Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِفَتٰىهُ : اپنے جوان (شاگرد) سے لَآ اَبْرَحُ : میں نہ ہٹوں گا حَتّٰى : یہانتک اَبْلُغَ : میں پہنچ جاؤ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ : دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ اَوْ : یا اَمْضِيَ : چلتا رہوں گا حُقُبًا : مدت دراز
اور (ان کو وہ بھی سنا دو کہ) جب موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا کہ میں اپنا سفر ختم نہیں کروں گا یہاں تک کہ میں پہنچ جاؤں دونوں دریاؤں کے سنگم پر، یا چلتا رہوں گا برسہا برس تک،3
109۔ قصہ موسیٰ وخضر کی تذکیر و یاددہانی :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ بھی سنو اور سناؤ جبکہ یہ قصہ پیش آیا۔ کیونکہ اس قصے میں بھی عبرت و بصیرت کے بڑے بڑے درس پنہاں ہیں۔ مثلا یہ کہ پیغمبر کیلئے سب ہی علوم کا جاننا نہ ضروری ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے منصب کا تقاضا۔ بلکہ پیغمبر کا منصب اور ان کا اصل امتیاز یہ ہوتا ہے کہ ہدایت سے متعلق علوم میں اس کو کمال حاصل ہو۔ رہ گئے وہ دوسرے علوم جن کا تعلق تکوینیات یا دوسرے تجرباتی امور سے ہوتا ہے ان میں غیر نبی کا علم نبی سے زیادہ ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ اس قصے سے ظاہر اور واضح ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نبی و رسول بلکہ اولوالعزم رسول ہونے کے باوجود حضرت خضر کے پاس حصول علم کیلئے اتنا طویل اور کٹھن سفر طے کرکے پہنچے ہیں۔ حالانکہ خضر نبی بھی نہیں تھے۔ اور مثلا یہ کہ حصول علم کیلئے انسان کو ہمیشہ کوشاں رہنا چاہئے۔ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر پیغمبر بھی اس سے بےنیاز نہیں ہوسکتے تو پھر اور کون ہوسکتا ہے ؟ اسی طرح اس حقیقت کا اظہار وبیان کہ انسان کے علم کی رسائی بہرحال محدود ہے۔ اس لئے خداوند قدوس کے ہر ارادے کی حکمت جاننا اور ہر بات کی تہہ تک پہنچنا اس کے بس میں نہیں۔ اس لئے اس کے لئے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اس کے ہر فیصلے پر صابر وشاکر اور مطمئن رہے اور اس کا یقین رکھے کہ آج کی ان تلخیوں میں جو کہ اس کو راہ حق میں پیش آرہی ہیں انہی کے اندر وہ حلاوت اور شیرینی مخفی ومستور ہے جو وقت آنے پر اس کیلئے فرحت ومسرت کا ذریعہ بنے گی۔ پس بندے کا کام ہے کہ وہ ہمیشہ راہ حق پر مستقیم اور ثابت قدم رہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ خیر ہی کی امید رکھے۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید۔ 110۔” فتی “ کا مفہوم اور اس سے مراد ؟:۔ ” فتی “ کے معنی ” جوان “ ،” خادم “ اور ” شاگرد “ وغیرہ کے آتے ہٰں۔ اور اس سے مراد ہیں حضرت یوشع بن نون۔ جو کہ بعد میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جانشین ہوئے۔ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خادم تھے۔ ’ فتی “ کے اصل معنی ” نوجوان “ کے ہوتے ہیں۔ اور خادم چونکہ عام طور پر نوجوان ہی ہوتے ہیں کہ خدمت اصل میں نوجوان ہی کرسکتا ہے۔ اس لئے عرب خادم کو ” فتی “ ہی کہتے ہیں۔ اسی طرح غلام کو بھی ” فتی “ کہا جاتا ہے کہ وہ بھی اپنے مالک کی خدمت کرتا ہے۔ اسی لئے حدیث میں فرمایا گیا کہ تم میں سے کوئی اپنے غلام کو ” عبدی “ اور اپنی باندی کو ” امتی “ نہ کہے بلکہ ان کو ” فتای “ اور فتاتی “ کہا کرو۔ سو یہ محاسن آداب کی اعلی تعلیم ہے جو اللہ کے نبی نے اپنی امت کو دی ہے۔ کیونکہ غلام اور بندہ تو ہر کوئی اللہ ہی کا ہے۔ البتہ خادم اور خادمہ ایک دوسرے کے ہوسکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔ سبحان اللہ کیسی کیسی باریکیوں کا خیال رکھا گیا۔ والحمد للہ۔ 111۔” مجمع البحرین “ سے کیا مراد ؟:۔ ایک قول واحتمام اس بارے میں یہ ہے کہ اس بارے میں یہ ہے کہ اس سے مراد خلیج عقبہ اور سویز کا وہ مقام اتصال ہے جہاں سے بعد میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ساتھ گزرے ہیں۔ اور ایک اور قول و احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد باب المندب کا وہ مقام ہے جہاں پر بحر ہند اور بحر احمر باہم ملتے ہیں۔ یا طنجہ کا وہ مقام جو مغرب میں واقع ہے۔ جہاں بحرابیض متوسط اور محیط اٹلانٹی باہم ملتے ہیں۔ یا اس سے مراد سوڈان کے شہر خرطوم کے نزدیک کا یہ مقام ہے جہاں دریائے نیل کی دونوں شاخیں نیل ابیض اور نیل ازرق آپس میں ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی اقوال تفاسیر میں پائے جاتے ہیں مگر مذکورہ بالا چند اقوال و احتمال زیادہ مشہور ہیں۔ پھر ان مذکورہ بالا اقوال واحتمالات میں سے طنجہ اور باب المندب کے دونوں قول بہت بعید لگتی ہیں کیونکہ ان میں سے ایک یعنی باب المندب براعظم افریقہ کے مشرق میں واقع ہے۔ جبکہ دوسرا یعنی طنجہ اس براعظم کے بالکل مغرب میں واقع ہے۔ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اتنے دور دراز کے کسی سفر کا کوئی ذکر کہیں نہیں ملتا۔ سو اس اعتبار سے ان میں سے پہلا اور تیسرا قول زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے لیکن ان میں سے تیسرے قول میں یہ مشکل ہے کہ آیت کریمہ میں ” مجمع البحرین “ کا ذکر ہے جبکہ خرطوم کے پاس نیل کی جن دو شاخوں کے ملاپ کا ذکر ہے وہ ” مجمع البحرین “ نہیں ” مجمع النھرین “ ہے۔ کیونکہ عربی زبان میں ” بحر “ سمندر کو کہا جاتا ہے۔ جبکہ دریا کیلئے ” نہر “ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ الا یہ کہ اس کو تجویز پر محمول قرار دیا جائے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ اس کو ” ابھموا ما ابھمہ القرآن “ کے کلیئے کے مطابق مبہم ہی رہنے دیا جائے کہ وہ کوئی جگہ ایسی تھی جو دوسمندروں کے سنگم پر واقع تھی اور اس تعین و تخصیص کے پیچھے نہ پڑا جائے کہ وہ جگہ کون سی اور کہاں تھی۔ کیونکہ اس تعین پر کوئی خاص فائدہ اور مقصد موقوف نہیں اور اگر اس کا بیان ضروری ہوتا تو اللہ پاک اس کو خود بیان فرما دیتے اور اس کو یوں مبہم نہ رہنے دیتے۔ والعلم عندہ سبحانہ وتعالیٰ وھو اعلم باسرار کلامہ جل وعلا فالیہ نفوض امرنا ھذا وامورنا کلھا فی کل شان من شؤن الحیاۃ۔ بہرکیف یہ کوئی ایسا مقام تھا جو ” مجمع البحرین “ کا مصداق تھا اور جس تک پہنچنے کیلئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جانے اور وہاں اللہ کے ایک خاص بندے سے ملنے کا حکم دیا گیا تھا کہ اس میں بڑے درسہائے عبرت و بصیرت مخفی وومستور تھے۔
Top