Maarif-ul-Quran - Al-Ankaboot : 45
اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ١ؕ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ
اُتْلُ : آپ پڑھیں مَآ : جو اُوْحِيَ : وحی کی گئی اِلَيْكَ : آپ کی طرف مِنَ الْكِتٰبِ : کتاب سے وَاَقِمِ : اور قائم کریں الصَّلٰوةَ ۭ : نماز اِنَّ : بیشک الصَّلٰوةَ : نماز تَنْهٰى : روکتی ہے عَنِ الْفَحْشَآءِ : بےحیائی سے وَالْمُنْكَرِ ۭ : اور برائی وَلَذِكْرُ اللّٰهِ : اور البتہ اللہ کی یاد اَكْبَرُ ۭ : سب سے بڑی بات وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تَصْنَعُوْنَ : جو تم کرتے ہو
(اے محمد ! ﷺ یہ) کتاب جو تمہاری طرف وحی کی گئی ہے اس کو پڑھا کرو اور نماز کے پابند رہو کچھ شک نہیں کہ نماز بےحیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے اور خدا کا ذکر بڑا (اچھا کام) ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اسے جانتا ہے
اثبات رسالت محمدیہ وازالہ شکوک و شبہات منکرین نبوت قال اللہ تعالیٰ اتل ما اوحی الیک من الکتب واقم الصلوٰہ۔۔۔ الی۔۔۔ ذوقوا ما کنتم تعملون۔ (ربط) گزشتہ آیات میں توحید کا ذکر تھا اور اس بات کا ذکر تھا کہ انبیاء کرام (علیہم السلام) نے لوگوں کو توحید کی دعوت دی اور شرک سے منع کیا بالآخر وہ منکرین ہلاک ہوئے اب ان آیات میں آنحضرت ﷺ کی رسالت کا مضمون ذکر کرتے ہیں اور منکرین رسالت کے بعض شبہات کا جواب دیتے ہیں اور آنحضرت ﷺ کو حکم دیتے ہیں کہ ان کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کیجئے جو توحید کے مضامین پر اور گذشتہ امتوں کے حال اور مال پر مشتمل ہے اور آپ ﷺ کی رسالت کا عظیم معجزہ ہے عجب نہیں کہ آیات خداوندی کے انوار وبرکات سے ان کی ظلمتیں دور ہوجائیں اور نماز کو قائم کیجئے نماز ایک عجیب عبادت ہے جو فحشاء اور منکر کے دور کرنے میں تریاق کا حکم رکھتی ہے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تلاوت قرآن کا حکم دیا کہ بغیر اللہ کا حکم سنے کیسے راہ یاب ہوسکتے ہیں اور پھر نماز کا حکم دیا جو خشوع اور خضوع کی تصویر ہے بعد ازاں ذکر الٰہی کا حکم دیا جو نماز کی اور تمام عمل صالحہ کی روح ہے بلکہ تمام عالم کی روح ہے جب تک دنیا میں اللہ کا نام باقی ہے اس وقت تک دنیا قائم ہے بعد ازاں اہل کتاب سے مناظرہ اور مجادلہ کا طریقہ بتایا کہ ان کو حسن اسلوب سے حق کی دعوت دیجئے اس لئے کہ علماء اہل کتاب خوب جانتے ہیں کہ یہ وہی نبی آخر الزمان ﷺ ہیں جن کی گذشتہ پیغمبروں نے خبر دی ہے اور جو کتاب ہدایت و حکمت آپ ﷺ پر نازل ہوئی ہے وہ آپ ﷺ کی نبوت کی کافی اور شافی دلیل ہے یہ بات لوگوں کے سامنے ہے کہ آپ ﷺ امی ہیں لکھنا پڑھنا نہیں جانتے مگر علم و حکمت کے چشمہ آپ ﷺ کی زبان سے جاری ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ علم من جانب اللہ ہے وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی اس حجت واضحہ کے بعد بھی اگر معاندین ایمان نہ لائیں تو وہ اپنے انجام کو سوچ لیں۔ ٓ اس لئے اب آئندہ آیات میں اپنے نبی کو حکم دیتے ہیں کہ آپ ان منکرین کے عناد اور تکبر کی پروانہ کیجئے اور ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے رنجیدہ اور غمگین نہ ہو جیئے جو کتاب ہدایت اللہ کی طرف سے آپ ﷺ پر نازل ہوئی ہے اس کی تلاوت کرتے رہیے خود بھی پڑھیے اور دوسروں کو بھی سنائیے اور اقامت صلوٰۃ میں لگے رہئے اور کسی وقت اللہ کے ذکر سے غافل نہ ہوئیے خطابات تو حضور پر نور ﷺ کو ہیں مگر مقصود امت کو سنانا ہے۔ (یا یوں کہو) کہ گذشتہ آیات میں کفار کے احوال کو بیان کیا اب ان آیات میں مومنین کا بیان شروع ہوتا ہے اور ان کو ہدایتیں اور نصیحتیں کی جاتی ہیں کہ اے اہل ایمان تمہارے لئے تین چیزیں بہت ضروری ہیں۔ (1) اول تلاوت قرآن (2) دوم اقامت صلوٰۃ (3) سوم ذکر اللہ۔ چناچہ فرماتے ہیں اے نبی آپ ﷺ ان متکبرین اور ظالمین کے اعراض اور انکار کی پرواہ نہ کیجئے آپ برابر دعوت اور تبلیغ رسالت میں لگے رہیے اور جو کتاب بذریعہ وحی کے آپ کے پاس بھیجی گئی ہے اس کتاب کو آپ خود بھی پڑھیے تاکہ پیغام خداوندی کی مسلسل تبلیغ ہوتی رہے اور اس کی بار بار تلاوت سے آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا مزید قرب حاصل ہو قرآن کریم تقرب الیٰ اللہ کا ذریعہ ہے اور آپ کے قلب کو قوت حاصل ہو اور بار بار پڑھنے سے آپ ﷺ پر بیش از بیش کلام الٰہی کے اسرار اور معارف منکشف ہوں نیز قرآن کریم میں انبیا سابقین (علیہ السلام) کی دعوت اور تبلیغ کا اور ان کی امتوں کی تکذیب اور ایذا رسانیوں کا ذکر ہے ان کے بار بار پڑھنے سے آپ ﷺ کو تسلی ہوگی اور دنیا کی بےثباتی بار بار آپ کی نظروں کے سامنے آتی رہے گی اور علیٰ ہذا یہ کتاب دوسروں کو بھی پڑھ کر سنائیے تاکہ لوگ اس کو سن کر ہدایت پاویں اور نصیحت پکڑیں اور معاندین پر اللہ کی حجت پوری ہو کیونکہ یہ کتاب مستطاب اللہ کی نازل فرمودہ کتاب ہے جو دلائل توحید اور دلائل نبوت اور براہین پر مشتمل ہے اور اصول دین اور احکام شریعت اور مکارم اخلاق اور محاسن آداب کی حاوی اور ہادی ہے کیمیا سعادت اور کلید ہدایت ہے اور اگر یہ متکبرین (ف 1) اس کو نہیں سمجھتے تو اہل علم اور اہل فہم اس کو سمجھ لیں گے۔ غرض یہ کہ اس آیت میں اتل سے مطلق تلاوت مراد ہے جو خود پڑھنے کو اور دوسروں کے سامنے پڑھنے کو بھی شامل ہے اسی لئے اس آیت میں اتل علیہم نہیں فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ مطلق تلاوت کا حکم ہے خواہ خود تلاوت کریں اور دوسروں کے سامنے تلاوت کریں۔ 1 یہ عبارت اس لئے لکھی گئی تاکہ اس آیت کا گذشتہ آیت وما یعقلھا الا العالمون سے ربط ظاہر ہوجائے 12 اور آپ ﷺ ان متکبرین اور معرضین سے اعراض فرمائیے اور اللہ کی طرف متوجہ ہوجائیے اور نماز کو قائم کیجئے جو افضل ترین عبادت ہے اور تمام عبادات قولیہ اور فعلیہ کا لب لباب اور عطر ہے اور تسبیح اور تحمید اور تلاوت قرآن اور آداب عبودیت قیام اور رکوع اور سجود پر مشتمل ہے ابتدا نماز میں بصد خشوع و خضوع خدا کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونا ہے اور اخیر نماز میں دو زانو خدا کے سامنے بیٹھنا اور مانگنا ہے اور بلاشبہ نماز جیسی عظیم عبادت بشرطیکہ وہ اپنے شرائط اور آداب کے ساتھ ادا کی جائے اور حقیقۃ وہ صحیح نماز ہو تو ایسی نماز بلاشبہ بےحیائی سے اور ہر ناپسندیدہ فعل سے روکتی اور باز رکھتی ہے جو شخص نماز پر مداومت کرے گا تو ایک نہ ایک دن نماز اس کو کھینچ کر ترک معاصی وسیات کی طرف لے جائے گی جتنا نماز سے قریب ہوتا جائے گا اتنا ہی فحشاء اور منکر سے بعید ہوتا جائے گا کیونکہ نماز مقام مناجات ہے اور محل ادب ہے اور از اول تا آخر اللہ کی عظمت اور محبت اور عبودیت کے اقرار اور اعتراف پر مشتمل ہے لہٰذا ایسے اقرار واعتراف کے بعد فحشا اور منکر کا ارتکاب اپنے سابق اقرارو اعتراف کی تکذیب کے مترادف ہے اور علاوہ ازیں نماز کی حقیقت اور صورت از اول تا آخر ذکر الٰہی ہے۔ اور اللہ کا ذکر اور اس کی یاد سب سے برتر اور بڑھ کر ہے قلب کی ظلمتوں اور کدورتوں اور نجاستوں کے ازالہ کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی دو ما نہیں اور ذکر الٰہی نماز کا رکن اعظم ہے قد افلح من تزکی ترہیب کے لئے ارشاد فرماتے ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے جو تم کرتے ہو جیسا کرو گے اس کے مطابق جزا ملے گی آیت ان الصلوۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر کی تفسیر میں جو تقریر کی گئی اس سے وہ شبہ دور ہوگیا کہ جو لوگ کیا کرتے ہیں کہ بہت سے لوگ باوجودیکہ نماز کے پابند ہیں مگر پھر بھی برے کاموں کے مرتکب ہیں۔ جواب کا حاصل یہ ہے کہ آیت میں نماز کی خاصیت بیان کی ہے جیسے اطبا بیان کرتے ہیں کہ فلاں دوا کی خاصیت یہ ہے کہ اس سے بخار رک جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ دوا اپنے صحیح اور پورے اجزا پر مشتمل ہو تو اس دوا کا استعمال بخار کے روکنے میں موثر ہوتا ہے بشرطیکہ ایک خاص مدت تک اس دوا کا استعمال جا ری رکھا جائے اور اس کے ساتھ کوئی ایسی چیز استعمال نہ کی جائے جس کی خاصیت اس دوا کی خاصیت کے منافی ہو اور یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ایک خوراک پینے ہی سے بخار رک جائے گا۔ تمام عقلاء کا اتفاق ہے کہ دوا کی تاثیر جب ہوتی ہے کہ جب نسخہ کے تمام اجزا اصلی ہوں نقلی نہ ہوں اور ایک خاص مقدار کے ساتھ خاص مدت تک پابندی کے ساتھ نسخہ کا استعمال کیا جائے تب دوا کا اثر ظاہر ہوگا اور اس کے ساتھ یہ بھی التزام رکھا جائے کہ کوئی چیز ایسی استعمال نہ کی جائے کہ جس کی خاصیت دوا کی خاصیت کے منافی ہو۔ اسی طرح سمجھو کہ طبیب روحانی نے تمہاری روحانی بیماریوں کے لئے نماز کا نسخہ جو تجویز کیا ہے اس کو پورے اجزا اور صحیح اجزا یعنی خشوع اور خضوع اور آداب عبودیت کے ساتھ ایک مدت تک استعمال کرو اور جو چیزیں روح کے لئے سم قاتل کا حکم رکھتی ہیں ان سے پرہیز رکھو اور نماز میں فقط ظاہری طور پر قیام اور رکوع اور سجود کرلینا یہ نماز کی حقیقت نہیں بلکہ نماز کی ظاہری صورت ہے اور ظاہر ہے کہ دوا کا نام اور اس کی محض ظاہری صورت بیماری کو دور نہیں کرسکتی اور نماز کی روح اللہ کا ذکر اور اس کی یاد ہے جب تک نماز میں اللہ کا جلال اور اس کی عظمت مستحضر نہ ہو وہ نماز بےجان ہے اس لئے امام رازی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ ان الصلوۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر : صلاۃ سے مطلق نماز مراد نہیں بلکہ وہ نماز مراد ہے کہ جو شرعا صحیح ہو اور عند اللہ قابل قبول ہو اور نماز کے لئے شرط ہے کہ کپڑے پا ک صاف ہوں کما قال تعالیٰ وثیابک فطھر اسی طرح ضروری ہے کہ نمازی کا باطنی لباس یعنی لباس تقویٰ بھی طاہرو مطہر اور نظیف ہو اور اس پر فحشاء ومنکر کی نجاست اور گندگی لگی ہوئی نہ ہو اور جب اللہ اکبر کہہ کر نماز کے لئے کھڑا ہو تو دل سے یہ سمجھتا ہو کہ میں دربار خداوندی میں احکم الحاکمین کے سامنے کھڑا ہوں معاذ اللہ میں بھنگی نہیں ہوں کہ جو بیت الخلا کی نجاستوں کو اپنی بالٹی میں جمع کرتا ہے پس جو شخص نماز کی حقیقت کو اور اپنے مقام کو سمجھ لے گا تو وہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد فحشاء اور منکر کی جانب جانے سے ایسی ہی نفرت کرے گا جیسا کہ ایک عاقل شہنشاہ کے دربار سے نکلنے کے بعد بیت الخلا اور کوڑی کے دیکھنے سے بھی نفرت کرتا ہے۔ غرض یہ کہ ان الصلوۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر میں صلاۃ سے مطلق صلاۃ مراد نہیں بلکہ وہ نماز مراد ہے کہ شرعا صحیح ہو اور آداب عبودیت اور شروط ظاہری اور باطنی کی جامع ہو بلاشبہ ایسی نماز کا اثر یہ ہے کہ فی الحال یا فی المال بدیر یا بسویر فحشاء اور منکر سے ضرور روک دے گی حق جل شانہ نے اس آیت میں تین باتوں کا ذکر فرمایا (1) ایک تلاوت کتاب کا اور ایک (2) اقامت صلاۃ کا اور (3) پھر ذکر اللہ کا اور ذکر اللہ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ذکر الٰہی سب سے بڑھ کر ہے جس سے اللہ کی کمال عظمت اور کمال محبت کی طرف اشارہ ہے کما قال تعالیٰ فاذکروا اللہ کذکرکم اباؤکم او اشد ذکرا یعنی جس طرح عظمت اور محبت کے ساتھ تم اپنے آبا و اجداد کا ذکر کرتے ہو اسی طرح عظمت اور محبت کے ساتھ اللہ کا ذکر کیا کرو بلکہ اس سے بڑھ کر۔ (دیکھو تفسیر کبیر للامام الرازی ص 532 ج 5) حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ فلاں شخص رات میں نماز پڑھتا ہے اور دن میں چوری کرتا ہے اور برے کام کرتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا عنقریب نماز اس کو اس چیز سے روک دے گی جو تو کہہ رہا ہے چناچہ کچھ روز نہ گذرے تھے کہ اس شخص نے توبہ کی اور اس کا حال درست ہوگیا آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تم سے کہا نہ تھا۔ (دیکھو تفسیر قرطبی ص 347 ج 13 ) مطلب یہ تھا کہ یہ ضروری نہیں کہ دوا پیتے ہی شفا ہوجائے بعض مرتبہ کچھ عرصہ بعد بیماری کا ازالہ ہوتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ دوا کا استعمال نہ چھوڑے اگرچہ بدرپرہیزی بھی کرتا رہے۔ فا ئدہ : جاننا چاہئے کہ ہر عمل کی ایک خاص خاصیت ہوتی ہے قرآن کریم اللہ کا کلام ہے جو دل کو منور کرتا ہے اور دل سے جہالت کی ظلمت کو دور کرتا ہے اور نماز دل میں اللہ کی محبت اور عظمت پیدا کرتی ہے اور معصیت سے متنفر اور بیزار کرتی ہے جس کا ثمرہ قرب الٰہی ہے اور ذکر الٰہی دل سے اللہ کی غفلت کو دور کرتا ہے اور دل کی اصل بیماری خدا تعالیٰ سے غفلت ہے۔ (ربط) گذشتہ آیات میں اہل شرک سے مجادلہ اہل کتاب ہیں جو اصل اور بنیاد تو رکھتے ہیں اور آسمانی کتاب اور پیغمبر برحق کے قائل ہیں برخلاف مشرکین اور محبوس کے کہ ہی سے باطل محض ہیں۔ اور اے مسلمانو اگر اہل کتاب تمہاری کتاب کے منزل من اللہ ہونے کا انکار کریں تو اہل کتاب کے ساتھ مجادلہ اور مباحثہ نہ کرو مگر بطریق احسن یعنی اس طریقہ کے ساتھ کہ جو بہتر ہو دلائل اور براہین سے ان پر حق واضح کرو کیونکہ اہل کتاب فی الحال اگرچہ گمراہ ہیں مگر ایک اصل تو رکھتے ہیں آسمانی کتاب اور نبی برحق کے قائل ہیں بخلاف مشرکین اور مجوس کے کہ ان کی اصل بنیاد ہی غلط ہے وہ قابل مجادلہ اور مباحثہ کے قائل ہیں بخلاف مشرکین اور مجوس کے کہ ان کی اصل بنیاد ہی غلط ہے وہ قابل مجادلہ اور مباحثہ نہیں لہٰذا اہل کتاب سے مجادلہ میں نرمی بر تو وہ اگر خشونت اور سختی کریں تو تم ان کے ساتھ نرمی کرو اور اگر وہ بدمزگزی کریں تو اس کے مقابلہ میں خوش خوئی کرو مطلب یہ ہے کہ گفتگو میں اہل کتاب کے ساتھ مشرکین کا سا معاملہ نہ کرو اس لئے کہ مشرکین کا دین اصل سے ہی غلط ہے اور اہل کتاب کا دین اصل میں سچا تھا بعد میں بگڑا نیز اہل کتاب اہل علم ہیں کسی درجہ میں توحید کا اقرار کرتے ہیں اور انبیاء (علیہ السلام) کی نبوت کے قائل ہیں مگر ان میں سے جو ضدی اور بےانصاف ہیں اور کھلے طور پر عناد پر اترے ہوئے ہیں اگر ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرو اور ترکی بتر کی ان کو جواب دو تو ایسا کرسکتے ہیں اور وہ طریقہ احسن یہ ہے کہ مثلاً تم ان سے یہ کہو کہ ہم اس کتاب پر ایمان لائے کہ جو من جانب اللہ ہماری طرف اتاری گئی اور ہم ان کتابوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو من جانب اللہ تم پر نازل کی گئیں کیونکہ مدار ایمان کا منزل من اللہ ہونا ہے پس جس طرح اللہ کی طرف سے توریت اور انجیل اور دیگر کتب سماویہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء (علیہم السلام) سابقین پر لوگوں کی ہدایت کے لئے اتریں اسی طرح سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ ﷺ پر من جانب اللہ یہ قرآن نازل ہوا جو