Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 39
وَ لَوْ لَاۤ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَآءَ اللّٰهُ١ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ١ۚ اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّ وَلَدًاۚ
وَلَوْلَآ : اور کیوں نہ اِذْ : جب دَخَلْتَ : تو داخل ہوا جَنَّتَكَ : اپنا باغ قُلْتَ : تونے کہا مَا شَآءَ اللّٰهُ : جو چاہے اللہ لَا قُوَّةَ : نہیں قوت اِلَّا : مگر بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنْ تَرَنِ : اگر تو مجھے دیکھتا ہے اَنَا : مجھے اَقَلَّ : کم تر مِنْكَ : اپنے سے مَالًا : مال میں وَّوَلَدًا : اور اولاد میں
اور ایسے کیوں نہ ہوا کہ جب تو داخل ہوا تھا اپنے باغ میں تو تو (دل و جان سے) سے پکار اٹھتا " ماشاء اللّٰہ لاقوۃ الا باللّٰہ " اور اگر تو مجھے اپنے سے کمتر دیکھتا ہے مال اور اولاد کے اعتبار سے،3
71۔ ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ “ کہنے کی تعلیم و تلقین :۔ سو اس بندہ مومن نے اس منکرومتکبر شخص سے کہا کہ اگر تم اکڑتے اور تکبر میں مبتلا ہوتے بلکہ اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ تم اپنے رب کے شکر گزار بنتے۔ اور جب تم میووں سے لدے لدائے اس ہرے بھرے باغ میں داخل ہوتے تو ” ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ “ کہتے۔ اور اس طرح اس بات کا اقرار و اعتراف کرتے کہ یہ سب کچھ اس رب کریم کا عطیہ واحسان ہے۔ اس کے بغیر کسی کی یہ قوت وطاقت نہیں کہ وہ کچھ بنایا بگاڑ سکے۔ سبحانہ وتعالیٰ پس ہر نعمت پر انسان کو یہی کہنا چاہئے ” ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ “ کہ اس میں حق اور حقیقت کا اقرار و اعتراف اور ذکر بد سے بھی محفوظ رہتی ہے جیسا کہ حضرت انس ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے (ابن کثیر وغیرہ ) ۔ کیونکہ اللہ پاک کی اس کائنات میں جو بھی کچھ ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہی ہوتا ہے۔ سو جو کچھ کسی کو ملتا ہے وہ سب اسی وحدہ لاشریک کی طرف سے ہے اور جو کچھ باقی ہے وہ بھی اسی کی رحمت و عنایت سے۔ سو ” ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ “ ایک عظیم الشان وردودعا ہے۔ اس میں بندہ اپنے رب کے حضور اپنی عبدیت و بندگی کا اظہار اور اپنے خالق ومالک کی رحمت و عنایت کا اقرار و اعتراف کرتا ہے۔ اور یہی اصل اساس ہے فوز و فلاح دارین کی۔ اسی لئے صحیح حدیث میں اس کو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ۔” کنز من کنور الجنۃ “ قرار دیا گیا ہے۔ اور حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے بندوں میں سے کسی کو مال واولاد وغیرہ کی کسی نعمت سے نوازتا ہے اور وہ اس پر ” ماشاء اللہ لاقوۃ الاباللہ “ کہتا ہے تو اس کی اس نعمت پر کوئی آفت نہیں آسکتی سوائے موت کے اور یہ بات آنحضرت ﷺ نے اسی آیت کریمہ کا مطلب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمائی۔ (ابن کثیر وغیرہ) روایت میں ہے کہ امام دارالہجرۃ حضرت امام مالک (رح) نے اپنے مکان کے دروازے پر ” ماشاء اللہ لاقوۃ الاباللہ “ لکھ رکھا تھا۔ کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے جواب میں اسی آیت کریمہ کا حوالہ دیا۔ (معارف القرآن للکاندھلوی) ۔ الحمد للہ راقم آثم نے آج سے کئی سال پہلے اپنے اس عظیم الشان مکان (مدنی منزل، معمورہ المدنی آزاد کشمیر، پاکستان) کے چاروں کونوں پر یہ دعا لکھ کر لگائی ہے جو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے تعمیر کرنے کی توفیق عطا کی تھی۔ اور اب اپنے اسلام آباد والے اس مکان پر بھی لکھ کر لگانے کا ارادہ پروگرام ہے جو اللہ تعالیٰ ہی کی توفیق و عنایت سے تعمیر و تکمیل کے آخری مراحل میں سے۔ والحمد للہ جل وعلا۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین !
Top