Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 44
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَةَ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَؕ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يَشْتَرُوْنَ : مول لیتے ہیں الضَّلٰلَةَ : گمراہی وَيُرِيْدُوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ تَضِلُّوا : بھٹک جاؤ السَّبِيْلَ : راستہ
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا تھا کہ وہ گمراہی کو خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستے سے بھٹک جاؤ
ذکر بعض قبائح یہود۔ قال تعالی۔ الم ترالی الذین۔۔۔۔ الی۔۔۔۔ الاقلیلا۔ آیت۔ ربط) یہاں تک مواقع تقوی اور حدود اللہ سے ان تعدیوں کا بیان تھا جن کا تعلق مسلمانوں سے تھا اب آئندہ آیات میں اہل کتاب کی تعدی کو بیان فرماتے ہیں اور مسلمانوں کو متنبہ کرنے کے لیے یہود کی بعض قبائح اور ان کے مکروفریب اور ان کی پرانی اور جبلی شرارتوں کا ذکر کرتے ہیں کہ یہود ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ مسلمانوں کو دین سے پھیر دیں اور توریت میں تحریف کرتے ہیں اور دین اسلام پر طرح طرح کے طعن اور اعتراضات کرتے ہیں تاکہ لوگ شک میں پڑجائیں اور جب نبی ﷺ کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں تو نہایت گستاخانہ اور تمسخر آمیز ہوتی ہے مال و دولت کے نشہ نے اور تکبر اور غرور نے ان کو اندھا بنا رکھا ہے یہود کے ان شنائع اور قبائح کے بیان کر سے مقصود یہ ہے کہ مسلمان ان کے مکروفریب پر مطلع ہوجائیں تاکہ ان سے علیحدہ رہیں چناچہ فرماتے ہیں اور اے نبی کیا آپ نے ان لوگوں کو دیکھا نہیں جن کو کتاب یعنی توریت کے علم سے بہرور کیا گیا ہے اور اس کے علم سے ان کو ایک حصہ دیا گیا ہے یعنی کیا آپ کو ان کی گمراہی اور شرارت کا حال معلوم نہیں کہ وہ کیسے سخت گمراہ اور شریر ہیں کہ وہ لوگ ہدایت کو دے کر گمراہی خرید کر لاتے ہیں یعنی یہود نبی ﷺ کی تکذیب کرکے ہدایت کے بدلے میں گمراہی خریدتے ہیں اور خود تو گمراہی کے خریدار بنے ہی اور مزید برآں چاہتے یہ ہیں کہ تم بھی سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ لہذا تم ان سے احتیاط رکھنا کیونکہ یہ تمہارے دشمن ہیں اور شاہد تم کو ان کی دشمنی کا علم نہ ہو مگر اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے یعنی تمہیں ان کی عداوت کا حال معلوم نہیں مگر اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ ان کے سینے تمہاری عداوت سے لبریز ہیں اللہ نے تم کو بتلا دیا کہ تم انکواپنا دشمن سمجھو اور ان سے بچتے رہو اور ان کی باتوں میں نہ آؤ اور ان کی دشمنی کا حال سن کر پریشان بھی نہ ہونا کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارا کافی حمایتی اور اللہ تعالیٰ کافی مددگار ہے تمہارا یعنی ان کی عداوت تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارا حامی ہے اس کی حمایت کے مقابلہ میں سارے عالم کی عداوت ہیچ ہے اور اللہ تمہارا