Maarif-ul-Quran - Al-Faatiha : 1
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بِ : سے اسْمِ : نام اللّٰهِ : اللہ ال : جو رَحْمٰنِ : بہت مہربان الرَّحِيمِ : جو رحم کرنے والا
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
سورة فاتحہ کی تفسیر سورة فاتحہ جمہور علماء کے نزدیک مکی ہے بعض علماء اس کے مدنی ہونے کی طرف گئے ہیں مگر یہ قول شاذ ہے۔ ابتداء بعثت میں سب سے پہلے اقرا باسم ربک چند آیتیں نازل ہوئیں جیسا کہ صحیحین میں ہے اور چند روز کے بعد پوری سورة فاتحہ مع بسم اللہ کے نازل ہوئی جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ اور ابو نعیم اور بیہقی کی دلائل النبوت میں عمرو بن شرجیل ؓ سے مرسلاً مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ ؓ سے یہ فرمایا کہ جب میں تنہا ہوتا ہوں تو غیب سے کچھ آوازیں سنتا ہوں خدا کی قسم مجھ کو اپنی جان کا اندیشہ ہے۔ حضرت خدیجہ ؓ نے فرمایا معاذ اللہ خدا تعالیٰ کبھی آپ کے ساتھ ایسا نہ کرے گا۔ خدا کی قسم آپ امانتیں ادا کرتے ہیں۔ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ اتفاق سے اسی وقت ابوبکر آگئے۔ حضرت خدیجہ نے کہا اے ابوبکر تم محمد (رسول اللہ ﷺ ) کو ساتھ لیکر ورقہ کے پاس جاؤ اور یہ واقعہ بیان کرو۔ چناچہ ابوبکر ؓ حضور (ﷺ) کا ہاتھ پکڑ کر ورقہ کے پاس لے گئے۔ ورقہ نے آپ سے حال دریافت کیا اس پر آپ نے یہ فرمایا۔ فقال اذا خلوت وحدی سمعت نداء خلقی یا محمد یا محمد فانطلق ھاربا فی الارض فقال لا تفعل اذا اتاک فاثبت حتی تسمع ما یقول ثم ائتنی فاخبرنی فلما خلا ناداہ یا محمد قل بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد اللہ رب العالمین حتی بلغ و لا الضالین قال قل لا الہ الا اللہ فاتی ورقۃ فذکر ذلک لہ فقال لہ ابشرثم ابشر فانی اشہدانک الذی بشر بہ ابن میم و انک علی مثل ناموس موسیٰ وانک نبی مرسل الحدیث (تفسیر در منثور ص 2 ج 1 و تفسیر قرطبی ص 115 ج 1) کہ جب میں تنہا ہوتا ہوں تو پیچھے سے غیبی آواز یا محمد یا محمد کی سنتا ہوں، جس کی دہشت سے بھاگنے لگتا ہوں۔ ورقہ نے کہا ایسا مت کرو ٹھہر کر اس کی بات سنو اور پھر جو کہے۔ اس کی آکر مجھ کو خبر دو ۔ چناچہ اس کے بعد آپ ایک جگہ تنہا تھے کہ آواز آئی۔ اے محمد یہ پڑھیے بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ رب العالمین الی آخر السورۃ اس کے بعد کہا لا الہ الا لاللہ کہو آپ یہ سب سن کر ورقہ کے پاس آئے اور سارا واقعہ ذکر کیا۔ ورقہ نے کہا اے محمد تم کو بشارت ہو اور پھر بشارت ہو۔ تحقیق میں گواہی دیتا ہوں کہ تم بلا شبہ وہی نبی ہو کہ جن کی مسیح بن مریم نے بشارت دی ہے اور تمہاری شریعت موسیٰ کی شریعت کے طرز کی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تم یقیناً نبی مرسل ہو۔ اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ یہ سورت ابتداء بعثت کے چند روز بعد اتری ہے کہ جب خدیجۃ الکبری اور ابوبکر صدیق مشرف باسلام ہوچکے تھے اور ورقہ بن نوفل ابھی بقید حیات تھے۔ ابتداء بعثت میں نزول وحی کی شدت اور اس کی عجیب و غریب کیفیت کیو وجہ سے جو اس سے پہلے نہ کبھی دیکھی اور نہ سنی تھی آپ پر ایک خاص خشیت اور وحشت طاری ہوجاتی تھی۔ اور ظاہر ہے کہ جب آدمی پر کوئی خاص کیفیت اور شدت طاری ہوتی ہے تو دل کی تسلی اور تشفی کے لیے اپنے محرم خاص اور محب بااختصاص سے ذکر کرتا ہے تاکہ دل کو سکون اور اطمینان ہو۔ آنحضرت ﷺ کا حضرت خدیجہ سے ذکر کرنا اور ورقہ کے پاس جانا محض اس لیے تھا کہ یہ محرم راز اور ہمدم وہم ساز ہیں۔ حبیب اور لبیب ہیں۔ ہوشمند اور دانشمند ذی علم اور ذی فہم ہیں ان سے مل کر تسلی ہوگی۔ معاذ اللہ آپ کو اپنی نبوت و رسالت میں کوئی شبہ اور تردد نہ تھا اور نہ ورقہ سے کوئی تعلیم وتلقین مقصود تھی۔ ورقہ تو صرف توریت اور انجیل کے ایک عالم تھے۔ اور حضرت تو اوتیت علم الاولین والاخرین کے مصڈاق تھے۔ حضور ورقہ سے کیا علم اور فیض حاصل کرنے جاتے۔ اصل بات یہ تھی کہ ورقہ اگچہ عالم تھے مگر صاحب حال اور صاحب کیفیت نہ تھے آپ کے قلب مبارک پر جو وحی کی کیفیت گزر رہی تھی۔ اس کی حقیقت اور اس کی لذت کی کیفیت تو آپ ہی کو معلوم تھی۔ ورقہ ذوقی طور پر نہیں جانتے تھے بلکہ محض علمی طور پر اتنا جانتے تھے کہ حضرات انبیاء پر نزول وحی کے وقت یہ کیفیات گزرتی ہیں۔ اس لیے وہ آپ کی تسلی کرتے تھے اور ایسے وقت میں تسلی اور تشفی وہی کرسکتا ہے کہ جس پر یہ حالت اور یہ کیفیت نہ گزر رہی ہو اور کچھ اجمالی طور پر اس قسم کی چیزوں سے واقف اور باخبر ہو۔ جیسے تیمار دار بیمار کی تسلی کرتا ہے۔ ورنہ جس پر یہ کیفیت گزرے گی اور جس پر یہ حالت طاری ہوگی وہ خود ہی خوف زدہ اور دہشت زدہ ہوجائے گا اسے اپنی ہی خبر نہ رہے گی۔ دوسرے کی کیا تسلی اور کیا تشفی کرے گا اور عقلاً یہ ضروری نہیں کہ تسلی دینے والا صاحب حال سے افضل اور اکمل یا اعلم اور افہم ہو۔ فافہم ذلک واستقم۔ ورقہ بن نوفل کا حضور ﷺ کو تسلی دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ انجیل متی کے باب سوم میں یوحنا حواری کا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی دینا مذکور ہے۔ اس نکتہ کو خوب سمجھ لیا جائے۔ چونکہ سب سے پہلے اقرا باسم ربک کا نزول ہوا جس میں یہ حکم تھا کہ اللہ کے نام سے پڑھو اس لیے اس کے چند روز بعد بسم اللہ الرحمن الحمد للہ کا نزول ہوا یعنی ہم اسی حکم سابق کے مطابق اللہ ہی کے نام سے پڑھتے ہیں۔ بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ سب سے پہلے سورة فاتحہ نازل ہوئی۔ مگر صحاح ستہ کی تمام روایتوں میں سورة اقراء کی ابتدائی آیتوں کا سب سے پہلے نازل ہونا مذکور ہے اور یہی جمہور کا قول ہے۔ عجب نہیں کہ ان بعض علماء کی مراد یہ ہو کہ سب سے پہلے پوری سورت جو نازل ہوئی وہ سورة فاتحہ ہے اور سورة اقرا ابتداء پوری نازل نہیں ہوئی بلکہ اس کی چند آیتیں اتریں اور بقیہ سورت بعد میں نازل ہوئی اور سورة فاتحہ پہلی ہی مرتبہ میں پوری نازل ہوئی جیسا کہ روایت مذکور سے ظاہر ہے۔ اسماء سورة فاتحہ اس سورت کے بہت سے نام ہیں۔ مشہور نام (1) فاتحہ ہے۔ اس لیے کہ قرآن شریف اسی سے شروع ہوتا ہے اور (2) سورة الحمد ہے۔ اس لیے کہ ابتداء میں یہ لفظ حمد واقع ہے اور اس سورة کو (3) فاتحۃ الکتاب اور (4) فاتحۃ القرآن بھی کہتے ہیں اس لیے کہ کتاب الٰہی کا آغاز اور شروع اسی سورت سے ہوتا ہے اور اس کا ایک نام (5) ام الکتاب بھی ہے یعنی تمام کتاب الٰہی کا خلاصہ اور اجمال۔ حسن بصری (رح) تعالیٰ سے منقول ہے کہ حق تعالیٰ نے اس عالم کی ہدایت کے لیے ایک سو چار کتابیں مختلف انبیاء ورسل علی نبینا وعلیہم الصلوۃ والسلام پر اتاریں اور تمام علوم اور حکمتوں کو ان میں ودیعت رکھا اور پھر ان سب کا خلاصہ توریت وانجیل وزبور و قرآن حکیم میں درج فرمایا اور پھر ان سب علوم کو قرآن حکیم میں بھر دیا اور پھر قرآن کے تمام علوم کو مفصل میں اور علوم مفصل کو فاتحۃ الکتاب میں ودیعت فرمایا اور فاتحۃ الکتاب کے علوم کو اپنی حکمت بالغہ سے بسم اللہ الرحمن الرحیم میں بھر دیا۔ کہتی ہے سو زبان سے قرآن کی خامشی لاریب ذات پاک کی سچی کتاب ہوں مجھ میں بھرے جہاں کے علوم وفنون ہیں قرآن میرا نام ہے ام الکتاب ہوں اور اس سورة کا نام (6 سورة الکنز بھی ہے۔ یعنی یہ علوم الٰہی کا ایک عظیم خزانہ ہے ایک حدیث میں ہے کہ یہ سورت ایک خزانہ سے نازل ہوئی ہے جو عرش کے نیچے ہے اور چونکہ اس سورت میں حق جل شانہ نے بندوں کو اپنی بارگاہ میں عرض ومعروض کرنے کا طریقہ تعلیم فرمایا ہے۔ اس لیے اس سورة کا نام (7) تعلیم المسئلہ بھی ہے۔ یعنی جب ہمارے دربار میں حاضر ہوا کرو تو اس طرح معروض کیا کرو کہ اپنی التجاء پیش کرنے سے پہلے خدا کی حمدوثناء کرو اور اس کی عظمت اور طاقت اور اس کی قدرت اور ربوبیت کا دل اور زبان سے اعتراف کرو اور پھر اس کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کرو اور اسی کو اپنی حاجتوں کے برلانے اور معین اور مددگار سمجھو اور یہ دعا مانگو کہ اے اللہ ہمیں ان لوگوں کا راستہ دکھا جن پر تیرا فضل وکرم ہوچکا ہے نہ ایسے لوگوں کا راستہ جن پر تیرا قہر وغضب ہوا اور نہ گمراہوں کا راستہ۔ سبحان اللہ کیسی دعا ہے جو دین ودنیا کی ایسی تمام نعمتوں کو شامل ہے جو قہر وغضب اور گمراہی سے پاک صاف ہوں یعنی سعادت عطا فرما اور شقاوت سے بچا۔ مطلب یہ ہے کہ اہل انعام کی طرح ہم کو فضائل سے آراستہ فرما اور اہل غضب اور اہل ضلال کے ذمائم اور رذائل سے ہم کو بچا تاکہ نابکار وناہنجار بندے تیرے مقبول بندوں کی صف میں کھڑے ہو کر تیرے انعام واکرام سے بہرہ یاب ہوسکیں۔ آمین یا رب العالمین۔ اہل عقل غور کریں کہ کیا اس سے بڑھ کر کوئی دعا ہوسکتی ہے جو لوگوں امیدوں اور آرزؤں کو اپنے اندر لیے ہوئے ہو اور اس سورت کا ایک نام (8) سورة الشفاء اور سورة شافیہ بھی ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ سورة فاتحہ ہر مرض کے لیے شفا ہے اور ایک نام اس کا (9) کافیہ اور (10) وافیہ بھی ہے کہ خیرات وبرکات کے لیے کافی اور وافی ہے اور اس سوت کا ایک نام سورة الصلاۃ بھی ہے کہ نماز میں اس کا پڑھا جانا ضروری ہے جاننا چاہئے کہ اس سورت کا نماز میں پڑھا جانا ضروری ہے۔ مگر ہر نمازی کے لیے نہیں بلکہ جو امام ہو یا منفرد ہو یعنی اپنی تمہا نماز پڑھتا ہو۔ اس کے لیے نماز میں فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے اور مقتدی کے لیے امام کے پیچھے سننا اور اور خاموش رہنا فرض و لازم ہے مقتدی کو امام کے پیچھے کچھ پڑھنا جائز نہیں اس لیے کہ حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے۔ واذا قرئ القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون۔ یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو نہایت غور اور توجہ کے ساتھ امام کی قراءت کی طرف کان لگا کر سنو اور بالکل خاموش رہو امید ہے کہ اگر تم نے امام کی قراءت کو سنا اور خاموش کھڑے رہے اور امام کے ساتھ قرآن میں کوئی منازعت اور مخالجت نہ کی تو تم پر رحم کیا جائے گا۔ یعنی مقتدیوں سے رحمت خداوندی کا وعدہ استماع اور انصات کے ساتھ مشروط ہے ورنہ پھر یہ وعدہ نہیں اور یہ آیت بالاجماع قرآءت خلف الامام کے بارے میں نازل ہوئی جیسا کہ امام بیہقی اور زرقانی نے اس کی تصریح کی ہے اور حادیث صحیحہ مشہورہ میں ہے کہ اذا قرا فانصتوا (جب امام پڑھے تو خاموش رہو) اور جس حدیث میں یہ آیا ہے کہ لا صلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب کہ بغیر فاتحہ کے نماز نہیں ہوتی۔ سو امام احمد بن حنبل اور سفیان بن عیینہ سے ترمذی اور ابو داؤد میں ہے کہ یہ حکم امام اور امنفرد کا ہے۔ احادیث دو قسم کی ہیں ایک وہ قسم ہے کہ جس میں امام اور منفرد کے احکام وارد ہوئے ہیں ان میں یہ آیا ہے کہ لا صلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب کہ بغیر فاتحہ کے نماز نہیں ہوتی۔ سو امام احمد بن حنبل اور سفیان بن عیینہ سے ترمذی اور ابو داوء د میں ہے کہ یہ حکم امام اور منفرد کا ہے۔ احادیث دو قسم کی ہیں ایک وہ قسم ہے کہ جس میں امام اور منفرد کے احکام وارد ہوئے ہیں ان میں یہ آیا ہے کہ نماز میں فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے اور دوسری قسم احادیث کی وہ ہے کہ جس میں مقتدی کے احکام آئے ہیں ان تمام احادیث میں صرف یہی حکم آیا ہے اذا قرا فانصتوا کہ جب امام پڑھے تو خاموش رہو امام کے احکام الگ ہیں اور مقتدی کے احکام الگ اپنی اپنی جگہ دونوں ٹھیک ہیں امام پڑھے اور مقتدی خاموش رہے دونوں میں کوئی تعارض نہیں، استعاذہ اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم پناہ پکڑتا ہوں اور حمایت ڈھونڈتا ہوں خدا تعالیٰ کی بہکانے اور پھسلانے سے شیطان مردود کے جمہور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ تلاوت قرآن کی ابتداء سے پہلے اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم پڑھنا سنت ہے جس کے معنی ہیں کہ شیطان مردود کے فتنہ سے اللہ کی پناہ میں آنے کی درخواست کرتا ہوں۔ کما قال تعالیٰ فاذا قرات القرآن فاستعذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ اس لیے کہ استعاذہ شیطان کے مکر اور شر سے بچنے کے لیے تریاق کا حکم رکھتا ہے۔ کما قال تعالیٰ واما ینزغنک من الشیطان نزغ فاستعذ باللہ انہ سمیع علیم ان الذین اتقوا اذا مسھم طائف من الشیطن تذکروا فاذاھم مبصرون اور عطا یہ کہتے ہیں کہ ہر قراءت کے شروع میں استعاذہ واجب ہے خواہ نماز میں ہو یا غیر نماز میں استعاذہ کی حقیقت یہ ہے کہ شیطان کے جال میں پھسنے سے محفوظ ہوجائے اور بسم اللہ کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اللہ کی رحمت میں داخل ہوجائے اس لیے استعاذہ بسم اللہ پر مقدم ہوا۔ کیونکہ دفع مضرت، جلب منفعت پر مقدم ہے۔ نیز قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس کی تلاوت سے پہلے زبان اور قلب کی طہارت ضروری ہے۔ اس لیے تلاوت قرآن سے پہلے استعاذہ کا حکم دیا گیا تاکہ زبان اور قلب کو ایک گونہ طہارت حاصل ہوجائے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ ہی کے نام 1 نامی اور اسم گرامی کی اعانت اور امداد سے کہ جو بیحد مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔ اس کے کلام کو شروع کرتا ہوں اور اس کے کلمات قدسیہ کے انوار و تجلیات اور ظاہری اور باطنی ثمرات وبرکات کا امیدوار ہوں۔ (1 ۔ یہ ترجمہ اسم کی اصل کی طرف اشارہ کے لیے کیا گیا ہے اس لیے) کہ اسم کی اصل سمو ہے جو علو اور رفعت پر دلالت کرتی ہے اور شروع کرتا ہوں اخیر تک بسم اللہ کے متعلق کی طرف اشارہ ہے کہ تقدیر کلام اس طرح سے ہے بسم اللہ اشرع کلام اللہ وارجو ببرکۃ اسمہ انوار کلماتہ القدسیۃ وتجلیاتہ اور اس طرف اشارہ ہے کہ جار مجرور کی تقدیر موخرا مناسب ہے تاکہ فائدہ حصر اور اختصاص کا حاصل ہو اور اسی حصر کے ظاہر کرنے کے لیے ترجمہ میں " ہی " کا لفظ بڑھایا اللہ ہی کے نام نامی الخ۔ ) بسم اللہ۔ بعض علماء کے نزدیک سورة فاتحہ اور ہر سورت کا جزو ہے اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ سوائے سورة نمل کے کسی سورة کا جزو نہیں دو سورتوں میں محض فصل کرنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی تبرکا ہر سورت کے ابتداء میں اس کو لکھا جاتا ہے۔ سنن ابی داود میں باسناد صحیح ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ ان رسول اللہ ﷺ کان لا یعرف فصل السورۃ حتی ینزل بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ رسول اللہ ﷺ دو سورتوں میں فصل نہ جانتے تھے یہاں تک کہ بسم اللہ الرحمن نازل ہوئی۔ اسی وجہ سے بسم اللہ الخ کو نماز میں سورة فاتحہ کے ساتھ جہراً نہیں پڑھا جاتا تاکہ جزء فاتحہ ہونے کا واہمہ نہ ہو۔ اور اسی لیے بسم اللہ الخ کو کسی سورة کے ساتھ ملا کر نہیں لکھتے بلکہ ہمیشہ سورة سے علیحدہ دو خطوں کے درمیان میں لکھتے ہیں تاکہ جزء سورت ہونے کا شبہ نہ ہو مگر سورة نمل میں بسم اللہ بالاتفاق سورت کا جزء ہے اس لیے اس کو مثل دیگر آیات کے ملا کر لکھا جاتا ہے۔ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم اور خلفائے راشدین کی مستمرہ سنت یہ تھی کہ بسم اللہ کو نماز میں آہستہ پڑھتے تھے۔ (ابن کثیر، ترمذی، زاد المعاد) امام ابوبکر رازی (رح) تعالیٰ نے احکام القرآن میں اس مسئلہ کی خوب تفصیل فرمائی ہے اور امام اعظم نعمان بن ثابت ؓ کے مسلک کا خوب مدلل اور مبرہن ہونا ثابت کیا ہے۔ حضرات اہل علم اس کی طرف مراجعت فرمائیں۔ بسم اللہ کے شروع میں جو با ہے بعض علماء کے نزدیک وہ مصاحبت اور الصاق کے لیے ہے اور بعض علماء کے نزدیک استعانت کے لیے ہے اور یہی راجح معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ اس صورت میں ابتداء ہی سے اپنی عبودیت اور عجزو استکانت کا اظہار اور پہلے ہی وھلہ میں اپنی حول اور قوۃ سے تبری کا اعلان ہوجاتا ہے۔ یعنی اس کی اعانت اور توفیق سے ہم شروع کرتے ہیں۔ حاشا اپنی حوال قوۃ سے نہیں۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ اور بارگاہ الوہیت کا ادب بھی اسی کو مقتضی ہے کہ وہاں عبودیت اور تذلل ہی کا اظہار ہو۔ اور ادعاء مصاحبت نہ ہو۔ تعلی جد ربنا ما تخذ صاحبۃ اور یہی معنی ایاک نستعین کے زیادہ مناسب ہیں اور یہی معنی لاحول ولا قوۃ الا باللہ کے مرادف ہونے کی وجہ سے کنز من کنوز الجنۃ (یعنی جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ) کہلانے کے مستحق ہوسکتے ہیں اور بسم اللہ کی با کا کسرہ بھی انکسار اور ذل عبودیت ہی کی طرف مشیر ہے۔ الہ اس ذات واجب الوجود کا علم ہے جو تمام صفات کمال کی جامع ہے اور ہر قسم کے عیب اور نقص کے شائبہ اور واہمہ سے بھی پاک اور منزہ ہے اور اسی وجہ سے لفظ جلالت ہمیشہ موصوف ہی واقع ہوتا ہے اور اسماء حسنی کو بطور صفت اس اسم عظیم کے بعد ذکر کیا جاتا ہے کما قال تعالیٰ ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو۔ عالم الغیب والشھادۃ ھو الرحمن الرحیم۔ ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو الملک القدوس السلام ال مومن المھیمن العزیز الجبار المتکبر۔ سبحن اللہ عما یشرکون۔ ھو اللہ الخالق البارئ المصور لہ الاسماء الحسنی۔ یسبح لہ مافی السموات والارض وھو العزیز الحکیم۔ اور یہ اسم عظیم رب اعلیٰ ہی کے ساتھ مخصوس ہے اس کا اطلاق ہمیشہ سے صرف اسی وحدہ لا شرک لہ کی ذات پاک کے لیے ہوا ہے۔ جس طرح کوئی اس کی ذات اور صفات میں اس کا شریک وسہیم نہیں۔ اسی طرح اس اسم ِ عظیم میں بھی اس کا کوئی قسیم نہیں۔ اسی وجہ سے تمام اولیاء اللہ کا مسلک یہ ہے کہ اسم ذات ہی اسم اعظم ہے اور امام اعظم ابوحنیفہ نے بھی لفظ اللہ ہی کو اسم اعظم فرمایا ہے۔ جیسا کہ امام طحاوی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے۔ حدثنا محمد بن الحسن عن ابی حنیفۃ قال اسم اللہ الاکبر ھو اللہ قال محمد الا تری ان الرحمن اشتق من الرحمۃ والرب من الربوبیۃ وذکر اشیاء نحو ھذا واللہ غیر مشتق من شیئ۔ محمد بن حسن نے روایت کیا امام ابوحنیفہ سے کہ اسم اعظم وہ لفظ اللہ ہے کہا محمد بن حسن نے اس لیے کہ رحمن مشتق ہے رحمت سے اور رب مشتق ہے ربوبیت سے اور اس قسم کی مثالیں ذکر فرمائیں اور لفظ اللہ کسی شیئ سے مشتق نہیں۔ (مشکل الاثار ص 62 ج 1) خود چہ شیرین ست نام پاک تو خوشتر از آب حیات اداراک تو نام تو چوں بر زبانم میرود ہر بن مو از عل جوئے شود اللہ اللہ ایں چہ شیریں است نام شیر وشکر می شود جانم تمام اللہ اللہ ایں چہ نام خوش مذاق حرف حرفش میدہد جان را رواق اسم اعظم ہست اللہ العظیم جان جاں ومحی عظم رمیم۔ خاتمۂ مثنوی از مفتی الہی بخش کاندھلوی قدس اللہ سرہ ) اسم اللہ کے بعد تمام اسماء حسنی میں اسم رحمن کا مرتبہ معلوم ہوتا ہے۔ کما قال تعالیٰ قل ادعواللہ اوادعوا الرحمن۔ آپ کہدیجئے کہ اللہ کو پکارو یا رحمن کو۔ بظاہر اسی وجہ سے نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم نے یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب یہ دو نام ہیں۔ عبداللہ اور عبدالرحمن۔ عبداللہ میں عبد۔ اسم اعظم کی طرف مضاف ہے اور عبدالرحمن میں اسم رحمن کی طرف مضاف ہے جس کا مرتبہ اسم اعظم کے بعد ہے اسی وجہ سے حدیث میں نبی کریم ﷺ نے عبداللہ کو پہلے ذکر فرمایا اور عبدالرحمن کو بعد میں۔ رحمن اور رحیم دونوں رحمت سے مشتق ہیں اور دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں اختلاف اس میں ہے کہ کس میں مبالغہ زیادہ ہے جمہور کا قول یہ ہے کہ رحمن میں بہ نسبت رحیم کے زیادہ مبالغہ ہے اس لیے کہ لفظ رحمن اللہ کے ساتھ مخصوص ہے اور رحیم اللہ کے ساتھ مخصوص نہیں۔ قرآن کریم میں رحیم کا اطلاق نبی کریم ﷺ کے حق میں بھی آیا ہے۔ کما قال تعالیٰ بال مومنین رءوف رحیم۔ پس رحمن کے معنی ایسا انعام کرنے والا کہ کوئی اس جیسا انعام نہ کرسکے اور یہ معنی حق تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہیں کہ دونوں ہم معنی ہیں جیسے ندمام اور ندیم تاکید کے لیے دونوں کو جمع کردیا ہے۔ اور ان صفتوں کا اطلاق حق جل وعلاء پر ایسا ہی حقیق ہے جیسا علیم وقدیر اور سمیع وبصیر کا اطلاق اس پر حقیقی ہے، اس جس طرح اس کی حیات ہماری حیات کی طرح نہیں اس کا سننا اور دیکھنا اور کلام کرنا ہمارے سننے اور دیکھنے اور کلام کرنے کے مشابہ نہیں اسی طرح اس کی رحمت بھی ہماری رحمت کے مماثل نہیں۔ لیس کمثلہ شیئ وھو السمیع البصیر۔ کوئی شے اس کے مثل نہیں وہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ وہ اپنے سننے اور دیکھنے میں اور ادراک اور علم میں جوارح کا محتاج نہیں۔ واللہ الغنی وانتم الفقراء۔ اللہ ہی ہر طرح سے بےنیاز ہے اور تم ہی ہر طرح سے اس کے محتاج ہو اسی طرح وہ اپنی صفت رحمت میں بھی نہ رقت قلب کا محتاج ہے اور نہ انفعال نفس کا جیسے اس کی ذات بےچون وچکگون ہے اسی طرح اس کی صفت علم وقدرت اور صفت رافت و رحمت وغیرہ بھی بےچون وچگون ہے۔ اس کی بےچون وچگون رحمت حقیقیہ۔ علماء کا مجاز وتاویل اور استعارہ و تمثیل کی ذرہ برابر محتاج نہیں۔ اے برون از وہم وقال وقیل من خاک بر فرق من و تمثیل من صفات باری تعالیٰ میں صحابہ وتابعین ؓ اجمعین کا یہی مسلک تھا اور وہ حضرات اس لیس کمثلہ شیئ کے اسماء حسنی میں تاویل کو بدعت سمجھتے تھے۔ امام ابو الحسن اشعری نے اخیر عمر میں متکلمین کے طریق تاویل و تمثیل کو چھوڑ کر مذہب سلف ہی کی طرف رجوع فرمایا جیسا کہ امام موصوف نے اپنی آخری تصنیف کتاب الابانہ میں اس کی تصریح کی ہے۔ قاضی بیضاوی فرماتے ہیں کہ رحمت کے حقیقی معنی رقت قلب کے ہیں۔ باری تعالیٰ کی شان میں رحمت کا اطلاق مجاز ہے۔ حضرت حکیم الامۃ مولانا تھانوی قدس اللہ سرہ فرمایا کرتے تھے کہ سبحان اللہ جہاں رحمت حقیقی تھی وہاں تو مجازہ بنادیا اور جہاں مجاز سرتاپا مجاز تھا وہاں حقیقت بنادی یعنی حقیقت کے اعتبار کو دیکھا جائے تو رحمت بارگاہ خداوندی میں حقیقت ہے اور بندہ میں سراسر مجاز مگر ارباب تاویل نے معاملہ برعکس کردیا۔ اور ابتداء کے لیے ان تین ناموں کو یعنی اللہ اور رحمن اور رحیم کو اس لیے خاص فرمایا کہ انسان پر تین حالتیں گزرتی ہیں۔ اول اسکا عدم سے نکل کر وجود میں آنا۔ دوم : اس کا باقی رہنا اور جس قدر خلاق علیم نے اس کے لیے مدۃ بقا مقرر فرمائی ہے اس کو پورا کرنا جس کو عرف میں حیات دنیا اور زندگی کہتے ہیں۔ سوم : اس نشاۃ دنیا کے ختم ہونے کے بعد حیات دنیویہ پر ثمرات کا مرتب ہونا۔ عمل نیک پر جزاء اور عمل بد پر سزا پانا۔ پس ابتداء میں تین نام ذکر فرمائے تاکہ تینوں حالتوں کی جانب اشارہ ہوجائے لفظ اللہ میں پہلی حالت کی جانب اشاہ ہے اس لیے کہ تخلیق وتکوین بارگاہ الوہیۃ سے متعلق ہے اور لفظ رحمن سے دوسری حالت کی طرف اشارہ ہے۔ اس لیے کہ دنیا دار ابتلاء اور دار امتحان ہے جو اس جگہ ٹھیک راستہ پر چلا اس کے لیے آخرت کی تمام منزلیں آسان ہیں۔ شیطان اور نفس امارہ ہر وقت اس کی تاک میں ہے اس لیے بندہ ایسی حالت میں بےپایاں اور بےانتہا رحمت کا محتاج ہے۔ اور لفظ رحیم کو تیسری حالت یعنی نشاۃ آخرت کے یاد دلانے کے لیے ذکر فرمایا۔ دار دنیا چونکہ مومن و کافر سب کے لیے باعث رحمت ہے۔ مومن کے لیے تو ظاہر ہے کافر کے حق میں دنیا اس لیے رحمت ہے کہ وہ اپنے کفر سے توبہ کرسکتا ہے اور اگر سوء اختیار سے توبہ بھی نہ کرے تو فی الحال اس کا عذاب جہنم سے رہا رہنا ہی بہت بڑی رحمت ہے نیز بعثت انبیاء اور ارسال رسل اور انزال کتب ایک ایسی عظیم رحمت ہے کہ جو مومن اور کافر سب کے لیے یہ ہے امر آخر ہے کہ کوئی اس رحمت سے متمتع اور منتفع ہوا اور کوئی نہ ہوا۔ الحاصل دار دنیا مومن اور کافر سب کے لیے باعث رحمت ہے اور دار آخرت صرف مومنوں کے لیے باعث رحمت ہے اور کافرون کے واسطے باعث عذاب ونقمت۔ کما قال تعالی۔ فاذا نقر فی الناقور فذالک یومئذ یوم عسیر علی الکافرین غیر یسیر جب صور پھونکا جائیگا تو وہ دن کافروں پر نہایت سخت اور دشوار ہوگا۔ کسی قسم کی اس میں آسانی ہوگی۔ اس لیے نشاۃ دنیا کے یاد دلانے کے لیے لفظ رحمن ذکر فرمایا کہ جس میں بہ نسبت رحیم کے زائد مبالغہ ہے اور نشاۃ آخرت کے یاد دلانے کے لیے رحیم کا لفظ استعمال فرمایا اس لیے کہ رحمن مبالغہ کا صیغہ ہونے کی وجہ سے عموم رحمت پر دلالت کرتا ہے اور عموم رحمت کا محل صرف دار دنیا ہے جیسا کہ ابھی ذکر کیا گیا اور دار آخرت صرف مومنوں کی رحمت کے لیے ہے۔ نیز رحمن فعلان کا وزن ہونے کی وجہ سے کچھ تجدد اور حدوث پر دلالت کرتا ہے۔ اس لیے کہ کلام عرب میں وزن فعلان اکثر صفات عارضہ اور اوصاف متجددہ اور حادثہ کے لیے مستعمل ہوتا ہے جیسے عطشان اور غضبان اور ریان اور لہفان وغیرہ لہذا لفظ رحمن سے اس دار حدوث ہے اس لیے قرآن کریم میں استواء علی العرش کو صفۃ رحمن کے ساتھ ذکر کیا گیا۔ الرحمن علی العرش استوی۔ اس لیے کہ عرش تمام مخلوقات کو محیط ہے۔ جیسا کہ اس کی رحمت تمام مخلوق کو محیط اور واسع ہے۔ کما قال تعالی۔ ورحمتی وسعت کل شیئ پس الرحمن علی العرش استوی سے یہ بتلانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ وسیع مخلوق یعنی عرش پر سب سے زیادہ وسیع صفت رحمن کے ساتھ استواء فرمایا ہے اور صحیحین میں ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قضائے خلق کے بعد ایک کتاب میں یہ لکھ کر ان رحمتی تغلب غضبی۔ یقینا میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔ اپنے قریب عرش پر رکھا۔ حضرت مولانا انور شاہ قدس اللہ سرہ فرمایا کرتے تھے کہ سبقت رحمتی غضبی مراحم خسروانہ کا قانون ہے جو عرش پر آویزاں ہے۔ رحیم صفت مشبہ کا صیغہ ہے یا اس کے ہم وزن ہونے کی وجہ دوام اور استمرار پر دلالت کرتا ہے فعیل کا وزن کلام عرب میں معانی ثابتہ کے لیے مستعمل ہوتا ہے جیسا کہ علیم و حکیم وجمیل، لہذا لفظ رحیم سے دار باقی اور عالم جاودانی کی طرف اشارہ مناسب ہوا۔ علامہ آلوسی کے کلام سے رحمن اور رحیم میں یہ فرق معلوم ہوتا ہے کہ رحمن سے عام رحمت مراد ہے خواہ بالواسطہ یا بلاواسطہ صورۃً اور معنی ظاہرا اور باطناً ہر طرح سے رحمت ہو یا فقط معنی ً اور باطناً رحمت ہو۔ اگرچہ صورت اور ظاہر کے لحاظ سے وہ عذاب ہو۔ جیسے مریض کو تلخ دوا کا پلانا صورۃً ایلام اور تکلیف ہے مگر معنیً سراسر رحمت ہے پس رحمن سے ایسی ہی عام رحمت مراد ہے کہ جو ان تمام انواع و اقسام کو شامل ہو۔ یہ دار فانی اسی قسم کی رحمت کا محل ہے اس کی رحمت راحت وانعام کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے اور کبھی مصائب وآلام کی شکل میں۔ کما قال تعالیٰ عسی ان تکرھوا شیئا وھو خیر لکم اور رحیم سے وہ رحمت مراد ہے جو بلا واسطہ ہو۔ اور ظاہراً اور باطناً ہر طرح سے رحمت ہی رحمت ہو۔ دار آخرت میں اسی قسم کی رحمت ہوگی کہ اللہ تعالیٰ سے بلا واسطہ بھی ہوگی اور کسی قسم کا اس میں شائبہ رنج والم کا بھی نہ ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ لفظ اللہ میں جس کے معنی یہ ہیں کہ جو ذات تمام صفات کمال کی جامع اور تمام نقائص وعیوب سے پاک اور منزہ ہے۔ تمام مباحث الہیات کی طرف اشارہ ہے۔ اور لفظ رحمن میں مباحث نبوت و شریعت کی طرف اشارہ ہے کہ جنکے بغیر خدا کی مرضی کے موافق ایک لمحہ گزارنا محال ہے۔ اور لفظ رحیم میں اجمالاً تمام امور آخرت کی طرف اشارہ ہے اور یہی وہ تین امر ہیں کہ جو تمام انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی تعلیم کا لباب اور عطر ہیں۔ اور تفتا زانی اور جر جانی انہیں تین مقاصد اور مواقف کی شرح میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ علامہ تفتا زانی اور جرجانی انہیں تین مقاصد اور مواقف کی شرح میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ علامہ تفتازانی اور علامہ جرجانی اور تمام متکلمین کو تمام اہل اسلام کی طرف سے جزائے خیر عطاء فرمائے کہ دین کے مقاصد اصلیہ کو خوب واضح فرمایا اور امت کے لیے صحیح مؤقف کو خوب واضح اور روشن کردیا۔ آمین۔ یا رب العالمین۔ سورة فاتحہ میں بھی انہی تین باتوں کو کسی قدر تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ چناچہ الحمد للہ رب العلمین الرحمن الرحیم۔ میں صفات الہیہ کو بیان فرمایا ہے اور مالک یوم الدین۔ سے احوال آخرت کی طرف اشارہ فرمایا اور اھدنا الصراط المستقیم الخ سے مباحث نبوت و رسالت۔ ایمان اور کفر، سعات اور شقاوت، ہدایت اور ضلالت کے فرق کی جانب اشارہ فرمایا۔ اور تمام قرآن انہیں مضامین ثلاثہ کی تفصیل ہے جو سورة فاتحہ میں اجمالاً ذکر فرمائے اسی وجہ سے اس سورت کا نام ام الکتاب ہے یعنی تمام کتاب الٰہی کا خلاصہ اور اجمال اور چونکہ کتاب الٰہی کی ہر سورت انہی مضامین ثلثہ کی تفصیل ہے جو اجمالاً بسم اللہ الرحمن الرحیم میں درج ہیں۔ اس لیے ہر سورت کی ابتداء میں بسم اللہ کا لکھنا اور پڑھنا مسنون قرار دیا گیا۔
Top