Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - At-Talaaq : 4
وَ الّٰٓئِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ١ۙ وَّ الّٰٓئِیْ لَمْ یَحِضْنَ١ؕ وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ١ؕ وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ اَمْرِهٖ یُسْرًا
وَ الّٰٓئِیْ يَئِسْنَ
: اور وہ عورتیں جو مایوس ہوچکی ہوں
مِنَ الْمَحِيْضِ
: حیض سے
مِنْ نِّسَآئِكُمْ
: تمہاری عورتوں میں سے
اِنِ ارْتَبْتُمْ
: اگر شک ہو تم کو
فَعِدَّتُهُنَّ
: تو ان کی عدت
ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ
: تین مہینے ہے
وَ الّٰٓئِیْ لَمْ
: اور وہ عورتیں ، نہیں
يَحِضْنَ
: جنہیں ابھی حیض آیا ہو۔ جو حائضہ ہوئی ہوں
وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ
: اور حمل والیاں
اَجَلُهُنَّ
: ان کی عدت
اَنْ
: کہ
يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ
: وہ رکھ دیں اپنا حمل
وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ
: اور جو ڈرے گا اللہ سے
يَجْعَلْ لَّهٗ
: وہ کردے گا اس کے لیے
مِنْ اَمْرِهٖ
: اس کے کام میں
يُسْرًا
: آسانی
اور تمہاری (مطلقہ) عورتیں جو حیض سے ناامید ہوچکی ہوں اگر تم کو (انکی عدت کے بارے میں) شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے۔ اور جن کو ابھی حیض نہیں آنے لگا (انکی عدت بھی یہی ہے) اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (یعنی بچہ جننے) تک ہے۔ اور جو خدا سے ڈرے گا خدا اس کام میں سہولت کر دے گا
ذکر احکام بعض مطلقات مع بیان حق سکنی ونفقہ ومسئلہ رضاعت : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” والی ٓ ء یئسن من المحیض ...... الی ..... سیجعل اللہ بعد عسریسرا “۔ (ربط) گزشتہ آیات میں طلاق کی عدت اور طلاق واقع کرنے کے بعض احکام بیان فرمائے گئے تھے اور ان امور میں اللہ کے تقوی اور حدود شریعت کی پابندی کے لئے تاکید فرمائی گئی تھی اب ان آیات میں بعض مطلقہ عورتوں کے خصوصی احکام اور ان کے حقوق کا بیان ہے بالخصوص وہ مطلقہ عورتیں جن کو حیض نہ آتا ہو یا وہ حاملہ ہوں ان کی عدت اور متعلقہ احکام اہمیت کے ساتھ بیان کیے گئے، فرمایا۔ اور جو عورتیں ناامید ہوچکی ہوں حیض سے تمہاری عورتوں میں سے اگر تم کسی قسم کا شبہ کرو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور اسی طرح وہ عورتیں بھی جن کو حیض نہیں آیا، خواہ بچپن کی وجہ سے یا کسی اور علت کے باعث تو ان کی عدت بھی تین ماہ ہے اور وہ عورتیں جو حاملہ ہیں تو ان کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع لیں اور جو بچہ پیٹ میں ہے وہ جن لیں اور جو بھی اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے واسطے اس کے کام میں سہولت پیش کردیتا ہے اور وہ خود مشاہدہ کرلیتا ہے کہ کس طرح قدرت کی طرف سے اس کے کاموں میں سہولت پیدا ہوتی ہے، اور کس طرح اس کے مسائل