Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 24
وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ۚ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ١ۚ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ١ؕ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةً١ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
وَّ : اور الْمُحْصَنٰتُ : خاوند والی عورتیں مِنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں اِلَّا : مگر مَا : جو۔ جس مَلَكَتْ : مالک ہوجائیں اَيْمَانُكُمْ : تمہارے داہنے ہاتھ كِتٰبَ اللّٰهِ : اللہ کا حکم ہے عَلَيْكُمْ : تم پر وَاُحِلَّ : اور حلال کی گئیں لَكُمْ : تمہارے لیے مَّا وَرَآءَ : سوا ذٰلِكُمْ : ان کے اَنْ : کہ تَبْتَغُوْا : تم چاہو بِاَمْوَالِكُمْ : اپنے مالوں سے مُّحْصِنِيْنَ : قید (نکاح) میں لانے کو غَيْرَ : نہ مُسٰفِحِيْنَ : ہوس رانی کو فَمَا : پس جو اسْتَمْتَعْتُمْ : تم نفع (لذت) حاصل کرو بِهٖ : اس سے مِنْھُنَّ : ان میں سے فَاٰتُوْھُنَّ : تو ان کو دو اُجُوْرَھُنَّ فَرِيْضَةً : ان کے مہر مقرر کیے ہوئے وَلَا : اور نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر فِيْمَا : اس میں جو تَرٰضَيْتُمْ : تم باہم رضا مند ہوجاؤ بِهٖ : اس سے مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد الْفَرِيْضَةِ : مقرر کیا ہوا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں۔ (یہ حکم) خدا نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اسطرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی۔ تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو انکا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو۔ اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بیشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
قسم چہارم شوہر والی عورتیں۔ قال اللہ تعالیٰ والمحصنت۔۔۔ الی۔۔۔ علیکم۔ آیت۔ اور حرام کی گئیں تم پر شوہر دار عورتیں کہ جو کسی کے قید نکاح میں ہیں یعنی خاوند والی عورتیں تم پر حرام ہیں جب تک ان کے خاوند نہ مریں یا طلاق نہ دیں اور وفات یا طلاق کی عدت نہ گزر جائے تو دوسروں کو ان سے نکاح درست نہیں۔ (ف 2) ۔ خاوند والی عورتوں کو المحصنت اس لیے فرمایا کہ لفظ محصنات حصن بمعنی قلعہ سے مشتق ہے یعنی جو عورتیں نکاح کے قلعہ میں مقید ہیں جب تک مالک دروازہ نہ کھولے اس وقت تک قلعہ سے باہر نہیں نکل سکتیں خاوند نے یا نکاح نے ان کو مقید کر رکھا ہے مگر وہ خاوند والی عورتیں جو جہاد میں قید ہو کر آئیں اور ان کے شوہر ان کے ساتھ نہ ہوں اور تمہارے ہاتھ ان کے مالک ہوجائیں تو ایسی شوہر والی عورتیں حکم سابق سے مستثنی ہیں مسلمان جب دارالحرب میں رہ گیا ہو تو وہ عورت جس مسلمان کو غنیمت میں ملے گی وہ اس کے لیے حلال ہے اگرچہ اس کا شوہر دارالحرب میں زندہ موجود ہے اور اس نے طلاق بھی نہ دی اس لیے کہ وہ عورتیں غنیمت میں تقسیم ہوجانے کے بعد تمہاری مملوکہ بن گئیں تو اس سے ان کا سابق نکاح ختم ہوگیا اور وب وہ غیر منکوحہ ہوگئیں اور مجاہدین کے ملک میں داخل ہوجانے کی وجہ سے پہلا ازدواجی تعلق بالکل ختم ہوگیا۔ 3) جو عورت کافرہ دارالحرب سے پکڑی ہوئی آئے اس کے حلال ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایک حیض گزرجائے اور اگر حاملہ ہو تو وضع ہوجائے اس سے پہلے اس سے صحبت روا نہیں۔ شان نزول۔ صحیح مسلم میں ابوسعید خدری سے مروی ہے کہ غزوہ اوطاس میں جو عورتیں قید ہوکرآئیں اور نبی نے ان کو صحابہ پر تقسیم کیا اور ان کے شوہر ان کی قوم میں تھے تو صحابہ کو ان عورتوں سے صحبت کرنے میں تردد ہوا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو اس پر آیت نازل ہوئی یعنی والمحصنت من النساء الاماملکت ایمانکم۔ آیت۔ یعنی جن عورتوں کے تم مالک ہوگئے وہ تمہارے لیے حلال ہیں اگرچہ ان کے خاوند دارالحرب میں زندہ موجود ہیں (تفسیر قرطبی ص 121 ج 5) وہکذہ رواہ الامام احمد والترمذی والنسائی وابن ماجہ (تفسیر ابن کثیر ص 473 ج 1) ۔ اب ان سب محرمات کو بیان فرما کر اخیر میں بطور تاکید فرماتے ہیں اللہ نے تم پر یہ حکم لکھ دیا ہے اس کی پابندی تم پر لازم ہے اور زجاج نے اس جملہ کے یہ معنی کیے ہیں کہ اللہ کی کتاب یعنی اس کے حکم کو اپنے اوپر لازم پکڑو اس کے حکموں پر چلو۔ بیان شرائط نکاح۔ قال تعالیٰ واحل لکم۔۔ الی۔۔۔ حکیما۔ آیت۔ ربط) یہاں تک محرمات کا بیان تھا اب آگے یہ بتلاتے ہیں کہ ان کے سوا اور عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں یعنی ان سے نکاح کرنا تمہیں جائز ہے مگر چند شرائط کے ساتھ۔ 1۔ اول یہ کہ دونوں طرف سے طلب لسانی ہو یعنی ایجاب و قبول ہو۔ 2۔ دوم یہ کہ مال دینا یعنی مہر دینا قبول کرو۔ 3۔ تیسرے یہ کہ ان عورتوں کو اپنی قید نکاح میں لانا اور ہمیشہ ہمیشہ اپنے قبضہ میں رکھنا مقصود ہو صرف مستی نکالنا اور شہوت رانی مقصود نہ ہو یعنی ہمیشہ کے لیے وہ اس کی زوجہ ہوجائے بغیر اس کے چھوڑے نہ چھوٹے مطلب یہ کہ کوئی مدت مقرر نہ ہو مہینہ یا برس دن تک اس کے متعہ کا حرام ہونا معلوم ہوگیا جس پر تمام اہل حق کا اجماع ہے۔ 4۔ چوتھی شرط سورة مائدہ وغیرہ میں ذکر فرمائی کہ مخفی طور پر دوستانہ اور یارانہ نہ ہو یعنی کم ازکم دو مرد یا ایک مرددو عورتیں اس معاملہ کے شاہد اور گواہ ہوں اور اگر بدون گواہوں کے ایجاب و قبول ہوا تو وہ نکاح نہیں ہوگا بلکہ زنا سمجھا جائے گا۔ چناچہ فرماتے ہیں اور حلال کردی گئیں تمہارے لیے وہ عورتیں جو ان محرمات مذکورہ کے سوا ہیں یعنی ان محرمات کے علاوہ اور سب عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے مگر چند شرائط کے ساتھ وہ یہ کہ تم اپنے مالوں کے بدلے ان کو اپنے نکاح میں لانا طلب کرو یعنی ایجاب و قبول بھی ضروری ہے اور مہر بھی ضروری ہے لفظ ابتغاء سے ایجاب و قبول مراد ہے اور باموالکم سے مہر کا قبول کرنا مراد ہے درآنحالیکہ تم طالب عفت ہو اور بیوی بنا کر اس کو قید نکاح میں رکھنا اور اپنی شرمگاہ کو بدکاری سے محفوظ رکھنا مقصود ہو محض شہوت ران اور مستی نکالنے والے نہ ہو جیسے زنا اور متعہ میں جو ہوتا ہے عفت اور پاکدامنی مقصود نہیں ہوتی پس جن عورتوں سے تم صحیح نکاح کرکے فائدہ اور نفع اٹھا چکے ہو اور صحبت کی لذت حاصل کرچکے ہو اور کم ازکم خلوت سے لطف اندوز ہوچکے ہو تو ان عورتوں کا جو مہر مقرر ہوا ہے وہ ان کو دے دو مطلب یہ ہے کہ صحبت اور خلوت سے پورا مہر لازم ہوجاتا ہے ہاں اگر خلوت اور صحبت سے پہلے ہی مرد عورت کو طلاق دے دے تو پھر نصف مہر دینا واجب ہوگا اور اگر عورت کوئی ایساکام کربیٹھے جس سے نکاح ٹوٹ جائے تو زوج کے ذمہ سے سارامہر ساقط ہوجائے گا اور اس کو کچھ نہیں پڑے گا اور تم پر اس بارے میں کوئی گناہ نہیں کہ مہر مقرر کرنے کے بعد باہمی رضامندی سے مہر کی مقدرا میں کچھ کمی اور زیادتی کرو مثلا عورت اپنی خوشی سے مہر کچھ کم کردے یا مرد اپنی خوشی سے کچھ زیادہ دیدے تو اس میں کوئی حرج نہیں بیشک اللہ تعالیٰ بڑا دانا اور حکمت والا ہے کہ جس نے ان سراپا حکمت ومصلحت احکام کو مشروع فرمایا اس کی متابعت میں تمہارے لیے خیروبرکت ہے اور اس کی مخالفت میں سراسر خسران اور حرمان ہے۔ فائدہ۔ واحل لکم ماوراء ذالکم۔ کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان محرمات مذکورہ کے سوا سب عورتوں سے نکاح جائز ہے حالانکہ احادیث سے ثابت ہے کہ ان محرمات مذکورہ کے علاوہ اور بھی چند عورتوں ہیں جن سے نکاح حرام ہے سوجاننا چاہیے کہ وہ عورتیں درحقیقت باعتبار عموم اور اشارہ کے انہیں محرمات مذکورہ میں داخل ہیں اور احادیث نبویہ آیات قرآنیہ کی تفسیر ہیں پس وہ عورتیں درحقیقت ماسوا میں داخل ہی نہیں۔ لطائف ومعارف۔ علماء اہل سنت والجماعت یہ کہتے ہیں کہ آیت، فمااستمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن۔ آیت۔ میں نکاح صحیح کے ذریعہ نفع اٹھانا مراد ہے اور اجورہن سے منکوحہ عورتوں کے مہر مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ تم جن عورتوں سے نکاح کرکے خلوت یاصحبت کا نفع اٹھاچکے ہو تو ایسی عورتوں کا پورا مہر دینا تمہارے ذمہ واجب ہے جیسا کہ دوسری جگہ، واتوالنساء صدقاتھن نحلہ۔ آیت۔ آیا ہے چناچہ اجورھن کے بعد فریضہ کا لفظ اس لیے بڑھایا گیا ہے کہ نکاح صحیح کے بعد اگر خلوت صحیحہ کی نوبت آجائے تو جتنا مہر مقرر ہوا ہے وہ سارا دینا آئے گا اور اس آیت میں فریضہ کا لفظ ایسا ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ہے قد علمنا مافرضنا علیھم فی ازواجھم اور اگر خلوت اور صحبت سے پہلے ہی ان کو طلاق دے دی تو پھر تم پر پورا مہر واجب نہ ہوگا بلکہ نصف مہر واجب ہوگا جیسا کہ دوسری آیت میں ہے، وان طلقتموھن۔۔۔۔ الی۔۔۔ فرضتم۔ (شیعہ) کہتے ہیں کہ اس آیت میں استمتاع سے متعہ کرنا مراد ہے اجورھن سے متعہ کا معاوضہ مراد ہے اور یہ آیت صراحۃ جواز متعہ پر دلالت کرتی ہے خصوصا جب کہ پیشوا اہل سنت ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعود کی قرات میں فمااستمتعم بہ منھن الی اجل مسمی کا لفظ آیا ہے جو صراحۃ تحدید مدت پر دلالت کرتا ہے جو متعہ میں ہوا کرتی ہے نہ کہ نکاح میں نیز لفظ اجورھن بھی اسی طرف مشیر ہے کہ یہ عقدہ اجارہ ہے۔ جواب۔ حق یہ ہے کہ یہ آیت تو صراحۃ اور علانیہ متعہ کی حرمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس آیت میں منھن کی ضمیر انہی منکوحہ عورتوں کی طرف راجع ہے جن سے اللہ نے، واحل لکم ماورآ ذلکم۔ الخ۔ میں نکاح کو حلال قرار دیا اور جن کی نسبت اللہ نے یہ فرمایا کہ تم ان کو اپنے مالوں کے بدلے طلب کرو اور پھر حلت نکاح کے لیے یہ شرط لگائی کہ ماسوا محرمات مذکورہ کے اور عورتوں سے نکاح اس شرط کے ساتھ حلال ہے کہ تم عفت اور احصان کے طالب ہو مستی نکالنے والے نہ ہو۔ پس جب اللہ نے صریح لفظوں میں مستی نکالنے کی ممانعت کردی تو متعہ کی کہاں گنجائش رہی نکاح اور زنا میں یہی فرق ہے کہ نکاح سے مقصود نسل ہوتی ہے اور زنا سے محض شہوت رانی اور ظاہر ہے کہ زنا اور متعہ میں کوئی فرق نہیں کیونکہ اولانہ زنا سے مقصود ہوتی ہے اور نہ متعہ سے دونوں کا مقصود شہوت رانی ہے جس کی اللہ نے ممانعت فرما دی۔ نیز آیت فمااستعتم گزشتہ آیت پر متفرع ہے جس میں نکاح اور شرائط نکاح کا بیان تھا یہ تفریع منکوحات سے متعلق ہے کوئی جدید حکم نہیں بلکہ حکم سابق کا جزء ہے کیونکہ واحل لکم ماورآ ذالکم میں حلت نکاح کا بیان تھا جیسا کہ حرمت علیکم میں حرمت نکاح کا بیان تھا، فمااستمتعم اسی پر تفریع ہے جو اس امر کی صریح دلیل ہے کہ یہ کلام پہلے کلام سے متعلق ہے اگر یہ مستقل کلام ہوتا تو بجائے فاء کے واو لاتے نیز منھن کی ضمیر انہی خاص نساء کی طرف راجع ہے جن کا نکاح ہونا پہلی آیت میں بیان کیا گیا ہے مضمر کی ضمیر خاص مذکور ہی کی طرف راجع ہوتی ہے معلوم ہوا کہ فمااستعتم میں نکاح صحیح کے ذریعہ استمتاع اور انتفاع مراد ہے شیعوں والے متعہ کا استمتاع اور انتفاع مراد نہیں ورنہ اول کلام اور آخر کلام میں تعارض لازم آئے گا کہ اول کلام میں تو نکاح اور شرائط نکاح کا ذکر ہو اور آخر کلام میں بلا شرط عورتوں سے نفسانی اور شہوانی انتفاع کی اجازت ہو اور ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعود کی قرات الی اجل مسمی قرات شاذہ ہے جو تفسیر کا حکم رکھتی ہے۔ اور وجہ تفسیر کی یہ ہے الی اجل مسمی کی غایت ہے اور لفظ اجل مسمی نکرہ ہے جو قلیل وکثیر سب کو شامل ہے ایک ساعت قلیلہ سے لے کر زمانہ درازتک کو اجل کہہ سکتے ہیں اور استمتاع کے معنی انتفاع کے ہیں اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ نکاح صحیح کے بعد جس قدر اور جتنی مدت بھی تم کو استمتاع اور انتفاع کی نوبت آئے تو تم کو سارا مہر لازم ہوگا نکاح کے بعد جس شخص نے منکوحہ سے اجل طویل اور مدت دراز تک استمتاع اور انتفاع کیا ہو جس طرح اس پر پورا مہر واجب ہوجاتا ہے اسی طرح اس شخص پر بھی پورا مہر واجب ہوگا جس نے نکاح صحیح کے بعد اپنی منکوحہ سے استمتاع اور انتفاع قلیل کیا ہو یعنی بقدر خلوت صحیح اس سے منتفع ہوا ہو الغرض شیعہ الی اجل کو عقد کی انتہاء اور غایت سمجھ کر بہک گئے اگر استماع اور انتفاع کی غایت اور نہایت سمجھتے اس غلطی میں مبتلا نہ ہوتے اور استمتعتم میں تضمین معنی عقد کی ضرورت نہ پڑتی دیکھو اجوبہ اربعین حصہ دوم ص 37 مصنفہ حضرت مولانا قاسم نانوتوی (رح) تعالی۔ شبہ۔ لفظ اجورھن سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اجرت دے کر مدت معینہ کے لیے استمتاع جائز ہو۔ جواب۔ اس شبہ کا یہ ہے کہ اس آیت کے متصل جو دوسری آیت ہے اس میں ارشاد ہے کہ، ومن لم یستطع۔۔۔ الی۔۔۔ اجورھن۔ آیت۔ آیا ہے اس آیت میں صراحتا ذکر نکاح کے بعد اجورھن کا لفظ موجود ہے اور ظاہر ہے کہ نکاح میں مدت محدود نہیں ہوتی معلوم ہوا کہ لفظ اجورھن تحدید مدت کو مقتضی نہیں پس اسی طرح آیت استمتاع میں بھی سمجھ لو کہ لفظ اجورھن تحدید مدت کو مقتضی نہیں کہ شیعوں کی مطلب برآری ہوسکے اور مہر چونکہ درحقیقت عورتوں کے منافع کا عوض اور بدل ہے نہ کہ ان کی ذوات کا اس لیے اس کو اجر کہا گیا اور قرآن کریم میں متعدد جگہ اجر بمعنی مہر آیا ہے اور از جملہ یہ آیت ہے لا جناح علیکم ان۔۔ الی۔۔ اجورھن۔ آیت۔ جواب دیگر۔ نیز قرآت الی اجل مسمی میں برتقدیر ثبوت اجل مسمی سے موت مراد ہے یا اجل مسمی فی علم اللہ مراد ہے جو وقت طلاق وموت وغیرہ سب کو شامل ہے اور اجل معین فیما بین المتعاقدین مراد نہیں کہ جس سے متعہ مفہوم ہوسکے۔ جواب دیگر۔ اگر یہ تسلیم کرلیاجائے کہ ابی بن کعب کی یہ قرات الی اجل مسمی صحیح ہے اور شاذ بھی نہیں اور آیت میں استمتاع سے متعہ ہی مراد ہے تو اجب یہ ہے کہ ابتداء اسلام میں متعہ مباح تھا بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا اور آیات اور احادیث میں اس کی حرمت بتلا دی گئی لہذا آیت استمتاع سے اگر جواز متعہ ہی مراد لیا جائے تو یہ کہا جائے گا کہ اس آیت میں اس وقت کا حکم مذکور ہے کہ جب متعہ مباح تھا اور نسخ کے بعد یہ حکم باقی نہیں رہا دیکھو منہاج السنۃ ص 155 ج 2 للحافظ ابن تیمیہ۔ سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ متعہ کی آیت میراث نے منسوخ کردیا جبکہ متعہ میں متاعی عورت کو میراث نہیں ملتی۔ ابتدائے اسلام میں کس قسم کا متعہ جائز تھا۔ حضرات شیعہ جس قسم کے متعہ کے جواز کے قائل ہیں وہ متعہ تو کسی دین میں کسی وقت بھی جائز نہیں ہوا اور وہ متعہ ابتداء اسلام میں جائز تھا اس لیے کہ شیعوں کے متعہ اور زنا میں کوئی فرق نہیں اور زنا کسی دین میں کسی وقت بھی حلال نہیں ہوا تمام شریعتیں اور تمام ادیان زنا کی حرمت پر متفق ہیں۔ ابتداء عالم سے لے کر اس وقت تک اطراف عالم میں کسی دین میں آسمانی ہو یا زمینی سوائے مذہب شیعہ کے متعہ کا کہیں نام ونشان نہیں ملتا سوائے گرفتا ان ہواء وہوس کوئی ادنی حیا والا بھی اس فحش صریح کی حلت کا تصور نہیں کرسکتا۔ شیعوں کے نزدیک متعہ کی حقیقت یہ ہے کہ محرمات اور شوہر دار کے سوا جس کسی عورت سے جتنی مدت کے لیے چاہے جس قدر اجرت معینہ پر وہ راضی ہوسکے بلا گواہ وشاہد کے اس سے عقد کرے اور اس مدت مقررہ کے گزر جانے کے بعد بلا طلاق کے وہ خود ہی اس سے جدا ہوجاتی ہے اور جدائی کے بعد اس پر کسی قسم کی عدت نہیں اور یہ متعہ اہل تشیع کے نزدیک نکاح کی ایک قسم ہے اور اعلی ترین عبادت ہے اور اہل سنت کے نزدیک متعہ صریح زنا اور کھلی بےحیائی ہے اور جو متعہ شروع اسلام میں جائز یعنی غیر ممنوع تھا اس کی حقیقت صرف نکاح موقت ہے یعنی ایک مدت معینہ کے لیے گواہوں کے سامنے ولی کی اجازت سے کسی عورت سے نکاح کیا جائے اور مدت معینہ گزر جانے کے بعد بلاطلاق کے مفارقت ہوجائے لیکن مفارقت کے بعد استبراء رحم کے لیے ایک مرتبہ ایام ماہواری یعنی ایک حیض کا آنا ضروری ہے تاکہ دوسرے نطفہ کے ساتھ اختلاط سے محفوظ رہے فقط یہ صورت ابتداء اسلام میں جائز تھی بعد میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی باقی رہا متعہ متعارف کہ کوئی شخص کسی عورت سے یہ کہے کہ میں تجھ سے ایک دو روز کے منتفع ہوں گا اور اس ایک روز یا دو روز انتفاع کی تجھ کو اجرت دوں گا یہ صریح زنا اور عین زنا ہے متعہ کی یہ صورت کبھی بھی اسلام میں جائز اور مباح نہیں ہوئی تاکہ یہ کہا جائے کہ شروع میں جائز تھا اور بعد میں منسوخ ہوگیا بلکہ متعہ کی یہ صورت تو کسی دین میں بھی حلال نہیں اس لیے کہ متعہ کی یہ صورت توصریح زنا ہے اور زنا کسی دین میں کبھی حلال نہیں ہوا۔ البتہ متعہ بمعنی نکاح موقت (یعنی مدت معینہ کے لیے گواہوں کی موجودگی میں ولی کی اجازت سے نکاح کرنا اور پھر مدت معینہ گزر جانے کے بعد ایک حیض عدت گزارنا اور بغیر ایک حیض آئے دوسرے مرد سے متعہ نہ کرسکنا۔ اس قسم کا نکاح ایک برزخی مقام ہے یعنی ان قیود و شرائط کے ساتھ نکاح موقت نکاح مطلق اور زنا محض کے درمیان ایک درمیانی درجہ ہے کہ جو نہ تو زنا محض ہے اور نہ نکاح مطلق ہے کہ جس میں عدت اور میراث ہو نکاح متعہ کی یہ صورت حقیقی نکاح نہیں بلکہ نکاح حقیقی کے ساتھ صرف ظاہری طور پر مشابہ ہے کہ نکاح متعہ کی اس صورت میں گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول اور ولی کی اجازت ضروری ہے اور مرد سے علیحدہ ہوجانے کے بعد اگر دوسرے مرد سے متعہ کرنا چاہے تو جب تک ایک حیض نہ آجائے اس وقت تک دوسرے مرد سے متعہ نہیں کرسکتی اس لیے اس صورت کو محض زنا بھی نہیں کہا جاسکتا ایسے نکاح موقت میں (کہ جس میں ابتداء میں گواہی اور اذن ولی ضروری ہو اور انتہاء میں استبراء رحم کے لیے ایک حیض کا آنا ضروری ہو اور نکاح صحیح وموبد میں صرف موقت اور موبد کا اور میراث اور عدم میراث کا فرق ہے باقی شرائط میں متفق ہیں۔ اور احادیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے صرف نکاح موقت کی رخصت اور اجازت دی تھی اور متعہ کی اجازت نہیں دی تھی اور جس نے اس کو متعہ کہا تو وہ صرف مجازا کہا ہے یا باعتبار مشابہت کے کہا ہے، امام قرطبی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں، امام لیث بن سعد بکیر بن اشج سے روای کہ عمار مولائے شرید کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس سے متعہ کے متعلق سوال کیا کہ متعہ زنا ہے یا نکاح فرمایا متعہ نہ زنا ہے اور نہ نکاح میں نے پھر سوال کیا کہ آخر وہ ہے کیا ؟ فرمایا وہ متعہ ہے جیسا کہ اللہ نے اس پر لفط متعہ کا اطلاق کیا ہے میں نے سوال کیا کہ متعہ والی عورت پر عدت ہے فرمایا ہاں متعہ کی مدت گزرجانے کے بعد اس پر ایک حیض کا انتظار کرنا واجب ہے میں نے سوال کیا کہ کیا وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے فرمایا نہیں۔ اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ نکاح متعہ بمعنی نکاح موقت بشرائط مذکورہ بالا ایک برزخی مقام ہے یعنی نکاح مطلق اور زنا کے درمیانی ایک درمیانی درجہ ہے ابتدائے اسلام میں فقط اس قسم کا نکاح متعہ جائز تھا اور بایں معنی جائز اور مباح تھا کہ زمانہ جاہلیت کی رسم و رواج کے مطابق لوگ اس قسم کا متعہ کیا کرتے تھے اور شریعت میں اس نکاح متعہ یعنی نکاح موقت بشرائط مذکورہ بالا کی ممانعت اور حرمت کا ابھی تک کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا جیسا کہ شراب اور سود کے ابتداء اسلام میں مباح اور حلال ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ابتداء اسلام میں اللہ کی طرف سے شراب اور سود کی ممانعت کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اور جن لوگوں نے حرمت اور ممانعت سے پہلے شراب پی یا سود لیا شریعت کی طرف سے ان پر کوئی حد جاری نہیں کی گئی اور نہ ان کو کوئی سزا دی گئی یہاں تک کہ شراب اور سود کی حرمت کا حکم نازل ہوا۔ ابتداء اسلام میں شراب اور سود کے حلال ہونے کے یہ معنی نہیں کہ معاذ اللہ شریعت کی طرف سے اجازت تھی کہ جس کا جی چاہے شراب پیے اور جس کا جی چاہے سود لے اسی طرح نکاح متعہ بمعنی نکاح موقت کے ابتدائے اسلام میں جائز اور مباح ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ابتداء اسلام میں نکاح متعہ کی ممانعت نہ تھی معاذ اللہ۔ معاذ اللہ اباحت کے یہ معنی نہیں کہ نبی ﷺ نے قولا نکاح متعہ کی اجازت دی تھی نکاح متعہ کی حرمت کا پہلا اعلان غزوہ خیبر میں ہو اور پھر غزوہ اوطاس میں اور پھر غزوہ تبوک میں اور پھر حجۃ الوداع میں تاکہ عوام اور خواص کو اس کی حرمت کا خوب علم ہوجائے اور نبی ﷺ کا حرمت متعہ کے متعلق یہ بار بار اعلان اسی پہلی حرمت کی تاکید درتاکید کے لیے تھا کہ جو آپ غزوہ خیبر میں فرماچکے تھے کوئی جدید حکم نہ تھا باقی شیعوں والا متعہ شنیعہ کہ مرد و عورت سے ایک دن یا دو دن کے لیے معاوضہ طے کر متمع ہو تو یہ خالص زنا اور صریح بدکاری ہے یہ صورت کبھی بھی اور کسی وقت بھی اسلام میں جائز اور مباح نہیں ہوئی چہ جائیکہ منسوخ ہو جیسے زنا کبھی مباح ہوا اور نہ منسوخ ہوا۔ دلائل تحریم متعہ۔ اب ہم اختصار کے ساتھ حرمت متعہ کے چند دلائل ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ دلیل اول۔ قال تعالیٰ والذین ھم لفروجھم۔۔ الی۔۔ العادون۔ آیت۔ یعنی فلاح اور بہتری ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر صرف اپنی عورتوں پر اور اپنی باندیوں پر سو یہ لوگ قابل ملامت نہیں پس جو شخص اس کے سوا کوئی اور طریقہ نکالے تو ایسا شخص حدود شریعت سے تجاوز کرنے والا ہے اور ظاہر ہے کہ جس عورت سے متعہ کیا جائے اس کو نہ شیعہ زوجہ کہتے ہیں اور نہ ان کے مخالفین کے نزدیک وہ زوجہ ہے اس لیے کہ متعہ والی عورت کے لیے مرد کے ذمہ نان ونفقہ ہے اور نہ سکنی (یعنی رہنے کا مکان) اور نہ اس کے لیے طلاق ہے اور نہ عدت ہے اور نہ میراث ہے اور نہ زن متعہ شرعا لونڈی اور باندی ہے اور نہ بیع وشراء وہبہ اور عتق کے سب احکام جاری ہوتے ہیں جب یہ ثابت ہوگیا کہ زن متعہ نہ زوجہ ہے اور نہ باندی تو متعہ کرنے والی اور والا منجملہ فاولئک ھم العادون یعنی حدود شرع سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہوں گے۔ دلیل دوم۔ وان خفتم ان لاتقسطوا۔۔۔ الی۔۔ ایمانکم۔ یعنی اگر تم کو یہ ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں تم عدل اور انصاف نہ کرسکو گے تو ان کے ساتھ نکاح نہ کرو بلکہ دوسری عورتوں کے ساتھ نکاح کرلو جو تم کو پسند آئیں خواہ دو سے خواہ تین سے اور خوا چار سے پس اگر تم کو یہ ڈر ہو کہ چند عورتوں میں عدل اور انصاف نہ کرسکو گے تو صرف ایک عورت کے نکاح پر اکتفاء کرو یا اپنی شرعی مملوکہ باندی سے منتفع ہو اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ چار عورتوں تک نکاح میں رکھنا جائز ہے اور ظاہر ہے کہ متعہ میں کسی عدد کی تعین اور تحدید نہیں پس جس عورت سے متعہ کیا جائے گا وہ نہ تو منکوحہ ہوگی اور نہ شرعی لونڈی ہوگی تو ضرور بالضرور وہ حرام ہوگی اس لیے کہ اباحت اور اجازت اس آیت میں صرف انہی دو قسموں میں منحصر ہے کہ منکوحہ ہو یا شرعی باندی ہو۔ دلیل سوم۔ قال تعالی، واحل لکم ماوراء۔۔ الی۔۔۔ مسافحین۔ آیت۔ اللہ جل شانہ نے گزشتہ آیات میں محرمات عورتوں کی تعداد بیان کی اب یہ بیان فرماتے ہیں کہ ان محرمات کے سوا دوسری عورتوں سے نکاح حلال ہے مگر چار شرطوں کے ساتھ اول یہ کہ طلب کرو یعنی زبان سے ایجاب و قبول کرو یہ مطلب ہے ان تبتغوا کا دوم یہ کہ مال دینا قبول کرو جیسے مہر کہتے ہیں یہ مطلب ہے باموالکم کا جس سے معلوم ہوا کہ نکاح میں مہر ضروری ہے سوم یہ کہ نکاح سے قید میں لانا مقصود ہو صرف آب ریزی یعنی فقط مستی نکالنا اور منی گرانا مقصود نہ ہو اور قید میں لانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بلا شرکت غیرے اس مرد کی ہوجائے کہ بغیر اس کے چھوڑے ہوئے اس کی قید نکاح سے نہ نکل سکے اور اس کی قید نکاح میں ہوتے ہوئے عورت کسی سے راہ وربط نہ پیدا کرسکے مطلب یہ ہے کہ محرمات مذکورہ کے سوا اور عورتوں سے نکاح جب جائز ہے کہ مہر مقرر کرنے کے بعد نکاح سے غرض احصان (عفت) حاصل کرنا ہو اور عفت کے معین اپنی شرمگاہ کو بدکاری سے اور نفس کو ملامت اور عذاب سے بچانے کے ہیں اور غیر مسافحین کے معنی یہ ہیں کہ مقصود شہوت رانی نہ ہو لفظ مسافحین، سفح سے ماخوذ ہے جس کے معنی منی گرانے کے ہیں زنا سے یہی مقصود ہوتا ہے بقاء نسل مقصود نہیں ہوتا جیسا کہ نساء کم حرث لکم سے معلوم ہوتا ہے کہ مقصود نکاح سے توالد اور تناسل ہے پس محصنین غیرمسافحین کی قید سے متعہ خود بخود باطل ہوگیا اس لیے کہ متعہ میں صرف مستی کا نکالنا اور منی کا گرانا مقصود ہوتا ہے عفت اور پاکدامنی مقصود نہیں ہوتی اور نہ وہ عورت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے ساتھ مخصوص ہوتی ہے ہر ہفتہ اور ہر مہینہ جدید آشنا کے پاس ہوتی ہے اسی وجہ سے شیعہ مذہب کا یہ فتوی ہے کہ جس شخص نے متعہ کیا ہو مگر نکاح نہ کیا ہو تو ایسا شخص اگر زنا کربیٹھے تو اس پر رجم نہیں اس لیے کہ رجم کے لیے احصان شرط ہے جو نکاح سے حاصل ہوتی ہے متعہ سے حاصل نہیں ہوتی معلوم ہوا کہ متعہ میں شیعوں کے نزدیک بھی احصان حاصل نہیں ہوتا۔ چہارم۔ یہ ہے کہ علی الاعلان گواہوں کے سامنے ہو پوشیدہ طور پر نہ ہو جیسا کہ سورة مائدہ میں ہے ولا متخذی اخذان۔ یعنی اور خفیہ اور پوشیدہ طور پر آشنائی کرنے والی نہ ہوں یہی شرط (یعنی گواہوں کے سامنے ہونا) نکاح اور زنا میں درمیان فرق کرتی ہے نکاح گواہوں کے سامنے علی الاعلان ہوتا ہے اور زنا مخفی تعلقات ہوتے ہیں الحاصل جب یہ چار شرطیں پائی جائی گی تب جماع حلال ہوگا اور ظاہر ہے کہ یہ شرطیں متعہ میں نہیں پائی جاتیں اس لیے متعہ حلال نہیں ہوسکتا اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ محرمات مذکورہ کے علاوہ جو عورتیں باقی ہیں وہ کیف مااتفق حلال نہیں بلکہ بشرط ارادہ احصان حلال ہیں۔ اور احصان کے لغوی معنی حفظ کے ہیں اور اصطلاح میں خاوند کا اپنی عورت کو ننگ وناموس کی خاطر غیر سے محفوظ رکھنے کا نام احصان ہے اور ننگ وناموس سے مرادیہ ہے کہ اس کا نسب اختلاط سے محفوظ رہے اور شریعت میں عدت کا حکم اسی اختلاط نسب سے حفاظت کے لیے ہے۔ دلیل چہارم۔ قال تعالیٰ والیستعفف الذین۔۔۔ الی۔۔ من فضلہ۔ آیت۔ یعنی جو لوگ نکاح کرنے کا مقدور نہیں رکھتے ان کو چاہیے یعنی جو مہر اور نفقہ دینے کی طاقت نہیں رکھتے ان کو چاہیے کہ اپنی عفت اور پاکدامنی کو تھامے رکھیں اور اپنی عفت اور پاکدامنی کے تھامنے میں تکلیف کو گوارا کریں یہاں تک کہ اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کردے گا اور سامان نکاح مہر نفقہ پر قدرت دے دیں گے۔ پس اگر متعہ جائز ہوتا تو کسی عورت کو ایک رات کے دو چار روپیہ دے کر اور دو چار مرتبہ جماع کرکے فراغت کرلیتے اور عفت اور پاکدامنی کی حفاظت اور تھامنے کسی تکلیف اور رنج اٹھانے کی ضرورت نہ ہوتی معلوم ہوا کہ عفت اور پاکدامنی کے بچانے اور تھامنے کے لیے سوائے اس کے کوئی صورت نہیں کہ جب تک نکاح کی استطاعت میسر نہ آئے اس وقت تک تکلیف برداشت کرے اور روزہ اور صبر سے اپنی پاکدامنی کو تھامے رکھے۔ دلیل پنجم۔ حرمت متعہ کی ایک وجدانی دلیل۔ ہر شریف الطبع اور باغیرت انسان اپنے اور اپنی بیٹی اور اپنی بہن کے نکاح کے اعلان کو فخر سمجھتا ہے اور غایت مسرت اور انبساط کے ساتھ ولیمہ نکاح پر اقارب اور احباب کو مدعو کرتا ہے بخلاف متعہ کے کہ اس کو چھپاتا ہے اور اپنی بیٹی اور بہن اور ماں کی طرف متعہ کی نسبت کرنے سے عار محسوس کرتا ہے آج تک کسی ادنی غیر مند بلکہ کسی بےغیرت کے متعلق بھی یہ نہیں سنا گیا کہ اس نے کسی مجلس میں بطور فخر یا بطور ذکر ہی یہ کہا ہو کہ میری بیٹی اور میری بہن اور میری ماں نے اتنے متعے کیے ہیں نیز تمام عقلاء نکاح پر مرد اور عورت کو اور اس کے والدین کو مبارک باد دیتے ہیں مگر متعہ کے متعلق کہیں مبارک باد دیتے نہیں سنا۔ نیز نسب اور مصاہرت تمام عقلاء کے نزدیک ایک عظیم نعمت ہے جیسا کہ سورة فرقان واقعہ میں ھوالذی خلق۔۔ الی۔۔ وصھرا۔ اس کی شاہد عدل ہے اور متعہ میں انسان ان دونوں نعمتوں سے محروم ہوجاتا ہے نہ نسب ہی ثابت ہوتا ہے اور نہ مصاہرت جس طرح انسان زنا میں ان دونعمتوں سے محروم رہتا ہے اسی طرح متعہ میں بھی محروم رہتا ہے پس جس طرح محرومی نعمت میں متعہ اور زنا برابر ہیں اسی طرح حرمت میں بھی دونوں برابر ہیں۔ تحقیق مذہب ابن عباس دربارہ متعہ۔ حضرت ابن عباس ؓ اولا حلت متعہ کے قائل تھے وجہ اس کی یہ تھی کہ ان کو متعہ کے حرام ہونے کی اطلاع نہ تھی حضرت علی کرم اللہ وجھہ کی روایت اور نصیحت سے جب اس کی حرمت پر مطلع ہوئے تو رجوع کیا اور یہ فرمایا، اللھم انی اتوب الیک من قولی بالمتعۃ وققولی فی الصرف کماذکورہ صاحب الکشاف وغیرہ من المفسرین وذکرہ الامام الرازی فی تفسیرہ ص 200 ج 3۔ سبب عدم اطلاع ابن عباس بتحریم متعہ۔ حضرت ابن عباس کا تحریم متعہ پر مطلع نہ ہونا مستبعد نہیں جن لوگوں کی نظر اس بات پر جاتی ہے کہ ابن عباس کو نبی ﷺ سے قرب خاص اور مقام بااختصاص حاصل تھا ان کو مستبعد معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس کو تحریم متعہ کی اطلاع کیسے نہ ہوئی لیکن یہ حضرات اگر حضرت ابن عباس کی کمیت عمر اور تعداد ایام سکونت کا لحاظ کرتے تو یہ استبعاد نہ ہوتا حقیقت حال یہ ہے کہ ابن عباس ہجرت مدینہ سے ایک دو سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور آٹھ نو برس کی عمر تک اپنے والد بزرگوار کے ساتھ مکہ میں رہے جہاں احکام شرعیہ کی اطلاع نہیں پہنچتی تھی جب نبی ﷺ غزوہ فتح کے لیے ہجرت کے آٹھویں سال مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے تو ادھر مکہ سے نبی کے عم محترم حضرت عباس مع اوہل و عیال کے ہجرت کے لیے مدینہ روانہ ہوئے راستہ میں جب نبی سے ملاقات ہوئی تو نبی ﷺ نے حضرت عباس ؓ کو اپنے ہمراہ لے لیا اور یہ ارشاد فرمایا کہ اہل و عیال کو جن میں ابن عباس بھی تھے ان سب کو مدینہ بھیج دو حسب الحکم حضرت عباس نے ابن عباس کو اور سب ذریات اور مستورات کو مدینہ روانہ کردیا اور خود نبی ﷺ کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور غزوہ خیبر جس میں تحریم متعہ واقع ہوئی تھی وہ ابن عباس کے مدینہ آنے سے دو سال پہلے ہوچکا تھا ان کو تحریم متعہ کی اطلاع کیسے ہوتی اور غزوہ اوطاس کے بعد جو تحری متعہ کا اعلان ہوا وہ فتح مکہ کے کچھ دن ہی بعد ہوا ابن عباس اس میں شریک نہ تھے غرضیہ کہ ان غزوات میں جو واقعات پیش آئے ابن عباس کو بذات خاص ان کی کچھ بھی خبر نہ تھی صرف دوسرے صحابہ کی زبانی ان دو غزوں کا حال معلوم ہوا اور ہجرت کے بعد حضرت ابن عباس صرف دو سال صحبت نبوی میں رہے مستفیض ہوئے اور اس عرصہ میں کوئی واقعہ متعہ پیش نہیں آیا اس لیے حضرت ابن عباس کو تحریم متعہ کی کوئی خبر نہیں ہوئی حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں جب مسئلہ زیر بحث آیا تو ابن عباس کو معلوم ہوا کہ فلاں فلاں آیات قرآنیہ سے متعہ کی حرمت ثابت ہوتی ہے اور ابن عباس کو دوسرے صحابہ سے معلوم ہوا کہ غزوہ اوطاس میں متعہ کی اباحت واقع ہوئی تو ابن عباس نے یہ سمجھا کہ شدید ضرورت کے وقت فقط رفع ضرورت کی غرض سے فقط سفر میں متعہ حلال کیا گیا اور جب اشد ضرورت نہ ہو تو اس وقت بمقتضائے آیات قرآنیہ متعہ حرام ہے پس اباحت کو وقت ضرورت پر حمل کیا اور تین دن کے بعد جو متعہ حرام کیا گیا تو اس کو حضرت ابن عباس نے انقطاع رخصت بارتفاع ضرورت پر حمل کیا یعنی یہ سمجھا کہ ضرورت باقی نہیں رہی اس لیے متعہ حرام ہوگیا اور ہر حلال میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے متعہ حرام نہیں ہوا یعنی ابن عباس نے تین دن کے بعد کی تحریم کو تحریم موبد نہ سمجھا بلکہ انقطاع رخصت بارتفاع ضرورت پر حمل کیا۔ معلوم ہوا کہ ابن عباس کے مذہب کی بناء پر اجتہاد پر تھی کہ جو مجموعہ آیات اور قصہ اوطاس نظر کرکے فرمایا۔ لیکن حقیقۃ الامر یہ ہے کہ ابن عباس کو اس اجتہاد میں خطا واقع ہوئی چناچہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کو جب ابن عباس کے قول کا علم ہوا تو یہ فرما۔ انک رجل تاءۃ ان رسول اللہ ﷺ نھی عن المتعہ۔ تحقیق تو مرد متحیر ہے تحقیق رسول اللہ نے متعہ سے منع فرمایا ہے۔ اس کے بعد عبداللہ بن زبیر کے عہد خلافت میں مابین عبداللہ بن عباس وعبداللہ بن زبیر و دیگر صحابہ کبار بار بار مکالمہ اور مباحثہ کرتے اور روایات حرمت ابدیہ پیش ہوئیں تو ابن عباس نے حلت عندالضرورت سے رجوع فرمالیا اور تحریم موبد کے قائل ہوئے جیسا کہ جامع ترمذی کی روایت اس پر دلالت کرتی ہے، عن ابن عباس انما کانت المتعۃ فی اول الاسلام کان الرجل یقدم البلدۃ لیس لہ بھا معرفۃ فیتزوج المراۃ بقدر مایری انہ یقیم فتحفظ لہ متاعہ وتصلح لہ شیہ حتی اذا نزلت الا علی ازواجھم او ماملک ایمانھم۔ الآیۃ۔ قال ابن عباس فکل فرج سوا ھما حرام۔ حاصل یہ ہوا کہ ابن عباس ابتداء میں متعہ کو میتہ کی طرح حالت اضطرار میں جائز بتلاتے تھے پھر جب مختلف صحابہ کرام اور حضرت علی وغیرہ سے تحریم کی احادیث کا علم ہوا تو اخیر میں اس سے بھی رجوع فرمالیا کیونکہ عبداللہ بن زبیر وغیرہ بحت کرنے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ یہ حکم منسوخی ہے اس لیے اپنے سابق فتوے سے رجوع کیا اور علی ہذا جو حضرات لاعلمی کی وجہ سے جواز متعہ کے قائل تھے جب ان کو نسخ کا علم ہوا تو سب نے اپنے قول سے رجوع کرلیا اور تمام صحابہ وتابعین کا حرمت متعہ پر اجماع ہوگیا۔ اطلاع۔ ناظرین کرام کو تحریم متعہ کی اگر مزید تفصیل درکار ہو تو سیرت مصطفیٰ جلد سوم مولفہ ناچیز میں غزوہ خیبر کا بیان ملاحظہ فرمائیں۔ ایک شبہ اور اس کا ازالہ۔ شبہ یہ ہے کہ سورة مومنون اور سورة معارج کی آیت جس سے متعہ کی حرمت ثابت ہوگئی وہ مکی ہے اور تحریم مدینہ میں واقع ہوئی سب سے پہلے جو حرمت متعہ کا اعلان ہوا وہ غزوہ خیبر میں ہوا ہے جو 7 ہجری میں پیش آیا۔ جواب۔ بعض آیات سے بعض احکام بطور اشارہ مفہوم ہوتے ہیں پھر جب اللہ کا ارادہ ہوتا ہے کہ یہ حکم واضح کردیا جائے تو نبی پر اللہ کی وحی نازل ہوجاتی ہے کہ آپ اس حکم کو لوگوں کے سامنے صاف طور پر بیان کریں اور صراحت اور وضاحت کے ساتھ اس کو بتلا دیں اس وقت وہ حکم اس آیت سے صراحتا معلوم ہوجاتا ہے اور خواص اس کے مکلف بن جاتے ہیں اور جب تک اللہ کو یہ منظور ہوتا ہے وہ حکم عام طور پر واضح اور ظاہر نہ ہو اس وقت تک اس کے واضح اور ظاہر کرنے کے لیے نبی ﷺ پر وحی نازل نہیں ہوتی اگرچہ خواص اور اذکیاء نے بطور اشارہ اس حکم کو سمجھ لیا ہو مگر عام طور پر عام لوگ اس کے مکلف نہیں ہوتے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وتتخذون منہ سکرا ورزقا حسنا۔ آیت۔ اور بناتے ہو تم اس انگور سے نشہ والی چیزیں اور رزق حسن یعنی عمدہ روزی۔ اللہ نے اس آیت میں سکرا کو رزق حسن کے مقابل ذکر فرمایا اور سکرا کے ساتھ حسن کی صفت ذکر نہیں کی جس سے اشارہ مفہوم ہوتا ہے کہ شراب اچھی چیز نہیں بلکہ حرام اور ممنوع ہے حالانکہ یہ آیت مکی ہے شراب حرام ہونے سے بہت قبل نازل ہوئی۔ نیز اللہ کا ارشاد ہے قل فیھما اثم۔۔ الی۔۔ نفعھما۔ آیت۔ آپ کہہ دیجئے کہ شراب اور جوئے میں بہت گناہ ہے اور ان دونوں میں لوگوں کے لیے فوائد اور منافع بھی ہیں لیکن ان کا گناہ ان کے منافع سے بڑھا ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ جس میں گناہ غالب ہوگا وہ شے حرام اور ممنوع ہوگی اس لیے کہ تمام عقلاء کا اس پر اتفاق ہے کہ دفع مضرت جلب منفعت پر مقدم ہے اور اسی وجہ سے حضرت عمر اس بارے میں یہ دعا کرتے تھے اللھم بین لنا فی الخمر بیانا شافیا۔ اے اللہ شراب کے بارے میں کوئی واضح اور صاف حکم نازل فرماجس سے دل کو شفا اور اطمینان ہوجائے اور یہ دعا نہیں کرتے تھے کہ اللہ شراب کو حرام فرما۔ اسی طرح سمجھ لیجئے کہ آیت مومنون اور آیت معارج میں حرمت متعہ کی طرف اشارہ تھا مگر جب نبی صلی اللہ نے اس کی صراحت نہیں فرمائی تھی اس وقت تک متعہ کی حرمت کا ثبوت اس آیت سے ظنی تھا آپ کی تصریح کے بعد اس کی حرمت قطعی ہوگئی جب آپ نے اس کی حرمت کا اعلان فرمادیا تھا تو وہ اشارہ اب مبدل بہ صراحت ہوگیا اور ظنیت مبدل بہ قطعیت ہوگئی سب سے پہلے آپ نے جنگ خبیر میں متعہ سے منع فرمایا اور اس کے بعد غزوات میں بار بار حرمت متعہ کا اعلان خطبوں میں فرماتے رہے یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ نے اپنے دور خلافت میں حرمت متعہ کا خوب اعلان کیا تاکہ کوئی شخص ناواقفی اور لاعلمی کی بنا پر متعہ میں مبتلا نہ ہوجائے۔
Top