بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - At-Talaaq : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَ اَحْصُوا الْعِدَّةَ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ١ۚ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ١ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ١ؕ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا طَلَّقْتُمُ : جب طلاق دو تم النِّسَآءَ : عورتوں کو فَطَلِّقُوْهُنَّ : تو طلاق دو ان کو لِعِدَّتِهِنَّ : ان کی عدت کے لیے وَاَحْصُوا : اور شمار کرو۔ گن لو الْعِدَّةَ : عدت کو وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے رَبَّكُمْ : جو رب ہے تمہارا لَا تُخْرِجُوْهُنَّ : نہ تم نکالو ان کو مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ : ان کے گھروں سے وَلَا يَخْرُجْنَ : اور نہ وہ نکلیں اِلَّآ : مگر اَنْ يَّاْتِيْنَ : یہ کہ وہ آئیں بِفَاحِشَةٍ : بےحیائی کو مُّبَيِّنَةٍ : کھلی وَتِلْكَ : اور یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود ہیں وَمَنْ يَّتَعَدَّ : اور جو تجاوز کرے گا حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود سے فَقَدْ : تو تحقیق ظَلَمَ نَفْسَهٗ : اس نے ظلم کیا اپنی جان پر لَا تَدْرِيْ : نہیں تم جانتے لَعَلَّ اللّٰهَ : شاید کہ اللہ تعالیٰ يُحْدِثُ : پیدا کردے بَعْدَ : بعد ذٰلِكَ : اس کے اَمْرًا : کوئی صورت
اے نبی جب تم طلاق دو عورتوں کو تو ان کو طلاق دو ان کی عدت پر اور گنتے رہو عدت کو اور ڈرو اللہ سے جو رب ہے تمہارا مت نکالو ان کو ان کے گھروں سے اور وہ بھی نہ نکلیں مگر جو کریں صریح بےحیائی اور یہ حدیں ہیں باندھی ہوئی اللہ کی اور جو کوئی بڑھے اللہ کی حدوں سے تو اس نے برا کیا اپنا اس کو خبر نہیں شاید اللہ پیدا کر دے اس طلاق کے بعد نئی صورت
خلاصہ تفسیر
اے پیغمبر (آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ) جب تم لوگ (ایسی) عورتوں کو طلاق دینے لگو (جب کے ساتھ خلوت ہوچکی ہے کیونکہ عدت کا حکم ایسی عورتوں سے متعلق ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ہے ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدة) تو ان کو (زمانہ) عدت (یعنی حیض) سے پہلے (یعنی طہر میں) طلاق دو (اور یہ احادیث صحاح سے ثابت ہے کہ اس طہر میں صحبت نہ ہو جس میں طلاق دینا ہے) اور (طلاق دینے کے بعد) تم عدت کو یاد رکھو (یعنی مرد و عورت سب یاد رکھیں، لیکن خطاب میں تخصیص صیغہ مذکر کی اشارہ اس طرف ہے کہ عورتوں میں غفلت غالب ہوتی ہے تو مردوں کو بھی اس کا اہتمام رکھنا چاہئے، کما فی المدارک) اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے (یعنی ان ابواب میں جو اس کے احکام ہیں ان کے خلاف نہ کرو۔ مثلاً یہ کہ تین طلاق دفعتہ مت دو اور یہ کہ حالت حیض میں طلاق مت دو جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے اور یہ کہ عدت میں) ان عرتوں کو ان کے (رہنے کے) گھروں سے مت نالو (کیونکہ سکنی یعنی حق سکونت مطلقہ کا مثل منکوحہ کے واجب ہے) اور نہ وہ عورتیں خود نکلیں (کیونکہ یہ سکنی محض شوہر کا حق نہیں ہے جو اس کی رضاء سے ساقط ہوجاوے بلکہ حق الشرع ہے) مگر ہاں کوئی کھلی بیحیائی کریں تو اور بات ہے (یعنی مثلاً مرتکب بدکاری یا سرقہ کی ہوں تو سزا کے لئے نکالی اجویں یا بقول بعض علماء زبان درازی اور ہمہ وقت کا تکرار رکھتی ہوں تو ان کو نکال دینا جائز ہے) اور یہ سب خدا کے مقرر کئے ہوئے احکام ہیں اور جو شخص احکام خداوندی سے تجاوز کرے گا (مثلاً اس عورت کو گھر سے نکال دیا) اس نے اپنے اوپر ظلم کیا (یعنی گناہگار ہوا آگے طلاق دینے والے کو ترغیب دیتے ہیں کہ طلاق میں طلاق رجعی بہتر ہے پس ارشاد ہے کہ اے طلاق دینے والے) تجھ کو خبر نہیں شاید اللہ تعالیٰ بعد اس (طلاق دینے) کے کوئی نئی بات (تیرے دل میں) پیدا کر دے (مثلاً طلاق پر ندامت ہو تو طلاق رجعی میں اس کا تدارک آسانی سے ہو سکے گا) پھر جب وہ [ مطلقہ) عورتیں (جبکہ ان کو طلاق رجعی دی ہو بقرینہ فامسکوہن) اپنی عدت گزرنے کے قریب پہنچ جاویں (اور عدت ختم نہیں ہوئی) تو (تم کو دو اختیار ہیں یا تو) ان کو قاعدہ کے موافق (رجعت کر کے) نکاح میں رہنے دو یا قاعدہ کے موافق ان کو رہائی دو (یعنی انقضائے عدت تک رجعت نہ کرو مطلب سے رجعت کرلو) اور (جو کچھ بھی کرو مرافقت یا مفارقت اس پر) آپس میں سے دو معتبر شخصوں کو گواہ کرلو۔ (یہ مستحب ہے کذا فی الہدایہ والنہایہ رجعت میں تو اس لئے کہ بعد انقضائے عدت کبھی عورت اختلاف کرچکا تھ) اور (اے گواہو اگر گواہی کی حاجت پڑے تو) تم ٹھیک ٹھیک اللہ کے واسطے (بلا رو رعایت) گواہی دو۔ اس ضمن سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ پر اور یوم قیامت پر یقین رکھتا ہو (مطلب یہ کہ ایماندار ہی نصائح سے منتفع ہوتے ہیں اور یوں تو نصائح سب کے لئے عام ہیں) اور (اوپر جو تقویٰ کا حکم ہے احکام کے بعد اس کی متعدد فضیلتیں ارشاد فرماتے ہیں، اول فضیلت یہ کہ) جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے (مضرتوں سے) نجات کی شکل نکال دیتا ہے اور (منافع عطا فرماتا ہے چنانچہا یک بڑی منفعت ہے رزق، سو) اس کو ایسی جگہ سے رز پہنچاتا ہے جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا، اور (ایک شعبہ اس تقویٰ کا توکل ہے اس کی یہ خاصیت ہے کہ) جو شخص اللہ پر توکل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس (کی اصلاح مہمات) کے لئے کافی ہے (یعنی اپنی کفایت کا اثر خاص اصلاح مہمات میں ظاہر فرماتا ہے ورنہ اس کی کفایت تو تمام عالم کے لئے عام ہے اور یہ اصلاح مہمات بھی عام ہے حساً ہو یا باطنا ہو کیونکہ) اللہ تعالیٰ اپنا کام (جس طرح چاہتا ہے) پورا کر کے رہتا ہے (اور اسی طرح اصلاح مہمات کا وقت بھی اسی کے ارادہ پر ہے کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے ہر شئے کا ایک انداز (اپنے علم میں) مقرر کر رکھا ہے (اور اسی کے موافق اس کو واقع کرنا قرین حکمت ہوتا ہے آگے پھر عود ہے احکام کی طرف یعنی اوپر تو عدت کا اجمالاً ذکر تھا) اور (تفصیل اس کی آگے ہے وہ یہ کہ) تمہاری (مطلقہ) بیبیوں میں سے جو عورتیں (بوجہ زیادت عمر کے) حیض آنے سے ناامید ہوچکی ہیں اگر تم کو (ان کی عدت کے تعین میں) شبھہ ہو (جیسا کہ واقع میں شبھہ ہوا تھا اور پوچھا تھا) تو ان کی عدت تین مہینے ہیں اور اسی طرح جن عورتوں کو (اب تک بوجہ کم عمر کے) حیض نہیں آیا (ان کی عدت بھی تین مہینے ہیں) اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کے اس حمل کا پیدا ہوجانا ہے (خواہ کامل ہو یا ناقص بشرطیکہ کوئی عضو بن گیا ہو گو ایک انگلی ہی سہی) اور (چونکہ تقویٰ خود بھی مہتم بالشان ہے اور احکام مذکورہ میں جو کہ متعلق بمعاملات دنیا ہیں عام طبائع میں خیال ہوسکتا ہے کہ ان دنیوی معاملات کو دین سے کیا تعلق ہم جس طرح چاہیں کرلیں اس لئے آگے پھر تقویٰ کا مضمون ہے یعنی جو شخص اللہ سے ڈریگا اللہ تعالیٰ اس کے ہر کام میں آسانی کر دے گا (آخرت کی یا دنیا کی ظاہراً یا باطناً ، آگے پھر تاکید امتثال احکام کے لئے ارشاد ہے کہ) یہ (جو کچھ مذکور ہوا) اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہارے اس بھیجا ہے اور جو شخ (ان معاملات میں اور دوسرے امور میں بھی) اللہ تعالیٰ سے ڈریگا اللہ تعالیٰ اس کے گناہ دور کر دے گا (جو سب سے بڑی مضرت سے نجات ہے) اور اس کو بڑ اجر دے گا (جو سب