Maarif-ul-Quran - Yaseen : 41
وَ اٰیَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَهُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِۙ
وَاٰيَةٌ : اور ایک نشانی لَّهُمْ : ان کے لیے اَنَّا : کہ ہم حَمَلْنَا : ہم نے سوار کیا ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد فِي الْفُلْكِ : کشتی میں الْمَشْحُوْنِ : بھری ہوئی
اور ایک نشانی ان کے لئے یہ ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا
دلیل سوم قال اللہ تعالیٰ وایۃ لہم انا حملنا ذریتہم فی الفلک المشحون۔۔۔ الی۔۔۔ الا رحمۃ منا ومتاعا الی حین۔ یہ اس کی قدرت کی تیسری دلیل ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدرت سے گراں بار کشتیوں کو دریا میں چلاتا ہے جن پر تم لمبے لمبے سفر کرتے ہو اگر وہ غرق کر دے تو کون ہے جو تمہاری فریاد رسی کرسکے یہ اس کی رحمت ہے کہ وہ تمہیں غرق نہیں کرتا یہ گراں بار کشتیاں اس کی قدرت کی بھی دلیل ہیں اور اس کی نعمت اور رحمت کی بھی دلیل ہیں ایک سمندر میں بڑے سے بڑے جہاز کی ایک تنکے کے برابر بھی حقیقت نہیں اللہ کی رحمت سے سہولت کے ساتھ سفر طے ہوجاتا ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور ایک نشانی ان کے لئے یہ ہے کہ ہم نے ان کی ذریت کو بھر ہوئی کشتی میں سوار کیا کہ وہ بھری ہوئی کشتی گہرے پانی میں تخت کی طرح چلتی ہے جس کا آغاز نوح (علیہ السلام) سے ہوا اور اس کے علاوہ ہم نے ان کے لئے کشتی کی مانند ایسی چیز پیدا کی جس پر وہ سواری کرسکیں جیسے اونٹ اور گھوڑے اور خچر وغیرہ وغیرہ۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ خلقنا لہم من مثلہ ما یرکبون سے وہ تمام قسم کے جہاز اور کشتیاں مراد ہیں جو کشتی اول کے بعد اس کی مماثلت اور مشابہت میں بنائی گئیں یہ معنی ابن عباس ؓ اور حسن بصری (رح) سے منقول ہیں (تفسیر قرطبی ص 35 ج 15) بہرحال لوگوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کے شکر گذار ہوں کہ اس نے اپنی رحمت سے بر اور بحر میں تمہاری سواری اور بار برداری کا انتظام کردیا اور اگر ہم چاہیں تو اہل کشتی کو دریا میں غرق کردیں پس کوئی نہ ان کے لئے فریاد رس ہو جو ان کو غر ق سے بچا لے اور نہ یہ لوگ مصیبت اور آفت سے چھٹکارا پاسکتے ہیں مگر یہ کہ رحمت کریں ہم اپنی طرف سے اور فائدہ پہنچا دیں ان کو ایک وقت مقرر تک دنیوی زندگی تک یعنی جب ہم ان کو ایک خاص وقت تک فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں تو ان کو نہیں ڈبوتے یہ سب ہماری رحمت اور عنایت ہے ورنہ وہ تو کفر اور شرک کی وجہ سے غرق ہی کے مستحق تھے۔
Top