Maarif-ul-Quran - An-Noor : 30
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ
قُلْ : آپ فرما دیں لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومون مردوں کو يَغُضُّوْا : وہ نیچی رکھیں مِنْ : سے اَبْصَارِهِمْ : اپنی نگاہیں وَيَحْفَظُوْا : اور وہ حفاظت کریں فُرُوْجَهُمْ : اپنی شرمگاہیں ذٰلِكَ : یہ اَزْكٰى : زیادہ ستھرا لَهُمْ : ان کے لیے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌ : باخبر ہے بِمَا : اس سے جو يَصْنَعُوْنَ : وہ کرتے ہیں
مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ انکے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے (اور) جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اللہ ان سے خبردار ہے
حکم ششم متعلق بہ نظر وبصر قال اللہ تعالی۔ قل لل مومنین یغضوا من ابصارہم۔۔۔ الی۔۔۔ لعلکم تفلحون۔ (ربط) یہ چھٹا حکم ہے جو مرد کا عورت کو دیکھنے سے اور عورت کا مرد کو دیکھنے سے متعلق ہے اور نگاہ کی حفاظت کا حکم۔ عفت اور پاکدامنی کی حفاظت کا بےمثال سامان ہے۔ گزشتہ آیات میں زنا کی سزا اور زنا کی تہمت لگانے کے احکام کا بیان تھا۔ اب ان آیات میں اسباب زنا کے احکام بیان کرتے ہیں۔ یعنی ان چیزوں کی ممانعت کرتے ہیں کہ جو زنا کا سبب اور ذریعہ بنتی ہیں تاکہ ان پر عمل کرنے سے خود زنا سے محفوظ رہ سکے اور بندوں کے اتہام اور اشتباہ سے محفوظ رہ سکے مثلا مرد کا عورت کو دیکھنا اور عورت کا مرد کو دیکھنا ایک عظیم فتنہ ہے کیونکہ کسی کا چہرہ دیکھنے سے اس کا حسن و جمال معلوم ہوجاتا ہے تو طبعی طور پر اس کی رغبت پیدا ہوتی ہے اور نفس کو اس کی طرف کشش ہوتی ہے اور پھر یہ کشش نفس کو کوشش پر آمادہ کرتی ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے۔ برق نگاہ یار میرا کام کر گئی اس لئے ان آیات میں اہل ایمان کو نظر اور بصر کے احکام اور آداب بتلاتے ہیں تاکہ اس فتنہ سے محفوظ رہیں اور اس بارے میں مردوں کے حکم کو مقدمہ کیا کہ وہ اصل طالب اور متقاضی ہیں اور عورتیں بوجہ حیاء کے ان سے کم ہیں (نیز) گزشتہ آیات میں کسی کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونے کی ممانعت تھی۔ سو اس کی وجہ یہی تھی کہ کسی کے زمانہ اور گھرانہ پر تمہاری نظر نہ پڑے اور یہ ناگہانی نظر آئندہ چل کر کسی فتنہ کا سبب نہ بن جائے جیسا کہ حدیث میں ہے انما جعل الاستیذان من اجل البصر یعنی کسی کے گھر میں کسی کی نگاہ داخل ہوگئی تو پھر اجازت ہی کی کیا ضرورت رہی۔ اس لیے آئندہ آیات میں مرد اور عورت کو علیحدہ علیحدہ نظر نیچی رکھنے کا صراحۃ حکم دیتے ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں۔ اے نبی آپ اہل ایمان سے کہہ دیجئے کہ اگر وہ اپنے نور ایمان کی حفاظت چاہتے ہیں تو اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ یعنی جن چیزوں کا دیکھنا حلال نہیں ان کی طرف نظر نہ اٹھائیں۔ پس جن چیزوں کا مطلقا نہیں تو ان کو نظر شہوت سے نہ دیکھیں۔ ناجائز نظر دیباچہ زنا ہے اور اگر اتفاق سے نظر پڑجائے تو اس کو دوسری طرف پھیر لیں۔ غرض یہ کہ نظر اور بصر میں درجات ہیں، بعض صورتوں میں معاف ہے اور بعض صورتوں میں حرام ہے اس لئے من ابصارہم میں من تبعیضیہ انہی درجات اور مراتب کے فرق کی طرف اشارہ کرنے کے لئے بڑھایا گیا۔ اور اہل ایمان کو چاہئے کہ اپنی شرمگاہوں کی بھی حفاظت کریں یعنی اپنی شہوت کو ناجائز فعل میں استعمال نہ کریں اس میں زنا اور لواطت سب آگئے یا یہ معنی ہیں کہ ہر وقت اپنی شرمگاہوں کو مستور رکھیں مطلب یہ ہے کہ حفاظت ستر یعنی ان کا مستور رکھنا مراد ہے اور خلوت اور تنہائی میں بھی اپنی شرمگاہ کی طرف نظر رکھنا ممنوع ہے۔ حدیث میں ہے کہ اگرچہ تو تنہا ہو جب بھی اپنی شرمگاہ کو نہ دیکھنا اللہ تعالیٰ زیادہ احق ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔ یہ یعنی آنکھ اور نگاہ کی اور شرمگاہ کی حفاظت ان کے حق میں بڑی ستھرائی ہے اور پاکیزہ ترین خصلت ہے جو ان کے ظاہر و باطن کو زنا کی نجاست اور گندگی سے پاک رکھنے والی چیز ہے اور یہ پاکیزگی مومنین کو مشرکین سے اور مومنات کو کافرات سے ممتاز کرنے والی ہے۔ اور بیشک اللہ اس چیز سے باخبر ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ تمہاری نگاہ کسی طرف اور کس لئے اٹھ رہی ہے۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے آنکھ کے زنا کے ممانعت فرمائی اور دوسری آیت میں شرمگاہ کے زنا کی ممانعت فرمائی اس لئے کہ نامحرم کی طرف نظر کرنا یہ زنا کا پیش خیمہ ہے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ولا تقربوا الزنا زناکے قریب بھی مت جاؤ۔ نا محرم کو دیکھنا یہ زنا کے قریب جانا ہے یہ آنکھ کا زنا ہے جو شرمگاہ کے زنا کا پیش خیمہ ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہر کام سے باخبر ہے۔ جدھر بھی نظر اٹھاؤ گے تمہاری نظر اس چیز پر بعد میں پڑے گی اور اللہ کی نظر تم پر پہلے پہنچ جائے گی لہٰذا تم کو ڈرتے اور بچتے رہنا چاہئے۔ اب آئندہ آیات میں عورتوں کو بھی یہی حکم دیتے ہیں کہ نگاہیں نیچی رکھیں اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ مگر عورتوں کے حق میں اس کے علاوہ بعض دیگر احکام کا اضافہ ہے اور اسی طرح اے نبی آپ ایمان والی عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ اگر بمقتضائے ایمان تم کو اپنی عفت اور عصمت کی حفاظت درکار ہے تو فقط مردوں کے نیچی نگاہ کرنے کو کافی نہ سمجھیں بلکہ عورتوں کو بھی چاہئے کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور غیروں کے دیکھنے سے اپنی آنکھوں کو بند رکھیں اور جس چیز کی طرف نظر کرنے کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اس کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھیں۔ اجنبی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا یہ شیطان کا زہریلا تیر ہے۔ شیطان کا مقولہ ہے کہ جو تیر میں عورت کے ذریعہ چلاتا ہوں وہ تیر کبھی خطا نہیں جاتا اور بزرگوں کا قول ہے کہ نگاہ بد زنا کا ڈاکیہ ہے اور فسق وفجور کا قاصد ہے۔ گزشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا تھا۔ اب آیات میں عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیتے ہیں کہ اے ایمان والی عورتوں۔ تم کو چاہئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھو خواہ وہ مرد تم کو دیکھے یا نہ دیکھے جو مرد تمہارے سامنے ہے اگرچہ وہ نابینا ہے مگر تم تو نابینا نہیں جیسا کہ مسند احمد اور سنن ابی داؤد اور ترمذی میں ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن وہ اور حضرت میمونہ ؓ یہ دونوں بیبیاں آنحضرت ﷺ کے پاس حاضر تھیں اتنے میں عبد اللہ بن ام مکتوم ؓ (جو نابینا تھے) آگئے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا تم دونوں پردہ میں ہوجاؤ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ وہ تو نابینا ہیں ہم کو دیکھ بھی نہیں سکتے، آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ کیا تم بھی نابینا ہو اور تم ان کو نہیں دیکھ سکتیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نابینا سے بھی پردہ واجب ہے اگرچہ کسی فتنہ کا احتمال نہ ہو، خاص کر جب کہ شوہر بھی گھر میں موجود ہو غرض یہ کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت دونوں کو علیحدہ علیحدہ نیچی نگاہ رکھنے کا حکم دیا۔ تاکہ دونوں طرف سے فتنہ کی روک تھام ہوجائے اور ایمان والیوں کو چاہئے کہ اپنی شرمگاہوں کی پوری پوری حفاظت کریں کہ کوئی ان کو دیکھ بھی نہ سکے حتی کہ وہ خود بھی اپنی خلوت اور اپنی تنہائی میں بےضرورت اپنی شرمگاہ کو نہ دیکھیں۔ میاں بیوی کو اگرچہ باہم صحبت اور مباشرت کی اجازت ہے مگر بلا ضرورت ایک دوسرے کی شرمگاہ کی طرف نظر کرنے کی اجازت نہیں۔ امام غزالی (رح) فرماتے ہیں کہ شرمگاہ کی طرف دیکھنے سے نگاہ کمزور ہوتی ہے، جیسا کہ یہ مضمون ایک حدیث میں بھی آیا ہے۔ غرض یہ کہ زنا سے حفاظت کی ایک تدبیر اور ایک صورت تو یہ ہوئی کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور دوسری تدبیر جس سے زنا سے محفوظ رہ سکیں یہ ہے کہ ایمان والی عورتیں اپنی آرائش اور زیبائش کو ظاہر نہ کریں مگر زیب وزینت کی وہ چیز جو عادتا اور غالبا کھلی رہتی ہے یعنی جس کا چھپانا اور پوشیدہ رکھنا عادۃ ممکن نہیں جیسے چہرہ اور دونوں ہاتھ کہ ہر وقت ان کو چھپائے رکھنا بہت دشوار ہے بغیر منہ کھولے عورت گھر میں چل پھر نہیں سکتی اور بغیر ہاتھوں کے گھر کا کام کاج نہیں کرسکتی۔ تو جس زینت کا چھپانا اور اس کو مستور رکھنا ممکن نہیں تو ایسی زینت کے کھلا رکھنے میں مضائقہ نہیں اور جب ابداء زینت یعنی اظہار زینت حرام ہوا تو اس کی نقیض اور ضد یعنی اخفاء زینت فرض اور واجب ہوگی۔ مطلب یہ ہے کہ عورت کا تمام بدن ستر ہے اپنے گھر میں بھی اس کو مستور اور پوشیدہ رکھنا فرض اور لازم ہے مگر چہرہ اور دونوں ہاتھ کہ ہر وقت ان کو چھپائے رکھنا بہت دشوار ہے۔ اس لئے یہ اعضاء ستر سے خارج ہیں اپنے گھر میں ان اعضاء کو کھلا رکھنا جائز ہے۔ ضروریات زندگی ان اعضاء کے کھلے رکھنے پر مجبور کرتی ہیں اگر مطلقا ان اعضاء کے چھپانے کا بھی حکم دیا جاتا تو عورتوں کے لئے اپنے کاروبار میں سخت تنگی اور دشواری پیش آتی اس لئے شریعت نے ان اعضاء کو ستر سے خارج کردیا۔ ان اعضاء کے علاوہ عورت کا تمام بدن ستر ہے جس کا ہر وقت پوشیدہ رکھنا واجب ہے اور یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت کو اپنے چہرہ کے حسن و جمال کو نامحرم مردوں کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے اور نہ اجنبی مردوں کو اس کی اجازت ہے کہ وہ عورتوں کے حسن و جمال کا نظارہ کیا کریں اور ان سے آنکھیں لڑایا کریں۔ شریعت کی طرف سے کسی عورت کو کسی عضو کے کھولنے کی اجازت دینا اس کو مستلزم نہیں کہ مرد کو اس کی طرف دیکھنا بھی جائز ہو، شریعت مطہرہ اس بات سے پاک اور منزہ ہے کہ مرد اور عورت کو اس قسم کی بےحیائی کی اجازت دے اور مرد عورت کو زنا کی دہلیز پر قدم رکھنے کی اجازت دے۔ حاشا وکلا عورت کے لئے اپنی زیبائش یعنی مواضع زینت کا اظہار سوائے محارم کے جن کا ذکر آئندہ آیت میں آرہا ہے اور کسی کے سامنے ہرگز ہرگز جائز نہیں اور محارم کے سامنے آنے کی بھی یہی شرط ہے کہ کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ اور یہ سامنے آنا ازراہ شفقت قرابت ہو نہ کہ بطریق شہوت ہو۔ بطریق شہوت تو محارم کے سامنے آنا بھی ناجائز ہے اور حرام ہے۔ غرض یہ کہ ان آیات میں محض ستر کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے یعنی فی حد ذاتہ عورت کو خواہ اپنے گھر کے اندر ہو یا باہر ہو کس حصہء بدن کا مستور رکھنا واجب ہے اور کس حصہء بدن کا کھلا رکھنا جائز ہے، اس جملہ میں اس سے بحث نہیں کہ کس سے اپنا چہرہ چھپائیں اور کس کے سامنے ظاہر کریں اس کی تفصیل آئندہ آیت میں آنے والی ہے۔ غرض یہ کہ اس آیت میں فقط یہ بتلانا ہے کہ بدن کا کتنا حصہ فی ذاتہ اور فی نفسہ قابل ستر ہے اور کتنا حصہ قابل کشف و اظہار ہے، اس آیت میں فقط عورتوں کا مسئلہ بیان کیا گیا۔ معاذ اللہ۔ معاذ اللہ نا محرم مردوں کو عورتوں کے دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی، کسی مسئلہ میں عورتوں کی کسی اجازت سے مردوں کی اجازت کا مسئلہ نکالنا حماقت ہے۔ باقی رہا مسئلہ حجاب (پردہ) یعنی عورت کو گھر میں رہنا کس درجہ لازم ہے اور کن حالات میں اس کو گھر سے باہر نکلنا جائز ہے اور اگر بضرورت نکلے تو کس حالت میں نکلے سو اس مسئلہ کی تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ سورة احزاب میں آئے گی یعنی وقرن فی بیوتکن کی تفسیر میں آئے گی۔ مرد کا ستر صرف ناف سے گھٹنوں تک ہے مرد کے لئے صرف اتنے حصہ بدن کو ہر وقت مستور رکھنا واجب ہے اس کے علاوہ مرد کے لئے تمام بدن کھلا رکھنا جائز ہے اور عورت کا تمام بدن ستر ہے سوائے چہرہ اور دونوں ہاتھ اور دونوں قدموں کے۔ ہر وقت تمام بدن کا مستور رکھنا واجب ہے باقی یہ امر کہ عورت اپنا چہرہ کس مرد کے سامنے کھول سکتی ہے سو آئندہ آیت میں اس کی پوری تفصیل آرہی ہے۔ ولا یبدین زینتھن الا لبعولتھن اواباءھن او اباء بعولتھن او ابناء ہن او ابناء بعولتہن او اخوانھا او بنی اخوانھن او بنی اخواتہن او نساء ہن الایۃ یعنی عورتوں کے لئے شوہر اور باپ دادا اور پوتے اور بھانجے اور بھتیجے ان اشخاص مذکورہ کے علاوہ کسی کے سامنے اپنا منہ کھولنا جائز نہیں۔ تنبیہ : آیت میں دو حکم بیان کئے گئے ایک مرد کے لئے اور ایک عورت کے لئے۔ شریعت نے ضرورت کی بنا پر منہ کھولنے کی اجازت دی ہے اس اجازت سے یہ لازم نہیں آتا کہ دوسروں کو بھی اس کے چہرہ کی طرف نظر کرنا جائز ہو۔ مرد کے لئے پردہ کا حکم نہیں مگر کسی عورت کو دیکھنے کی اور کسی گھر میں جھانکنے کی ہرگز اجازت نہیں۔ بیشمار آیات اور احادیث سے اس کی ممانعت ثابت ہے۔ غرض یہ کہ دو حکم علیحدہ علیحدہ ہیں پس اگر کسی صورت میں عورت کو کسی عضو کے کھولنے کی اجازت ہو تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مرد کو بھی اس کا دیکھنا جائز ہو زینت کے معنی : زینت کے معنی آرائش اور زیبائش کے ہیں خواہ وہ خلقی اور قدرتی ہو۔ جیسے چہرہ اور دونوں ہاتھ اور ہتھیلیاں یا مصنوعی اور اختیاری ہو جیسے پوشاک اور زیور یہ سب چیزیں زینت ظاہرہ یعنی الا ما ظھر منھا میں داخل ہیں جن کا اظہار سوائے محارم کے کسی کے سامنے جائز نہیں جن کا ذکر آئندہ آیت میں آنے والا ہے اور تیسری تدبیر جو زنا سے حفاظت کا ذریعہ ہے وہ یہ کہ ایمان والی عورتوں کو یہ بھی لازم ہے کہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیں تاکہ ان کے سر اور گردنیں اور سینے چھپے رہیں اور سینہ اور پستان کا ابھار کسی پر ظاہر نہ ہو۔ زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ اس زمانہ کی عورتیں سینہ کھول کر اور گردن اور بالیوں کو ظاہر کر کے چلتی پھرتی تھیں اور سینہ کھولے ہوئے مردوں کے سامنے سے گزرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والی عورتوں کو سینہ اور گردن کے پوشیدہ رکھنے کا حکم دے دیا۔ کما قال تعالیٰ یایھا النبی قل لازواجک وبنتک ونساء ال مومنین یدنین علیہن من جلا بیبھن۔ نکتہ : آیت میں بجائے لفظ القاء کے لفظ ضرب استعمال کیا گیا اور ولیضربن بخمرھن علی بیوبہن فرمایا گیا جس سے مقصود مبالغہ ہے کہ خوب اچھی طرح اوڑھنیاں اپنے اوپر ڈال لیں اور ان کو خوب چپکا لیں کہ بدن اچھی طرح چھپ جائے کھلا نہ رہے۔ غرض یہ کہ اس آیت میں جو حکم تھا وہ صرف فی نفسہ عورت کے اعضاء اور مواضع زینت سے متعلق تھا کہ کن اعضاء کا عورت کے لئے اظہار اور کشف جائز ہے اور کتنے حصہ بدن کا مستور رکھنا واجب ہے یہ مسئلہ ستر کا تھا جو عورت کی ذات سے متعلق تھا۔ اب آئندہ آیت میں دوسروں کے سامنے ان اعضاء اور مواضع زینت کے کھولنے کا حکم بیان کرتے ہیں کہ کس کے سامنے زینت کا ظاہر کرنا جائز ہے اور کس سے پردہ کرنا لازم ہے عورت کو جن کے سامنے آنے کی اجازت دی گئی وہ بارہ ہیں جن کی آیت تفصیل ہے چناچہ فرماتے ہیں اور چوتھی تدبیر جس سے زنا سے حفاظت ہو سکے یہ ہے کہ نہ ظاہر کریں ایمان والی عورتیں اپنی آرائش وزیبائش کو یعنی مواضع زینت کو یعنی اپنے چہرہ اور ہاتھ پاؤں کو کسی کے سامنے نہ کھولیں اور کسی کے سامنے ان اعضا کو ظاہر نہ ہونے دیں مگر ان بارہ اشخاص کے سامنے۔ اپنے شوہروں کے سامنے کہ ان سے تو کسی چیز کا اخفاء واجب نہیں البتہ بلا ضرورت شرمگاہ کی طرف نظر کرنا شوہر کے لئے بھی ممنوع ہے۔ جیسا کہ ابن عباس ؓ سے مرفوعا مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ اذا جامع احدکم زوجہ او جاریتہ فلا ینظر الی فرجھا فان ذلک یورث العمی۔ قال ابن الصلاح جید الاسناد کذا فی شرح الجامع الصغیر۔ جب کوئی اپنی بیوی یا باندی سے جماع کرے، تو اس کی شرمگاہ کی طرف نظر نہ کرے یہ دیکھنا بینائی پیدا کرتا ہے۔ ابن صلاح (رح) کہتے ہیں کہ اس حدیث کی سند نہایت عمدہ ہے۔ یا اپنے باپ دادوں کے سامنے (3) یا اپنے شوہروں کے باپوں کے سامنے کہ شوہروں کے باپ بمنزلہ تمہارے باپ کے ہیں (4) یا اپنے بیٹوں کے سامنے (5) یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے سامنے جو دوسری بیوی سے ہوں (6) یا اپنے بھائیوں کے سامنے (7) یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں کے سامنے (8) یا اپنی بہنوں کے بیٹوں کے سامنے، یہ سب بمنزلہ اولاد کے تمہارے ساتھ ہیں، ہر وقت ان کی آمد ورفت ہے اور ان کی طرف سے فتنہ کا اندیشہ نہیں، یہ سب محارم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے محارم کی فطرت میں ایک طبعی نفرت رکھ دی ہے کہ مرد اپنی ماں اور خالہ اور بہن کو دیکھتا ہے مگر دل میں برا خیال نہیں آتا۔ اور ان محارم کی طرف سے فتنہ کا بھی اندیشہ نہیں۔ مگر یہ زمانہ فتنہ و فساد کا ہے اور انگریزی تعلیم نے اور انگریزی تمدن نے فطرت انسانی کو خراب کردیا ہے۔ اس لئے اس زمانہ میں محارم کے بارے میں بھی احتیاط ضروری ہے۔ فقہاء کرام نے تصریح کردی ہے کہ محارم کے سامنے آنا بھی اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ امام ابن جریر (رح) طبری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ حدثنا علی ثنا عبد اللہ حدثتی معاویۃ عن علی عن ابن عباس قولہ تعالیٰ لا یبدین زینتہن الا ما ظھر منھا قال والزنیۃ الظاہرۃ الوجہ وکحل العین وخضاب الکف والخاتم فھذا تظھر فی بیتھا لمن دخل من الناس علیھا۔ (تفسیر ابن جریر ص 83 ج 18 ) اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس ؓ کا یہ فرمانا۔ فھذا تظھر فی بیتھا لمن دخل من الناس علیھا کہ عورت اپنی زینت صرف اپنے گھر میں ان لوگوں کے سامنے ظاہر کرسکتی ہے جن کو اس کے سامنے آنے اور گھر میں داخل ہونے کی شرعا اجازت ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ آیت میں ابداء زینت سے اپنے گھر میں فی حد ذاتہ زینت کا ظاہر کرنا اور ان لوگوں کے سامنے آنا مراد ہے جن کو اس کے گھر میں آنے کی اجازت ہے یعنی محارم۔ معاذ اللہ سڑکوں اور بازاروں میں زینت کا ظاہر کرنا مراد نہیں اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ جن مردوں کو اس کے گھر میں آنے کی شرعا اجازت ہے، جیسے باپ اور بھائی۔ تو ان کے سامنے اپنی زینت (چہرہ اور ہاتھ) کے ظاہر کرنے اور کھولنے میں مضائقہ نہیں۔ امام ابن جریر (رح) فرماتے ہیں کہ سوائے محارم کے کسی کے سامنے عورت کو اپنی زینت کا کھولنا جائز نہیں (تفسیر (ف 1) ابن جریر ) ۔ یا اپنی خاص رشتہ دار یا خاص خدمت گزار عورتوں کے سامنے اگر اپنی زینت (چہرہ اور ہاتھوں) کو کھلا رکھیں تو یہ بھی جائز ہے اور اپنی عورتوں سے وہ عورتیں مراد ہیں جو قریبی رشتہ دار ہوں یا ان کی خدمت گزار ہوں اس کے پاس اٹھنے بیٹھے والی ہوں۔ بشرطیکہ نیک چلن ہوں اور بہت سے سلف کے نزدیک اپنی عورتوں سے مسلمان عورتیں مراد ہیں جو ان کی دینی بہنیں ہیں ان کے سامنے آنا جائز ہے۔ کیونکہ کافر عورتیں اجنبی مردوں کے حکم میں ہیں جیسا کہ حضرت عمر ؓ اور ابن عباس ؓ اور مجاہد (رح) سے مروی ہے (در منثور) کافرہ عورت مسلمان عورت کے حق میں بمنزلہ اجنبی مرد ہے، اس لئے صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کے نزدیک مسلمان عورت کو کافر عورت سے پردہ کرنا واجب ہے۔ یا ان کے سامنے آنا بھی جائز ہے جن کے تمہارے ہاتھ مالک ہیں یعنی اپنی باندیاں یا اپنا غلام اگرچہ وہ نامحرم ہو اس کے سامنے آنا بھی جائز ہے بشرطیکہ وہ غلام نیک چلن اور پاک دامن ہو ورنہ نہیں۔ جمہور علماء کے نزدیک ما ملکت ایمانھن میں لونڈی اور غلام دونوں داخل ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اس سے صرف باندیاں مراد ہیں۔ اور غلام مراد نہیں جیسا کہ سعید بن مسیب (رح) سے مروی ہے کہ وہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ آیت النور تم کو دھوکہ میں نہ ڈال دے، اس آیت میں ما ملکت ایمانہن سے صرف باندیاں مراد ہیں۔ اور غلام مراد نہیں اور یہی قول عبد اللہ بن مسعود ؓ اور مجاہد ؓ اور عطاء (رح) اور حسن (رح) اور ابن سیرین (رح) اور شعبی (رح) کا ہے اور یہی قول احتیاط کے زیادہ قریب ہے خاص کر اس زمانہ میں۔ مسئلہ : کسی بیگم کا تنہا موٹر میں بیٹھ کر کہیں جانا جب کہ ان کا شوہر یا باپ یا بھائی ان کے ساتھ نہ ہو اور فقط موٹر چلانے والا اس موٹر میں موجود ہو تو یہ خلوت بالاجنبیہ ہے اور بلاشبہ حرام ہے اور ڈرائیور کو نیک سمجھنا حماقت ہے، ایسے وقت میں تو نفس اور شیطان ولی کو بھی شیطان بنا دیتا ہے یا ان کے ساتھ رہنے والے مردوں کے سامنے آنا بھی جائز ہے جو تم سے وابستہ ہیں اور تمہارا کاروبار کرتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ وہ مرد ایسے ہوں کہ عورتوں کی حاجت نہ رکھتے ہوں یعنی ایسا آدمی ہو جسے عورت کی خواہش ہی نہ ہو مثلا وہ نامرد ہو تو وہ خدمت کے لئے آسکتے ہیں یا وہ چھوٹے لڑکے جو ابھی عورتوں کے حال اور بھید سے واقف نہیں اور جانتے بھی نہیں کہ مباشرت کیا چیز ہے تو عورتوں کو ایسے بیخبر لڑکوں کے سامنے آجانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ہاں جب سمجھنے لگیں گے اور ہوشیار ہوجائیں گے تو ان کو منع کردیا جائے گا۔ خلاصہ کلام یہ کہ پہلی آیت ولا یبدین زینتہن الا ما ظھر میں ستر اور کشف عورت کے مسئلہ کا بیان تھا کہ عورت کو فی حد ذاتہ کن مواضع زینت اور کن اعضاء کا کھلا رکھنا جائز ہے اور کن اعضاء کا چھپانا واجب ہے اور اس کے بعد والی آیت یعنی ولا یبدین زینتہن الا لبعولتھن الخ یہ مسئلہ بیان فرمایا کہ عورت کو کس کے سامنے آنا جائز ہے۔ سو بتلا دیا کہ سوائے محارم کے کسی کے سامنے اپنا چہرہ کھولنا قطعا حرام ہے اور حکم سابق سے جن صورتوں کو مستثنے فرمایا وہ بارہ ہیں۔ خلاصہ یہ کہ جن سے نکاح جائز ہے وہ سب اجنبی کے حکم میں ہیں۔ پھر یہ کہ شوہر کے سوا دیگر محارم کے سامنے آنے کے لئے بھی یہ شرط ہے کہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو پھر محارم کے سامنے آنا بھی ناجائز ہوگا اور شوہر طلاق دینے کے بعد اجنبی مرد کے حکم میں ہوجاتا ہے شہوت کے ساتھ تو ماں بیٹی کی طرف بھی نظر کرنا حرام ہے۔ حافظ ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عورت کے محارم کا ذکر فرمایا اور بتلایا کہ عورت کے لئے اپنی زینت کو ان محارم کے سامنے ظاہر کرنا اور کھولنا جائز ہے مگر شرط یہ ہے کہ محارم کے سامنے بھی اس کشف و اظہار سے اپنے حسن و جمال کا اظہارمقصود نہ ہو۔ دیکھو تفسیر (ف 1) ابن کثیر ص 282 ج 3۔ یہاں تک اللہ تعالیٰ نے زنا سے حفاظت کی چار تدبیریں بتلائیں۔ اب آگے پانچویں تدبیر بتاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ایمان والی عورتوں کو چاہئے کہ پردہ کا اس درجہ اہتمام کریں کہ چلنے کی حالت کی حالت میں اپنے پیر زمین پر زور سے نہ ماریں تاکہ ان کا پوشیدہ زیور لوگوں کو معلوم ہوجائے۔ زجاج (رح) کہتے ہیں کہ زینت کی آواز زینت سے زیادہ محرک شہوت ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عورت جب راستہ چلتی اور اس کے پاؤں میں پازیب وغیرہ ہوتے تو اپنے پاؤں کو زمین پر مارتی تاکہ مرد اس کی آواز سن لیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والی عورتوں کو ایسی حرکت کرنے سے منع کرد یا کہ جس سے ان کے زیوروں کی آواز مردوں تک پہنچے اور مرد ان کی آواز سن کر ان کی طرف راغب ہوں۔ گزشتہ آیت میں زینت کے اظہار کی ممانعت تھی اب اس آیت میں زینت کی آواز کے اظہار کی ممانعت فرمائی کہ جس طرح زینت کا اظہار کی ممانعت تھی اب اس آیت میں زینت کی آواز کے اظہار کی ممانعت فرمائی کہ جس طرح زینت کا اظہار موجب فتنہ ہے اسی طرح زینت کی آواز کا اظہار بھی موجب فتنہ ہے اور ممنوع ہے اور ظاہر ہے کہ خود عورت کی آواز زیور کی آواز سے زیادہ موجب فتنہ ہے۔ لہٰذا عورت کی آواز۔ زینت کی آواز سے زیادہ حرام ہوگی جیسا کہ سورة احزاب کی یہ آیت فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض اس بارے میں نص صریح ہے۔ مقصود یہ ہے کہ عورتوں کو چاہئے کہ چلتے وقت ایسی حرکت نہ کریں جس سے مردوں کو عورتوں کے جانے اور چلنے کا علم ہوجائے اور ان کے پازیب کی آواز مردوں کی شہوت کو برانگیختہ کرنے کا سبب بنے اور اسی قسم سے ہے کہ عورت اپنے گھر سے خوشبو لگا کر نہ نکلے اگرچہ وہ برقعہ اوڑھے ہوئے ہو جیسا کہ ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو عورت عطر لگا کر گھر سے نکلے اور کسی مجلس پر گزرے تو وہ ایسی اور ایسی ہے یعنی زانیہ اور بدکار ہے۔ رواہ ابو داؤد والنسائی والترمذی وقال ہذا حدیث حسن صحیح۔ فائدہ : پس جب عورت کے لئے اپنے زیور کی آواز کا نکالنا ناجائز اور حرام ہوا۔ تو عورت کا خود اپنی آواز کا نکالنا مثلا کسی اجنبی مرد سے باتیں کرنا یا گانا بجانا وہ بدرجہ اولیٰ حرام ہوگا۔ امام غزالی (رح) فرماتے ہیں کہ اجنبی عورت کا تو قرآن سننا بھی حرام ہے اور عورت کی اذان اور اقامت بھی بالاجماع ناجائز ہے۔ معلوم ہوا کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے جس کا پردہ واجب ہے پس جب عورت کی اذان اور اقامت ناجائز ہے تو جلسہ عام میں عورت کی تقریر بدرجہ اولیٰ حرام اور ناجائز ہوگی۔ اور اے ایمان والو اگر تم سے ان احکام میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو فورا اللہ کے سامنے توبہ کرو اور امید رکھو کہ تم کو فلاح اور کامیابی ہوجائے گی، کیونکہ غفلت اور معصیت کے بعد فلاح کا ذریعہ صرف توبہ اور استغفار ہے، حق تعالیٰ نے اپنی رحمت سے گنہگار کو توبہ کا حکم دیا تاکہ آخرت کی رسوائی سے بچ سکے۔ چو رسوا نہ کردی بچندیں خطا دریں عالم پیش شاہ وگدا درآں عالم ہم پیش ہر خاص وعام بیا مرزو رسوا مکن والسلام اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ توبوا میں رسوم جاہلیت سے توبہ کرنا مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ اے ایمان والو ان کاموں سے بچو کہ جو لوگ زمانہ جاہلیت میں کیا کرتے تھے۔ غرض یہ کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے زنا سے بچنے کی پانچ تدبیروں کو بیان فرما دیا۔ باقی تدبیروں کا بیان انشاء اللہ تعالیٰ سورة احزاب میں آئے گا کہ عورت بلا ضرورت اپنے گھر سے باہر نہ نکلے اور اگر ضرورت اور مجبوری کی بنا پر نکلے تو برقعہ اوڑھ کر اور سر اور سینہ چھپا کر نکلے۔ لطائف ومعارف (1) ان آیات میں جس قدر احکام مذکور ہیں وہ سب زنا کی انسدادی تدابیر ہیں جو عصمت وعفت کی حفاظت میں تریاق اور اکسیر کا حکم رکھتی ہیں اور تہذیب اور اخلاق اور تزکیہ باطن کے بارے میں بےمثال اور بےنظیر ہیں جن کی آنکھوں پر شہوت اور نفسانیت کا پردہ پڑا ہوا ہے ان کو ان احکام کا حسن و جمال نظر نہیں آتا۔ (2) دلدادگان مغربیت اور اسیران نفسانیت جو اس قانون عفت کی پردہ دری کرنا چاہتے ہیں وہ الا ما ظھر منھا سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو ان عورتوں کے لئے شارع عام پر چہرہ کھول کر پھرنا اور گھومنا جائز ہے اس لئے کہ الا ما ظھر منھا کی تفسیر صحابہ وتابعین کی ایک جماعت سے یہ منقول ہے کہ ما ظھر منھا سے چہرہ اور دونوں ہاتھ مراد ہیں، یہ سب مغالطہ اور دھوکہ ہے کہ جو یہ کہتے ہیں قرآن میں یا حدیث میں اس طرح آیا ہے اس لئے ہم اس حکم شرعی پر عامل ہیں۔ اصل منشا اس کا یورپ کی کو رانہ تقلید اور مذہب سے آزادی ہے۔ بحمدہ تعالیٰ ہم نہایت وضاحت کے ساتھ یہ بتلا چکے ہیں کہ الا ما ظھر منھا سے صرف اتنا بتلانا ہے کہ عورتوں کو فی نفسہ اور فی ذاتہ چہرہ اور ہاتھوں کے کھولے رکھنے کی اجازت ہے کیونکہ بہت سی دینی اور دنیوی ضرورتیں ان کے کھلا رکھنے پر مجبور کرتی ہیں اس لئے ان اعضاء کے کھلا رکھنے میں مضائقہ نہیں اور اس آیت میں دوسروں کے سامنے منہ اور ہاتھوں کے کھولنے کے جواز اور عدم جواز سے کوئی تعرض نہیں۔ اس کا ذکر آنے والی آیت میں ہے کہ عورت کو اپنی زینت (چہرہ اور ہاتھ) کے ظاہر کرنے کی اجازت کن کن مردوں کے سامنے ہے اسی الا ما ظھر منھا کے متصل اس امر کی تصریح ہے کہ سوائے ان محارم کے کسی اور کے سامنے عورت کو چہرہ کھولنے کی اجازت نہیں۔ پس اگر ان دالددگان مغربیت کے خیال کے مطابق الا ما ظھر منھا سے عورتوں کو مردوں کے سامنے چہرہ کھولنے کی اجازت نہیں۔ پس اگر ان دلدادگان مغربیت کے خیال کے مطا بق الا ما ظھر منھا سے عورتوں کو مردوں کے سامنے چہرہ کھولنے کی اجازت ہوتی۔ (1) تو آئندہ آیت میں ان محارم باپ اور بٹیا اور بھائی کے استثناء کی کیا ضرورت تھی اس لئے کہ جب عورت کو عام مردوں کے سامنے چہرہ کھولنے کی اجازت ہوگئی تو باپ اور بیٹا اور بھائی کے سامنے چہرہ کھولنے کی اجازت بدرجہ اولیٰ ہوجائے گی۔ (2) اور اس سے پہلی آیت میں عورتوں کو غض بصر کے حکم دینے کی کیا ضرورت تھی جو خاص طور پر ان کو حکم دیا گیا وقل لل مومن ات یغضضن من ابصارہن۔ (3) نیز اگر عام طور پر عورتوں کو چہرہ کھول کر پھرنا جائز ہوتا تو پھر کسی کے زنانخانہ میں داخل ہونے کے لئے اجازت لینا فرض اور واجب نہ ہوتا جیسا کہ گزشتہ آیت یایھا الذین امنوا لا تدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستانسوا یہ حکم صراحۃ گزر چکا ہے۔ (4) نیز قرآن کریم میں عورتوں کے متعلق یہ حکم آیا ہے وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاہلیۃ الاولی یعنی اپنے گھروں میں قرار پکڑو اور پہلے زمانہ جاہلیت کی طرح اپنی زیب وزینت کا اظہار نہ کرو۔ اگر عورتوں کو کھلے منہ پھرنے کی اجازت ہوتی تو پھر اس حکم کی کیا ضرورت تھی۔ (5) نیز قرآن کریم میں ایک حکم آیا ہے۔ واذا سالتموہن متاعا فسئلوھن من وراء حجاب ذلکم اطھر لقلوبکم وقلوبہن۔ (ترجمہ) اور جب تم عورتوں سے کوئی ضرورت کی چیز مانگو تو پردہ کے پیچھے کھڑے ہو کر مانگو اسی میں تمہارے دلوں کی خوب ستھرائی اور پاکیزگی ہے۔ معلوم ہوا کہ پردہ کے پیچھے سے مانگنا دونوں کے لئے طہارت قلب کا سبب ہے اور کھلے منہ سامنے آکر مانگنا نجاست قلب کا سبب ہے۔ (6) نیز اگر عورت کسی ضرورت کی بناء پر کسی غیر مرد سے پس پردہ کلام کرے تو اس کے لئے حکم یہ ہے۔ فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولا معروفا۔ (ترجمہ) ان سے نرم لہجہ میں بات نہ کرو مبادا جس کے دل میں نفسانیت اور شہوانیت کا روگ اور بیماری ہے وہ تمہاری نرم بات سے تمہاری ذات ہی کے لالچ میں نہ پڑجائے۔ پس اگر کھلے منہ کسی غیر مرد کے سامنے آنا جائز ہوتا تو اس حکم کی کیا ضرورت تھی۔ (7) نیز اس سلسلہ کلام میں ایک حکم یہ آیا ہے۔ ولا یضربن بارجلہن لیعلم ما یخفین من زینتہن۔ (ترجمہ) اور عورتوں کو چاہئے کہ چلتے وقت اپنے پاؤں زور سے زمین پر نہ ماریں جس سے لوگوں کو ان کے پوشیدہ زیور کی آواز معلوم ہو سکے اس لئے کہ زیور وغیرہ کی آواز سے اجانب کو اس کی طرف میلان اور رغبت پیدا ہوتی ہے جو فتنہ کا سبب ہے۔ پس جب عورت کے زیور کی آواز فتنہ ہے تو خود عورت کی ذاتی آواز کسی درجہ فتنہ ہوگی۔ امام غزالی (رح) نے لکھا ہے کہ عورت کا تو قرآن سننا بھی ناجائز اور حرام ہے اور تمام فقہا اور ائمہ کا اجماع ہے کہ عورت کی اذان اور اقامت قطعا ناجائز ہے پس معلوم ہوا کہ عورت کا کھلے منہ جلسوں میں آنا اور تقریر کرنا اور مردوں کی پارٹیوں میں کھلے منہ شرکت کرنا اور اپنی تصویر اتروانا اور اس کا اخباروں میں چھپوانا بلاشبہ حرام ہوگا۔ جب عورت کے زیور کی آواز فتنہ ہے اور اس کا اظہار ناجائز ہے تو خود عورت کی تصویر اور اس کی آواز کیسے فتنہ نہ ہوگی اور اس کا اظہار اور اشتہار کیوں حرام نہ ہوگا۔ خوب سمجھ لو کہ عورت کی تقریر اور عورت کی تصویر یہ سب زنا کے دروازے ہیں۔ شریعت مطہرہ ان کو بند کرنا چاہتی ہے مگر یہ دلدادگان مغربیت اس فکر میں ہیں کہ بےپردگی اس درجہ بام عروج پر پہنچ جائے کہ نفس پرستوں کو نکاح ہی کی ضرورت نہ ہو۔ (8) نیز احادیث میں عورت کو اجنبی مرد کے ساتھ خلوت کی ممانعت آئی۔ (9) اور عورت کو بغیر محرم کے سفر کرنے کی ممانعت آئی ہے۔ (10) اور عورت کو بغیر شوہر کی اجازت کے مسجد وغیرہ میں جانے کی ممانعت آئی ہے۔ اس ممانعت کی علت صرف یہی فتنہ شہوت ونفسانیت ہے جس کا شریعت مطہرہ سدباب کرنا چاہتی ہے اور یہ نفس کے بندے کھلے بندوں اس کو توڑنے کی فکر میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے شر سے مسلمانوں کو خصوصا اور دنیا کو عموما محفوظ رکھے۔ آمین۔ ثم آمین۔
Top