سے بڑی منفعت کا حصول ہے، آگے پھر مطلقات کے احکام کا بیان ہے یعنی عدت میں علاوہ عدم تطویل عدت اور حق سکنیٰ کے ان کے کچھ اور حقوق بھی ہیں وہ یہ کہ) تم ان (مطلقہ) عورتوں کو اپنی وسعت کے موافق رہنے کا مکان دو جہاں تم رہتے ہو (یعنی عدت میں سکنی بھی مطلقہ کا واجب ہے البتہ طلاق بائن میں ایک مکان میں خلوت کے ساتھ دونوں کا رہنا جائز نہیں بلکہ پردہ حائل ہونا ضرور ہے) اور ان کو تنگ کرنے کے لئے (سکنی کے بارے میں) تکلیف مت پہنچاؤ (مثلاً کوئی ایسی بات کرنے لگو جس سے وہ پریشان ہو کر نکل جائیں) اور اگر وہ (مطلقہ) عورتیں حمل والیاں ہوں تو حمل پیدا ہونے تک ان کو (کھانے پینے کا) خرچ دو (بخلاف غیر حمل والیوں کے کہ ان کے نفقہ کی حد تین حیض یا تین ماہ ہیں اور یہ احکام تو عدت کے متعلق تھے) پھر اگر (عدت کے بعد) وہ (مطلقہ) عورتیں حمل والیاں ہوں تو حمل پیدا ہونے اور یہ احکام تو عدت کے متعلق تھے) پھر اگر (عدت کے بعد) وہ (مطلقہ) عورتیں (جبکہ پہلے سے بچہ والیاں ہوں یا بچہ ہی پیدا ہونے سے ان کی عدت ختم ہوئی ہو) تمہارے لئے (بچہ کو اجرت پر) دودھ پلا دیں تو تم ان کو (مقررہ) اجرت دو اور (اجرت کے بارے میں) باہم مناسب طور پر مشورہ کرلیا کرو (یعنی نہ تو عورت اس قدر زیادہ مانگے کہ مرد کو دوسری انا ڈھونڈھنی پڑے اور نہ مرد اس قدر کم دینا چاہے کہ عورت کا کام نہ چل سکے بلکہ حتی الامکان دونوں اس کا خیال رکھیں کہ ماں ہی دودھ پلاوے کہ بچہ کی اس میں زیادہ مصلحت ہے) اور اگر تم باہم کشمکش کرو گے تو کوئی دوسری عورت دودھ پلاوے گی (مقصود اس خبر سے امر ہے یعنی اور کسی انا کو تلاش کرلیا جاوے نہ ماں کو جبور کیا جاوے نہ باپ کو اور صورة خبر میں یہ نکتہ ہے کہ مرد کو کم اجرت تجویز کرنے پر عتاب ہے کہ آخر کوئی عورت پلاوے گی اور وہ بھی غالباً بہت کم نہ لے گی پھر یہ کمی ماں ہی کے لئے کیوں تجویز کی جاوے اور عورت کو زیادہ اجرت مانگنے پر عتاب ہے کہ تو نہ پلاوے گی اور کوئی میسر ہو جاویگی کیا دنیا میں ایک تو ہی ہے جو اس قدر گراں بنتی ہے آگے بچہ کے نفقہ کے بارے میں ارشاد ہے کہ) وسعت والے کو اپنی وسعت کے موافق (بچہ پر) خرچ کرنا چاہئے اور جس کی آمدنی کم ہو تو اس کو چاہئے کہ اللہ نے اس کو جتنا دیا ہے اس میں سے خرچ کرے (یعنی امیر آدمی اپنی حیثیت کے موافق خرچ اٹھاوے اور غریب آدمی اپنی حیثیت کے موافق کیونکہ) اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا جتنا اس کو دیا ہے (اور تنگدست آدمی خرچ کرتا ہوا اس سے نہ ڈرے کہ خرچ کرنے سے بالکل ہی کچھ نہ رہے گا جیسا بعضے آدمی اس خوف سے اولاد کو قتل کر ڈالتے ہیں پس ارشاد ہے کہ) خدا تعالیٰ تنگی کے بعد جلدی فراغت بھی دے گا (گو بقدر ضرورت و حاجت روائی سہی، و ہذا کقولہ تعالیٰ ولاتفتلوا ولا دکم خشیہ املاق نحن نور فھم وایاکم)

معارف و مسائل
نکاح و طلاق کی شرعی حیثیت اور ان کا حکیمانہ نظام۔ معارف القرآن جلد اول ص 05 میں سورة بقرہ کی تفسیر میں اسی عنوان مذکور کے تحت میں پوری تفصیل لکھی جا چکی ہے اس کو ملاحظہ فرمالیں جس کا خلاص ہیہ ہے کہ نکاح و طلاق کا معاملہ ہر مذہب و ملت میں عام معاملات بیع و شراء اور اجارہ کی طرح نہیں کہ طرفین کی رضا مندی سے جس طرح چاہیں کرلیں بلکہ ہر مذہب و ملت کے لوگ ہمیشہ سے اس پر متفقہ ہیں کہ ان معاملات کو ایک خاص مذہبی تقدس حاصل ہے اسی کی ہدایت کے تحت یہ کام سر انجام پانے چاہئیں۔ اہل کتاب یہود و نصاریٰ تو بہرحال ایک آسمانی دین اور آسمانی کتاب سے نسبت رکھتے ہیں ان میں سینکڑوں تحریفات کے باوجود اتنی قدر مشترک اب بھی باقی ہے کہ ان معاملات میں کچھ مذہبی حدود وقیود کے پابند ہیں۔ کفار و مشرکین جو کوئی آسمانی کتاب اور مذہب نہیں رکھتے مگر کسی نہ کسی صورت میں اللہ تعالیٰ کے قائل ہیں جیسے ہندو، آریہ، سکھ، محبوس، آتش پرست، نجوم پرست لوگ وہ بھی نکاح و طلا کے معاملات کو عام معاملات بیع و شراءیا اجارہ کی طرح نہیں سمجھتے ان کے یہاں بھی کچھ مذہبی رسوم ہیں جن کی پابندی ان معاملات میں لازم سمجھتے ہیں اور انہیں اصول و رسوم پر تمام مذاہب و فرق کے عائلی قوانین چلتے ہیں۔