ومشکلات کا حل نکلتا ہے، یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف اتارا ہے اور جو شخص بھی اللہ سے ڈرتا ہے تو اس کی برائیاں مٹا دیتا ہے اور اس کے اجر وثواب کو بہت بڑا کرتا ہے اس لئے ایمان والوں کو چاہئے کہ زندگی کے ہر مرحلہ پر اللہ کا تقوی اختیار کریں انسان کو بیشک اپنے خانگی معاملات اور زندگی کے معاملات میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں بہت کچھ تکالیف اور وقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان سب احوال میں اللہ کا تقوی ہی اس کو مصائب سے نکالنے پریشانیوں کو دور کرنے، مشکلات کو آسان کرنے کا ذریعہ ہے اور پھر اس وصف تقوی سے متقی شخص کے لئے حق تعالیٰ کی طرف سے یہ بھی انعام ہے کہ اس کی جو برائیاں اور کو تاہیاں ہیں ان کو نور تقوی دور کردیتا ہے اور اجر وثواب بھی خوب ملتا ہے بہرکیف عورتوں کے معاملات بالخصوص وہ عورتیں جو طلاق دے دی گئیں ضروری ہے کہ ان کے حقوق ادا کرنے کے لیے خدا وند عالم کا تقوی اختیار کیا جائے اور ڈرنا چاہئے کہ کسی طرح بھی ان پر کوئی ظلم وتعدی نہ ہو اسی سلسلہ میں یہ بھی حکم ہے، ان مطلقہ اور معتدہ عورتوں کو گھروں میں رہنے کے ٹھکانا مہیاکرو، جہاں تم سکونت اختیار کرتے ہو اپنی قدرت و طاقت کے موافق کہ حق سکنی کی وجہ سے وہ مستحق ہیں کہ تمہارے گھروں میں رہیں اور ظاہر ہے کہ رہائش کی ضروریات میں نفقہ بھی ان کا مہیا کرنا چاہئے اور تم ان کو مشقت میں مت ڈالوں اس طرح کہ تم ان پر تنگی کر دو اور ان کی زندگی ان پر تنگ ہوجائے۔ عام حالات میں تو عدت کا زمانہ تین حیض یاتین ماہ میں پورا ہوجائے گا اور اگر وہ حاملہ ہوں تو پھر یہ نہیں کہ تم وضع حمل کی مدت کا انتظار نہ کرو بسا اوقات اس کے طویل ہوجانے کی وجہ سے بلکہ تم ان پر خرچ کرو یہاں تک کہ وہ اپنا حمل وضع کرلیں، وضع حمل پر مطلقہ عورت کی عدت تو ختم ہوجائے گی اور عدت کے بعد وہ عورتیں دودھ پلائیں تو ان کو اس کا بدلہ ادا کرو اور طے کرلو آپس میں اپنے معاملات بھلے طریقہ سے اس طرح کہ نہ تو کوئی جھگڑا ہو اور نہ ہی کوئی کسی کی حق تلفی کرے اور اگر آپس میں تم دشواری محسوس کرو اور کسی چیز پر دونوں متفق نہ ہوسکو تو پھر بہتر ہے کہ کوئی دوسری عورت دودھ پلانے والی دودھ پلائے تاکہ باہمی منازعت اور خصومت کی نوبت نہ آئے بچہ کی تربیت پر بہر کیف خرچ کرنا باپ کے ذمہ ہے تو چاہئے کہ وسعت والا اپنی واسعت وفراخی کے مطابق خرچ کرے اور جس کسی پر رزق کی تنگی ہو تو خرچ کرے جو کچھ اللہ نے اس کو دیا ہے اللہ کسی کو بھی پابند نہیں بناتا مگر اسی مقدار کا جو اللہ نے اس کو عطا کیا ہے اس سے زائد کا مکلف نہیں بنایا جاتا اور اگر کسی کو تنگی ہو تو اس سے انسان کو حقوق ادا کرنے میں رکاوٹ نہ کرنی چاہئے اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئے وہی رحمت اور فراخی کے دروازے کھولنے والا ہے۔ مطلقہ عورتوں کی عدت کے بعض احکام : سورة بقرہ میں آیت “۔ والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا یتربصن بانفسھن اربعۃ اشھروعشرا “۔ میں واضح طور پر بیان کیا گیا تھا کہ جن عورتوں کے خاوند انتقال کرجائیں تو ان عورتوں کی عدت شوہر کی موت کے بعد چار ماہ اور دس دن ہے یہ حکم مطلق تھا اس میں قید نہ تھی کہ وہ کون سی عورتوں کا حکم ہے، حاملہ ہوں یا غیرحاملہ تو اس آیت نے یہ واضح کردیا کہ وہ حکم غیر حاملہ عورتوں کا تھا اور حاملہ عورتوں کا حکم ہر قسم کی عدت میں یہ ہے کہ وضع حمل تک ان کی عدت باقی رہے گی تو اس صورت میں کسی بھی آیت کو منسوخ قرار دینے کی نوعیت نہیں رہتی بلکہ ہر نوع کا حکم علیحدہ ہر ایک آیت نے بیان کردیا پھر یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرمایا کرتے تھے یہ آیت جو سورة طلاق میں نازل ہوئی سورة بقرہ کی آیت سے بعد میں نازل ہوئی، ابتداء میں بعض صحابہ کا خیال تھا کہ عدت وفات کی صورت میں عورت اگر حاملہ ہو تو عدت کا زمانہ وہ قرار دیا جائے گا جو زائد ہو، وضع حمل یا چار ماہ دس دن یعنی اگر وضع حمل خاوند کے انتقال کے بعد جلد ہی ہوجائے تو پھر چار ماہ دس دن کا انتظار کیا جائے گا اور اگر چار ماہ دس دن گزر جائیں اور وضع حمل نہ ہو تو پھر وضع حمل کی عدت کو انتہا قرار دیا جائے جیسا کہ حضرت علی ؓ اور عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کیا گیا۔ جمہور صحابہ اور ائمہ فقہاء کا مسلک یہی ہے کہ خاوند کے انتقال کے بعد اگر چندلمحے ہی گزرنے پر بچہ جن دے تو پاک ہونے پر اس کی عدت پوری ہوجائے گی، چناچہ صحیح بخاری میں ابو سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے پاس آیا اور اس وقت ابوہریرہ ؓ بھی وہیں بیٹھے تھے اور اس نے کہا کہ اے عبداللہ بن عباس ؓ میں ایک عورت کے بارے میں آپ سے فتوی دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ ایک حاملہ عورت ہے اس نے اپنے شوہر کے انتقال کے چالیس روز بعد بچہ جنا ہے (تو اب وہ عورت کس طرح شمار کرے) ابن عباس ؓ نے جواب دیا کہ دونوں مدتوں میں سے جو طویل مدت ہے وہی عدت ہوتی ہے یعنی اب اس صورت میں چار ماہ دس دن عدت کے گزارنے ہوں گے بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا (آیت) ” واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن “۔ (آیت قرآنیہ ہے جس سے تو یہی سمجھا جاسکتا ہے کہ بس وضع حمل پر عدت پوری ہوجائے) اس پر ابوہریرہ ؓ کہنے لگے کہ میں تو اپنے بھتیجے یعنی ابو سلمہ ؓ کے ساتھ ہوں (اور ان کی موافقت کرتا ہوں) حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے اپنا غلام حضرت ام سلمہ ام ال مومنین ؓ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ایک واقعہ پیش آیا تھا کہ سبیعہ اسلیمیہ ؓ کے شوہر قتل کردیئے گئے تھے اور وہ اس وقت حاملہ تھیں سبیعہ ؓ نے اپنے خاوند کی موت کے چالیس دن بعد بچہ جنا جب وہ پاک ہوئیں تو ان کے واسطے پیغام نکاح آیا، بعض اقرباء کے اعتراض و انکار پر) انہوں نے