Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 13
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّ١ؕ اِنَّهُمْ فِتْیَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْنٰهُمْ هُدًىۗۖ
نَحْنُ : ہم نَقُصُّ : بیان کرتے ہیں عَلَيْكَ : تجھ سے نَبَاَهُمْ : ان کا حال بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک اِنَّهُمْ : بیشک وہ فِتْيَةٌ : چند نوجوان اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے بِرَبِّهِمْ : اپنے رب پر وَزِدْنٰهُمْ هُدًى : اور ہم نے اور زیادہ دی انہیں۔ ہدایت
ہم ان کے حالات تم کو صحیح صحیح بیان کرتے ہیں وہ کئی جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کو اور زیادہ ہدایت دی تھی۔
تفصیل قصہ اصحاب کہف قال اللہ تعالیٰ نحن نقص علیک نباہم .... الیٰ .... فلن تجد لہ ولیا مرشدا۔ (ربط) گزشتہ آیات میں اصحاب کہف کا قصہ مجملا ذکر فرمایا اب اس قصہ کی کچھ تفصیل فرماتے ہیں تاکہ اہل صبر و استقامت اور زہر وان منزل آخرت کے لئے مشعل ہدایت بنے چناچہ فطرماتے ہیں۔ اے نبی ﷺ ہم آپ کے سامنے ان کی صحیح صحیح خبر نیان کرتے ہیں جو عین واقعہ کے مطابق ہے یہ اس لئے فرمایا کہ یہ قصہ لوگوں میں مختلف طور پر مشہور تھا جن میں بعض جھوٹی اور غلط روایتیں بھی شامل تھیں اس لئے فرمایا کہ جتنا قصہ ہم نے قرآن میں بیان کردیا وہ بالکل حق اور صدق ہے تحقیق وہ اصحاب چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے۔ حالانکہ ان کی قوم شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھی سب بزدل تھے اور یہ جو ان مرد اور جواں ہمت تھے کہ اپنے محلوں کو چھوڑ کر کنج عزلت اور گوشہ خلوت میں اعتکاف کرنے کے لئے جا رہے تھے اور ایمان لانے کے بعد ہم نے ان کی ہدایت میں اور زیادتی کردی کہ ان کو صبر اور استقامت کی صفت عنایت کی کہ دین اور ایمان کے مقابلے میں جان کی پرواہ نہ کی اور ہم نے ان کے دلوں پر صبر اور استقلال کی گرہ لگا دی یعنی ہم نے ان کے دلوں کو صبر اور استقامت کی رسی کے ساتھ ایسا باندھ دیا کہ ثابت قدم ہوگئے اور ان کو کوئی تزلزل پیش نہیں آیا اور خدا کی راہ میں انہوں نے کسی مصیبت کی پرواہ نہ کی۔ جب وہ دقیانوس ظالم و جابر کے سامنے کھڑے ہوئے جو ان کو بت پرستی پر مجبور کرتا تھا۔ پس اس ظالم و جابر بادشاہ کے روبرو یہ کہا کہ ہمارا پروردگار وہ ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار ہے ہم اس کے سوا ہرگز کسی معبود کو نہیں پکاریں گے۔ کیونکہ اگر خدا نخواستہ ہم ایسی بات کہیں تو وہ بلاشبہ بےجا اور خلاف عقل ہوگی یہ بےعقل لوگ ہماری قوم کے لوگ ہیں جنہوں نے خدائے برحق کے سوا چند معبود بنا لیے ہیں جو سراسر باطل ہیں ان کے معبود ہونے پر کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے جیسے موحدین توحید پر روشن دلائل پیش کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے ہاتھ کے راشتے ہوئے بتوں کو معبود اور خدا کا شریک ٹھہرا لیا ہے ڈرا دھمکا کر لوگوں کو بت پرستی پر مجبور کر رہے ہیں بت پرستی پر مجبور کر رہے ہیں بت پرستی کی طرف بلا رہے ہیں دلیل کوئی نہیں پس جب ان کے پاس شرک کی کوئی دلیل نہیں تو ایسے شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ پر بہتان باندھے کیوں کہ بےدلیل اللہ کا شریک ٹھہرانا اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے اس حالت کو دیکھ کر باہم مشورہ کیا اور طے پایا کہ یہ ظالم لوگ ہیں اللہ پر بہتان باندھنے والے ہیں ایسے ظالموں سے عقلا و نقلا کنارہ کشی چاہئے۔ کیونکہ کافروں سے اپنے دین کو صحیح سالم لے کر بھاگ جانے ہی میں سلامتی ہے لہٰذا کسی غار میں جاکر چھپ جانا چاہئے تاکہ کافر کی صورت بھی نظر نہ پڑے اور ہمہ تن اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہیں اور پھر بعض نے بعض کو مخاطب کرکے کہا جب تم بجز خدا ان سے اور ان کے معبودوں سے علیحدہ اور کنارہ کش ہوجاؤ تو غار کی طرف اپنا ٹھکانا ڈھونڈو اور دشمنان خدا سے بھاگ کر ایک غار میں جا بیٹھو جہاں کسی کافر کی رسائی نہ ہوسکے۔ اور غار کی خلوت و عزلت کی مشقت اور زحمت سے نہ ڈرو تمہارا پروردگار تم پر اپنی رحمت کو پھیلا دے گا جو تمہیں اپنے اندر چھپالے گی اور تمہارے کام میں آسانی میسر کر دے گا اور تمہارے فائدہ کی صورت نکال دے گا اور خدا کے لئے خلوت و عزت کی راحت اور لذت ساری مشقتوں پر پانی پھیر دے گی۔ چناچہ یہ نوجوان اسی عزم اور ہمت کے ساتھ غار میں داخل ہوئے اور اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرکے وہاں جاکر بیٹھ گئے جہاں جاکر ایسی نیند آئی کہ تین سو سال تک آنکھ نہ کھلی۔ بادشاہ اور ارکان دولت ان کی تلاش میں آئے جب تلاشی میں ناکام ہوئے تو ان کے غار کے منہ پر ایک مستحکم دیوار چن دی جس سے اس غار کا منہ بند ہوگیا تاکہ وہ لوگ باہر نہ نکل سکیں اور اندر ہی اندر مرجائیں اور جس امید پر وہ غار میں داخل ہوئے اللہ نے ان کے ساتھ ان کی امید اور گمان کے موافق معاملہ فرمایا اور خدا کی رحمتیں اور کرامتیں ان پر مبذول ہونے لگیں اور من جملہ ان مہربانیوں اور آسانیوں کے جو ان پر مبذول ہوئیں ایک رحمت ان پر مبذول ہوئی کہ اے دیکھنے والے جب تو اس غار کو دیکھے تو اس حال میں دیکھے گا کہ سورج جس وقت طلوع کرتا ہے تو ان کے غار کے داہنی جانب کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بائیں جانب کو کترا جاتا ہے اور وہ اس غار کی ایک وسیع جگہ میں ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ ایسی وسیع اور کشادہ جگہ میں تھے جہاں ان کو خوشگوار ہوا تو پہنچتی تھی مگر دھوپ ان کو کسی وقت نہیں پہنچتی تھی خدا کی رحمت سے تمام دن ان پر سایا رہتا حالانکہ وہ وسیع اور کشادہ جگہ میں تھے۔ جہاں تمام دن دھوپ رہ سکتی ہے مگر اللہ نے اپنی رحمت اور عنایت سے ان کو دھوپ سے محفوظ رکھا بقدر ضرورت ہوا اور روشنی تو پہنچتی رہی مگر دھوپ نہیں پہنچی یہ ان پر اللہ کی رحمت اور عنایت اور کرامت تھی جیسا کہ فرماتے ہیں۔ یہ بات اللہ کی قدرت اور رحمت کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ اپنے مقبول بندوں کی خلاف اسباب ظاہری اس طرح حفاظت فرماتا ہے اس لیے کہ وسیع اور کشادہ مکان میں طلوع آفتاب اور غروب آفتاب اور استواء کے وقت دھوپ کا نہ آنا ایک عجیب بات ہے کیونکہ مکان جب وسیع اور کشادہ ہے تو ازراہ عادت وہاں ضرور آفتاب پہنچنا چاہئے مگر باوجود اس کے نہیں پہنچتا تو یہ آیات الٰہیہ میں سے ہے اور اس کی قدرت اور اختیار کے دلائل میں سے ہے معجزات اور کرامات کے اظہار سے اللہ تعالیٰ کا مقصود صاحب معجزہ و کرامت کا اعزازو اکرام اور بندوں کی سعادت و شقاوت کا اظہار ہے جو سعید ہیں وہ ان واقعات کی تصدیق کرکے ہدایت پاتے ہیں اور جو شقی ہیں وہ اس قسم کے خوارق عادات کو خارج از عقل اور بعید ازقیاس سمجھ کر انکار کرکے گمراہ ہوتے ہیں جیسا کہ فرماتے ہیں جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پاتا ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے تو آپ ﷺ اس کے لئے ہرگز کوئی رفیق راہ دکھلانے والا نہ پائیں گے وہ برابر اپنی ضد پر قائم رہے گا کہ خرق عادت کوئی چیز نہیں۔ علماء اہل سنت والجماست نے قصہ اصحاب کہف سے کرامات اولیاء کے حق ہونے پر استدلال کیا ہے اور یہ استدلال ظاہر ہے جس میں کوئی تکلف نہیں کیونکہ اس قصہ کے صریح لفظوں میں اصحاب کہف کی کئی کرامتوں کا ذکر ہے تین سو نو برس تک بغیر کھائے پئے سوتے رہنا اور وسیع غار میں ہر وقت ان کا سایہ میں رہنا اور کسی وقت دھوپ کا نہ آنا اور آفتاب کا طلوع اور غروب کے وقت ان سے کرا جانا اور بھوک اور پیاس کی تکلیف سے محفوظ رہنا اور بغیر کھائے پیئے اتنی دراز مدت تک زندہ رہنا اور بغیر بیداری کے انکار بیماری سے محفوظ رہنا اور بالکل تندرست رہنا یہ سب اللہ کی رحمتیں اور عنایتیں اور خدادار کرامتیں اور کرامات اولیاء کے صحیح اور درست ہونے پر آیات قرآنیہ اور احادیث متواترہ شاہد ہیں ازاں جملہ قصہ مریم (علیہا السلام) ہے جو محض خدا کی عنایت سے بےموسم میوہ پاتی تھیں جیسا کہ سورة آل عمران میں گزر کلما دخل علیہا زکریا المحراب وجد عندھا رزقا قال یا مریم انی لک ھذا قالت ھو من عند اللہ اور سورة مریم میں آئے گا قد جعل ربک تحتک سر یا وھزی الیک بجدع النخلۃ تساقط علیک رطبا جن یا اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم (علیہا السلام) کے قدموں کے نیچے ایک نہر جاری کردی اور کھجور کا خشک درخت تروتازہ کردیا جس سے تازہ کھجوریں گرنے لگیں۔ حالانکہ حضرت مریم (علیہا السلام) نبہ نہ تھیں بلکہ ولیہ اور صدیقہ تھیں۔ اور از انجملہ قصہ آصف بن بر کیا (رح) ہے جس نے پلک جھپکنے میں ایک دور دراز مسافت سے بلقیس کا تخت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے لاکرحاضر کردیا۔ ازاں جملہ حدیث ابی ہریرہ ؓ ہے جس کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تین بچوں نے بحالت شیرخوارگی اپنے گہوارہ میں کلام کیا عیسیٰ (علیہ السلام) اور ایک وہ طفل جو زمانہ جریج میں تھا۔ جریج بنی اسرائیل میں ایک عابد و زاہد تھا ایک بدکار عورت کا جب ناجائز بچہ پیدا ہوا تو اس نے جریج پر تہمت لگائی کہ یہ اس کے نطفہ سے پیدا ہوا ہے جریج نے نماز پڑھی اور دعا کی اور لڑکے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اے لڑکے بتا تیرا باپ کون ہے۔ لڑکے نے کہا فلاں چرواہا۔ بنی اسرائیل نے جب لڑکے سے یہ کلام سنا تو سخت نادم ہوئے اور تہمت سے تائب ہوئے۔ اور ایک وہ بچہ جس کو اس کی ماں گود میں لئے ہوئے دودھ پلا رہی تھی اتفاق سے ایک خوبصورت جوان سوار اس کے پیچھے سے گزرا عورت نے اس کو دیکھ کر دعا کی کہ اے اللہ میرے بچے کو اس جیسا کر بچل بولا اے اللہ اس جیسا نہ کرنا پھر اس کے پاس سے ایک عورت گزری جس کی نسبت لوگ کہتے تھے کہ اس نے چوری کی اور زنا کیا اور اس پر حد جاری کی گئی اس کو دیکھ کر بچے کی ماں نے کہا خدایا میرے بچے کو ایسا نہ کرنا بچے نے کہا کہ خدایا مجھے ایسا ہی کرنا یہ سن کر مان کو غصہ آیا اور بچے کو کچھ سخت الفاظ کہے بچہ بولا وہ خوبصورت مرد بڑا ظالم تھا میں نے نہیں چاہا کہ میں اس کے مثل بنوں اور عورت جس کو لوگ کہتے ہیں کہ اس نے چوری کی اور زنا کیا وہ سب غلط ہے۔ اس عورت نے نہ زنا کیا اور نہ چوری کی یہ لوگوں کا اس پر اتہام ہے وہ تو یہ کہتی رہتی ہے ” حسبی اللہ “ مجھے اللہ کافی ہے۔ پس میں نے چاہا کہ اس کے مثل بنوں یعنی اس کی طرح صابر و شاکر رہوں کہ مصیبت اور بلا پر صبر کروں اور خدا تعالیٰ کی کفایت اور حمایت پر نظر رکھوں معاذ اللہ اس بچے کا یہ مقصود نہ تھا کہ میں اس عورت کی طرح تہمت اور مصیبت اور بلا میں مبتلا ہوں بلکہ اس کا مقصود یہ تھا کہ اگر من جانب اللہ کوئی ابتلاء پیش آئے تو صابر و شاکر ہوں۔ اس کے علاوہ اور بھی احادیث ہیں جن سے کرامات اولیاء کا حق ہونا ثابت ہے اس لئے تمام اہل سنت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ کرامات الاولیاء یعنی اولیاء اللہ کی کرامتیں حق ہیں۔
Top