صرف دہر یہ اور لامذہب منکر خدا لوگوں کا ایک فرقہ ہے جو خداو مذہب ہی سے بیزار ہے وہ ان چیزوں کو بھی اجارہ کی طرح باہمی رضامندی سے طے ہوجانے الا ایک معاملہ قرار دیتے ہیں جس کا مقصد اپنے شہوانی جذبات کی تسکین سے آگے کچھ نہیں۔ افسوس ہے کہ آج کل دنیا میں یہی نظریہ عام ہوتا جاتا ہے جس نے انسانوں کو جنگل کے جانوروں کی صف میں کھڑا کردیا ہے۔ انا للہ والیہ المشتکے
شریعت اسلام ایک مکمل اور پاکیزہ نظام حیات کا نام ہے۔ اس میں نکاح کو صرف ایک معاملہ اور معاہدہ نہیں بلکہ ایک گونہ عبادت کی حیثیت بخشی ہے جس میں خالق کائنات کی طرف سے انسانی فطرت میں رکھے ہوئے شہوانی جذبات کی تسکین کا بہترین اور پاکیزہ سامان بھی ہے اور مرد و عورت کے ازدواجی تعلقات سے جو عمرانی مسائل بقائے نسل اور تربیت اولاد کے متعلق ہیں ان کا بھی معتدلانہ اور حکیمانہ بہترین نظام موجود ہے۔
اور چونکہ معاملہ ازدواج کی درستی پر عام نسل انسانی کی درستی موقوف ہے اس لئے قرآن کریم میں ان عائلی مسائل کو تمام دوسرے معاملات سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ قرآن کریم کو بغور پڑھنے والا یہ عجیب مشاہدہ کرے گا کہ دنیا کے عام معاشی مسائل میں سب سے اہمت تجارت شرکت اجارہ وغیرہ۔ قرآن حکیم نے ان کے تو صرف اصول بتلانے پر اکتفا فرمایا ہے ان کے فروعی مسائل قرآن میں شاذ و نادر ہیں۔ بخلاف نکاح و طلاق کے کہ ان میں صرف اصول بتلانے پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ ان کے بیشتر فروع اور زئیات کو بھی براہ راست حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں نازل فرمایا ہے۔
یہ مسائل قرآن کی اکثر سورتوں میں متفرق اور سورة نساء میں کچھ زیادہ تفصیل سے آئے ہیں یہ سورت جو سورة طلاق کے نام سے موسوم ہے اس میں خصوصیت سے طلاق اور عدت وغیرہ کے احکام کا ذکر ہے اسی لئے بعض روایات حدیث میں اس کو سورة نساء صغریٰ بھی کہا گیا ہے یعنی چھوٹی سورة نسائ (قرطبی بحوالہ بخاری)
اسلامی اصول کا رخ یہ ہے کہ جن مرد و عورت میں اسلامی اصول کے مطابق ازدواجی تعلق قائم ہو وہ پائیدا اور عمر بھر کا رشتہ ہو جس سے ان دونوں کا دنیا و دنیا بھی درست ہو اور ان سے پیدا ہونے والی اولاد کے اعمال و اخلاق بھی درست ہوں۔ اسی لئے نکاح کے معاملے میں شروع سے آخر تک ہر قدم پر اسلام کی ہدایات یہ ہیں کہ اس تعلق کو تلخیوں اور رنجشوں سے پاک صاف رکھنے کی اور اگر کبھی پیدا ہوجائے تو ان کے ازالہ کی پوری کوشش کی گی ہے۔ لیکن ان تمام کوششوں کے باوجودبعض اوقات طرفین کی زندگی کی فلاح اسی میں منحصر ہوجاتی ہے کہ یہ تعلق ختم کردیا جائے جن مذاہب میں طلاق کا اصول نہیں ہے ان میں ایسے اوقات میں سخت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور بعض اوقات انتہائی برے نتائج سامنے آتے ہیں اس لئے اسلام نے قانین نکاح کی طرح طلاق کے بھی اصول و قواعد مقرر فرمائے مگر ساتھ ہی یہ ہدایات بھی دیدیں کہ طلاق اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت مبغوض و مکروہ کام ہے جہاں تک ممکن ہو اس سے پرہیز کرنا چاہئے، حدیث میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمر منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حلال چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض اللہ کے نزدیک طلاق ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تزوجواہ تطلقوافان الطلاق یھتزمنہ عرش الرحمٰن یعنی نکاح کرو اور طلاق نہ دو کیونکہ طلاق سے عرش رحمن ہل جاتا ہے اور حضرت ابوموسی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عورتوں کو طلاق نہ دو بغیر کسی بدکاری کے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان مردوں کو پسند نہیں کرتا جو صرف ذائقہ چکھنے والے ہیں اور ان عورتوں کو پسند نہیں کرتا جو صرف ذائقہ چکھنے والی ہیں (قرطبی بروایت ثعلبی) اور دارقطنی نے حضرت معاذ بن جبل سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے زمین پر جو کچھ پیدا فرمایا ہے ان سب میں اللہ کے نزدیک محبوب غلاموں کو آزاد کرنا ہے اور جتنی چیزیں زمین پر پیدا کی ہیں ان سب میں مبغوض و مکروہ طلاق ہے (از قرطبی)
بہرحال اسلام نے اگرچہ طلاق کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ تابمقدور اس سے روکا ہے لیکن بعض ضرورت کے مواقع میں اجازت دی تو اس کے لئے کچھ اصول و قواعد بنا کر اجازت دی۔ جن کا حاصل یہ ہے کہ اس رشتہ ازدواج کو ختم ہی کرنا ضروری ہوجائے تو وہ بھی خوبصورتی اور حسن معاملہ کے ساتھ انجام پائے محض غصہ نکالنے اور انتقامی جذبات کا کھیل بنانے کی صورت نہ بننے پائے۔ اس سورت میں احکام طلاق کو اس طرح شروع کیا گیا کہ اول رسول اللہ ﷺ کو يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ کے عنوان سے خطاب کیا گیا جو امام قرطی کے بیان کے مطباق ان مواقع میں اسعتمال ہوتا ہے جہاں حکم تمام امت کے لئے عام اور جس جگہ کوئی حکم رسول کی ذات سے متعلق ہوتا ہے تو وہاں یایھا الرسول سے خطاب کیا جاتا ہے۔
اس جملہ يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ کا تقاضا یہ تھا کہ آگے بھی بصیغہ مفرد احکام کا بیان ہوتا مگر یہاں اس کے خلاف بصیغہ جمع خطاب فرمایا اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗء جو اگرچہ بلاواسطہ خطاب نبی کریم ﷺ کو ہے اور بصیغہ جمع خطاب کرنے میں آنحضرت ﷺ کی تعظیم و تکریم بھی ہے سات ھہی اس طرف اشارہ بھی کہ یہ حکم آپ کے لئے مخصوص نہیں تمام امت اس میں شریک ہے۔
اور بعض حضرات نے اس جگہ جملہ محذوف قرار دے کر آیت کی تفسیر یہ کی ہے يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗ یعنی اے نبی آپ مسلمانوں کو بتلا دیں کہ جب وہ طلاق دیا کریں تو آگے بیان کئے ہوئے قانون کی پابندی کریں۔ اوپر خلاصہ تفسیر میں اسی کو اختیار کیا گیا ہے۔ آگے بعض احکام طلاق کا بیان ہے۔
پہلا حکم۔ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِن عدت کے لفظی معنے عدد شمار کرنے کے ہیں۔ شرع اصطلاح میں اس مدت کو کہا جاتا ہے جس میں عورت ایک شوہر کے ناح سے نکلنے کے بعد دوسرے نکاح سے ممنوع ہوتی ہے۔ اس مدت انتظار کو عدت کہا جاتا ہے اور کسی شوہر کے نکاح سے نکلنے کی صورتیں دو ہوت ہیں ایک یہ کہ شوہر کا انتقال ہوجائے، اس کی عدت کو عدت وفات کہا جاتا ہے جو غیر حاملہ کے لئے چار ماہ دس دن مقرر ہے۔ دوسری صورت نکاح سے نکلنے کی طلاق ہے۔ عدت طلاق غیر حاملہ عورت کے لئے امام اعظم ابوحنفہ اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک تین حیض پورے ہیں اور امام شافعی اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک تین طہر عدت طلاق ہے بہرحال اس کے لئے کچھ ایام یا مہینے مقرر نہیں جتنے مہینوں میں تین حیض یا تین طہر پورے ہوجاویں وہ ہی عدت طلاق ہوگی اور جن عورتوں کو ابھی کم عمری کی وجہ سے حیض نہیں آیا یا زیادہ عمر ہوجانے کے سبب حیض منقطع ہوچکا ہے ان کا حکم آگے مستقلاً آ رہا ہے اور اسی طرح حمل والی عورتوں کا حکم بھی آگے آ رہا ہے اس میں عدت وفات اور عدت طلاق دونوں یکساں ہیں۔ فطلقوھن لعدتھن اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول ﷺ نے اس کو فطلقوھن لقبل عدتھن تلاوت فرمائی اور حضرت ابن عمر اور ابن عباس ؓ کی قراءت میں بھی ایک روایت میں لقبل عدتھن اور دوسری ایک روایت میں فی قبل عدتھن منقول ہے۔ (روح)
