Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 6
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا
فَلَعَلَّكَ : تو شاید آپ بَاخِعٌ : ہلاک کرنیوالا نَّفْسَكَ : اپنی جان عَلٰٓي : پر اٰثَارِهِمْ : ان کے پیچھے اِنْ : اگر لَّمْ يُؤْمِنُوْا : وہ ایمان نہ لائے بِهٰذَا : اس الْحَدِيْثِ : بات اَسَفًا : غم کے مارے
تو کیا آپ (اے پیغمبر ! ) ان لوگوں کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کو ہلاک کردیں گے ؟ اگر یہ لوگ اس کلام (معجز نظام) پر ایمان نہیں لائے ؟
8۔ پیغمبر کی بےمثال شفقت و رحمت کا ایک نمونہ ومظہر :۔ سو آپ ﷺ کی بےمثال رحمت وشفقت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کی تسکین کیلئے اللہ آپ کو فرماتے ہیں تو کیا آپ (اے پیغمبر ! ) ان لوگوں کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کو ہلاک کردیں گے ؟ کہ یہ لوگ اس کلام حق پر ایمان نہیں لائے ؟۔ اپنی اس بےپایاں رحمت وشفقت کی بناء پر جو کہ خلق خدا کے بارے میں آُپ ﷺ کے قلب منور میں موجود وموجزن ہے، جس کی بناء پر آپ یہ تڑپ رکھتے ہیں کہ کسی طرح یہ لوگ راہ حق و ہدایت کو اپنا کر دوزخ کی آگ سے بچ جائیں جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ لعلک باخع نفسک الا یکونوا مؤمنین۔ (الشعراء : 3) نیز ارشاد فرمایا گیا فلاتذھب نفسک علیہم حسرات ان اللہ علیم بما کانوا یصنعون (الفاطر : 8) نیز فرمایا گیا ولا تحزن علیہم ولا تکن فی ضیق مما یمکرون (لنحل : 127) نیز سورة النمل کی آیت نمبر 70 میں فرمایا گیا ولا تحزن علیہم ولا تکن فی ضیق مما یمکرون (70) سو اس طرح کی ان تمام آیات کریمہ میں حضرت حق جل مجدہ کی طرف سے آنحضرت ﷺ کو تسلی دی جارہی ہے کہ آپ ﷺ ان لوگوں کے بارے میں اس قدر فکر و افسوس میں مبتلا نہ ہوں کہ راہ ہدایت پر لے آنا نہ آپ ﷺ کے بس میں ہے، ار نہ ہی یہ آپ کی ذمہ داری ہے، جیسا کہ فرمایا گیا لیس علیک ھداھم ولکن اللہ یھدی من یشآء الآیۃ (البقرۃ : 272) بہرکیف ان آیات کریمہ سے ایک طرف تو اس رحمت وشفقت کا پتہ چلتا ہے جو حضرت امام الانبیاء (علیہم السلام) کو اپنی امت سے تھی، اور دوسری طرف اس حقیقت کا بھی کہ ہدایت اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت واختیار میں ہے، وہ جس کو چاہے، جب چاہے نوازے، کہ وہی جانتا ہے کہ کون کس لائق ہے، اور کس کے باطن کی کیفیت کیا ہے، اور یہ کہ کس کے اندر طلب صادق پائی جاتی ہے، سو اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نہ عالم غیب ہوتے ہیں اور نہ ہی مختار کل، جس طرح کہ دور حاضر کے کچھ اہل زیغ وضلال کا کہنا اور ماننا ہے،۔ والعیاذ باللہ من کل سوء وانحراف، بہرکیف ان ارشادات عالیہ سے آنحضرت ﷺ کو یہ فرمایا جارہا ہے کہ آپ ان کے پیچھے اپنے آپ کو اس طرح تکلیف میں نہ ڈالیں کہ آپ کا کام حق کو منور لینا نہیں بلکہ آپ کام صرف تبلیغ و انذار ہے اور بس، اور وہ آپ کرچکے، ان علیک الا البلاغ وعلینا الحساب اس کے بعد جو مانیں گے وہ اپنا ہی بھلا کریں گے اور جو اعراض وانکار اور کفر و تکذیب سے کام لیں گے وہ اپنی ہی محرومی اور ہلاکت و تباہی کا سامان کریں گے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top