Tafseer-e-Madani - Yunus : 101
قُلِ انْظُرُوْا مَا ذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ مَا تُغْنِی الْاٰیٰتُ وَ النُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ
قُلِ : آپ کہ دیں انْظُرُوْا : دیکھو مَاذَا : کیا ہے فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : زمین وَمَا تُغْنِي : اور نہیں فائدہ دیتیں الْاٰيٰتُ : نشانیاں وَالنُّذُرُ : اور ڈرانے والے عَنْ : سے قَوْمٍ : لوگ لَّا يُؤْمِنُوْنَ : وہ نہیں مانتے
ان سے کہو کہ ذرا دیکھو تم لوگ کہ کیا کچھ (سامان عبرت و بصیرت) ہے آسمانوں اور زمین میں ؟ مگر نشانیاں اور تنبیہات ان لوگوں کے کچھ کام نہیں آسکتیں جو ایمان لانا چاہتے ہی نہیں،
171 ۔ کائنات میں غور و فکر کی دعوت : سو اس ارشاد سے آسمانوں اور زمین میں موجود سامان عبرت میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے کہ دیکھو ان میں کیا کچھ ایسے عجائب قدرت اور دلائل حکمت موجود ہیں، جو کہ دامن دل کو کھینچتے اور دعوت غور و فکر دیتے ہیں اور اپنے خالق ومالک کی قدرت کاملہ، حکمت بالغہ اور وحدانیت مطلقہ کی طرح طرح سے عکاسی کرتے ہیں۔ یہیں سے علامہ سیوطی وغیرہ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ کی مخلوق میں غور و فکر سے کام لینا واجب ہے (محاسن التاویل وغیرہ) مگر افسوس کہ انسان کائنات کی ان عظیم الشان نعمتوں سے طرح طرح سے مستفید ہونے کے باوجود اپنے خالق ومالک کا ناشکرا اور اس سے منہ موڑے ہوئے ہے۔ اور ان میں صحیح طور سے غور و فکر نہیں کرتا۔ الا ماشاء اللہ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔ بہرکیف اس سے اس طرف اشارہ فرما دیا گیا کہ آسمانوں اور زمین کی یہ عظیم الشان کائنات نشانیوں اور معجزات سے بھری پڑی ہے مگر ضرورت اس میں غور و فکر کی ہے۔ اور غور و فکر بھی صحیح زاویہ نگاہ سے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید۔ 172 ۔ ہٹ دھرموں کے لیے تنبیہات اور نشانیاں بےسود و بےکار۔ والعیاذ باللہ : اس لیے ضدی اور ہٹ دھرم لوگ دولت ایمان و یقین سے محروم رہتے ہیں۔ والعیاذ باللہ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ نشانیاں اور تنبیہات ان لوگوں کے کچھ کام نہیں آسکتیں جو ایمان لانا چاہتے ہی نہیں۔ اس لئے کہ ایسے لوگ ان تنبیہات کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور ان سے کام لینا چاہتے ہی نہیں۔ اور طلب و جستجو کے بغیر ان سے فائدہ ملنے کا سوال ہی نہیں۔ جیسا کہ فرمایا گیا (اَنُلْزِمُكُمُوْهَا وَاَنْتُمْ لَهَا كٰرِهُوْنَ ) یعنی نہیں ایسا نہیں ہونے کا کہ تمہاری خواہش اور چاہت کے بغیر حق اور ہدایت کی دولت کو تم سے یونہی چپکا دیا جائے۔ اس دولت بےمثال سے تو صرف ان اور ایسے ہی لوگوں کو نوازا اور سرفراز کیا جاتا ہے جو اس کے لیے طلب صادق رکھتے ہیں اور جو طلب صادق سے محروم ہوتے ہیں وہ نور ایمان و یقین سے سرفراز نہیں ہوسکتے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر جو ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہیں وہ کس طرح سرفراز ہوسکتے ہیں ؟ سو ضدی اور ہٹ دھرم لوگ نور حق و ہدایت سے محروم ہوتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ (یؤمنون) کا فعل یہاں پر ارادہ فعل کے معنی میں ہے۔ یعنی جو لوگ ایمان لانا چاہتے ہی نہیں ان کو زمین و آسمان میں پھیلی بکھری ان نشانیوں اور ایسی تنبیہات سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ اور وہ اپنے ٹیڑھے پن ہی پر اڑے رہیں گے۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔
Top