Maarif-ul-Quran - Al-Faatiha : 4
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ
مَالِكِ : مالک يَوْمِ : دن الدِّينِ : بدلہ
انصاف کے دن کا حاکم
ملک یوم الدین : روز جزاء کا مالک یعنی اللہ تعالیٰ قیامت اور جزاء کے دن کا مالک ہے جس میں فرمانبرداروں اور نافرمانوں کی جزاء کا فیصلہ فرمائیگا۔ اس لیے کہ نیکی اور بدی اور فرمانبردار اور نافرمان اور موافق اور مخالف میں فرق کرنا عقلاً ونقلاً ضروری ہے۔ کما قال تعالی۔ ام نجعل الذین امنوا وعملوا الصالحات کالمفسدین فی الارض ام نجعل المتقین کالفجار۔ وقال تعالیٰ لیجزی الذین اساؤا بما عملوا ویجزی الذین احسنوا بالحسنی وقال تعالیٰ ۔ ان الساعۃ اتیۃ اکاد اخفیھا لتجزی کل نفس بما تسعی۔ نیز دنیا میں کوئی ظالم ہے اور کوئی مظلوم اور مظلوم کا ظالم سے انتقام عین عدل اور عین حکمت ہے اور دنیا میں یہ انتقام نہیں لیا گیا تو آخرت میں لا محالہ لیا جائے گا۔ اس آیت میں دو قراءتیں ہیں اور دونوں صحیح اور متواتر ہیں ایک ملک یوم الدین یعنی روز جزاء کا بادشاہ اور دوسری قراءت ملک یوم الدین۔ یعنی روز جزاء کا مالک۔ اور اس کی مالکیت اور ملکیت یعنی بادشاہات کے لیے روز جزاء کو اس لیے خاص کیا گیا کہ اس کے جلال و جمال کا بلاواسطہ ظہور علی وجہ التمام والکمال۔ عالم کے ہر ہر فرد کے لیے ایک ہی آن میں صرف اسی روز ہوگا۔ دنیا میں بھی وہی حقیقی مالک اور حقیقی بادشاہ ہے مگر دنیا میں اس کی مشیت اور حکمت سے کچھ مجازی بادشاہات اور مجازی مالکیت نظر آتی ہے۔ قیامت کے دن سارے مجاز ختم ہوجائیں گے اور صرف حقیقت ہی حقیقت رہ جائے گی۔ علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ ان دونوں قراءتوں میں سے کون سی قراءت افضل ہے بعض علماء ملک بمعنی بادشاہ کی قراءت کو راجح قرار دیتے ہیں۔ اور وجہ ترجیح یہ بیان کرتے ہیں۔ 1 ۔ کہ ملکیت یعنی بادشاہت میں جو عظمت ہے وہ وصف مالکیت میں نہیں۔ مالک تو ہر ایک ہوتا ہے مگر بادشاہ ہر ایک نہیں ہوتا۔ 2 ۔ مالک کا حکم فقط اپنے مملوک پر چلتا ہے اور بادشاہ کا حکم تمام ملک اور تمام رعایا پر جاری اور نافذ ہوتا ہے۔ 3 ۔ بادشاہ کی اطاعت سب پر واجب ہے اور مالک کی اطاعت فقط اس کے مملوک پر واجب ہے۔ 4 ۔ نیز لفظ رب العلمین بھی مالکیت پر دلالت کرتا ہے۔ پس اگر ملک کے بجائے مالک پڑھا جائے تو تکرار لازم آتا ہے۔ 5 ۔ قرآن کریم کی آخری سورت میں ملک الناس آیات ہے لہذا قرآن کی پہلی سورت میں بھی ملک یوم الدین۔ پڑھنا چاہئے تاکہ اول قرآن اور آخر قرآن ایک دوسرے مناسب اور ہمرنگ ہوجائے۔ اور جو حضرات علماء ملک کی قراءت کو ترجیح دیتے ہیں وہ یہ وجوہ بیان کرتے ہیں۔ 1 ۔ کہ ملکیت یعنی بادشاہت انسانوں کے ساتھ مخصوص ہے اور مالکیت انسان اور غیر انسان سب کو شامل ہے۔ 2 ۔ مالک اپنی مملوک کو فروخت کرسکتا ہے۔ بادشاہ رعایا کو فروخت نہیں کرسکتا۔ 3 ۔ رعیت بادشاہ کے ملک اور سلطنت سے بھاگ کر نکل سکتی ہے اور مملوک بھاگ کر مالک کی ملکیت سے نہیں نکل سکتا۔ 4 ۔ غلام پر مولی کی خدمت واجب ہے۔ رعایا پر بادشاہ کی خدمت واجب نہیں۔ 5 ۔ غلام بغیر آقا کی اجازت اور اذن کے کوئی تصرف نہیں کرسکتا اور رعیت بغیر بادشاہ کی اجازت کے کام کرسکتی ہے۔ اور مملوک چونکہ کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا ہے اس لیے اس کو سوائے مولی کے کسی چیز سے تعلق بھی نہیں ہوتا۔ غلام کے پیش نظر ہر وقت آقا کی خوشنودی رہتی ہے رعایا چونکہ اپنی چیزوں کی مالک بھی ہوتی ہے اس لیے ان کو بادشاہ سے زیادہ تعلق نہیں ہوتا۔ 6 ۔ غلام کو آقا سے توقع رحم وکرم کی ہوتی ہے اور رعیت کو بادشاہ سے عدل و انصاف کی امید ہوتی ہے اور بندہ رحم وکرم کا زیادہ محتاج ہے۔ 7 ۔ بادشاہت میں ہیبت زیادہ ہے اور مالکیت میں شفقت اور عنایت زیادہ ہے۔ 8 ۔ بادشاہ کے سامنے جب لشکر پیش ہوتا ہے تو ضعیفوں اور کمزوروں اور بیماروں کو نظر انداز کردیتا ہے اور مالک ضعیف اور کمزور غلاموں پر اور مزید توجہ کرتا ہے اور ان کی اعانت اور خبر گیری میں مشغول ہوتا ہے۔ 9 ۔ مالک کو مملوک سے تعلق زیادہ ہوتا ہے۔ بادشاہ کو رعایا سے اتنی محبت اور تعلق نہیں جتنا کہ آقا کو غلام سے ہوتا ہے اور عاشقوں کے لیے اس سے بڑھ کو کوئی مژدۂ جانفزا نہیں کہ محبوب کو ہم سے محبت اور تعلق ہے۔ 10 ۔ ملک میں ملک سے ایک حرف زیادہ ہے۔ لہذا ملک کی قراءت میں ثواب بھی زیادہ ہوگا۔ اس لیے کہ ایک حرف کے زیادہ ہونے کی وجہ سے دس نیکیاں اور زیادہ ہوں گی۔ فتلک عشرۃ کاملۃ۔
Top