مددگار ہے اس کی نصرت اور حمایت پر بھروسہ رکھو اور ان سے بالکل نہ ڈرو اس کے بعد یہود کی چند عادتیں ذکر فرماتے ہیں تاکہ تم کو یہ بات معلوم ہوجائے کہ وہ کونسی باتیں جن سے وہ گمراہی کو خریدتے ہیں اور خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور اوروں کو بھی گمراہ کرنا چاہتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں کہ یہودیوں میں سے کچھ الوگ ایسے ہیں جو کتاب الہی یعنی توریت کے کلمات اور الفاظ کو ان کے موقع اور محل سے لفظا یا معنی پھیر دیتے ہیں اور ہٹا دیتے ہیں یعنی توریت میں جو محمد رسول اللہ ﷺ کے اوصاف مذکور ہیں کبھی تو ان الفاظ ہی کو بدل ڈالتے اور اصل الفاظ کو نکال کر ان کی جگہ دوسرے الفاظ رکھ دیتے ہیں مثلا توریت میں نبی ﷺ کے حلیہ کے بیان میں لفظ ربعہ لکھا ہوا تھا جس کے معنی میانہ قد کے ہیں انہوں نے اس لفظ کو نکال کر اس کی جگہ آدم طویل رکھ دیا اور اسی طرح لفظ رجم کی جگہ لفظ حدود رکھ دیا یہ تو لفظی تحریف ہوئی اور کبھی ایسا کرتے کہ توریت کی آیتوں کے معنی غلط کرتے اور تاویلات باطلہ سے سامعین کو شبہ ڈالتے غرض یہ کہ یہ لوگ لفظی اور معنوی ہر قسم کی تحریف کرتے کبھی الفاظ کی تفسیر غلط کرتے اور کبھی الفاظ ہی کو بدل ڈالتے اگر سمجھتے کہ لفظوں کے بدلنے کی ضرورت نہیں ہمارا کام تاویل باطل ہی سے چل جائے گا تو لفظوں کو نہ بدلتے فقط غلط معنی بیان کرنے پر اکتفا کرتے جیسا کہ اہل بدعت کا طریقہ ہے کہ قرآن اور حدیث میں لفظی تحریف پر تو قادر نہیں اپنی من مانی تاویلیں کرتے ہیں اور اگر جانتے کہ آیت میں ایسے صریح الفاظ ہیں کہ اس میں ہماری تاویل نہیں چل سکتی اور مسلمانوں کو اس سے ہمارے خلاف سند اور حجت ملے گی تو اس کے لفظوں ہی کو بدل ڈالتے جیسا کہ فویل اللذین یکتبون۔۔۔ الی۔۔۔ عنداللہ۔ آیت۔ کی تفسیر میں مفصل گزرا قرآن مجید کی یہ آیت یہود کی تحریف لفظی کا صریح اور واضح ثبوت ہے جس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں اور اگر دیکھتے کہ اس وقت نہ تحریف لفظی کا موقع ہے اور نہ تحریف معنوی کا تو اس کو چھپالیتے جیسا کہ ولا تلبسو الحق بالباطل وتکموالحق وانتم تعلمون۔ آیت۔ کی تفسیر میں گزرا۔ (ف) ۔ یحرفون الکلم عن مواضعہ۔ میں کلمات اور الفاظ کو اپنے ٹھکانوں سے ہٹانے اور پھیرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے ایک کلمہ کو اس کی جگہ سے نکال ڈالا تو گویا تو انہوں نے اس کلمہ کو اپنے اصلی ٹھکانہ سے ہٹا کر بےٹھکانہ کردیا اور اسی طرح جب انہوں نے اس کلمہ کی غلط تفسیر اور غلط تاویل کو تو گویا کہ انہوں نے اس کلمہ کو اس کے اصلی ٹھکانہ سے جو باعتبار معنی کے اس کے لی متعین تھا ہٹا دیا تحریف کی اصل حقیقت ہی یہ ہے کہ حروف کو اپنی جگہ سے منحرف کردیا جائے تحریف کا اصل تعلق حروف سے ہے اور معنی سے بواسطہ حروف کے ہے۔ ایک اطلاع) ۔ توریت اور انجیل میں لفظی تحریف اور بیشمار تغیرات اور اختلافات کی تحقیق اگر درکار ہوتواظہارالحق اور ازالۃ الاوہام اور ازالۃ الشکوک ہر سہ مصنفہ حضرت مولانا رحمتہ اللہ کیرانوی قدس سرہ کی مراجعت کریں یہود اور نصاری کے جن اور انس بھی اگر جمع ہوجائیں تو انشاء اللہ ثم انشاء اللہ ہرگز ہرگز اس کے جواب پر قادر نہ ہوں گے۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ توریت اور انجیل میں لفظی تحریف نہیں ہوئی صرف معنی تحریف ہوئی ہے یہ خیال خام ہے جو بالکل غلط ہے اور جو آیات اور احادیث صریح تحریف لفظی پر شاہد ہیں یہ قول ان میں تحریف کے مرادف اور اب تو تحریف اس درجہ بدیہی ہے کہ علماء یہود ونصاری خود تحریف لفظی کے معترف ہے اور مقر ہیں توریت اور انجیل میں تحریف لفظی کے منکر مدعی سست اور گواہ چست کے مصداق ہیں جس شخص کا یہ گمان ہے کہ توریت وانجیل میں لفظی تحریف نہیں ہوئی تو وہ یہ بتلائے کہ توریت اور انجیل کے نسخوں میں جو ہزارہا اختلاف موجود ہیں وہ کہاں سے آئے اور قرآن کریم میں جو صراحۃ یہ آیا ہے کہ نبی امی کا ذکر توریت وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں اور حسب ارشاد باری تعالی، ذالک مثلھم فی التورات ومثلھم فی الانجیل۔ صحابہ کرام کا ذکر بھی توریت اور انجیل میں موجود ہے پس توریت اورا نجیل میں تحریف لفظی کے منکر اگر ان آیات قرآنیہ پر ایمان رکھتے ہیں تو بتلائیں اور دکھلائیں کہ توریت وانجیل میں کس جگہ نبی امی اور آپ کے صحابہ کا ذکر ہے اور پھر تا اویل کریں کیونکہ تاویل تو موجود میں چلتی ہے نہ کہ معدوم میں الحمدللہ ثم الحمدللہ ہم اہل اسلام ببانگ دہل کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی شان تو بہت ہی بلند ہے موطا اور بخاری اور مسلم اور ابوداؤد ترمذی وغیرہ کے نسخوں کو ملالیجئے بحمدہ تعالیٰ مشرق اور مغرب اور شمال وجنوب کے نسخوں میں بھی تفاوت نہ ملے گا اور یہود کی ایک عادت بد یہ ہے کہ جب نبی ﷺ کی محفل میں حاضر ہوتے ہیں اور آپ انکو کوئی حکم سناتے ہیں تو یہود جواب میں یہ کہتے سمعنا وعصینا ہم نے آپ کے حکم کو سن لیا اور دل میں یا آہستہ سے یہ کہتے کہ ہم نے نہیں مانا یعنی ہم نے فقط کان سے سن لیا مگر دل سے نہیں مانا مطلب یہ ہے کہ یہ بات ہم کو منظور نہیں اور بعض کہتے ہیں کہ یہ دونوں لفظ ظاہر میں کہتے تھے اور مقصود ان کا نبی کے ساتھ تمسخر تھا لیکن یہ قول ضعیف ہے اس لیے کہ اس میں ان کے نفاق کے کھل جانے کا غالب احتمال ہے اور اثناء گفتگو میں ایک لفظیہ کہتے ہیں اسمع غیر مسمع سن تو، نہ سنایاجائیو اس لفظ کے دو معنی ہوسکتے ہیں اگر یہ معنی لیے جائیں کہ آپ ہماری بات سنیے اور خدا آپ کو کوئی بات بری اور خلاف مزاج نہ سنائے تو اس معنی کو یہ کلمہ دعا اور تعظیم کا ہے اور اگر اس کے یہ معنی ہوں کہ تمہاری کوئی بات نہ سنی جائے یا یہ معنی ہوں کہ کوئی ایسی بات نہ سنو کہ جو تمہاری مرضی اور خوشی کے مطابق ہو تو اس معنی کو یہ کلمہ بددعا اور تحقیر کا ہے غرضیہ کہ شرارت سے پیچدار اور ذو معانی لفظ بولتے تھے کہ سننے والا اچھے معنی پر محمول کرے اور دل میں برے معنی مراد ہوں اور من جملہ ان کی شرارتوں کے ایک شرارت یہ تھی کہ وہ نبی ﷺ سے خطاب کرتے وقت راعنا