اور صیحین بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی عورت کو بحالت حیض طلاق دے دیتھی۔ حضرت فاروق اعظم نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ سخت ناراض ہوئے پھر فرمایا۔
ان کو چاہئے کہ بحالت حیض دی ہوئی طلاق سے رجوع کرلیں پھر اپنی زوجیت میں رکھیں یہاں تک کہ حیض سے طہارت ہوجائے اور پھر اس کے بعد حیض آئے اس حیض سے طہارت ہوجائے اس وقت اگر طلاق دینا ہی ہے تو اس طہر میں مباشرت و صحبت کئے بغیر طلاق دیدیں۔ یہی وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے آیت (مذکورہ) میں حکم دیا ہے۔
اس حدیث سے چند باتیں ثابت ہوئیں اول یہ کہ حالت حیض میں طلاق دینا حرام ہے دوسرے یہ کہ اگر کسی نے ایسا کرلیا تو اس طلاق سے رجعت کرلینا واجب ہے (بشرطیکہ طلاق قابل رجعت ہو جیسا کہ ابن عمر کے واقعہ میں تھی) تیسرے یہ کہ جس طہر میں طلاق دینا ہے اس میں عورت سے مباشرت و صحبت نہ ہو۔ چوتھے یہ کہ آیت قرآنی فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِن کی یہی تفسیر ہے۔
آیت مذکورہ کی دونوں قراتوں سے پھر ایک روایت حدیث سے آیت مذکورہ کا یہ مفہوم متعین ہوگیا کہ جب کسی عورت کو طلاق دینا ہو تو عدت شروع ہونے سے قبل طلاق دی جائے۔ امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک چونکہ عدت حیض سے شروع ہوتی ہے تو معنے آیت کے یہ قرار دیئے کہ جس طہر میں طلاق دینے کا ارادہ ہو اس میں عورت سے مباشرت نہ کرے اور آخر طہر میں حیض شروع ہونے سے پہلے طلاق دیدے اور امام شافعی وغیرہ کے نزدیک چونکہ عدت طہر ہی سے شروع ہوتی اس لئے لقبل عدتھن کا مفہوم یہ قرار دیا کہ بالکل شروع طہر میں طلاق دے دیجائے اور یہ بحث کہ عدت تین حیض ہیں یا تین طہر اس کا بیان سورة بقرہ کی آیت ثلثتہ قروء کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔
بہرحال طلاق کے متعلق پہلا حکم اس آیت سے باجماع امت یہ ثابت ہوا کہ حالت حیض میں طلاق دینا بھی حرام ہے اور ایسے طہر میں جس میں عورت کے ساتھ مباشرت و صحبت کرلی ہو اس میں بھی طلاق دینا حرام ہے اور وجہ حرمت کی دونوں میں یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں عورت کی عدت طویل ہوجائے گی جو اس کے لئے باعث تکلیف ہے کیونکہ جس حیض میں طلاق دی یہ حیض تو عدت میں شمار نہیں ہوگا بلکہ حیض کے ایام پورے ہوں اور مذہب ابوحنیفہ کے مطابق اسکے بعد کا طہر بھی خال گزرے پھر جب دوسرا حیض آئے تو اس وقت عدت شروع ہوگی جس میں بڑی تطویل ہے اور مذہب شافعی کے مطابق بھی کم از کم حیض کے بقیہ ایام جو عدت سے پہلے گزریں گے وہ زیادہ ہوجائیں گے۔ طلاق کا یہ پہلا حکم ہے اس اہم ہدایت پر مشتمل ہے کہ طلاق کوئی غصہ نکالنے یا انتقام کی چیز نہیں بلکہ بدرجہ مجبوری طرفین کی راحت کا انتظام ہے اس لئے طلاق دینے کے وقتہی سے اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ عورت کو طول عدت کے بلاوجہ تکلیف نہ پہنچے اور یہ حکم صرف ان عورتوں کے لئے ہیں جن پر عدت گزارنا حیض یا طہر سے لازم ہے اور جن عورتوں پر عدت واجب ہی نہیں مثلاً وہ عورت جس سے خلوت ہی ابھی تک نہیں ہوئی اس پر سرے سے عدت ہی لازم نہیں اس کو حالت حیض میں بھی طلاق دے دیجائے تو جائز ہے اسی طرح وہ عورت جس کو کم عمری یا زیادتی عمر کے سبب حیض نہیں آت اس لئے اس کی عدت میں حیض و طہر کا کوئی اعتبار ہی نہیں بلکہ ان کی عدت مہینوں کے حساب سے تین ماہ ہے ان کو کسی بھی حالت میں طلاق دے دیجائے یا صحبت و مباشرت کے عبد طلاق دے دیجائے سب جائز ہے جیسا کہ آئندہ آیات میں آ رہا ہے۔ (از مظہری مع بعض تشریحات)
