بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Ankaboot : 1
الٓمّٓۚ
الٓمّٓ : الف۔ لام۔ میم
ال م
تنبیہ اہل ایمان برحکمت اہل شدائد وآفات زمان کہ آں تمیز مخلص ومنافق است وتشجیع اہل ہدایت بر صبرواستقامت وتشنیع اہل ضلالت وغوایت قال اللہ تعالیٰ الم احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا۔۔۔ الی۔۔۔ ولیسئلن یوم القیمۃ عما کانوا یفترون۔ (شان نزول) ایک دن آنحضرت ﷺ کعبہ کی دیوار سے تکیہ لگائے سایہ میں بیٹھے تھے تو بعض صحابہ نے مشرکین کی شکایت کی کہ وہ ہمیں طرح طرح سے ایذائیں پہنچا رہے ہیں آپ ﷺ ہمارے لئے دعا کریں کہ کافروں کا یہ ظلم وستم ہم سے ٹل جائے یہ سن کر آپ ﷺ ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تم سے پہلے گزشتہ دینداروں کے سر آروں سے چیرے گئے اور ان کے دو ٹکڑے کئے گئے مگر وہ اپنے دین سے نہیں ہٹے اور بعضوں کے سروں میں لوہے کے کنگھے کئے گئے کہ گوشت چیر کر ہڈیوں تک پہنچ گئے پھر بھی وہ اپنے دین سے نہیں پھرے اور قسم ہے خدا کی یہ دین اسلام مکمل اور پورا ہو کر رہے گا یہاں تک کہ سوا صفاء سے لے کر حضرموت تک امن وامان کے ساتھ چلا جائے گا اور اسے کوئی اندیشہ اور خطرہ نہ ہوگا لیکن تم جلدی کرتے ہو۔ (رواہ البخاری عن خباب بن الارت ؓ مطلب یہ ہے کہ عجلت نہ کرو۔ صبر اور استقامت سے کام لو اور اللہ کے وعدہ کا انتظار کرو اور کافروں کی طرف سے جو تم کو ایذائیں پہنچ رہی ہیں وہ من جانب اللہ آزمائش اور امتحان ہیں تاکہ مخلص اور منافق کا فرق ظاہر ہوجائے چناچہ فرماتے ہیں۔ الم اس کے معنی اللہ ہی کو معلوم ہیں جیسا کہ سورة بقرہ کے شروع میں گزرا۔ خرد عاجز وفہم دروے گم است بعض مسلمان جب کافروں کی ایذاؤں سے گھبرائے اور آنحضرت ﷺ سے مشرکین کی شکایت کی تو اس پر یہ آیتیں نازل ہوئی۔ کیا لوگوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ہم محض آمنا کہنے پر چھوڑ دئیے جائیں گے اور ان کا کوئی امتحان نہ ہوگا یعنی کچھ لوگوں نے یہ خیال کرلیا ہے کہ محض زبان سے یہ کہہ دینا کہ ہم ایمان لے آئے اور ہم مومن ہیں فقط یہ کہہ دینا ان کے لئے کافی ہوگا۔ اور ان کا امتحان نہیں لیا جائے گا اور بلاؤں اور مصیبتوں سے ان کی کوئی آزمائش نہ ہوگی جس سے ان کے دعوائے ایمان کی حقیقت کھل جائے اور دل کا نفاق اور اخلاص ظاہر ہوجائے یہ گمان صحیح نہیں ضرور ان کا امتحان ہوگا۔ عاشقاں را درد دل بسیار می باید کشید جو ریار وقصہء اغیار می باید کشید اور امتحان تین طرح سے ہوگا۔ (1) احکام خداوندی کی پابندی سے۔ (2) مصائب وامراض سے۔ (3) کافروں کی ایذا رسانیوں اور تکلیفوں سے۔ اور البتہ تحقیق ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو بھی مصیبتوں اور بلاؤں سے آزمایا ہے اور ان کے دعوائے ایمان کا امتحان لیا ہے پس اس آزمائش اور امتحان سے اللہ ظاہر کردیتا ہے ان لوگوں کو جو دعوائے ایمان میں سچے ہیں اور ظاہر کردیتا ہے جھوٹے دعوے کرنے والوں کو۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ان لوگوں کی غلطی پر متنبہ کیا جنہوں نے یہ گمان کرلیا کہ صرف ایمان واسلام کا دعویٰ کافی ہے لیکن یہ خیال غلط ہے دعوائے ایمان واسلام کے ساتھ ابتلاء اور امتحان بھی ضروری ہے تاکہ ظاہر ہوجائے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔ اگر ابتلا نہ ہوتا تو جھوٹے اور سچے سب برابر ہوجاتے کسی کے دل کا حال کسی کو کیا معلوم ہوتا کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے۔ سنگ وسیم دونوں ایک بھاؤ بکتے غرض یہ کہ امتحان اور ابتلا سچ اور جھوٹ کے ظاہر کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ علم خداوندی اور تقدیر الٰہی میں تو پہلے ہی سے دونوں فریق متمیز ہیں اور اللہ کو پہلے ہی معلوم تھا کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔ مگر دنیا کو معلوم نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کا مقصود اس امتحان سے اپنے علم ازلی کو ظاہر کرنا ہے کہ دنیا بھی دیکھ لے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے پس جس طرح امتحان دنیا میں کھرا کھوٹا ظاہر کرنے کے لئے ہے اسی طرح دعوائے ایمان میں امتحان صادق اور منافق کے صدق اور کذب ظاہر کرنے کے لئے ہے۔ ایمان (ف 1) کے معنی دعوائے محبت کے ہیں کما قال اللہ تعالیٰ والذین امنوا اشد حبا للہ پس آمنا کہنا در پردہ احببنا اور عشقنا کہنے کے مترادف ہے اور دعوائے محبت کے لئے امتحان لازم ہے۔ در محبت ہر کہ اودعویٰ کند صد ہزار امتحان بروے تند گربود صادق کشد بار جفا در بود کاذب گریزد از بلا حضرت شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ شعبی (رح) سے روایت ہے کہ یہ آیت ان مسلمانوں کے حق میں نازل ہوئی جو مکہ میں گھر ہوئے تھے اور بخوف کفار ہجرت نہیں کرسکتے تھے جب یہ آیت نازل ہوئی تو اصحاب کرام ؓ نے انہیں لکھا کہ تمہارا اسلام مقبول نہیں ہوسکتا۔ جب تک تم ہجرت نہ کرو چناچہ انہوں نے ہجرت کی مگر کفار ان کو واپس لے گئے پھر یہ آیت نازل ہوئی۔ الم احسب الناس ان یترکوا الخ صحابہ کرام ؓ نے انہیں کہا بھیجا کہ تمہارے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تو وہ اب ہجرت کے لئے نکلے اور کفار نے ان کا پیچھا کیا باوجود مقابلہ کرنے کے کچھ مسلمان مارے گئے اور کچھ بچ کر مدینہ پہنچے تو پھر یہ آیت نازل ہوئی۔ ثم ان ربک للذین ھاجروا من بعد ما فتنوا ثم جاھدوا وصبروا ان ربک من بعدھا لغفور رحیم۔ (ازالۃ الخفا) اس تفسیر کی بنا پر یہ آیت مدنی ہوگی جیسا کہ ابن عباس ؓ کا ایک قول ہے کہ یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی۔ (واللہ اعلم) یہ تو مسلمانوں کی تسلی کے لئے شدائد اور مصائب کی حکمت بیان کی اب آگے ان کافروں کو تہدید فرماتے ہیں جو مسلمانوں کو ایذائیں اور تکلیفیں پہنچاتے تھے چناچہ فرماتے ہیں کیا وہ لوگ برائیاں کرتے ہیں جیسے کفر اور گناہ اور اہل اسلام کو ستانا اور ایذا پہنچانا اس گمان اور خیال میں ہیں کہ وہ ہماری گرفت سے چھوٹ جائیں گے اور بچ نکلیں گے سو ان کا یہ حکم لگانا بہت ہی برا ہے اور بالکل غلط ہے ہم عنقریب اپنے نبی کی مدد کریں گے اور سرکشوں کا سر توڑ ڈالیں گے۔ چناچہ چند روز بعد ایسا ہی ہوا۔ خدا کی مہلت سے یہ سمجھ لینا کہ آئندہ چل کر عذاب نہ ہوگا یہ غلط خیال ہے دنیا کی حکومت بھی اپنے مجرم کو فورا نہیں پکڑتی بلکہ کچھ مہلت دیتی ہے دنیاوی حکومت کی گرفت سے تو انسان چھوٹ بھی سکتا ہے مگر خدا کی گرفت سے کون چھوٹ سکتا ہے لہٰذا ان سرکشوں کا یہ خیال کہ اگرچہ ہم کتنی ہی نافرمانی کرتے رہیں ہم پر اللہ کا عذاب نازل نہ ہوگا یہ غلط حکم ہے جو عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہے یہ تو تکلیف دینے والوں کو تنبیہ اور تہدید تھی اب آئندہ ان تکالیف کے برداشت کرنے والوں کی طرف روئے سخن کر کے فرماتے ہیں جس شخص کو خدا سے ملنے کا اشتیاق اور امید ہو یا جس کو خدا سے ملنے کا خوف ہو یعنی اس کو ڈر ہو کہ ایک روز خدا کے سامنے پیشی ہوگی اور اس کے رو برو کھڑا ہونا ہوگا تو اس شخص کو دشمنوں کی ایذا رسانی سے مغموم اور پریشان نہ ہونا چاہئے بلکہ اس کو آخرت کی فکر کرنی چاہئے جس دن اس کی امید پوری ہوجائے گی اس لئے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت ضرور آنے والا ہے جس میں اس کی امید پوری ہوجائے گی اور خدا کی راہ میں سختیاں اٹھانے کا صلہ اس کو مل جائے گا اور اس کے سارے غم غلط ہوجائیں گے کما قال اللہ تعالیٰ وقالوا الحمد لللہ الذی اذھب عنا الحزن۔ اور اللہ ہی سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے اس سے بندوں کا کوئی قول اور فعل مخفی نہیں۔ 1 کذا فی استمرار التوبہ ص 41 وعظ پنجم از سلسلہ البلاغ۔ فائدہ : جاننا چاہئے کہ یرجوا کا لفظ دو معنی میں استعمال ہوتا ہے ایک امید اور دوسرے خوف۔ اس لئے تفسیر میں امید یا خوف کا لفظ استعمال کیا گیا۔ اور فان اجل اللہ لات۔ اگرچہ بظاہر جزا معلوم ہوتی ہے لیکن در حقیقت جزا محذوف کی علت ہے اور اصل کلام اس طرح سے ہے۔ من کان یرجوا لقاء اللہ فلیتھیا لہ ولیستعد لہ جس کا حاصل یہ ہے کہ جس کو خدا سے ملنے کا اشتیاق ہو اس کو آخرت کی تیاری کرنی چاہئے اور اس طرح جس کو خدا کا خوف ہو اس کو بھی تیاری لازم ہے امید ہو یا خوف ہر ایک کا مقتضی یہ ہے کہ آخرت کی تیاری کی جائے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ یہ سوچا کرے کہ خدا سے ملنے کا وقت ضرور آنے والا ہے اور جنت اور جہنم کے احوال کو دل سے سوچے اس سے طاعت میں رغبت اور معصیت سے نفرت پیدا ہوگی اور جوں جوں آخرت اور نعمائے آخرت کی رغبت بڑھے گی اسی قدر طاعت میں سستی اور غفلت اور کاہلی کم ہوتی جائے گی اسی وجہ سے حق تعالیٰ شانہ نے حضور ﷺ کی دو شانیں بیان فرمائی ہیں۔ مبشرا ونذیرا۔ بشارت دینے والے اور ڈرانے والے یعنی بندوں میں رغبت اور خوف پیدا کرنے والے۔ خوف سے معصیت کا تقاضا دور ہوگا اور بشارت دینے سے طاعات میں سستی اور کاہلی دور ہوگی ملحض از رجاء اللقا وعظ نمبر 23 از سلسلہ تبلیغ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ابتلا اور تکلیف شرعی کی حکمت بیان کی اب آئندہ آیات میں یہ بتلاتے ہیں کہ اس ابتلا اور تکلیف سے خدا کو خود کوئی فائدہ نہیں وہ تو اسے غنی ہے فائدہ خود بندہ کا ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور جو شخص اللہ کے کام میں محنت اور مشقت اٹھادے تو وہ اپنے ہی نفع کے لئے مشقت اور محنت اٹھاتا ہے ورنہ حق تعالیٰ تو بلاشبہ تمام جہانوں سے بےنیاز ہے وہ کسی مخلوق کی طاعت کا محتاج نہیں بندوں کو جو اعمال صالحہ کا حکم دیتا ہے وہ انہیں کے نفع کے لئے دیتا