Maarif-ul-Quran - Yaseen : 48
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں مَتٰى : کب ھٰذَا الْوَعْدُ : یہ وعدہ اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
اور کہتے ہیں کہ اگر تم سچ کہتے ہو تو یہ وعدہ کب (پورا) ہوگا ؟
منکرین حشر ونشر کی تہدید اور وعید قال اللہ تعالیٰ ویقولون متی ھذا الوعد۔۔۔ الی۔۔۔ انا نعلم ما یسرون وما یعلنون۔ (ربط) گذشتہ آیات میں زیادہ تر دلائل توحید کا ذکر تھا اور اس سے ذرا پہلے وان کل لما جمیع لدینا محضرون میں مسئلہ حشر ونشر کا ذکر تھا اب پھر مسئلہ حشرونشر کی طرف رجوع فرماتے ہیں اور ان کا ایک سوال نقل فرماتے ہیں ویقولون متی ھذا الوعد ان کنتم صدقین : یعنی یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ قیامت کا وعدہ کب پورا ہوگا اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں اس کے وقت کے اظہار سے مصلحۃً اعراض فرمایا اور اجمالی طور پر صرف اتنا بتا دیا کہ قیامت نا گہاں آئے گی جب لوگ اپنے کاروبار میں مصروف ہوں گے ناگہاں صور پھونکا جائے گا اور پھر اس دن کے بعض ہولناک واقعات سے آگاہ کردیا اور بعد ازاں حشرونشر کے مکذبین اور مستہزئین پر تہدید فرمائی اور بتلایا کہ تم عذاب آخرت کے منکر ہو یہ بھی ممکن ہے کہ خدائے قہار کی طرف سے دنیا ہی میں تم پر کوئی عذاب آجائے اور اپنے اس ارشاد ولو نشاء لطمسنا علی اعینہم الخ میں دنیاوی عذاب سے تہدید ہے کہ تم آخرت کے عذاب کا انکار کرتے ہو خدا کی قدرت سے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ تم پر دنیا ہی میں کوئی عذاب بھیج دے خدا تعالیٰ دنیا ہی میں تمہارے طمس اور مسخ پر قادر ہے اور اس کے بعد ومن نعمرہ ننکسہ فی الخلق سے بڑھاپے کے تغیر کو ذکر کیا جو طمس اور مسخ کے قریب قریب ہے اور طمس اور مسخ کا ایک نمونہ ہے اس قسم کی باتوں سے قرآن بھرا پڑا ہے یہ سب خدا کی قدرت کے براہین قاطعہ اور دلائل ساطعہ ہیں اور حق شناسی کے لئے کافی اور شافی ہیں مگر یہ معاندین قرآن کریم کے اس قسم کے حقائق اور معارف کو اور حکمت اور موعظت کی باتوں کو سن کر یہ کہتے ہیں کہ یہ سب شاعرانہ باتیں جن کو محمد ﷺ شاعر انہ رنگ میں بیان کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ان کی یہ بات بالکل بیہودہ اور غلط ہے وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ ہم نے اپنے نبی کو ہرگز شعر کی تعلیم نہیں دی اور نہ یہ منصب نبوت کے لائق اور مناسب ہے یہ قرآن تو خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو حکمت اور موعظت سے بھرا پڑا ہے پھر اس کے بعد شرک کی برائی بیان کی اور دلائل قدرت سے توحید کا اثبات فرمایا اور اسی پر سورت کو ختم کیا۔ (ربط دیگر) گزشتہ آیات میں ان کے بخل اور خست کو اور نصیحتوں اور ہدایتوں سے اعراض کو بیان کیا اب آئندہ آیات میں ان کی وجہ بیان فرماتے ہیں کہ اس اس قسم کے مکارم اخلاق اور محاسن اعمال سے اعراض کی اصل وجہ ہے کہ آخرت پر ایمان نہیں چناچہ فرماتے ہیں اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے وقت سے خاتم الانبیا کے وقت تمام انبیا قیامت کی اور آخرت کی جزا وسزا کی متواتر اور برابر خبر دیتے چلے آئے جس میں ذرہ برابر شک نہیں مگر یہ گمراہ اس کو بعید سمجھتے ہیں اور نہایت بیباکی سے یہ کہتے ہیں کہ کہاں ہے وہ قیامت کا وعدہ جس سے تم ہم کو ڈراتے ہو اگر تم سچے ہو تو دکھلاؤ۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں یہ لوگ نہیں انتظار کرتے مگر ایک سخت آواز کا جو یکایک ان کو آکر ایسی حالت میں پکڑ لے گی کہ یہ آپس میں جھگڑ رہے ہوں گے اور اپنے دنیاوی کاروبار میں مشغول ہوں گے صیحۃ واحدۃ سے نفخہ اولیٰ مراد ہے۔ اسرافیل (علیہ السلام) جب پہلی بار صور پھونکیں گے تو اس کی سخت آواز کے سب فنا ہوجائیں گے پس اس وقت نہ وصیت کرسکیں گے اور نہ اپنے گھروں کو واپس ہو سکیں گے اس سخت آواز کے بعد جہاں ہوں گے وہیں مرجائیں گے اور اتنی مہلت بھی نہ ملے گی کہ اپنے معاملہ کو پورا کرسکیں۔ کیا اس عذاب کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا اور پھر چالیس سال کے بعد دوبارہ صور پھونکا جائے گا جس سے سب زندہ ہوجائیں گے پھر یکایک اپنی قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف دوڑیں گے اور نفخہ اولیٰ اور نفخہ ثانیہ کے درمیان جو چالیس سال کی مدت ہوگی اس میں کافروں سے عذاب اٹھا لیا جاوے گا اور وہ اس عرصہ میں آرام سے سوتے رہیں گے جب نفخہ ثانیہ کے بعد قبرستان سے اٹھائے جائیں گے اور میدان حشر اور حساب و کتاب کا ہولناک منظر دیکھیں گے تو کہیں گے کہ ہائے افسوس ہم کو ہماری خواب گاہ سے کس نے جگا دیا ہم تو آرام سے سو رہے تھے کس نے ہم کو جگایا اور ہم کو اس مصیبت کے میدان میں لا کھڑا کیا تو اس وقت فرشتے یا اہل نجات ان کو جواب دیں گے کہ یہی وہ قیامت ہے جس کا رحمن نے تم سے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ کہا تھا مگر تم نے نہ مانا اور پیغمبروں کی تکذیب کی۔ آگے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ نہیں ہوگا یہ نفخہ ثانیہ مگر ایک سخت آواز پھر سب کے سب یکلخت ہمارے سامنے حاضر کر دئیے جائیں گے۔ پس اس دن جو جزا کا دن ہے کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا اور نہیں جز ادئیے جاؤ گے آج اے اہل محشر مگر جو کام تم کرتے تھے کافروں کو جو سزا ملے گی وہ ان کے عمل کے مطابق ہوگی مگر اہل ایمان کو علاوہ جزا کے اپنے مزید فضل سے وہ ثواب عطا کرے گا جس کا کوئی اندازہ نہیں ہوسکتا کافروں کے ساتھ معاملہ عدل کا ہوگا اور اہل ایمان کے ساتھ معاملہ فضل در فضل کا ہوگا اس لئے اب آگے اہل جنت کا انعام اور ان کی عیش و عشرت کو بیان کرتے ہیں کہ تحقیق اہل جنت اس روز عیش و راحت کے شغل میں ہوں گے اور شاداں وفرحان ہوں گے خدا کی مہمانی ہوگی اور عیش