Tafseer-e-Madani - Al-Faatiha : 3
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ
الرَّحْمٰنِ : جو بہت مہربان الرَّحِيم : رحم کرنے والا
جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے،
3 خداوند قدوس کی وسعت رحمت کا بیان : کہ وہی وحدہ لاشریک ہے جس نے دنیا کے اس دار الامتحان میں اپنی عمومی رحمت سے مومن و کافر اور اپنی مطیع و سرکش سب ہی مخلوق کو نواز رکھا ہے جو کہ حدیث صحیح کی رو سے اس کی رحمت بےنہایت کے سوویں حصے میں سے ہے۔ اور وہی ہے جو آخرت کے اس حقیقی اور اَبَدی جہاں کے دار الجزاء میں اپنے نیک اور صالح بندوں کو اپنے فضل و کرم سے اپنی اس خصوصی رحمت سے نوازے گا جو خالص اہل ایمان کے لیے ہوگی۔ اور جو سو میں کے باقی ننانوے حصوں پر محیط و مشتمل ہوگی۔ اور جب اس کی رحمت بےپایاں کے سوویں حصے کا یہ عالم ہے کہ وہ اس پوری دنیا جہاں پر چھایا ہوا ہے تو پھر اس جہان کی رحمت کی عظمتوں اور وسعتوں کے کہنے ہی کیا جہاں بقیہ تمام ننانوے حصے سایہ فگن ہوں گے ــــــ ۔ فَسُبْحَان اللّٰہ جَلَّتْ قُدرتُہ وعَمَّتْ رَحْمَتُہْ ۔ اسی لئے بعض آثار و روایات میں فرمایا گیا ہے " رَحْمٰنَ الدُّنْیَا وَرَحِیْمَ الآخِرَۃ " اور یوں لغت کے اعتبار سے بھی " فَعْلَانَ " کا صیغہ اپنی اصل کے لحاظ سے تجدّد و حدوث پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے " ذَعْلَانَ " " غصے والا " " سُکران "، " نشے والا " اور " عَطْشَانَ "، " پیاسا " وغیرہ۔ اور ظاہر ہے کہ دنیا کی حیثیت آخرت کے مقابلے میں ایک عارضی اور وقتی چیز ہی کی ہے اس لئے صفت رحمن کی مناسبت اس رحمت سے زیادہ ہے جس کا تعلق اس دنیا سے ہے۔ اور صفت رحیم کی مناسبت اس رحمت بےپایاں سے زیادہ ہے جس کا تعلق آخرت کی حقیقی اور اَبَدی زندگی سے ہے۔ مگر چونکہ دنیاوی رحمت کا ایک اور خاص پہلو یہ بھی ہے کہ انسان کا باطن اگر درست ہو اور اسے ہدایت کا نور اگر نصیب ہوجائے تو دنیا کی اس عارضی زندگی کی یہ رحمت بھی اس کو آخرت کی حقیقی رحمت سے ہمکنار کر کے اس کے لیے ابدی رحمت بن جاتی ہے۔ اسی لیے بعض دوسری روایات میں یوں بھی فرمایا گیا ہے " رَحْمٰنَ الدُّنْیا والآخِرَۃ وَ رَحِیْمُہماَ " " اے وہ ذات اقدس و اعلیٰ جو کہ رحمن ہے دنیا و آخرت دونوں کی اور رحیم بھی " ۔ سُبْحَانَہ وَتَعَالیٰ ۔ سو جب اس کی رحمت بےپایاں کے عموم و شمول کا عالم یہ ہے تو ہر تعریف اور حمد و ثنا کا حقدار بھی وہی وحدہ لاشریک ہے۔ اور جب اس کی اس صفت و شان میں کوئی اس کا شریک وسہیم نہیں تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں بھی کوئی اس کا شریک وسہیم نہیں ہوسکتا۔ لہذا عبادت کی ہر شکل اور اس کی ہر قسم اسی وحدہ لاشریک کا حق اور اسی کے ساتھ مختص ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ فَلَا شَرِیَکَ لَہُ فِی شَیْئٍ مِنْ اَسْمَائِہ وَصِفَاتِہ جَلَّ وَعَلَا -
Top