ہے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک کام کئے ہیں ہم ان کی برائیوں کو دور کردیں گے ایمان اور عمل صالح سے سیہء کا اثر نسیا منسیا ہوجاتا ہے اور البتہ تحقیق ہم ان کے اعمال کی بہترین جزا عطا کریں گے جو ان کے عمل سے کہیں زیادہ بہتر ہوگی ایک کے بدلہ میں دس سے لے کر سات سو گنا تک دیں گے اس لئے اہل ایمان کو چاہئے کہ کافروں کی ایذا رسانی سے گھبرائیں نہیں اور دین اسلام پر قائم اور مستقیم رہیں حتی کہ اگر ان کے والدین بھی کفر اور شرک پر مجبور کریں۔ چناچہ آئندہ آیت میں اس بارے میں ہدایت فرماتے ہیں کہ والدین کے ساتھ سلوک اور احسان ضروری ہے اگرچہ وہ کافر ہوں مگر کفر اور معصیت میں ان کی اطاعت جائز نہیں بیشک دنیا میں ماں باپ سے زیادہ حق کسی کا حق نہیں مگر اللہ کا حق ان سے بھی زیادہ ہے ماں باپ کی خاطر خدا کو نہ چھوڑے۔ سعد بن ابی وقاص ؓ کے اسلام پر ان کی والدہ کا مقاطعہء جوعی (یعنی بھوک ہڑتال) سعد بن ابی وقاص ؓ جب اسلام لے آئے تو ان کی والدہ جو مشرکہ تھیں ان کو اس کی خبر پہنچی کہ ان کا بیٹا ” صابی “ ہوگیا ہے تو انہوں نے قسم کھائی کہ مجھ پر کھانا اور پینا اور چھت کے نیچے بیٹھنا حرام ہے جب تک سعد محمد ﷺ کا انکار نہ کرے اور اس کے دین سے علیحدہ اور بیزار نہ ہوجائے اس طرح ان کی ماں پر تین دن گزر گئے تب حضرت سعد ؓ نے ماں سے کہا کہ اے ماں اگر تو سو بار مرے اور زندہ ہو تو میں دین اسلام کو نہیں چھوڑوں گا۔ سعد آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عرض حال کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ہم نے انسان کو بحق تربیت والدین کے ساتھ عظیم احسان کرنے کا تاکیدی حکم دیا ہے اگرچہ والدین کافر اور مشرک ہوں جب تک کہ والدین کفر اور شرک اور اللہ کی معصیت کا حکم نہ دیں تو اللہ کے حق سے بڑھ کر کسی کا حق نہیں اور اللہ کے حکم کے مقابلہ میں کسی کی اطاعت نہیں۔ ہم تم کو حکم دیتے ہیں کہ والدین کے ساتھ نیکی کرو اور اگر والدین تجھ پر زور دیں کہ تو میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرا جس کی تیرے پاس کوئی خبر اور دلیل نہیں تو تو ان کا کہنا نہ ماننا خالق کے مقابلہ میں مخلوق کی فرمانبرداری درست نہیں خوب سمجھ لو کہ تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے پس جزا دینے کے وقت تم کو آگاہ کر دوں گا جو تم دنیا میں کیا کرتے تھے اور ایک ایک کر کے تمہارے اعمال تم کو جتا دوں گا خویش و اقارب کی پاسداری کا خیال نہ کرو ہمارے سامنے کی حاضری اور پیشی کو پیش نظر رکھو۔ بالآخر تم کو ہمارے ہی پاس آنا ہے اور ہمارے رو برو پیش ہونا ہے اور یہ نہ سمجھنا کہ اس وقت ہم تم سے دور اور غائب ہیں اور تمہارے خویش و اقارب تمہارے سامنے حاضر ہیں اور تم کو چاہئے کہ ہمارے اس قانون اور ضابطہ کو یاد رکھو کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے اور اللہ کے مقابلہ میں کسی کی اطاعت نہیں کی اور مرتے دم تک اسی پر قائم رہے تو ہم ان کو ضرور بالضرور صالحین کے زمرہ میں داخل اور شامل کریں گے ایمان اور عمل صالح کی برکت سے ان کے گناہ معاف ہوں گے اور ان کے ساتھ صالحین جیسا معاملہ ہوگا اور بعضے لوگ جو منافق اور ضعیف الایمان