Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 24
اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ١٘ وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِیْتَ وَ قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّهْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا
اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّشَآءَ : چاہے اللّٰهُ : اللہ وَاذْكُرْ : اور تو یاد کر رَّبَّكَ : اپنا رب اِذَا : جب نَسِيْتَ : تو بھول جائے وَقُلْ : اور کہہ عَسٰٓي : امید ہے اَنْ يَّهْدِيَنِ : کہ مجھے ہدایت دے رَبِّيْ : میرا رب لِاَقْرَبَ : بہت زیادہ قریب کی مِنْ هٰذَا : اس سے رَشَدًا : بھلائی
مگر یہ کہ اللہ چاہے، اور جب بھول جاؤ تو (یاد آنے پر) اپنے رب کا ذکر کرلیا کرو، اور یوں کہو کہ امید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے بھی زیادہ رشد کے قریب تر بات کی راہنمائی سے نوازے گا،
44۔ انشاء اللہ کہنے کی تعلیم و تلقین :۔ کہ سب کچھ اسی وحدہ لاشریک کے قبضہ قدرت واختیار میں ہے پس ہر معاملہ اسی کی مشیت کے حوالے کیا کرو، اور اس کیلئے انشاء اللہ کہہ دیا کرو، روایات میں ہے کہ جب قریش نے آپ ﷺ سے اصحاب کہف وغیرہ کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کا جواب میں تم کو کل دوں گا، مگر آپ ﷺ اس موقع پر انشاء اللہ کہنا بھول گئے، جس پر وحی کا آنا بند ہوگیا اور پندرہ دن تک وحی رکی رہی، جس سے کفار قریش کو آپ ﷺ کی تکذیب واستہزاء کا ایک موقع ہاتھ آگیا، اور آپ ﷺ کو اس بہت تکلیف اٹھانا پڑی، تب یہ آیتیں نازل ہوئیں، اور ان میں آپ ﷺ کو یہ تعلیم و تلقین فرمایا گیا کہ آئندہ کے بارے میں جس بھی کام کے کرنے کا وعدہ فرمایا کریں تو اس کیلئے انشاء اللہ ضرور کہا کریں، یعنی اگر اللہ پاک کو منظور ہوا تو میں ایسا کروں گا، کیونکہ معاملہ سب کا سب اللہ پاک ہی کے حوالے اور اسی وحدہ لاشریک کے قبضہ قدرت واختیار میں ہے، معلوم ہوا کہ پیغمبر نہ تو عالم غیب ہوتے ہیں، نہ ہی مختار کل، اور نہ ہی ہر جگہ حاضر وناضر، جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا اور ماننا ہے، ورنہ نہ تو اللہ کے نبی کو معاملہ کل پر ٹالنے کی ضرورت ہوتی، نہ وحی کا انتظار کرنا پڑتا، نہ وحی کی بندش کی نوبت آتی اور نہ ہی آپ ﷺ کو اس کیلئے اتنی پریشانی اٹھانا پڑتی سو اس ارشاد ربانی سے ان لوگوں کے ایسے تمام شرکیہ عقائد کی جڑ کٹ جاتی ہے، اور یہ امر واضح فرما دیا گیا کہ سب کچھ اللہ پاک ہی کے قبضہ قدرت واختیار میں ہے کہ جو اس کو منظور ہوگا وہی ہوگا اور جیسے وہ چاہے گا ویسے ہی ہوگا کہ اس کائنات میں مشیت اسی وحدہ لاشریک کی کارفرما ہے، اس میں نہ کوئی اس کا شریک ہے اور نہ کوئی اس کی مشیت میں مزاحم ہوسکتا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 45۔ بھول جانے سے متعلق ہدایت وارشاد :۔ یعنی جب تم انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو (یاد آنے پر) اپنے رب کو یاد کرلیا کرو تاکہ اس کے ذکر پاک اور اس کی یاد دلشاد سے، نسیان اور ترک ذکر کا تدارک اور اس کی تلافی ہوسکے، کیونکہ غفلت ونسیان کا سبب ومنشاء شیطان مردود ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا وما انسانیہ الا الشیطان اس لئے حضرت حق جل مجدہ کے ذکر سے وہ مردود مطرود ہو کر بھاگ جائے گا (ابن کثیر، مراغی وغیرہ) نیز رب کے ذکر اور اس کی یاد دلشاد سے اللہ کی معیت کا شرف بھی حاصل ہوگا اور اس کی نصرت و امداد سے بہرہ مندی و سرفرازی بھی، جیسا کہ حدیث قدسی میں فرمایا گیا، یعنی میرا بندہ جب میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 46۔ اس سے ہمیشہ بہتری کی امید کی تعلیم و تلقین :۔ سو اس کے ذریعے رب سے اس سے بہترراہ کی امید رکھنے کی تعلیم و تلقین یعنی اسی منسی اور بھولی ہوئی بات سے بھی بہتر راہ دکھا دے اور مزید روشنی اور ہدایت سے نواز دے، یا اصحاب کہف سے بھی بڑھ کر آیات بینات سے نواز دے، یعنی بھروسہ ہمیشہ اور ہر حال میں اللہ وحدہ لاشریک ہی پر ہونا چاہئے، اور اس سے توقع ہمیشہ بہتر سے بہتر ہی رکھنی چاہئے کہ اس واہب مطلق کی تو شان ہی نوازنا، کرم فرمانا، اور بخشش فرمانا ہے، اور اس کی عطا وبخشش کے خزانے غیرفانی اور لامحدود ہیں، سبحانہ وتعالیٰ ، پس نہ تو کبھی اس سے مایوس ہوؤاور نہ کبھی اس کی یاد سے غافل ، (روح کبیر، ابن کثیر، مدارک، خازن اور مراغی وغیرہ وغیرہ) وباللہ التوفیق لما یحب ویرید۔
Top