دوسرا حکم َ وَاَحْصُوا الْعِدَّةَ ہے۔ احصاء کے معنے شمار کرنے کے ہیں۔ معنے آیت کے یہ ہیں کہ عدت کے ایام کو اہتمام کے ساتھ یاد رکھنا چاہئے ایسا نہ کہ بھول میں پڑ کر اختتام عدت سے پہلے ہی ختم سمجھ لے اور یہ ذمہ داری ایام عدت کو محفوظ رکھنے کی مرد و عورت دونوں پر عائد ہے مگر یہاں صیغہ مذکر استعمال کیا گیا کیونکہ عام طور پر جو احکام مرد و عورت میں مشترک ہیں ان میں عموماً خطاب بصیغہ مذکر ہی آتا ہے عورتیں تبعاً اس میں داخل سمجھی جاتی ہیں اور اس خاص مسئلہ میں وہ حکمت بھی ہو سکتی ہے جو خلاصہ تفسیر میں لکھی گئی ہے کہ عورتوں میں غفلت کا احتمال زیادہ ہے اس لئے براہ راست ذمہ داری مردوں پر ڈال دی گئی۔
تیسرا حکم لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْ بُيُوْتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْن (نہ نکالو ان کو ان کے گھروں سے) اس میں لفظ بیوتھن میں (مکانات) کو ان عورتوں کے بیوت فرما کر اس طرف اشارہ کیا کہ جب تک ان کا حق سکنی (سکونت) مرد کے ذمہ ہے اس گھر میں اس کا حق ہے اس میں سکوتن کو بحال رکھنا کوئی احسان نہیں بلکہ ادائیگی واجب ہے بیوی کے حقوق میں سے ایک حق سکنی بھی ہے۔ اس آیت نے بتلا دیا کہ یہ حق صرف طلاق دیدینے سے ختم نہیں ہوجاتا بلکہ ایام عدت تک عورت کو اسی جگہ رہنے کا استحقاق ہے اور ان کا گھر سے نکال دینا قبل اتمام عدت کے ظلم و حرام ہے اسی طرح خود ان کے لئے با اختیار خود ان گھروں سے نکل جانا بھی حرام ہے اگرچہ شوہر بھی اس کی اجازت دیدے کیونکہ ایام عدت اسی مکان میں گزارنا شوہر ہی کا حق نہیں بلکہ حق اللہ بھی ہے۔ جو منجانب اللہ معتدہ پر لازم ہے (ہذا ہو مذہب الخفیتہ)
چوتھا حکم َ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ یعنی معتدہ عورتوں کو ان کے گھروں سے نکالنا حرام عے مگر اس میں سے یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ عورت کسی کھلی بےحیائی میں مبتلا ہو ائے۔ اس کھلی بےحیائی سے کیا مراد ہے اس میں ائمہ تفسیر کے تین قول منقول ہیں۔
اول یہ کہ بےحیائی سے مراد خود یہی گھر سے نکل جانا ہے تو اس صورت میں یہ استثناء صرف صورة استثناء ہے جس سے خروج من البیت کی اجازت دینا مقصود نہیں بلکہ اس کی ممانعت کو اور زیادہ موکد کرنا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ فلاں کام کسی کو نہیں کرنا چاہئے بجز اس کے کہ وہ آدمیت ہی سے نکل جائے، یا کہ اپنی ماں کو گالی نہ دو بجز اس کے کہ تم ماں کے بالکل ہی نافرمان ہوجاؤ تو یہ ظاہر ہے کہ پہلی مثال میں اس صورت استثاء سے اس فعل کا جواز بتلانا منظور نہیں اور دوسری مثال میں ماں کی نافرمانی کا جواز ثابت کرنا نہیں بلکہ بلیغ انداز میں اس کی اور بھی زیادہ ممانعت و شناعت کا بیان ہے تو خلاصہ مضمون آیت اس صورت میں یہ ہوا کہ مطلقہ عوتیں اپنے شوہروں کے گھروں سے نہ نکلیں مگر یہ کہ وہ بےحیائی ہی پر اتر آئیں اور نکل بھاگیں تو اس کا مطلب نکل بھاگنے کا جواز نہیں بلکہ اور زیادہ مذمت اور ممانعت کا اثبات ہے۔ فاحشہ مبینہ کی یہ تفصیر حضرت عبداللہ بن عمر، سدی، ابن النسائب نخعی وغیرہ سے منقول ہے اور امام اعظم ابوحنیفہ نے اسی کو اختیار فرمایا ہے (روح المعانی)