ہیں اور زبان سے دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں پس ان کا حال یہ ہے کہ جب ان کو ایمان اور اسلام قبول کرنے کی وجہ سے راہ خدا میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو لوگوں کی اس ایذاء کو وہ اللہ کے عذاب کی مانند عظیم سمجھتا ہے اور اس فتنہ سے ڈر کر جو درحقیقت کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ایمان سے منہ موڑنے لگتا ہے اور لوگوں کی معمولی تکلیف کو اللہ کے عذاب کے برابر سمجھنے لگتا ہے منافق کا عجب حال ہے زبان سے تو اسلام کا دم بھرتا ہے مگر دل اس کا ہر دنیاوی مال ومنال کے گرد گھومتا رہتا ہے جدھر کوئی فائدہ نظر آتا ہے ادھر جھک جاتا ہے اور پھر لطف یہ ہے کہ اے نبی اگر کسی وقت تیرے پروردگار کی طرف سے جہاد میں تجھے فتح ونصرت اور غنیمت آجائے تو یہ منافق لوگ اس وقت مسلمانوں سے یہ کہتے ہیں کہ تحقیق ہم تمہارے ساتھ ہیں اور کلمہ گو ہیں اور مسلمان بھائی ہیں ہم کو بھی غنیمت میں شریک کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کیا اللہ تعالیٰ خوب نہیں جانتا جو جہان والوں کے سینوں میں اخلاص اور نفاق چھپا ہوا ہے اور خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ اس قسم کے واقعات سے مومنین کے اخلاص کو اور منافقین کے نفاق کو ظاہر کرتا رہتا ہے تاکہ ظاہری طور پر مخلص اور منافق کا امتیاز ہوجائے اللہ کو تو پہلے ہی سے معلوم تھا لیکن اس قسم کے امتحانات سے دنیا کو بھی منافق اور مخلص کا علم ہوجاتا ہے۔ ان آیات میں کفار مذبذبین اور منافقین اور ضیعف الایمان لوگوں کے فتنہ کا ذکر تھا اب آئندہ آیت میں ان پختہ کافروں کے فتنہ کا ذکر ہے کہ وہ کس طرح مسلمانوں کو راہ حق سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں اور بڑے پکے کافر نہایت ڈھٹائی سے اور بےباکی سے مسلمانوں سے یہ کہتے ہیں کہ تم ہماری راہ کی پیروی کرو اور باپ دادا کے طریقہ پر رہو اور آخرت کی فکر نہ کرو جنت اور دوزخ کوئی چیز نہیں۔ بالفرض اگر قیامت ہوئی تو ہم تمہارے گناہوں کا بوجھ اٹھالیں گے۔ تم بےفکر رہو تمہارے کفر اور شرک اور معصیت کے ہم ذمہ دار ہیں حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دعویٰ تو ان لوگوں کا یہ ہے کہ قیامت کے دن ہم تمہارے بوجھ اٹھالیں گے۔ حالانکہ یہ لوگ ان کے گناہوں سے کچھ بھی اٹھانے والے نہیں کسی میں یہ قدرت نہیں کہ وہ کسی کا گناہ اٹھا سکے۔ اور یہ لوگ قطعا جھوٹے ہیں محض ڈھٹائی اور بےباکی سے ایسی باتیں بناتے ہیں اور بلکہ اس کے برعکس ہوگا کہ یہ کفار قیامت کے دن اپنا بوجھ بھی اٹھا دیں گے اور اپنے بھاری بوجھوں کے ساتھ دوسرے بوجھ بھی اٹھا کر لادیں گے یعنی جن لوگوں کو انہوں نے گمراہ کیا تھا ان کے گناہوں کا بوجھ بھی ان کے سر پر لدا ہوا ہوگا۔ یعنی یہ لوگ دوسروں کو کیا سبکدوش کرسکتے ہیں ان کو تو دوہرا بوجھ اٹھانا پڑے گا اور قیامت کے دن تابع اور متبوع سب سے باز پرس ہوگی اس چیز کے متعلق جو باطل باتیں افترا کرتے تھے جس کے سبب مخلوق گمراہ ہوتی تھی اور پھر ان کو حسب جرم سزا دی جائے گی اب آئندہ آیات میں انبیاء سابقین کے ابتلا اور ان کے منکرین کے عبرتناک عذابوں کا ذکر کرتے ہیں۔
Top