Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 6
الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ
الَّذِيْنَ : وہ جو اِذَآ : جب اَصَابَتْهُمْ : پہنچے انہیں مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَالُوْٓا : وہ کہیں اِنَّا لِلّٰهِ : ہم اللہ کے لیے وَاِنَّآ : اور ہم اِلَيْهِ : اس کی طرف رٰجِعُوْنَ : لوٹنے والے
اور یتیموں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو۔ پھر (بالغ ہونے پر) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالے کردو۔ اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے (یعنی بڑے ہو کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہیے اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر (یعنی بقدر خدمت) کچھ لے لے اور جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو تو گواہ کرلیا کرو اور حقیقت میں تو خدا ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے۔
تفسیر خازن وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص رفاعہ کا آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں انتقال ہوا رفاعہ کے بھائی نے آنحضرت ﷺ سے آن کر مسئلہ پوچھا کہ رفاعہ کا بیٹا ثابت میری پرورش میں ہے اس کا مال جو اس کا باپ چھوڑ مرا ہے کب اس کے حوالہ کیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ یتیم لڑکا لڑکی جب بالغ ہوجائیں اور ان کی عقل بھی ترکہ کا مال سنبھالنے کے قابل نظر آئے اس وقت ان کا مال ان کے حوالہ کردیا جائے اور غنی پرورش کرنے والا قرابت دار یتیم کے مال میں سے کچھ خرچ نہ کرے البتہ محتاج پرورش کرنے والا قرابت دار ضرور اپنا ذاتی خرچ یتیم کے مال میں سے چلا لیا کرے اور یتیم کو جب مال حوالہ کیا جائے تو دو گواہوں کے رو ربرو حوالہ کیا جایا کرے تاکہ آئندہ کو جھگڑا نہ پڑے بعض علماء نے لڑکا لڑکی کی عقل اور ہوشیاری آزمانے کی یہ صورت بیان کی ہے کہ پہلے ان کو تھوڑا سا مال دے کر ان کا کام کاج دیکھا جائے اور اس سے ان کی ہوشیاری کا اندازہ کیا جائے۔ بالغ ہونے کی علامت زیر ناف کے بال اور احتلام ہے۔
Top