Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 208
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً١۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے ادْخُلُوْا : تم داخل ہوجاؤ فِي : میں السِّلْمِ : اسلام كَآفَّةً : پورے پورے وَ : اور لَا تَتَّبِعُوْا : نہ پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
مومنو ! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو وہ تو تمہارا صریح دشمن ہے
حکم دوازدھم، استسلام تام و قبول جمیع احکام اسلام۔ قال تعالی، یا ایھا الذین امنو ادخلوا۔۔۔ الی۔۔ الامور۔ ربط) ۔ گزشتہ آیات میں ایمان اور اخلاص کا ذکر تھا اس آیت میں یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایمان اور اخلاص کا مقتضی یہ ہے کہ دین اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور اسلام میں داخل ہونے کے بعد دین سابق یعنی یہودیت اور نصرانیت کی رعایت سے کوئی کام نہ کرو ایک دین میں داخل ہونے کے بعد دوسرے دین کی طرف بھی نظر رکھنا یہ اخلاص کے منافی ہے نیز جو شخص اپنے نفس کو اللہ کے ہاتھ فروخت کرے اور اس کی رضا اور خوشنودی کا طلب گار ہو اور اس کی اس خاص رحمت ورافت کا امیدوار ہو جو عباد مخلصین پر نازل ہوتی ہے تو اس کو چاہیے کہ اپنے اعمال میں قرآن کے بعد توریت اور انجیل کی رعایت نہ کرے ناسخ کے ہوتے ہوئے منسوخ کی رعایت، بدعت اور ضلالت ہے جو باعث عقوبیت ہے یہ آیت عبداللہ بن سلام اوردیگر علماء یہود کے بارے میں نازل ہوئی کہ اسلام لانے کے بعد آپ سے یہ درخواست کی کہ ہم کو احکام کی تعمیل کے ساتھ اس کی بھی اجازت دی جائے کہ شریعت موسویہ کے مطابق ہفتہ کی تعظیم اور اونٹ کے گوشت اور دودھ سے پرہیز کرتے رہیں اور توریت کی بھی تلاوت کرتے رہیں اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی اے ایمان والو ایمان کا مقتضی یہ ہے کہ اسلام میں ظاہرا اور باطنا، اعتقادا اور عملا پورے کے پورے داخل ہوجاؤ اور اسلام میں کسی اور چیز کو ہرگز نہ ملاؤ مبادا یہودیت اور نصرانیت کی آمیزش سے اسلام کے آب طہور کے رنگ یا بو یا مزہ میں کہیں فرق آجائے اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو ناسخ کے بعد منسوخ کی رعایت کرنا شیطان کے نشان قدم پر چلنا ہے تحقیق وہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے کہ جو چیز دین نہیں اس کو دین بتا کر تم سے کرانا چاہتا ہے اور بدعت کی حقیقت بھی یہی ہے کہ جو چیز دین نہ ہو اس کو دین سمجھ لیاجائے ان مومنین اہل کتاب کے دل میں شیطان نے یہ وسوسہ ڈالا کہ شریعت موسویہ میں اونٹ کا گوشت اور دودھ حرام اور شریعت محمدیہ میں اس کا کھانا فرض نہیں اس لیے اگر ہم بدستور عملا ہفتہ کی تعظیم کرتے رہیں اور اعتقادا اس کو واجب نہ سمجھیں اور اونٹ کے گوشت اور دودھ کو عملا ترک کردیں اور اعتقادا اس کو حلال سمجھتے رہیں تو اس میں شریعت محمدیہ کے بھی خلاف نہ ہوگا اور شریعت موسویہ کی بھی رعایت ہوجائے گی اور وہ عمل زیادہ موجب ثواب ہوگا حق تعالیٰ نے اس آیت میں اس خیال کی اصلاح فرمائی کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد صرف اسلام ہی کی رعایت سے عمل کرنا فرض اور لازم ہے اور جو امر اسلام میں قابل رعایت نہیں دین سمجھ کر اس کی رعایت کرنا بدعت ہے جو شیطان کا وسوسہ ہے اور ایک دین میں داخل ہونے کے بعد گزشتہ دین کی طرف نظر رکھنا اخلاص کے منافی ہے پس اگر تم واضح اور روشن احکام آنے کے بعد بھی پھسلے اور شیطان کے قدموں پر چلے اور شریعت محمدیہ کے احکام کے اتباع اور تعمیل میں اعتقادی اور باطنی طور پر یہودیت اور نصرانیت کی رعایت کی تو خوب جان لو کہ اللہ غالب اور زبردست ہے ایسے لوگوں کو سخت سزا دے گا جو ظاہر تو یہ کریں کہ شریعت محمدیہ پر عامل ہیں اور باطن میں یہودیت اور نصرانیت ملحوظ رہے اور بڑی حکمت والا ہے کہ ایسے لوگوں سے انتقام میں جلدی نہیں فرماتا کسی حکمت سے مہلت دے رکھی ہے کیا یہ لوگ جو اپنے باطنی انکار کو ظاہری اقرار کے پردہ میں چھپاتے ہیں اب صرف اس امر کے منتظر ہیں کہ قیامت قائم ہو اور اولین اور آخرین جمع ہوں اور اللہ تعالیٰ ان کے حساب و کتاب اور جزاء اور وسزا کے لیے خود سفید ابر کے سائبانوں میں نزول اجلال فرمائیں اور فرشتے بھی ساتھ آئیں اور ہر کسی کو اس کے عمل کے مطابق جزا اور سزا دے دی جائے اور اس میں شک اور تردد کیا ہے تمام امور اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں چونکہ ان لوگوں نے اپنے باطنی انکار کو ظاہری اقرار کے پردہ میں چھپا رکھا ہے اسلیے قیامت کے دن اللہ کا قہر، مہر کے پردہ یعنی سفید بادل کی شکل میں نمودار ہوگا۔ فائدہ اول) ۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اللہ اور فرشتے کے آنے کا واقعہ قیامت کے دن پیش آئے گا جیسا کہ دوسری آیتوں میں ہے، کلااذا دکت الارض۔۔۔ الی۔۔۔ صفا صفا، وجای یومئذ بجھنم۔۔۔ الی۔۔ الذکری۔ وقال تعالی، ھل ینظرون الاان تاتیھم الملائکۃ۔۔۔ الی۔۔ ربک۔ آیت۔ ابن مسعود سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ اللہ اولین اور آخرین کو جمع کرے گا تمام لوگ آسمان کی طرف کھڑے دیکھتے ہوں گے اور فیصلہ کے منتظر ہوں گے اتنے میں الہ ابر کے سائبانوں میں عرش سے کرسی کی طرف نزول فرمائیں گے (ابن مردویہ) ۔ اور اسی قسم کا مضمون ابوہریرہ کی طویل حدیث میں ہے کہ نبی نے ارشاد فرمایا کہ جب انبیاء کرام شفاعت کرنے سے عذر فرمائیں گے اور شفاعت کی نوبت مجھ تک پہنچے گی تو میں کہوں گا کہ ہاں ہاں میں شفاعت کے لیے تمہاری شفاعت کروں گا اور جاکر عرش کے نیچے سجدہ ریز ہوجاؤں گا اور درخواست کروں گا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فصل قضاء کے لیے تشریف لاویں۔ پس اللہ تعالیٰ آپ کی درخواست منظور فرمائیں گے اور آسمان کے پھٹنے کے بعد ابر کے سائبانوں میں نزول اجلال فرمائیں گے اور فرشتے بھی اتریں گے۔ اور عرش بھی اترے گا اور فرشتے یہ تسبیح پڑھتے ہوں گے سبحان ذی الملک والملکوت سبحان ذی العزۃ والجبروت سبحان الحی الذی لایموت سبحان الذی یمیت الخلائق ولایموت سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح سبوح قدوس سبحان ربنا الاعلی سبحان ذی السلطان والعظمۃ سبحانہ سبحانہ ابدا ابدا (تفسیر ابن کثیر) ۔ فائدہ دوم) ۔ جن آیات اور احادیث میں حق جل شانہ کا آنا اور اترنا اور اس قسم کے امور کا کچھ ذکر آیا ہے اس کے بارے میں علمائے سلف کا مسلک یہ ہے کہ ان کی تحقیق اور تفتیش میں نہ پڑے اور بلاتشبیہ اور بلاتمثیل کے ان پر ایمان لائے جس طرح اس کی ذات بےچون وچگون ہے اور اسی طرح اس کے افعال بھی بےچون وچگون ہیں اور علماء خلف کا مسلک یہ ہے کہ وہ عوام کے عقائد کی حفاظت کے لیے کوئی مناسب تاویل کرلیتے ہیں تاکہ ظاہر الفاظ سے عوام کسی غلط فہمی میں مبتلانہ ہوجاویں مثلا الا ان یاتیھم اللہ، میں یہ تاویل کرتے ہیں اللہ کے حکم یاقہر کا آنا مراد ہے وغیرذالک اور حضرات صوفیہ کرام یہ فرماتے ہیں کہ یاتیھم اللہ فی ظلل من الغمام سے حق سبحانہ تعالیٰ کی تجلیات مراد ہیں یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ظلل من الغمام میں متجلی ہوگا جس طرح وہ کوہ طور پر اللہ کی تجلی بےچون وچگون تھی اس طرح قیامت کے دن پر اللہ کی تجلی ابر کے سائبانوں میں ہوگی اور جس طرح آنکھ کی پتلی میں آسمانوں کا جلوہ اور الفاظ کے پردہ میں معافی کا جلوہ دیکھا جاسکتا ہے اس طرح ابر کے سائبانوں میں اللہ کا بےچون وچگون حلیہ دیکھاجاسکتا ہے کہا جاتا ہے کہ زید آگیا اور یہ بات میرے خیال میں آگئی کہ اور صبح آگئی آنا سب جگہ پایا جاتا ہے مگر حقیقت ہر جگہ مختلف ہے آنا آنے والے کے تابع ہے زید کا آنا اور قسم کا ہے اور کسی بات کا دل میں آنا اور قسم کا ہے ایسا ہی اللہ کے آنے کو ایسا سمجھو کہ اس کا آنا اور اس کی شان عظمت کے مطابق ہوگا جیسے اللہ جل شانہ کی ذات بےچون وچگون ہے اسی طرح اس کا نام بھی بےچون وچگون ہوگا۔ فائدہ سوم) ۔ جب کہ دین موسوی کی رعایت سے اونٹ کے گوشت کا ترک کرنا اتباع شیطانی ہوا تو سامریان ہند کی رعایت سے ذبیحہ بقر کا ترک کرنا جو اعظم شعائر اسلام میں سے ہے بدرجہ ادلی اغوا شیطانی ہوگا، خوب سمجھ لو۔
Top