و کامرانی کی کوئی انتہا نہ ہوگی اہل جنت اور ان کی بیبیاں سایوں میں شاہانہ تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے اور ان کے لئے جنت میں قسم قسم کے پھل ہوں گے جن کا دنیا میں تصور بھی نہیں اور اس کے علاوہ جس چیز کی وہ خواہش کریں گے وہ ان کے لئے حاضر کردی جائے گی اور ان سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ ان کے لئے رب رحیم کی طرف سے بلاواسطہ سلام ہوگا۔ جریر بن عبد اللہ بجلی ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اہل جنت اپنی عیش و عشرت میں ہوں گے کہ یکایک ان پر ایک نور ظاہر ہوگا تو وہ لوگ سر اٹھا کر دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ اللہ عزوجل کی تجلی ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے یہ فرمائے گا السلام علیکم یا اھل الجنۃ (سلام ہو تم پر اے اہل جنت) پس تمام اہل جنت اس نور کے دیکھنے میں مشغول ہوجائیں گے اور کسی چیز کی طرف التفات نہیں کریں گے یہاں تک کہ وہ نور ان سے مستور ہوجائے گا مگر اس نور کی برکتیں باقی رہ جائیں گی۔ (دیکھو تفسیر قرطبی (ف 1) ص 45 ج 15 ) 1 قال القرطبی وروی من حدیث جریر بن عبد اللہ البجلی ان رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم قال بینا اھل الجنۃ فی نعیمہم اذ سطع لہم نور فرفعوا رؤسہم فاذا الرب قد اطلع علیہم فقال السلام علیکم یا اھل الجنۃ فذلک قولہ تعالیٰ سلام قولا من رب رحیم فینظر الیہم وینظرون الیہ فلا یلتفتون الی شیء من النعیم مادا موا ینظرون الیہ حتی یحتجب عنہم فیبقی نورہ وبرکاتہ علیہم فی دیارہم ذکرہ الثعلبی والقشیری ومضاہ ثابت فی صحیح مسلم وقد بیناہ فی یونس عند قولہ للذین احسنوا الحسنی وزیادۃ (تفسیر قرطبی ص 45 ج 15 ) ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کی نعمت و کرامت کو بیان کیا اب آئندہ آیات میں اہل جہنم کی ذلت و خواری کو بیان کرتے ہیں چناچہ (1) میدان حشر میں جب اہل جنت کو جنت میں جانے کا حکم ہوگا تو اس وقت کافروں کو یہ حکم ہوگا کہ اے مجرمو ! آج تم نیکوں سے علیحدہ ہوجاؤ دنیا میں اگرچہ ملے جلے تھے مگر اب تمہارا ٹھکانہ علیحدہ ہے اور ہر فرقہ دوسرے فرقہ سے جدا کردیا جائے گا پس اے مجرمو ! آج تم اہل جنت سے الگ ہوجاؤ اب تمہارے لئے خاص طور پر سزا کا حکم ہونے والا ہے پھر فرشتوں کی زبانی ان کو ملامت اور سرزنش ہوگی اور یہ کہا جائے گا کہ اے نبی آدم کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی بندگی نہ کرنا تحقیق وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ صرف میری بندگی کرنا یہی سیدھا راستہ ہے مگر تم اس دشمن کے کہنے پر چلے اور میرے عہدو پیمان کو پس پشت ڈال دیا اور تحقیق اس شیطان نے تم میں سے بہت سی گذشتہ مخلوق کو گمراہ کر ڈالا جن کے گمراہی اور انجام بد سے تم کو قرآن میں بار بار آگاہ کردیا گیا پس کیا تم اتنی عقل نہیں رکھتے