Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 64
قَالَ ذٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ١ۖۗ فَارْتَدَّا عَلٰۤى اٰثَارِهِمَا قَصَصًاۙ
قَالَ : اس نے کہا ذٰلِكَ : یہ مَا كُنَّا نَبْغِ : جو ہم چاہتے تھے فَارْتَدَّا : پھر وہ دونوں لوٹے عَلٰٓي : پر اٰثَارِهِمَا : اپنے نشانات (قدم) قَصَصًا : دیکھتے ہوئے
موسیٰ نے فرمایا کہ یہی تو وہ جگہ تھی جس کی ہم تلاش میں تھے،4 چناچہ وہ دونوں واپس لوٹے اپنے نقش قدم دیکھتے ہوئے
114۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنے نشانات قدم پر واپس لوٹنا :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” پھر وہ دونوں واپس لوٹے اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے “ کہ وہ صحرائی علاقہ تھا جس میں قدموں کے نشانات ان کی راہنمائی کررہے تھے۔ معلوم ہوا کہ پیغمبر عالم غیب نہیں ہوتے جس طرح کہ اہل بدعت کا کہنا ہے۔ ورنہ ان دونوں حضرات کو اس طرح قدموں کے نشانات دیکھنے کی اور ان کی مدد سے لوٹنے اور چلنے کی ضرورت نہ ہوتی، اور نہ ہی پیغمبر ہر جگہ حاضر اور موجود ہوتے ہیں۔ سو اس واقعہ سے اہل بدعت کے علم غیب کلی، اختیاری کلی اور حاضر وناضر کے خود ساختہ شرکیہ عقیدوں کی جڑ نکل جاتی ہے کیونکہ اگر ایسے ہوتا تو نہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اتنا طویل سفر کرنے کی ضرورت ہوتی نہ مچھلی کی نشانی رکھنے کی۔ اور نہ وہ اس مقام مقصود سے آگے بڑھتے اور نہ نشان قدم دیکھتے ہوئے واپس آنے کی ضرورت ہوتی۔ اللہ کرے ان کھلے حقائق اور واضح نشانات سے ان لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں اور یہ ایسے خود ساختہ اور شرکیہ عقائد سے باز آجائیں۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلی مایحب ویرید وھو الھادی الی السواء السبیل فعلیہ نتوکل وبہ نستعین۔
Top