کتاب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وحضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ کی طرف نازل ہوئی وہ حرف بحرف حق تھی ان سب پر ہمارا ایمان ہے مگر وہ آسمانی کتابیں اب اپنی اصل صورت اور حقیقت پر باقی نہیں رہیں بکثرت ان میں تغیر وتبدل واقع ہوا اور بہت سی جھوٹی باتیں ان میں خلط ملط ہوگئیں جن کے معلوم ہونے کی اب کوئی صورت نہیں ہم موجودہ توریت وانجیل کی نہ تصدیق کرتے ہیں اور نہ تکذیب کرتے ہیں اور ہم صرف اس توریت وانجیل پر ایمان لاتے ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھیں۔ پس جس دلیل سے تم توریت اور انجیل کو منزل من اللہ مانتے ہو اسی دلیل سے قرآن بھی منزل من اللہ ہے لہٰذا تم کو قرآن پر بھی ایمان لانا چاہئے اور اے مسلمانو بوقت مباحثہ اہل کتاب سے یہ بھی کہو کہ ہمارے تمہارے درمیان توحید الٰہی مسلم ہے اور تم تسلیم کرتے ہو کہ ہمارا معبود اور تمہارا معبود ایک ہے سو جب توحید ہمارے اور تمہارے درمیان مسلم ہے تو پھر تم حضرت مسیح (علیہ السلام) اور حضرت عزیر (علیہ السلام) کو کیوں خدا اور خدا کا بیٹا قرار دیتے ہو اور ہم تو اسی ایک خدائے برحق کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں جس کی وحدانیت تم کو بھی تسلیم ہے لہٰذا تم کو چاہئے کہ ایک ہی خدا کے سامنے سر تسلیم خم اور اپنی مسلمہ بات ہے انحراف نہ کرو اور اے نبی جس طرح ہم نے آپ ﷺ سے پہلے رسولوں پر کتابیں نازل کیں اسی طرح ہم نے آپ پر یہ کتاب (قرآن) اتاری جو تمام کتب سماویہ کا خلاصہ اور لب لباب اور تمام علوم ہدایت کا عطر ہے پس اس کتاب پر ایمان لانا درحقیقت تمام کتب الٰہیہ پر ایمان لانا ہے اور اس کا انکار درپردہ تمام کتب الٰہیہ کا انکار ہے پس جن لوگوں کو ہم نے توریت اور انجیل دی اور انہوں نے اپنی کتاب کو ٹھیک سمجھا اور ضدی اور عنادی نہیں وہ آپ والی کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں کیونکہ انہوں نے جان لیا کہ قرآن کریم علوم ہدایت میں توریت وانجیل سے بہت بلند ہے پس کیا وجہ ہے کہ ایسی لاجواب کتاب پر ایمان نہ لایا جائے۔ پس علما اہل کتاب میں سے عبد اللہ بن سلام ؓ اور سلمان فارسی ؓ جیسے تو فورا اس قرآن پر ایمان لے آئے اور ان اہل عرب میں سے بھی بعضے ایسے ہیں جو اس کو مانتے ہیں اور ہماری اس کتاب کی آیتوں کا انکار نہیں کرتے مگر وہی لوگ کہ جو بڑے سخت کافر ہیں اور ہٹ دھرمی پر اترے ہوئے ہیں ” جحود “ لغت میں اس انکار کو کہتے ہیں کہ جو ہٹ دھرمی کی بنا پر ہو اور اس کتاب کے کتاب الٰہی ہونے کی عقل دلیل یہ ہے کہ اے نبی آپ نزول قرآن سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ کوئی کتاب اپنے داہنے ہاتھ سے لکھتے تھے یعنی نہ آپ ﷺ لکھنا جانتے تھے اور نہ پڑھنا جانتے تھے اگر ایسا ہوتا تو ایسی صورت میں یہ باطل پرست شک میں پڑجاتے اور یہ کہتے کہ یہ تو لکھے پڑھے ہیں آسمانی کتابوں کو دیکھ کر یہ مضامین بیان کرتے ہیں اور جب سب کو معلوم ہے کہ حضور پر نور ﷺ امی ہیں تو اب اس کے کہنے کی بھی گنجائش نہ رہی بجز اس کے کہ یہ کتاب وحی الٰہی اور منزل من السماء ہے کسی بندہ کی بنائی ہوئی اور لکھی ہوئی نہیں غرض یہ کہ اس قرآن کے بارے میں کسی شک اور شبہ کی گنجائش نہیں بلکہ یہ قرآن تو کتاب الٰہی کی روشن آیتیں ہیں جو اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں بالفرض اگر دنیا کے تمام قرآن گم ہوجائیں تو ہر شہر میں حافظوں کے سینوں سے دوبارہ لکھا جاسکتا ہے اسی وجہ سے اس امت کے اوصاف میں یہ آیا ہے صدورہم انا جیلہم یعنی ان کے سینے ہی ان کی انجیل ہوں گے یعنی نبی آخر الزمان ﷺ پر جو کتاب نازل ہوگی وہ اس امت کے سینوں میں محفوظ ہوگی اور ہر حافظ کا سینہ ہی انجیل ہوگا چناچہ زمین کے ہر خطہ میں اس کے بیشمار حافظ موجود ہیں اور پورا قرآن لفظ بلفظ ان کے سینوں میں محفوظ ہے اور توریت وانجیل کے تو کسی ایک باب کا بھی آج تک روئے زمین پر کوئی کچا پکا حافظ بھی نہیں ہوا چودہ سو سال سے اب تک قرآن کے الفاظ اور معانی حفاظ اور قرا اور علماء کے سینوں میں محفوظ چلے آرہے ہیں جو چیز کاغذوں میں لکھی ہوئی ہو تو اس میں یہ احتمال ہے کہ پانی سے اس کے حروف دھل جائیں یا مٹ جائیں یا آگ سے جل جائیں لیکن جو چیزہزاروں اور لاکھوں سینوں میں محفوظ ہو اس کے ضائع ہونے کا کوئی امکان نہیں علماء اہل کتاب میں کچھ ہمت ہے تو روئے زمین پر توریت وانجیل کا ایک ہی کچا پکا حافظ دنیا کے سامنے پیش کردیں قرآن تو حافظوں کے سینوں میں محفوظ ہے یہود اور نصاری بتلائیں کہ توریت وانجیل کس کے سینہ میں محفوظ ہے بالفرض والتقدیر اگر صفحہ ہستی سے توریت کے تمام نسخے اور قرآن مجید کے تمام نسخے گم ہوجائیں تو مسلمان تو اپنا قرآن حافظوں کے سینوں سے دوبارہ کتابت کر کے شائع کردیں گے اور یہود اور نصاریٰ کس سینہ سے توریت اور انجیل لکھوا کر شائع کریں گے۔ پس یہ قرآن بارگاہ الٰہی سے نازل ہوا ہے معاذ اللہ حضور پر نور ﷺ کا بنایا ہوا نہیں اور ہماری نازل کردہ آیتوں کا نہیں انکار کرتے مگر وہی لوگ کہ جو بڑے بےانصاف اور ہٹ دھرم ہیں یہاں تک اہل کتاب کے ساتھ بطریق احسن مجادلہ تھا اور ان کے ظلم اور عناد کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ یہ ظالم ہٹ دھرمی سے یہ کہتے ہیں کہ اس پیغمبر پر اس کے پروردگار کی طرف سے وہ نشان کیوں نہیں اتارے گئے جو پہلے پیغمبروں پر اتارے گئے جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا کا نشان دیا گیا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو احیا موتی اور ابرا اکمہ وابرص کا معجزہ دیا گیا آپ ان کے جواب میں کہہ دیجئے کہ نشانیاں تو اللہ کے اختیار میں ہیں جس نے اپنی حکمت سے ان کو انبیا میں تقسیم کیا جیسے رزق کو اپنی حکمت سے بندوں میں تقسیم کیا ہر نبی کو ایک خاص نشان دیا جو دوسرے نبی کو نہیں دیا ورنہ یہ باطل پرست یہ کہتے کہ ایک ہی سحر ہے جو بطور میراث مسلسل چلا آرہا ہے اللہ تعالیٰ نے پہلے بہت سے معجزات مجھ کو عطا کئے کہ جو انبیا سابقین کو عطا نہیں ہوئے مثلاً شق قمر اور تسلیم شجر وحجر وغیرہ وغیرہ جن کی تفصیل کتب حدیث میں مذکور ہے۔ غرض یہ کہ اے نبی آپ ﷺ ان معاندین سے یہ کہہ دیجئے کہ معجزات اور نشانات میرے قبضہ قدرت میں نہیں وہ سب کے سب اللہ کے اختیار میں ہیں اور میں تو صرف عذاب الٰہی سے ڈرانے والا اور حق کو ظاہر کرنے والا ہوں اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کی صداقت کے لئے نشان دکھلائے ہیں اور میری صداقت کے لئے بھی بہت سے نشان دکھلائے ہیں اور کیا منکرین کے لئے یہ نشان کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر یہ کتاب مستطاب نازل کی جو دن رات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہے جس کا اعجاز روز روشن کی طرح واضح ہے عرب اور عجم اس کی ایک آیت کا مثل لانے سے عاجز رہے اور یہ نشان تو قیامت تک باقی رہے گا آپ ﷺ کی نبوت کی یہ نشانی تو دائمی ہے کیا یہ نشان ان کے لئے کافی نہیں اس سے بڑھ کر اور کیا نشان ہوگا۔ بیشک اس کتاب معجز میں رحمت ہے اور نصیحت ہے ان لوگوں کے لئے جو کتاب پر ایمان لائے ہیں جو اس کا اتباع کرے گا وہ اللہ کی رحمتوں اور نعمتوں سے بہرہ ور ہوگا اور یہ کتاب سر تا پا نصیحت ہے بری باتوں سے منع کرتی ہے اور اگر کسی بدبخت کو یہ کتاب ہدایت سراپا نصیحت کافی نہ ہو تو پھر اس کے لئے کوئی معجزہ کافی نہیں ہوسکتا اور اے نبی اگر یہ منکرین نبوت اس کتاب معجز کو بھی آپ ﷺ کی رسالت کے ثابت کرنے کے لئے کافی نہ سمجھیں تو ان سے کہہ دیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان میری رسالت کا گواہ ہونے کے لئے بس اللہ کافی ہے وہ خوب جانتا ہے ہر اس چیز کو جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے پس جس ذات نے مجھ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اس پر میری رسالت پوشیدہ نہیں اس نے میری رسالت پر ہزارہا دلائل قائم کئے وہ سب من جانب اللہ میری نبوت کے گواہ ہیں اور وہ خوب جانتا ہے کہ تم حق بات کا انکار کرتے ہو اور باطل کا اقرار کرتے ہو اور جو لوگ باطل پر ایمان لائے اور اللہ سے منکر ہوئے ایسے ہی لوگ خسارہ میں پڑنے والے ہیں کہ انہوں نے حق کے بدلہ میں باطل کو اختیار کیا اور اب ان کی بےباکی کا یہ عالم ہے کہ اے نبی آپ ﷺ جب ان کو اللہ کے عذاب سے ڈراتے ہیں تو یہ لوگ بطور تکذیب و استہزا آپ سے جلدی عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں کہ جس عذاب سے آپ کو ڈراتے ہیں وہ ابھی لے آؤ دیکھیں وہ کیسا عذاب ہے اور کہتے ہیں اللہم ان کان ھذا ھو الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السماء اوائتنا بعذاب الیم یعنی یہ کہتے ہیں کہ اے اللہ اگر یہ دین اور یہ قرآن تیرے پاس سے ہے اور حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا اور کوئی دردناک عذاب نازل فرما اس طرح اللہ کے عذاب کا استہزا اور تمسخر یہ بھی ان کے خسران کی دلیل ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اور اگر ان کے عذاب کی میعاد مقرر نہ ہوتی تو ابھی ان کو عذاب آپہنچتا لیکن خدا تعالیٰ کے یہاں ہر چیز کا ایک وقت معین ہے وہ اپنے وقت پر آتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے وقت موعود تک مہلت دیتا ہے اور گھبرائیں نہیں وہ عذاب ان پر اچانک آئے گا اور ان کو اس کی آمد کی خبر بھی نہ ہوگی اور یہ بےشعور اور بےعقل اپنی جہالت اور حماقت سے آپ سے جلدی عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر آپ ﷺ حق پر ہیں تو اپنے منکرین پر فورا عذاب لے آئیے اور اس میں شک نہیں کہ دوزخ کافروں کو اپنے احاطہ اور گھیرے میں لئے ہوئے ہے دنیا میں کفر کے اسباب ان کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہیں اور آخرت میں تو اس کا مشاہدہ ہوجائے گا کہ کافروں کو عذاب کس طرح اپنے گھیرے میں لیتا ہے جس دن وہ عذاب ان کے سروں کے اوپر سے بھی ان کو گھیرے گا اور پیروں کے نیچے سے بھی گھیرے گا جو لوگ ملائکہ اور کواکب اور ارواح کی پرستش کرتے تھے ان پر اوپر سے عذاب آئے گا اور جو لوگ شجر وحجر کی پرستش کرتے تھے اور سفلی خواہشوں میں گرفتار تھے ان پر نیچے سے عذاب آئے گا اور اللہ تعالیٰ خود یا فرشتہ کے ذریعہ دوزخیوں سے کہے گا چکھو مزہ اس چیز کا جو تم دنیا میں کرتے تھے دنیا میں تم نے جو کفر کیا تھا ابھی تک تم نے اس کا مزہ نہ چکھا تھا اب چکھ لو کہ کفر ایسا ہوتا ہے اور یہ وہی عذاب ہے جس کو دنیا میں جلدی طلب کر رہے تھے۔ لطائف ومعارف گزشتہ آیات میں یہ بتایا گیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ امی تھے لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے اہل کتاب حضور پر نور ﷺ کے امی ہونے کے قائل نہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ تعلیم یافتہ اور لکھتے اور پڑھے تھے۔ جواب یہ کہ اچھا اگر ایسا ہے تو آپ تاریخی حیثیت سے اس استاد اور معلم کا نام بتلائیے کہ جس نے آپ ﷺ کو ان علوم و معارف کی تعلیم دی جن سے قرآن اور حدیث بھرا پڑا ہے۔ (1) عقلا یہ کیسے ممکن ہے کہ چار دانگ عالم میں محمد رسول اللہ ﷺ کے علم اور حکمت کا تو ڈنکا بج جائے اور جس فاضل اور کامل استاد نے آپ ﷺ کو یہ علوم سکھائے اس کو دنیا تو کیا جانے وہ دشمن بھی نہ جان سکے جو آپ ﷺ کے ہمعصر تھے اور آپ کی زندگی میں آپ ﷺ پر یہ طعن کرتے تھے کہ آپ پر باتیں کسی سے سیکھ کر آتے ہیں تعلیم کے لئے یہ ضروری ہے کہ متعلم معلم کے پاس بار بار حاضر ہوا اور پابندی کے ساتھ اس کی خدمت میں حاضر ہوتا رہے اور ظاہر ہے کہ اس کے لئے ایک مدت مدید چاہئے مقام حیرت ہے کہ اہل مکہ کو ساری عمر اس کا پتہ نہ چلا کہ آپ ﷺ کس سے یہ علم حاصل کر کے آتے ہیں اور مجلس میں آکر اپنی وحی کہہ کر سناتے رہتے ہیں آخر مکہ میں وہ کون سا پوشیدہ مکان یا تہ خانہ تھا جس میں آپ نے جا کر اور چھپ کر تعلیم پائی جس کا ساری عمر ابوجہل اور ابو لہب اور امیہ بن خلف کو پتہ نہ چلا اور نہ اس راستہ کا کسی کو علم ہوا کہ آپ فلاں راستہ اور فلاں گلی کوچہ سے فلاں شخص کے پاس فلاں وقت علم سیکھنے جاتے ہیں اور نہ یہ پتہ چلا کہ اس زمین دوز تہ خانہ میں کون سا فاضل چھپا بیٹھا ہے جو آپ ﷺ کے تنہائی میں یہ عجیب و غریب علوم سکھا دیتا ہے اور خود اس تہ خانہ سے باہر قدم نہیں نکالتا اور نہ سوائے محمد رسول اللہ ﷺ کے کسی کو اس تہ خانہ کے اندر قدم رکھنے کی اجازت دیتا ہے آخر وہ معلم کہاں چھپا ہوا تھا کہ ساری عمر کسی نے اس کی صورت نہ دیکھی۔ (2) اور اگر بالفرض اس فاضل معلم نے کسی مصلحت سے اپنے آپ کو مکہ کے کسی خانہ یا تہ خانہ میں رکھا تو اہل مکہ کو کیا ہوا کہ ہلہ بول کر اس کے مکان گھس جاتے اور اس سے کہتے کہ آپ تشریف لائیے غرض یہ کہ ایسے فاضل استاد کا جس نے بزعم دشمنان اسلام محمد رسول اللہ ﷺ کو تعلیم دی ہوتا ریخ عالم میں نام ونشان نہ ملنا سراسر خلاف عقل ہے۔ (3) پھر یہ کہ جس معلم نے آپ ﷺ کو اولین اور آخرین کے علوم کی اور توریت اور انجیل کی باتیں اور انبیا سابقین کی شریعتوں کی تعلیم دی لامحالہ اس کے پاس بڑا عظیم کتب خانہ بھی ہوگا نہ معلوم وہ کتب خانہ مکہ کے کس مکان میں چھپا ہو اتھا جس کا آج تک کسی کو پتہ نہیں چلا۔ (4) نیز اس سے معلم کو کیا داعی پیش آیا جس سے ساری عمر اس نے اپنی تعلیم کو مخفی رکھا اور کسی متنفس پر یہ ظاہر ہونے نہیں دیا کہ محمد ﷺ مجھ سے تعلیم پاتے ہیں اور میرے شاگرد ہیں فضلا ہمیشہ اس پر فخر کرتے آئے کہ فلاں اور فلاں نے مجھ سے علم حاصل کیا ہے اس معلم نے کبھی اس پر فخر نہ کیا کہ ” محمد صاحب “ میرے شاگرد ہیں اور کیا اس فاضل معلم کا کوئی اور شاگرد نہ تھا کہ جو برسر مجلس آپ سے یہ کہتا کہ آپ جو یہ کہتے ہیں کہ مجھ پر یہ وحی نازل ہوئی ہے غلط ہے یہ ساری باتیں آپ فلاں شخص سے سیکھ کر آئے ہیں۔ (5) پھر یہ کہ وہ معلم اگر مشرکین میں سے تھا تو اس نے آپ ﷺ کو توحید کے علم اور اس کے دلائل کی اور شرک کے ابطال اور اس کے دلائل کی اور مشرکین کی تحمیق اور تجہیل کی تعلیم کیسے دی جس سے سارا قرآن بھرا پڑا ہے اور اگر وہ معلم یہود میں سے تھا تو اس نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی منقبت اور فضیلت کی اور ان کی والدہ مطہرہ مریم صدیقہ (علیہ السلام) کی براءت اور نزاہت اور طہارت کی کیسے تعلیم دی اور علما یہود کو توریت کی تحریف پر کیسے ملامت کی اور ان کی غلط بیانیوں پر کیسے ان کو فضیحت کی اور اگر وہ معلم نصرانی تھا تو اس نے تثلیث اور حضرت مسیح بن مریم (علیہ السلام) کے الوہیت کے ابطال کی کیسے تعلیم دی اور حضرت مسیح کے قتل اور صلب کی تردید اور ان کے رفع الی السماء کی تعلیم کیسے دی۔ خلاصہ کلام یہ کہ تاریخی حیثیت سے بھی محمد رسول اللہ ﷺ کا امی ہونا روز روشن کی طرح ایسا واضح ہے کہ جس میں ذرہ برابر انکار بلکہ تردد کی بھی گنجائش نہیں۔
Top