تھے کہ اپنے دشمن کے فریب میں نہ آؤ کہ گذشتہ مخلوق کی طرح گمراہ ہوجاؤ اور مستحق عذاب ہوجاؤ اچھا اب اپنی گمراہی کا مزہ چکھو لو یہ وہ جہنم ہے جس کا تم سے دنیا میں وعدہ کیا جاتا رہا آج اپنے کفر اور معصیت کی بنا پر اس میں گرو اور اب اس میں داخل ہوجاؤ یہ تمہارے کفر کا بدلہ اور نتیجہ ہے اس سرزنش اور ملامت کے بعد مجرمین اپنے کفر اور شرک کا انکار کریں گے اور قسمیں کھا کر یہ کہیں گے واللہ ربنا ما کنا مشرکین خدا کی قسم ہم بتوں کو نہیں پوجتے تھے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس وقت ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے جیسا دنیا میں ان کے دلوں پر مہر کردی گئی تھی آج ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے تاکہ وہ جھوٹ نہ بول سکیں اور ان کے ہاتھ خود ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں خود ہماری سامنے گواہی دیں گے ان تمام کاموں کی جو وہ کیا کرتے تھے زبان اور پاؤں خود بخود بولیں گے اور اپنی گفتار اور کردار کی خود بخود گواہی دیں گے کہ ہم نے یہ کہا تھا اور یہ کیا تھا جس میں ان مشرکین اور مجرمین کے ارادہ اور اختیار کو دخل نہ ہوگا اور کفار اپنے اختیار سے بات کرنے پر قادر نہ ہوں گے خود ان کے اعضا اور جوارح بولیں گے جب کفار کراماً کاتبین کی گواہی کو نہ مانیں گے تو اللہ تعالیٰ خود کافروں کے اعضاء اور جوارح سے ان کے اعمال کی گواہی دلوائے گا اور ان کے اعضا اور جوارح کو گویائی عطا کرے گا اور فقط ہاتھ اور پاؤں گواہی نہ دیں گے بلکہ باقی اعضا بھی گواہی دیں گے کما قال تعالیٰ حتی اذا ما جاء وھا شھد علیہم سمعہم وابصارہم وجلودہم بما کانوا یعملون جو اعضا اور جوارح دنیا میں ان کے مددگار تھے آج وہ خود ان کے خلاف گواہی دیں گے دنیا میں زبان ان کے حکم سے بولتی تھی اب آخرت میں اللہ کے حکم سے بولے گی گویائی اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے اس کو اختیار ہے کہ جس کو چاہے عطا کر دے جیسا کہ قرآن کریم میں منصوص ہے قالوا انطقنا اللہ الذی انطق کل شیء غرض یہ کہ قیامت کے دن کافر کی گویائی ختم کردی جائے گی اور اس کے اعضاء اور جوارح کو گویائی عطا کردی جائے گی تاکہ اس پر اللہ کی حجت پوری ہوجائے یہ عذاب تو آخرت میں ہوگا اور اگر ہم چاہتے تو دنیا ہی میں ان کی آنکھیں پٹ کردیتے یعنی اگر ہم چاہتے تو دنیا ہی میں ان کی ظاہری آنکھیں بھی پٹ کردیتے اور مطلق اندھا بنا دیتے تو پھر راستہ کی طرف دوڑتے کہ راستہ دیکھ پائیں لیکن پھر کہاں راستہ پائیں جب آنکھ ہی نہ رہی تو راستہ کہاں سے نظر آئے یعنی جس طرح دنیا میں ہم نے ان کو دل کا اندھا بنا دیا کہ راہ حق ان کو نظر نہیں آتی اسی طرح اگر چاہتے تو ہم دنیا میں ان کو ظاہری آنکھوں کا بھی اندھا بنا دیتے۔ 1 یقال لہم ھذا عند الوقوف للسوال حین یؤمر باھل الجنۃ الی الجنۃ ای اخرجوا من جملتہم۔۔۔۔ یمتاز المجرمون بعضہم من بعض فیمتاز الیھود فرقۃ والنصاری فرقۃ والمجوس فرقۃ والصائبون فوقۃ وعبدۃ الاوثان فرقۃ وعنہ ایضا وان لکل فرقۃ فی النار بیتا تدخل فیہ ویردبابہ فتکون فیہ ابدا لا تری ولا تری (تفسیر قرطبی ص 46 ج 15) اور اسی طرح اگر ہم چاہتے تو ہم انہی کی جگہ پر ان کی صورتیں مسخ کردیتے پھر وہ نہ آگے چلنے پر قادر ہوتے اور نہ پیچھے لوٹنے پر قادر ہوئے یعنی اگر ہم چاہتے تو ان کے کفر اور عناد کی وجہ سے ان کی آنکھوں کو مٹا دیتے یعنی ان کے چہرہ کو ایک مسطح تختہ بنا دیتے کہ آنکھ اور پلک کا اس میں نام ونشان نہ رہے یا ان کی صورتیں بدل ڈالتے اور انسانی صورت کے علاوہ کسی حیوانی یا جمادی صورت میں تبدیل کرتے ہم اس پر قادر تھے لیکن ہم نے اپنی رحمت سے ایسا نہیں کیا یہ ہماری عنایت ہے کہ ہم نے ان کو بینائی عطا کی کہ یہ دیکھتے اور چلتے اور پھرتے رہیں اور ہماری قدرت سے ان باتوں کو مستبعد نہ سمجھو آخر دیکھ لو کہ جس کی عمر ہم دراز کرتے ہیں یعنی جسے ہم بہت بوڑھا کردیتے ہیں تو خلقت اور بناوٹ میں اس کو اوندھا اور الٹا کردیتے ہیں کہ وہ دن بدن کمزور ہوتا چلا جاتا ہے اور اس کی قوت نامیہ اور باصرہ گھٹتی چلی جاتی ہے جتنی عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے اتنا ضعف بڑھتا جاتا ہے پس کیا اپنے اس تغیر اور تبدل کو دیکھ کر لوگ سمجھتے نہیں کہ خدا تعالیٰ تمہاری طمس اور مسخ پر بھی قادر ہے کیا ان کفار کو اتنی عقل نہیں کہ اپنی اس ترقی معکوس کو دیکھ کر یہ سمجھ لیں کہ ہمارے وجود کی باگ حق تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے وہ جب چاہے ہماری صورت اور ہیئت کو تبدیل کرسکتا ہے اتنا نہیں سمجھتے کہ جو صورت بنانے پر قادر ہے وہ صورت کے بدلنے پر قادر ہے۔ نزدقدرت کا رہا دشوار نیست کار اورا حاجتے درکار نیست غرض یہ کہ قرآن کریم اس قسم کی حکمت اور عقل و دانائی اور نصیحت اور موعظت کی باتوں سے بھرا پڑا ہے جن کا عین حقیقت اور عین حکمت ہونا روز روشن کی طرح واضح ہے مگر یہ کفار ناہنجار جب ان حکمت اور موعظت کی باقی باتوں کو سنتے ہیں اور جواب سے عاجز ہوجاتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ یہ سب شاعرانہ خیالات اور تک بندیاں ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی اس بات کا رد فرماتے ہیں اور نہیں سکھائی ہم نے اپنے نبی کو شاعری اور نہ وہ آپ ﷺ کی طبیعت اور فطرت کے لائق اور مناسب ہے آپ ﷺ کی زبان سے جو نکلتا ہے وہ سر تاپا حقیقت اور واقعیت اور صداقت اور حکمت اور موعظت ہوتا ہے اور شاعری کا دارومدار تکلف اور تصنع اور تخیل اور مبالغہ اور تعلی اور تفاخر پر ہوتا ہے اور نبی ان سب باتوں سے پاک اور منزہ ہوتا ہے۔ اور علیٰ ہذا اس قرآن کو شاعری سے کوئی واسطہ نہیں، نہیں ہے یہ قرآن جس کو ہم نے آپ ﷺ پر نازل کیا اور جو ہم نے آپ ﷺ کو سکھایا مگر خالص پندو نصیحت ہے اور وہ ایسی کتاب ہے جو دن رات عبادت خانوں اور خلوت خانوں میں پڑھی جاتی ہے اور حقائق اور معارف اور احکام اور حدود کو ظاہر کرتی ہے تاکہ یہ کتاب ہدایت و حکمت اور صحیفہ موعظت اس شخص کو ڈراوے جو زندہ دل ہے اور حق و باطل کے فرق کو سمجھتا ہے اور کافروں اور منکروں پر جن کے دل آثار حیات سے خالی ہیں اور حقیقت کے اعتبار سے مردہ ہیں ان پر اس روشن کتاب سے اللہ کی حجت پوری ہو کہ قیامت کے دن وہ یہ عذر نہ کرسکیں کہ ہمیں کسی نے نہیں سمجھایا اور نہیں بتلایا ہم نے اپنی رحمت سے لوگوں کی نصیحت اور ہدایت کے لئے ایسی واضح روشن کتاب نازل کردی جو دین اور دنیا کی نصیحتوں اور ہدایتوں پر مشتمل ہے اور ان پر اپنی حجت پوری کردی مگر یہ نادان اس روشن کتاب کو کبھی شعر اور کبھی سحر اور کبھی کہانت بتلاتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو امی بنایا ہے خط و کتابت سے آپ ﷺ کو کوئی واسطہ نہیں تاکہ لوگوں پر اللہ کی حجت پوری ہو اور لوگ سمجھ جائیں کہ اس امی (ان پڑھ) کی زبان فیض ترجمان سے جو حقائق ومعارف کا دریا بہہ رہا ہے وہ اللہ کی جانب سے ہے بندہ کا ساختہ وپرداختہ نہیں اور یہ قرآن جو اس نبی امی پر نازل ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے کہ وہ سراسر امور حکمت وموعظت اور احکام ہدایت پر مشتمل ہے اور دنیا اور آخرت کی سعادت کی کنجی ہے اس کو شعر اور سحر اور کہانت سے کیا واسطہ ہے مدت العمر آپ ﷺ نے کبھی کوئی شعر نہیں بنایا آپ خود تو کیا شعر کہتے کسی کا شعر اگر آپ ﷺ اپنی زبان سے پڑھتے تو وہ آپ ﷺ کی زبان سے اس طرح نکلتا کہ اس کا وزن صحیح سالم نہ رہتا۔ فائدہ : اور بعض آیات قرآنیہ اور بعض کلمات نبویہ اگرچہ اوزان شعریہ پر موزون ہیں لیکن ان کو شعر نہیں کہا جاسکتا اس لئے کہ ان کی موزونیت اتفاقی ہے من حیث الشعریت اور بالقصد نہیں اللہ تعالیٰ کا یا اس کے رسول کا مقصود افادہ علم و حکمت ہے اس کو شعر کے ارادہ اور قصد سے بطرز شعر نہیں لایا گیا اس کی موزونیت محض اتفاقی ہے متکلم کا ہرگز یہ مقصود نہیں کہ اس کلام کی موزونیت من حیث الشعریت ہو خاص کر جب کہ قرآن خود اس کے شعر ہونے کی نفی کرتا ہے اور نبی کریم ﷺ کے شاعر ہونے کی نفی کرتا ہے جب تک کوئی شخص قول موزون کہنے کا ارادہ نہ کرے وہ شاعر نہیں ہوتا اور جو کلام موزوں بلا قصد زبان پر جاری ہوجائے وہ شعر شمار نہیں ہوتا شعر اور شاعری کے لئے موزونیت کا قصد اور ارادہ شرط ہے اتفاقیہ زبان سے کسی موزون کلام کا نکل جانا اس سے کسی کے نزدیک کوئی شاعر نہیں ہوجاتا اور نہ وہ اتفاقی کلام موزون شعر کہلاتا ہے۔ رجوع بسوئے مضمون وحدانیت وتذکیر نعمت اوپر سے سلسلہ کلام دلائل قدرت اور تذکیر نعمت کا چلا آرہا ہے اخیر میں مشرکین کے اس قول کی تردید کی کہ جو قرآن کریم کے ان دلائل اور براہین کو شاعرانہ تخیلات بتلاتے تھے اب پھر انہی دلائل قدرت اور انواع و اقسام کی نعمتوں کے ذکر کی طرف رجوع کرتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کو تسلی دیتے ہیں کہ آپ ﷺ ان معاندین کے اعراض وتکذیب سے رنجیدہ اور ملول نہ ہوں۔ چناچہ ارشاد فرماتے ہیں کیا انہوں نے دیکھا اور جانا نہیں کہ ہم نے ان کے نفع کے لئے ایسی چیزیں پیدا کیں کہ جن کو خاص ہمارے ہاتھوں نے بنایا کوئی دوسرا آدمی اس میں شریک نہیں اور نہ معین و مددگار ہے یعنی ہم نے ان کے لئے خاص اپنے دست قدرت سے مویشی اور چوپائے پیدا کئے پھر ہمارے مالک بنانے سے یہ لوگ ان چوپایوں کے مال ہوگئے یعنی ان سے نفع اٹھاتے ہیں اور پھر ان مویشیوں کو ہم نے ان کے لئے تابع بنا دیا کہ جس طرح چاہیں ان سے کام لیں اور فائدہ اٹھائیں پس بعض ان میں سے ان کی سواریاں ہیں جن سے سواری کا کام لیتے ہیں اور بعض مویشی ایسے ہیں جن کو کھاتے ہیں یعنی جن کا گوشت کھاتے ہیں اور اس کے علاوہ بھی ان لوگوں کے لئے ان میں فوائد ہیں جیسے صوف اور اون اور چربی اور پینے کی چیزیں ہیں یعنی دودھ پھر بھی یہ لوگ اللہ کی نعمتوں کا شکر نہیں کرتے جس نے ان کو یہ نعمتیں عطا کیں بلکہ بجائے شکر کے کفر اور شرک میں مبتلا ہیں اور سوائے خدا کے اور معبود بنا رکھے ہیں شاید ان معبودوں کی طرف سے ان کی کوئی مدد کی جائے اس امید پر ان کو معبود بنایا ہے شاید کسی مصیبت کے وقت یہ ان کے کام آویں اور ان کی مدد کریں اور یہ نہیں سمجھتے کہ یہ معبود ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے محض پتھر ہیں جس کا جی چاہے ان کو توڑ دے اور ان پر جو چڑھا وا چڑھا یا جاتا ہے تو ان میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ مکھی سے چھین لیں اور بلکہ یہ بت پرست خود ہی اپنے بتوں کے لئے مفت کی ایک فوج بنے ہوئے ہیں دنیا میں اپنے باطل معبودوں کا ایک لشکر ہیں جو ان کے سامنے حاضر رہتے ہیں مگر مدد کچھ نہیں کرسکتے یا یہ معنی ہیں کہ آخرت میں ہر معبود باطل آگے آگے جہنم میں ہوگا اور یہ اس کے پرستار بمنزلہ لشکر کے اس کے پیچھے پیچھے ہوں گے۔ مشرکین کی ان کفریات اور خرافات سے آنحضرت ﷺ کو صدمہ ہوتا تھا تو آئندہ آیت میں آپ ﷺ کی تسلی فرماتے ہیں پس غم میں نہ ڈالیں آپ کو ان کی خرافات باتیں جو خدا تعالیٰ کی طرف نسبت کرتے ہیں کہ ” وہ صاحب اولاد ہے “ اور ” اس کے شریک ہیں “ یا آپ ﷺ کو شاعر اور ساحر اور مجنون کہتے ہیں آپ ﷺ ان کی باتوں سے آزردہ اور غمگین نہ ہوں ہم ان کے ظاہر و باطن کو خوب جانتے ہیں یہ بچ کر ہم سے کہاں جائیں گے۔ بیشک ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ بغض اور عداوت یہ دل میں چھپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ کلمات کفرو شرک زبان سے یہ ظاہر کرتے ہیں ہم سب کا بدلہ لیں گے آپ ﷺ غمگین نہ ہوں ان پر اللہ کا محاسبہ ہے وہ وقت پر ان سے حساب لے گا اور ان کو سزا دے گا آپ ﷺ غمگین نہ ہوں ان پر اللہ کا محاسبہ ہے وہ وقت پر ان سے حساب لے گا اور ان کو سزا دے گا آپ ﷺ ان کی خرافات پر صبر کیجئے۔ ف
Top