا نام رکھا جاتا ہے، جس شخص کی توجہ زیادہ تر عبادات و عمل اور ذکر اللہ میں مصروف ہے اور علم دین صرف بقدر ضرورت حاصل کرلیتا ہے وہ زبانی یعنی اللہ والا کہلاتا ہے، جس کو آج کل کی اصطلاح میں شیخ، مرشد، پیر وغیرہ کے نام دیئے جاتے ہیں، اور جو شخص عملی مہارت پیدا کرکے لوگوں کو احکام شرعیہ بتلانے سکھلانے کی خدمت میں زیادہ مشغول ہے اور فرائض و واجبات اور سنن مؤ کدہ کے علاوہ دوسری نفلی عبادات میں زیادہ وقت نہیں لگا سکتا، اس کو حبر یا عالم کہا جاتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس میں شریعت و طریقت اور علماء و مشائخ کی اصلی وحدت کو بھی بتلا دیا، اور طریقہ کار اور غالب مشغلہ کے اعتبار سے ان میں فرق کو بھی واضح کردیا جس سے معلوم ہوگیا کہ علماء اور صوفیاء کوئی دو فرقے یا دو گروہ نہیں، بلکہ دونوں کا مقصد زندگی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری ہے، البتہ اس مقصد کے حصول کے لئے ان کے طریق کار صورةً متغائر نظر آتے ہیں۔
اس کے بعد ارشاد فرمایابِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَكَانُوْا عَلَيْهِ شُهَدَاۗءَ ، یعنی یہ انبیاء اور ان کے دونوں قسم کے نائبین علماء و مشائخ تورات کے احکام جاری کرنے کے پابند اس لئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے توراة کی حفاظت ان کے ذمہ لگا دی تھی اور انہوں نے اس کی حفاظت کا عہدوپیمان کرلیا تھا۔
یہاں تک تورات کے کتاب الہی ہونے اور ہدایت و نور ہونے کا اور اس کا ذکر تھا کہ انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے سچے نائبین مشائخ اور علماء نے اس کی حفاظت فرمائی، اس کے بعد موجودہ زمانہ کے یہودیوں کو ان کی کجروی پر اور اس کجروی کے اصلی سبب پر متنبہ فرمایا گیا کہ تم نے بجائے اس کے کہ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر تورات کی حفاظت اور تفصیل کے ساتھ نبی آخر الزمان محمد مصطفیٰ ﷺ کے آنے کی خبر اور یہود کو ان پر ایمان لانے کی ہدایت مذکور تھی، ان لوگوں نے اس کی خلاف ورزی کی اور رسول کریم ﷺ پر ایمان لانے کے بجائے آپ کی مخالفت شروع کردی اور ساتھ ہی ان کی اس مہلک غلطی کا سبب بھی بیان فرما دیا، کہ وہ تمہاری حب جاہ اور حب مال ہے، تم رسول کریم ﷺ کو رسول برحق جاننے کے باوجود آپ ﷺ کے اتباع سے اس لئے گھبراتے ہو کہ اب تو تم اپنی قوم کے مقتدا مانے جاتے ہو، یہودی عوام تمہارے پیچھے چلتے ہیں، اگر تم نے اسلام قبول کرلیا تو تم ایک فرد مسلم کی حیثیت میں آجاؤ گے یہ چودھراہٹ ختم ہوجائے گی، دوسرے ان لوگوں نے یہ پیشہ بنا لیا تھا کہ بڑے لوگوں سے رشوت لے کر ان کے لئے احکام تورات میں تحریف کرکے آسانیاں پیدا کردی تھیں۔ اس پر متنبہ فرمانے کے لئے موجود زمانہ کے یہود کو فرمایا کہ
فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا، یعنی تم لوگوں سے نہ ڈرو کہ وہ تمہارا اتباع چھوڑ دیں گے یا مخالف ہوجائیں گے، اور تم دنیا کی متاع قلیل لے کر ان کے لئے احکام الٓہی میں گڑبڑ نہ کرو کہ یہ تمہارے لئے دین و دنیا کی بربادی ہے، کیونکہ ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ ، یعنی جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے احکام کو واجب نہیں سمجھتے اور ان پر فیصلہ نہیں دیتے، بلکہ ان کے خلاف فیصلہ کرتے ہیں، وہ کافر و منکر ہیں، جن کی سزا دائمی عذاب جہنم ہے۔
Top