آنحضرت ﷺ سے مسئلہ معلوم کیا تو آنحضرت ﷺ نے ان کو نکاح کی اجازت دیدی (امام بخاری (رح) اور امام مسلم (رح) و دیگر ائمہ محدثین نے اس قصہ کو اجمال و تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بھی اس بات کی تردید فرمایا کرتے تھے کہ ایسی عورت کے لئے ابعد الاجلین کو عدت قرار دیا جائے گا، اور سورة طلاق کی اس آیت کو فرمایا کرتے تھے کہ اس کے بعد تو کوئی آیت ہی اس مسئلہ میں نازل نہیں ہوئی حضرت مسروق ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب عبداللہ بن مسعود ؓ کو معلوم ہوا کہ حضرت علی ؓ ابعد الاجلین کے قائل ہیں تو بڑی سختی سے ان کا رد فرمایا اور فرمایا میں اس پر ملاعنہ کرنے کو تیار ہوں کہ یہ آیت سورة بقرہ کے بعد نازل ہوئی ہے۔ 1 حاشیہ (رواہ ابوداؤد وابن ماجہ من حدیث ابی معاویۃ عن الاعمش “۔ 12) بعض روایت میں یہ بھی وضاحت ہے کہ ابی بن کعب ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ (آیت) ” واولات الاحمال “۔ مطلقہ ثلث کے بارے میں ہے یا اس عورت کے حق میں جس کے خاوند کا انتقال ہوگیا ہو فرمایا یہ دونوں کے بارے میں ہے یہ روایت اگرچہ سند ضعیف سے مروی ہے لیکن یہی مضمون متعدد سندوں سے مروی ہونے کے باعث اصول حدیث کی رو سے قابل اعتماد اور حجت ہے مگر سبیعہ اسلمیہ ؓ کی روایت جس کو بخاری ومسلم اور دیگر ائمہ حدیث نے تخریج کیا وہ متفق علیہ ہے اور حجت کے لیے کافی ہے۔ معتدہ عورت کے لئے نفقہ اور سکنی : عدت احکام نکاح اور متعلقات حقوق نکاح سے ہے شریعت کے اس بنیادی ضابطہ کے پیش نظر یہ بات واضح ہے کہ مطلقہ عورت کے لیے عدت کا زمانہ گزارنے کے واسطے مرد کے ذمہ یہ ضروری ہو کہ مکان دے جس کو شریعت کی اصطلاح میں سکنی کہا جاتا ہے اور جب عورت ازروئے سخن شرع حالت عدت میں مکان سے باہر نہیں نکل سکتی تو لامحالہ نفقہ بھی مرد کے ذمہ لازم ہوگا، قرآن کریم کے یہ الفاظ (آیت) ” اسکنوھن من حیث سکنتم من وجدکم “۔ اسی بات پر دلالت کررہے ہیں کہ عورت کے لیے حتی المقدور یہ انتظام کرنا ضروری ہوگا اور حتی المقدور رہائش کا بندوبست مکان نفقہ اور کپڑوں پر دلالت کررہا ہے بعض محدثین نے عبداللہ بن مسعود ؓ کے مصحف سے بیان کیا کہ وہ اس موقعہ پر لفظ (آیت) ” وانفقوا علیھن “۔ بھی پڑھا کرتے تھے (جس کو ان کے تلامیذنے ان کے مصحف میں بطور حاشیہ یا کلمات بین السطور لکھ بھی دیا تھا) امام ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک (رح) کے نزدیک نفقہ کا حکم عام ہے ہر قسم کی مطلقہ عورتوں کے متعلق ہے جیسا کہ آئسہ، صغیرہ اور حاملہ کی عدت کا مسئلہ کہ اس میں کوئی تخصیص نہیں اسی طرح نفقہ کے حکم میں بھی کوئی تخصیص نہیں۔ فاطمہ بنت قیس ؓ جن کو تین طلاقیں دی گئی تھی ان کی روایت میں یہ ذکر کیا جانا ان ہی الفاظ وکلمات میں کہ ” رسول اللہ ﷺ نے میرے واسطے نفقہ اور سکنی کا حکم نہیں فرمایا “ نفقہ کے وجوب کی دلیل نہیں بن سکتا، فقہاء اور ائمہ محدثین کی تحقیق اور روایات کے تتبع سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ عورت چونکہ بدزبان تھیں اور جھگڑتی تھیں تو خاوند کے گھر ان کے خاندان کے لوگوں سے ان کا نباہ مشکل ہورہا تھا اس وجہ سے یہ صورت ہونی کہ ان کو سکنی نہیں دیا گیا تو مطلب یہ ہوا کہ یہ اپنے مزاج کے لحاظ سے شوہر کے گھر جب نہ رہ سکیں تو ان کو دوسری جگہ منتقل کیا گیا چناچہ سنن کی روایات میں اس کی تصریح ملتی ہے۔ 1 حاشیہ (سنن ابودادرحمۃ اللہ علیہ، بیہقی (رح)) اور جب سکنی کا مسئلہ نہ رہا تو نفقہ بھی نہ رہا، جیسے کہ ناشرہ عورت کے بارے میں حکم ہے، جو عورت نافرمانی کرکے شوہر کے گھر سے نکل جائے تو اس کا نفقہ ساقط ہوجاتا ہے۔ حاشیہ (احکام القرآن للجصاصرحمۃ اللہ علیہ) نیز جامع ترمذی و دیگر سنن کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو نفقہ دیا گیا تھا ان کے خاوند نے وکیل کے ذریعے وہ نفقہ بھیجا تھا مگر اس عورت نے زائد کا مطالبہ کیا جو آنحضرت ﷺ نے منظور نہ فرمایا اور یہ فرمایا بس تیرے واسطے اتنا ہی نفقہ کافی ہے (آیت) ” الا ان کونی حاملا “۔ ہاں البتہ اگر توحاملہ ہوتی اور مدت حمل طویل ہوتی تو ایسی صورت میں بیشک تیرا نفقہ زائد کیا جاسکتا تھا تو دراصل اسی مقدار زائد کے انکار کو یہ عورت فاطمہ بنت قیس ؓ کہا کرتی تھی کہ اس کے واسطے نفقہ اور سکنی کا فیصلہ نہیں فرمایا مگر فاطمہ ؓ کے اس بیان اور اس قسم کے اظہار کو حضرات صحابہ حتی کہ ام ال مومنین حضرت عائشہ ؓ اور امیر ال مومنین عمر فاروق ؓ پسند نہیں فرمایا کرتے تھے حضرت عائشہ فرماتی تھی کہ ما الفاطمۃ لا تتقی اللہ، تقول ان رسول اللہ ﷺ لم یجعل لھا نفقۃ ولا سکنی کہ کیا ہوگیا فاطمہ ؓ کو یہ اللہ سے نہیں ڈرتی یہ کہتے ہوئے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے واسطے نفقہ اور سکنی کا فیصلہ نہیں فرمایا اور حضرت عمر فاروق ؓ فرمایا کرتے کہ۔ واللہ لا ندع کتاب ربنا ولا سنۃ نبینا لقول امراۃ جھلت اونسیت۔ “ خدا کی قسم ہم کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتے محض ایک عورت کے قول پر معلوم نہیں اس نے صحیح بات سمجھی یا نہیں یا کوئی چیز بھلادی۔ جس سے صاف واضح ہوا کہ مطلقہ کے لیے نفقہ اور سکنی فاروق اعظم ؓ کے نزدیک کتاب اللہ کا حکم تھا اور رسول اللہ ﷺ کی سنت تھی طحاوی میں حضرت عمر ؓ سے اس کا سنت رسول اللہ ہونا ثابت ہے اور اسی طرح دار قطنی میں حضرت جابر ؓ کی ایک روایت میں بھی اس کی تصریح ہے، حضرات اہل علم مراجعت فرمالیں۔ طلاق ثلث باجماع امت تین طلاق ہیں : نص قرآنی نے یہ فیصلہ کردیا کہ تین طلاق کے بعد حرمت قطعیہ واقع ہوجاتی ہے، اور رجوع کا امکان باقی نہیں رہتا جس کی تفصیل سورة بقرہ کی (آیت) ” فان طلقھا فلا تحل لہ “۔ میں گزر چکی، خواہ تین طلاقیں متفرقا اور علیحدہ علیحدہ دی ہوں یا بیک وقت، اس اجماعی فیصلہ میں کسی کا اختلاف نہیں البتہ ظاہر یہ اور بعض حنابلہ سے اختلاف نقل کیا گیا، مگر خود امام احمد بن حنبل (رح) اس کے قائل نہیں، امام ابوحنیفہ (رح)، امام مالک (رح)، امام شافعی (رح)، اور احمد بن حنبل (رح)، کا یہی فتوی ہے اور امت کے کل فقہاء محدثین ومفسرین اسی کے قائل ہیں، چناچہ امام بخاری (رح) نے بھی اس پر ایک باب باندھا ہے فرمایا۔ باب من اجاز الطلاق الثلث بقولہ تعالیٰ الطلاق مرتن “۔ امام قرطبی (رح) (تفسیر قرطبی ج 3 ص 129) فرماتے ہیں کہ تمام ائمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ ایک دفعہ ایک ہی زبان سے تین طلاق کہہ دینے سے تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں، البتہ طاؤس (رح) اور بعض ظاہریہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک کلمہ سے تین طلاق دینے سے ایک شمار کی جائے گی، اس کے بعد امام قرطبی (رح) نے تمام شکوک وادہام کا جواب دیا (اصل کی مراجعت فرمائی جائے) روایات سے ثابت ہے کہ عمر فاروق ؓ کے خلافت میں تمام صحابہ کرام ؓ اور فقہاء کے مشورہ سے یہ فتوی دیا گیا کہ جو شخص تین طلاق دے گا اس کو تین ہی شمار کیا جائے گا، اور کسی نے اگر اس کی خلاف ورزی کی تو اس کے درے لگائے جائیں گے، حضرت عثمان غنی ؓ اور حضرت علی ؓ سے بھی یہی فتوی نقل کیا گیا ہے۔ محلی ابن حزم، زاد المعاد، اغاثۃ اللہ فان لابن القیم اور سنن بیہقی میں حضرت عمر وعثمان اور علی کرام ؓ کا یہ فتوی باسانید صحیحہ نقل کیا گیا ہے شیخ ابن ہمام (رح) نے خلفائے ثلثہ اور عبادلہ سے صراحۃ اسی بات کو نقل کیا کہ بیک وقت بھی تین طلاق دینے سے عورت مغلظہ بائنہ ہوجاتی ہے علامہ زرقانی (رح) نے شرح مؤطا میں حافظ ابن عبدالبررحمۃ اللہ علیہ قاضی ابوبکر جصاص (رح)۔ امام طحاوی (رح) اور حافظ عسقلانی (رح) نے اس اجماعی فتوی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کی مخالفت ناقابل التفات اور ناقابل اعتبار ہے۔ حاشیہ (فتح الباری ج 9 ص 319۔ ) حافظ ابن تیمیہ (رح) نے اگرچہ اس میں اختلاف کیا مگر ان کے خاص رفیق اور زندگی بھرساتھ دینے والے امام حافظ ابن رجب حنبلی (رح) نے بڑی شدت سے ابن تیمیہ (رح) کا رد فرمایا۔ حاشیہ (ملاحظہ فرمائیں معارف القرآن جلد 1 ص 434 تا 441۔ ) مسئلہ طلاق ثلث میں حدیث عبداللہ بن عباس ؓ کی تحقیق : اس اجماعی مسئلہ میں اختلاف کرنے والے اس روایت کا سہارا لیتے ہیں جو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اور ابوبکر ؓ کے زمانہ میں اور عمر فاروق ؓ کے زمانہ خلافت میں دو سال تک تین طلاقیں ایک شمار کی جاتی تھیں مگر پھر عمر فاروق ؓ نے تین طلاقیں جاری کردیں تو بعض ظاہریہ نے اس سے استدلال کیا کہ اصل تو تین طلاقیں بیک وقت ایک ہی شمار ہوتی ہٰں، ان کو تین کی حیثیت سے جاری ونافذ کرنا یہ عمر فاروق ؓ کا کسی حکمت اور مصلحت کے باعث عمل اور فیصلہ تھا تو اس سلسلہ میں اولا تو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہ حدیث سند کے لحاظ سے ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔ چناچہ امام احمد بن حنبل (رح)، ابن عبدالبررحمۃ اللہ علیہ، قرطبی (رح)، ابوبکر رازی (رح)، جصاص (رح) و دیگر ائمہ محدثین اس کی تضعیف کرتے ہیں اس حدیث کی سند میں ایک راوی صہیب ابو الصہباء بکر ہی واقع ہے جس کو ابو زرعہ (رح) نے ثقہ بتایا ہے لیکن امام نسائی اس کو ضعیف فرماتے ہیں، بہرکیف راوی متکلم فیہ ہے اسی وجہ سے بخاری نے اس کی روایت نہیں تخریج کی، حافظ مار دینی (رح) الجوہر النقی 337 ج 3 میں لکھتے ہیں۔ وابو الصہباء ممن روی عنھم مسلم دون البخاری وتکلموا فیہ قال المذھبی فی الکاشف قال النسائی ضعیف فعلی ھذا یحتمل ان البخاری ترک ھذا الحدیث لاجل ابی الصھباء اس کے برعکس امام بخاری (رح) نے باب میں اجاز الطلاق الثلاث لقول اللہ عزوجل الطلاق مرتن فامساک بمعروف او تصریح باحسان “۔ منعقد کرکے طلاق ثلث کے جواز کو آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے ثابت کیا کہ عہد رسالت میں تین طلاقیں لازم اور نافذ تھیں۔ اس کے علاوہ سند اور متن میں اضطراب ہے، فی اسناد عن عبداللہ بن طاؤس عن طاؤس وفی اسناد آکرعن طاؤس عن عبداللہ بن عباس ؓ اور متن کا اضطراب یہ ہے کہ کسی روایت کے متن میں یہ ہے کہ خود ابن عباس ؓ عام طور پر یہ کہتے تھے کہ آنحضرت ﷺ اور ابوبکر ؓ کے عہد میں اور حضرت عمر فاروق ؓ کے زمانہ خلافت میں دو سال تک تین طلاقیں ایک ہی طلاق تھی، الخ اور کسی روایت میں ہے کہ ابو الصہباء نے اس ایک طلاق کو غیر مدخولہ کے حق میں سمجھ کر ابن عباس ؓ سے سوال کیا کہ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جب آدمی اپنی عورت کو صحبت سے پہلے طلاقیں دے دیتا ہے تو رسول خدا ﷺ اور ابوبکر ؓ کے زمانہ اور عمر فاروق ؓ کے ابتدائی دور خلافت میں اس کو ایک ہی جانا جاتا تھا۔ ابن عباس ؓ نی بھی اس کو غیر مدخولہ کے حق میں سمجھ کریہی فرمایا کہ ہاں ایسا ہی ہے جب آدمی اپنی عورت کو صحبت سے پہلے تین طلاقیں دیتا تو رسول اللہ ﷺ وابوبکر ؓ کے زمانہ میں اور عمر فاروق ؓ کے ابتدائی دور خلافت میں لوگ اس کو ایک ہی جانا کرتے تھے تو اس حقیقت کے پیش نظر مسئلہ کی نوعیت قطعا ہی بدل گئی۔ حافظ ابن قیم (رح) نے بھی اغاثۃ اللہ فان میں اس اضطراب کو تسلیم کیا ہے، دیکھو عمدۃ الابحاث ص 77، مزید برآں یہ حدیث شاذ ہے جیسا کہ بیہقی (رح) اور ابوبکر بن عربی (رح) سے منقول ہے کیونکہ ابن عباس ؓ سے اس کا راوی صرف طاؤس (رح) سے اور طاؤس کے علاوہ ابن عباس ؓ کے کبار تلامذہ واصحاب مجاہد (رح) سعید بن جبیر (رح) اور عطاء بن ابی رباح (رح)، عمر و بن دینار (رح) اور مالک بن الحارث (رح) وغیرھم یہ نہیں بیان کرتے۔ ابن عباس ؓ کا فتوی تمام کتب سنن میں مذکور ہے، احمد بن حنبل (رح) سے دریافت کیا گیا کہ آپ کس بناء پر حدیث ابن عباس ؓ رد کرتے ہیں تو احمد بن حنبل (رح) نے یہ غذر کیا کہ ابن عباس ؓ کے تمام شاگرد طاؤس کے خلاف ان سے روایت کرتے ہیں۔ وقال الاثرم سالت ابا عبداللہ احمد بن حنبل عن حدیث ابن عباس کان الطلاق علی عہد رسول اللہ ﷺ وابوبکر وعمر واحدۃ فبای شیء تدفعہ فقال بروایت الناس عن ابن عباس انھا ثلث کذا فی المغنی (اعلاء لسنن ص 526 ج 11) قال الجوز جانی ھو حدیث شاذ وقد عنیت بھذا الحدیث فی قدیم الدھر فلم اجدلہ اصلا وقال القاضی اسماعیل فی احکام القرآن طاوس مع فضلہ وصلاحہ یروی اشیاء منکرۃ فمنھا ھذا الحدیث وقال ابن رجب کان علماء مکۃ ینکرون علی طاؤس ماینفرد بہ من شواذ الاقاویل۔ (اعلاء السنن ص 532 ج 11) قاضی ابوبکر جصاص (رح) بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے، وبہ قال اما ردینی فی الجوھرۃ وذکر صاحب الاسئذ کار عن ابن عبدال بران ھذہ الروایۃ وھم وغلط لم یعرج علیھا احد من العلماء۔ بہرکیف اس تمام تفصیل سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ یہ حدیث اپنی سند کے لحاظ سے قابل اعتبار اور حجت نہیں اس وجہ سے اجماع امت اور نص کتاب اللہ کے خلاف اس حدیث ابن عباس ؓ سے تین طلاق کو ایک قرار نہیں دیا جاسکتا ان اقوال ونقول کے بعد اس کے جواب کی کوئی ضرورت تو نہیں رہتی تاہم اگر چاہیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ حکم غیر مدخولہ کا ہے اس کی تین طلاقیں آنحضرت ﷺ ابوبکر ؓ اور عمر ؓ کے ابتدائی زمانہ خلافت میں ایک سمجھی جاتی تھیں چناچہ صحیح مسلم کی گزشتہ روایت سنن ابی داؤد میں بایں الفاظ مروی ہے (عمدۃ الابحاث ص 10) امام نسائی (رح) نے اپنی سنن میں باب الطلاق الثلث المتفرقۃ قبل الدخول بالزوجۃ منعقد کرکے اس حدیث کو غیر مدخولہ عورت کے حق میں شمار کیا ہے بہرکیف اس تفصیل وتحقیق کے بعد اس تاویل کی کوئی ضرورت نہیں رہتی جو بعض علماء سے منقول ہے۔ ابتدائی زمانہ میں کوئی شخص، انت طالق، انت طالق، انت طالق، کہتا تو اس کی نیت صرف تاکید ہوتی تھی نہ کہ استیناف لیکن لوگ جب کثرت سے حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں یہ صیغہ استعمال کرنے لگے اور قرائن کی دلالت سے یہ معلوم ہوگیا کہ لوگ استیناف کا ارادہ رکھتے ہیں تو غالب اور متعارف کو ملحوظ رکھتے ہوئے تین طلاقیں شمار کی گئیں آنحضرت ﷺ کا زمانہ خیرالقرون تھا تو لوگ اس تکرار سے تاکید کا ارادہ کرتے تھے اور جو دل میں نیت کرتے تھے وہ صاف صاف زبان سے ظاہر کردیتے تھے، اس وقت تک طبائع میں مکرر فریب اور حیلہ ودجل نہیں تھا لیکن عمر فاروق ؓ نے تین کو نافذ کر فرما دیا اور یہ گنجائش نہ رکھی کہ کسی وقت بھی کوئی شخص ایسا اقدام کرنے کے بعد پھر یہ حیلہ کرنے لگے کہ میں نے تو تین نہیں بلکہ ایک ہی کا تکرار بطور تاکید کیا تھا، مگر سند کی تحقیق بالخصوص امام نسائی (رح) کی اس وضاحت کے بعد ” باب الطلاق الثلاث المتفرقۃ قبل الدخول بالزوجۃ “ اس طرح کی کسی تاویل یا جواب کی ضرورت باقی نہیں رہتی، واللہ اعلم بالصواب۔ حاشیہ (اس مسئلہ کی تحقیق و تفصیل حضرت والد محترم مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی (رح) کے حصہ تفسیر میں سورة بقرہ کی (آیت) ” فان طلقھا فلا تحل لہ “ کی شرح میں ملاحظہ فرمائیں۔ 12)
Top