Maarif-ul-Quran - Al-Faatiha : 3
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ
الرَّحْمٰنِ : جو بہت مہربان الرَّحِيم : رحم کرنے والا
بڑا مہربان نہایت رحم والا
الرحمن الرحیم : بےحد مہربان۔ نہایت رحم والا۔ عجب نہیں کہ بسم اللہ میں وہ شان رحمت مراد ہو کہ جو تکوین اور تربیت عالم کے لیے باعث ہوئی اور الحمد میں الرحمن سے وہ رحمت مراد ہو جو خاص حالت تربیت میں مبذول ہوتی ہے اگر یہ رحمت روک لی جائے تو تربیت اور پرورشن ناممکن ہوجائے۔ اور الرحیم سے وہ رحمت مراد ہو کہ جو تربیت اور پرورش کے بعد جزاء اور سزا کی شکل میں ظاہر ہوگی۔ اس لیے کہ تربیت اور تکمیل کے بعد آثار اور ثمرات کا نہ مرتب ہونا اس تربیت کے ضائع کرنے کے مرادف ہے۔ کھیتی پک جانے کے بعد اگر اس پر درانتی نہ چلائی۔ گندم اور بھوسہ الگ الگ نہ کیا جائے تو کھیتی کو ضائع کرنا ہے۔ اسی طرح اگر اس عالم کی تربیت ختم ہوجانے کے بعد مومن اور کافر۔ سعید اور شقی کو جدا جدا نہ کیا جائے۔ تو عالم کی تربیت کا ضائع اور بیکار ہونا لازم آئے گا۔ اور آئندہ آیت یعنی مالک یوم الدین میں اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے۔ امام رازی فرماتے ہیں۔ الرحمن الرحیم۔ کا تکرار اس کی رحمت کے مکرر اور مضاعف ہونے کی طرف مشیر ہے لیکن مبادا رحمت کی یہ فراروانی کہیں بندوں کو مغرور نہ بنادے اس لیے ملک یوم الدین کا اضافہ فرمایا تاکہ رغبت کے ساتھ رہبت کا ضروری ہونا معلوم ہوجائے جیسے غافر الذنب وقابل التوب کے بعد شدید العقاب کی صفت کا ذکر فرمایا۔ اھ کلامہ۔ اور عجب نہیں کہ الرحمن الرحیم کا ملک یوم الدین سے پہلے ذکر کرنا سبقت رحمتی غضبی کی جانب مشیر ہو۔
Top