دوسرا قول یہ ہے کہ فاحشہ مبینہ سے مراد زنا اور بدکاری ہے اس صورت میں استثناء اپنے معنی میں ہے کہ اگر مطلقہ عورت نے زنا کیا اور جرم اس پر ثابت ہوگیا تو اس کو حد شرعی جاری کرنے کے لئے لامحالہ بیت عدت سے نکالا جائیگا۔ یہ تفسیر حضرت قتادہ، حسن صری، شعبی، زید بن اسلم اور ضحاک و عکرمہ وغیرہ سے منقول ہے امام ابویوسف نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ فاحشہ مبینہ سے مراد زبان درازی اور لڑائی جھگڑا ہے تو معنے آیت کے یہ ہوں گے کہ مطلقہ عورتوں کو ان کے گھروں سے نکالنا جائز نہیں بجز اس صورت کے کہ عورت بد زبان جھگڑا لو ہو اپنے شوہر اور اس کے متعلقین سے بد زبانی کے ساتھ پیش آئے تو ایسی صورت میں اس کو مکان عدت سے نکالا جاسکتا ہے۔ فاحشہ مبینہ کی یہ تفسیر حضرت ابن عباس سے بروایت متعددہ منقول ہے اور آیت مذکور میں حضرت ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعود کی قرائت اس طرح ہے الا ان یفحش اس لفظ کے ظاہری معنی فحش کلام اور بد زبانی کے ہیں۔ اس قراءت سے بھی آخری تفسیر کی تائید ہوتی ہے (روح) اس صورت میں بھی استثاء اپنی حقیقت پر رہے گا کہ بد زبانی اور جھگڑا کرنے کی صورت میں مطلقہ کو مکان عدت سے نکالا جاسکتا ہے۔
یہاں تک طلاق کے متعلق چار احکام کا بیان آیا ہے اور آگے مزید احکام بیان ہوں گے مگر ان کے درمیان میں احکام مذکورہ کی پابندی کی تاکید اور اس کی مخالفت سے بچنے کے لئے چند وعظ و نصیحت کے جملے ب یان ہوتے ہیں یہ قرآن حکیم کا خاص اسلوب ہے کہ ہر حکم کے بعد اللہ تعالیٰ کے خوف اور آخرت کی فکر یاد دلا کر اس کی خلاف ورزی کو روکا گیا ہے کہ کیونکہ میاں بیوی کا رشتہ اور باہمی حقوق کی پوری ادائیگی کا انتظام کسی قانون کے ذریعہ نہیں ہوسکتا اس کے لئے خوف خدا و آخرت ہی روکنے والی چیز ہے۔
(آیت) وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ۭ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ ۭ لَا تَدْرِيْ لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا، حدود اللہ سے مراد شریعت کے مقرر کردہ قوانین ہیں۔ ومن یتعد یعنی جو شخص حدود اللہ میں تعدی کرے یعنی ان حدود و احکام کی خلاف ورزی کرے فقد ظلم نفسہ، تو اس نے اپنی جان پر ظلم کیا، یعنی اللہ کا یا شریعت اسلام کا کچھ نہیں بگاڑا اپنا ہی نقصان کیا ہے اور یہ نقصان عام ہے دینی بھی اور دنیاوی بھی، دینی نقصان تو اس میں خلاف شروع کرنے کا گناہ اور اس کا وبال آخرت ہے اور دنیوی نقصان یہ ہے کہ جو شخص شرعی ہدایات کے بغیر طلاق دے بیٹھتا ہے وہ اکثر تین طلاقوں تک پہنچ جاتا ہے جس کے بعد آپس میں رجوع یا نکاح جدید بھی نہیں ہوسکتا اور آدمی اکثر طلاق دینے کے بعد پچھتاتا ہے اور مصیبت جھیلتا ہے خصوصاً جبکہ صاحب اولاد بھی ہو، اس لئے یہ مصیبت دنیا ہی میں اپنی جان پر پڑی اور بہت سے لوگ جو بیوی کو تکلیف دینے اور نقصان پہنچانے کی نیت سے ظالمانہ طلاق دیتے ہیں گو اس کی تکلیف عورت کو بھی کچھ پہنچ جائے لیکن اس کے لئے ظلم پر ظلم اور دوہرا وبال ہوجائے گا ایک اللہ کی مقرر کردہ حدود کو توڑنے کا دوسرے عورت پر ظلم کرنے کا جس کی حقیت یہ ہے کہ
پنداشت ستمگر جفا برما کرد برگر دن وے بماندو برمابگذشت
لَا تَدْرِيْ لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا یعنی تم نہیں جانتے شاید اللہ تعالیٰ اس غیظ و غضب کے بعد کوئی دوسری حالت پیدا فرما دیں کہ بیوی سے جو راحتیں ملتی تھیں اور اولاد کی پرورش اور گھر کے انتظام کی سہولتیں تھیں ان کا خیال کر کے تم پھر اپنی طلاق پر پچھتاؤ اور دوبارہ اس کو نکاح میں رکھنے کا ارادہ کرو تو دوبارہ نکاح میں رہنے کی صورت جبھی ہو سکتی ہے جبکہ تم طلاق کے وقت حدود شرعیہ کی رعایت کرو کہ بلاوجہ طلاق کو باسن نہ کرو بلکہ رجعی رہنے دو جس میں رجعت کرنے کا شوہر کو اختیار ہوتا ہے رجعت کرلینے سے پہلا نکاح بدستور قائم رہ جاتا ہے اور یہ کہ تین طلاق تک نوبت نہ پہنچا دو جسکے بعد رجعت کا حق نہیں رہتا اور دونوں کی رضامندی کے باوجود آپس میں دوبارہ نکاح بھی شرعاً حلال نہیں ہوتا۔
Top