Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 22
وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّ مَقْتًا١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَنْكِحُوْا : نکاح کرو مَا نَكَحَ : جس سے نکاح کیا اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ مِّنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں اِلَّا : مگر مَا قَدْ سَلَفَ : جو گزر چکا اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا فَاحِشَةً : بےحیائی وَّمَقْتًا : اور غضب کی بات وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ (طریقہ)
اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نے نکاح کیا ہو ان سے نکاح نہ کرنا مگر (جاہلیت میں جو ہوچکا سو ہوچکا) یہ نہایت بےحیائی اور (خدا کی) ناخو شی کی بات تھی اور بہت برا دستور تھا۔
حکم یاز دہم تفصیل محرمات۔ قال اللہ تعالی۔۔ ولاتنکحوا۔۔۔ الی۔۔۔ رحیما۔ آیت۔ ربط۔ زمانہ جاہلیت میں نکاح کے معاملات میں سخت افراط وتفریط ہوتی تھی اور حدود اللہ سے تعدی میں گرفتار بھی تھے بعض لوگ اپنے باپ کی منکوحہ یعنی سوتیلی ماں سے بھی نکاح کرلیتے اور بعض اپنے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کرلیتے اور بعض دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرتے اس لیے حق تعالیٰ نے ان آیات میں ان عورتوں کا ذکر فرمایا جن سے نکاح حرام ہے اور اس سلسلہ میں سب سے پہلے باپ کی منکوحہ سے نکاح کی حرمت اور ممانعت کو بیان فرمایا اور مت نکاح میں لاؤ ان عورتوں کو جن کو تمہارے آباؤ و اجداد نکاح میں لا چکے ہیں لیکن جو ہوچکا سو ہوچکا اس پر کوئی مواخذہ نہیں کیونکہ جو چیز نہی اور ممانعت سے پہلے کی جاچکی ہے اس پر عذاب نہیں ہاں اگر آئندہ ایسا نکاح کرو گے یا ایسے نکاح پر قائم رہو گے اس پر سخت مواخذہ ہوگا کیونکہ باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنا سخت بےحیائی ہے باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنا اپنی ماں سے نکاح کرنے کے مشابہ ہے اور بڑا ہی مبغوض کام ہے اہل مروت کی نظر میں یہ کام نہایت ہی معیوب اور غایت درجہ قبیح اور قابل نفرت ہے اس وجہ سے اہل عرب اس لڑکے کو جو کہ باپ کی منکوحہ کے بطن سے پیدا ہوتا تھا مقتی کہتے تھے مقت کے معنی لغت میں سخت بغض کے ہیں اور نہایت ہی برا طریقہ ہے کہ باپ کی حرمت اور آبرو کو ملحوظ نہ رکھا کہ اس کی منکوحہ کو اپنے نکاح میں لے آیا۔ براء بن عازب سے مروی ہے کہ میرا ماموں میرے پاس سے گزرا اور اس کے پاس ایک جھنڈا تھا میں نے کہا کہ آپ کہاں جارہے ہو تو یہ جواب دیا کہ رسول اللہ نے مجھے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی منکوحہ سے نکاح کرلیا ہے کہ اس کا سر اتار کر لاؤں (رواہ احمد وابوداود، والترمذی وغیرہم۔ ) ۔ فائدہ) ۔ باپ کی منکوحہ سے نکاح کی حرمت میں تین لفظ فرمائے ایک فاحشہ اور دوسرا مقت اور تیسرا ساء سبیلا، فاحشہ سے قبیح عقلی مراد ہے یعنی باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنا عقلا قبیح ہے اور مقتا سے قبیح شرعی مراد ہے یعنی شرعا اور عنداللہ قبیح ہے موجب غضب خداوندی ہے اور ساء سبیلا سے قبیح عرفی مراد ہے یعنی برا طریقہ اور بری عادت ہے مطلب یہ ہوا کہ اس نکاح میں قبیح کی تمام مراتب جمع ہیں لہذا غایت درجہ قبیح ہوا اور ایسا شخص مستحق قتل ہوا۔ پھر جب باپ کی منکوحہ سے نکاح کی حرمت بیان ہوچکی تو اب ان عورتوں کی تفصیل فرماتے ہیں جن سے نکاح حرام اور باطل ہے اور ان کی کئی قسمیں ہیں۔ قسم اول محرمات نسبیہ۔ یعنی جو عورتیں نسب میں شریک ہونے کی وجہ سے حرام ہیں وہ یہ ہیں حرام کی گئی تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں یعنی تمہاری تمام اصول اور فروع عورتیں تم پر حرام ہیں خواہ وہ اصول و فروع بواسطہ ہوں یا بلاواسطہ اور حرام کی گئیں تم پر تمہاری بہنیں خواہ وہ عینی ہوں یا علاتی یا اخیافی اور حرام کی گئیں تم پر تمہاری پھوپھیاں یعنی باپ دادا کی بہنیں خواہ کتنے ہی درجہ اوپر کی ہوں اور خواہ وہ باپ دادا کی عینی یا علاتی یا اخیافی بہنیں ہوں اور نانا کی بہن بھی پھوپھی کی حکم میں ہے اور حرام کی گئیں تم پر تمہاری خالائیں یعنی تمہاری ماں کی بہنیں خواہ وہ عینی ہوں یا علاتی یا اخیافی اور حرام کی گئیں تم پر تمہارے بھائی کی بیٹیاں یعنی بھتیجیاں اور حرام کی گئیں تم پر تمہاری بہن کی بیٹیاں یعنی تمہاری بھانجیاں یعنی جو عورتیں بھائی یا بہن کی نسل سے ہوں اور ان کا نسب بھائی یا بہن کی طرف منتہی ہوتا ہو وہ سب تم پر حرام ہیں یہ سات قسمیں محرمات نسبیہ کی ہیں جو آدمی پر اس کے نسب میں شریک ہونے کی وجہ سے حرام ہیں اور ان کی حرمت تابیدی ہے یعنی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان سے نکاح حرام ہے۔ قسم دوم محرمات رضاعیہ۔ اور حرام کی گئیں تم پر وہ رضاعی مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا اور ایسے ہی تمہاری رضاعی بہنیں بھی تم پر حرام کی گئیں ہیں اس آیت میں اللہ نے صرف رضاعی ماؤں اور رضاعی بہنوں ہی کی حرمت کا ذکر کیا حالانکہ رضاعی نانیاں اور رضاعی پھوپھیاں اور خالائیں اور بھانجیاں اور بھتیجیاں بھی حرام ہیں مگر اللہ نے صرف رضاعی ماں اور رضاعی بہن کی حرمت کے بیان پر اکتفا فرمایا تاکہ اس طرف اشارہ ہو کہ رضاعت بمنزلہ نسب کے ہے اور جو ساتوں رشتے نسب سے حرام ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہیں یعنی رضاعی بیٹی اور پھوپھی اور خالہ اور بھتیجی اور بھانجی بھی حرام ہے اور نبی اکرم ﷺ نے اس کی صراحت فرمادی کہ، یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب۔ ف) اور دودھ پینا وہی معتبر ہے جو زمانہ شیرخوارگی میں پیا ہو۔ قسم سوم محرمات صہریہ۔ یعنی جن عورتوں سے علاقہ نکاح کی وجہ سے نکاح حرام ہے اب ان کا ذکر فرماتے ہیں اور اس کی دو قسمیں ہیں اول وہ کہ ان سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہے اور وہ زوجہ کی ماں یعنی ساس اور اس زوجہ کی بیٹی جو دوسرے شوہر سے ہو مگر شرط یہ ہے کہ تم نے اس زوجہ سے صحبت بھی کی ہو اگر صحبت سے پہلے ہی کسی عورت کو طلاق دے دو تو اس مطلقہ کی بیٹی سے نکاح ہوسکتا ہے یہ شرط بیوی کی بیٹی کے لیے ہو مگر بیوی کی ماں یعنی ساس کے لیے یہ شرط نہیں جس عورت سے نکاح کرلے خواہ اس سے ابھی صحبت نہ کی ہو صرف نکاح کرنے سے اس عورت کی ماں یعنی ساس ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس پر حرام ہوجاتی ہے اور تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں ان سے بھی تمہارا نکاح کبھی درست نہیں ہوسکتا اور دوسری قسم وہ ہے کہ ان سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام نہیں بلکہ جب تک عورت تمہارے نکاح میں رہے اس وقت تک اس عورت کی قرابت والی عورت سے نکاح درست نہیں جیسے بیوی کی بہن کی زوجہ کی موجودگی میں تو اس سے نکاح نہیں ہوسکتا البتہ زوجہ کی موت کے بعد یا اس کو طلاق دے دینے کے بعد اس کی بہن سے نکاح ہوسکتا ہے چناچہ فرماتے ہیں اور حرام کردی گئیں تم پر تمہاری بیویوں کی مائیں یعنی ساس اور حرام کی گئیں تم پر تمہاری بیویوں کی بیٹیاں جو تمہاری پرورش میں ہوں لیکن یہ حکم مطلقا نہیں بلکہ اس میں یہ قید ہے کہ وہ لڑکیاں ان بیویوں سے ہوں کہ جن تم نے صحبت کی ہو یعنی کسی عورت کے ساتھ صرف نکاح کرلینے سے اس کی لڑکی جو پہلے شوہر سے ہو اس دوسرے شوہر پر حرام نہیں ہوجاتی بلکہ نکاح کے بعد اس عورت سے صحبت بھی کرلے تب اس پر بیوی کی لڑکی حرام ہوجاتی ہے پس اگر تم نے ان عورتوں سے صحبت نہیں کی صرف ابھی نکاح ہی ہوا ہے اور صحبت کی نوبت نہیں آئی تو ایسی عورتوں کی بیٹیوں سے نکاح کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ (ف 1) ۔ مرد کی بیوی کی لڑکی جو دوسرے خاوند سے ہو اس کو ربیبہ کہتے ہیں جس کی جمع ربائب ہے اور ربائب کی صفت میں جو فی حجورکم کا لفظ آیا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ جو تمہاری پرورش میں ہیں اور جن کو تم اپنی گود میں پالتے ہو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ ربیبہ یعنی عورت کے پہلے خاوند کی بیٹی تمہاری پرورش میں ہو تب تو اس سے تمہارا نکاح حرام ہے اور اگر تمہاری پرورش میں نہ ہوں تو نکاح حرام نہیں بلکہ ربیبہ سے ہر حال میں نکاح حرام ہے خواہ تمہاری پرورش میں ہوں یا نہ ہو اور فی حجورکم کی قید واقعی ہے اکثر وبیشتر ربیبہ دوسرے شوہر کی پرورش میں رہتی ہے اور اس صفت کے بڑھانے میں اشارہ ہے کہ وہ ربیبہ جو تمہاری گود میں پل رہی ہے وہ بمنزلہ تمہاری بیٹی کے ہے اس سے نکاح کرنا گویا بیٹی سے نکاح کرنا ہے ربیبہ سے نکاح کی حرمت ظاہر کرنے کے لیے فی حجورکم کی یہ قید بڑھائی گئی اور حرام کی گئیں ہیں تم پر تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں یعنی تمہارے حقیقیی بیٹوں کی عورتیں تم پر حرام ہیں بشرطیکہ وہ بیٹے تمہارے صلب سے ہوں یعنی متبنی اور منہ بولے اور لے پالک نہ ہوں کیونکہ لے پالک بیٹے کے حکم میں نہیں اپنے لے پالک متبنی کی بیوی سے طلاق کے بعد نکاح جائز ہے اور حرام کیا گیا تم پر دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنا یعنی دو سگی یارضاعی بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنا حرام ہے اگر ایک عورت نکاح میں ہو تو اس کی موجودگی میں اس کی بہن سے نکاح کرنا حرام ہے ہاں اگر وہ مرجائے یا اس کو طلاق دے دیں تو اس حالت میں اس کی بہن یعنی اپنی سالی کے ساتھ نکاح میں مضائقہ نہیں اور اسی طرح ان دوعورتوں کا نکاح میں جمع کرنا جائز نہیں جن میں اگر کسی ایک کو مرد فرض کیا جائے تو دوسری سے اس کا نکاح ناجائز ہو مثلا ایک پھوپھی ہو اور ایک بھتیجی یا ایک خالہ ہو اورا یک بھانجی مگر جو اس حکم سے پہلے گزر چکا یعنی ممانعت سے پہلے جو تم اس قسم کے نکاح کرچکے ہو اس پر ہم تم سے مواخذہ نہیں کریں گے مگر آئندہ ہرگز ہرگز ایسے نکاح نہ کرو اور جو پہلے سے دو بہنیں تمہارے نکاح میں موجود ہوں تو ان میں سے دوسری کو جدا کردو بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے کہ ممانعت سے پہلے جو کرچکے ہو اس پر مواخذہ نہیں کرتا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، وماکان اللہ لیضل۔۔۔ الی۔۔ یتقون۔ آیت۔ اور اللہ تعالیٰ کسی قوم کو گمراہ نہیں کرتے جب تک ان کو کھول کر نہ بتلا نہ دیں کہ فلاں سے چیز سے بچنا ضروری ہے اور اللہ کا ارشاد ہے، وماکنا معذبین۔۔ الی۔۔ رسولا۔ آیت۔ اور جب تک ہم رسول نہ بھیج دیں اس وقت تک ہم عذاب نہیں دیتے۔
Top