کہتے اس کے بھی دو معنی ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ آپ ہماری رعایت فرمائیے اور ہماری طرف توجہ اور التفات فرمائیں دوسرے معنی اس کے احمق اور مغرو رکے ہیں رعونت سے مشتق ہے یا یہ کہ یہود کی زبان میں اس کے معنی احمق اور شیخی خورے کے ہیں ان کی زبان میں یہ کلمہ تحقیر کا ہے یا زبان کو دبا کر اور عین کو کھینچ کر راعینا کہتے جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اے ہمارے چرواہے اور گڈریے یہود کی یہ محض شرارت تھی کہ ذو معانی لفظ بولتے ظاہر یہ کرتے کہ ہم اس کا استعمال اچھے معنی میں کررہے ہیں مگر ان کا مقصود محض تمسخر ہوتا حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں تھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء کرام نے بھی بکریاں چرائی ہیں غرضیہ کہ یہود ان ذومعنی الفاظ کو اپنی زبانیں مروڑکر اور دین اسلام میں طعنہ کی نیت سے کہتے ہیں عموما استہزاء کرنے والوں کا یہ طریقہ ہے کہ الفاظ کے ساتھ اپنی زبانوں کو اینٹھتے اور مروڑتے ہیں اور ایسے انداز سے بولتے ہیں کہ سننے والا الفاظ کو اچھے معنی پر محمول کرلے اور برے معنی کی طرف اس کا خیال بھی نہ جائے اور ان الفاظ سے یہود کا مقصود دین اسلام پر عیب لگانا اور طعنہ دینا تھا یہود اپنے دوستوں سے کہتے کہ ہم باتوں ہی باتوں میں محمد ﷺ کو برا کہہ جاتے ہیں مگر وہ ہماری بات کو نہیں سمجھتا اگر یہ شخص نبی ہوتا تو ہماری بات کو سمجھتا اور ہمارا فریب ضرور معلوم کرلیتا سو اللہ نے ان کے فریب کو کھول کر بیان فرمادیا اور انکے مکر کو سب پر واضح اور آشکار کردیا اور نبی ﷺ تو انکے لب و لہجہ سے انکے نفاق اور باطنی خبث کو جان لیتے تھے کما قال عالی، ولتعرفنھم فی لحن القول۔ آیت۔ مگر حتی الوسع اغماض اور مسامحت فرماتے تھے اور اگر یہ لوگ بجائے ان ذی وجوہ اور ذو معنین الفاظ کے یہ کلمات کہتے یعنی بجائے سمعنا وعصینا کے سمنا واطعنا کہتے جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے آپ کے حکم کو گوش ہوش سے سنا اور دل وجان سے اس کو مانا اور بجائے اسمع غیر مسمع کے صرف اسمع کہتے جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ ہماری بات سن لیجئے اور بجائے راعنا کے انظرنا کہتے جس کے معنی یہ ہیں کہ ہماری طرف نظر التفات فرمائیے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا اور نہایت درست ہوتا یعنی یہ لوگ اگر بجائے ان پیچدار اور ذو معانی الفاظ کے یہ کلمات کہتے جو ہم نے تلقین کیے تو وہ ان کے حق میں مفید اور نافع ہوتا اور فی حدذاتہ بات بھی سیدھی اور سچی تھی یعنی حق تھی جس میں کسی قسم کا اینچ پیچ نہ تھا و لیکن اللہ نے ان کو کفر اور عناد کے باعث اپنی رحمت سے دور کردیا اس لیے وہ مفید اور سیدھی بات کو بھی نہیں سمجھتے پس نہیں ایمان لاتے مگر تھوڑے آدمی جیسے عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی کہ وہ ان خباثتوں اور شرارتوں سے مجتنب رہے اس لیے وہ اللہ کی لعنت سے محفوظ رہے اور مشرف بااسلام ہوئے۔
Top